’’دی منسٹری آف اٹموسٹ ہیپینس‘‘
کبھی کبھی اتنی شاندار کتاب ملتی ہے کہ بندہ ششدر رہ جاتا ہے مجھے جناب اسلم خاں نے بتلایا کہ ارون دھتی رائے کا نیا ناول آیا ہے تو میرے لئے یہ ناول ایک اشتیاق کا باعث بنا ۔عالمگیریت کے اس دور میں جہاں کوئی شعبہ بھی کارپوریٹ سیکٹر کی چکا چوند سے محفوظ نہیں رہ سکا ؟ وہاں ارون دھتی رائے کیسے لکھیں گی یہ سوال تھا اور یہ دیکھ کر دلی خوشی اور اطمینان ہوئی کہ ابھی بھی کارپوریٹ سیکٹر کی چکا چوند ادب کو مکمل طور پر اپنا مطیع نہیں کر پائی۔
بھارت کی معروف دانشور، ناول نگار، کالم نگاراور سماجی کارکن اروندھتی رائے نے جب 20 سال پہلے اپنا پہلا ناول "گاڈ آف سمال تھینگز" لکھ کر دنیا بھر میں شہرت حاصل کی ۔ اس کے بعد اروندھتی رائے نے بھارت کے جمہوری نظام، کے دہرے پن ،کرپشن، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم، بھارت کے کئی علاقوں میں نکسل باغیوں کی مزاحمت، کشمیر اور شمال مشرقی علاقوں میں بھارتی فوج کے مظالم، غریب دلیت عورتوں کے حقوق سمیت دیگر کئی مسائل پر بھی لکھنا شروع کر دیا۔ تاہم ادب پڑھنے والوں کو انتظار تھا کہ ارون دھتی رائے کا دوسرا ناول کب آئے گا؟
بہت سے مداحوں کے لئے گزشتہ 20 سالوں میں اس کا کام ایک پہیلی کی طرح رہا ہے۔کیا وہ واقعی ایک ادبی شخصیت ہے،یا اس کا پہلا ناول حادثاتی جنم تھا۔رائے 35 سال کی تھی جب اس نے اپنا پہلا ناول شایع کیا۔گاڈ آف سمال تھنگز وجد انگیز اور اپنے آپ کو منوالینے والا۔
ایک ہندوستانی خاندان جو زوال کے اندھیروں میں گم ہوتا جاتا ہے،اور ٹریجڈی و اسکینڈل سے لخت لخت ہےکی نیم سوانح عمری پہ مبنی کہانی۔ ۔تب سے لیکر ابتک 20 سالون میں اس کے درجنوں مضامین شایع ہوئے۔
نان فکشن کتابیں سامنے آئیں، اس نے دستاویزی فلم بنائیں، حکومتی بدعنوانی، ہندؤ نیشنل ازم، ماحولیاتی تباہی اور ناانصافی پہ کے خلاف اس نے احتجاج کیا۔ کشمیریوں کی آزادی،ماؤ نواز باغیوں اور آدی واسی قبائلیوں کے حقوق کے لئے مہم چلائی۔۔لیکن اس دوران اس نے ایک لفظ بھی فکشن کا نہیں شایع کیا۔
اب 20 سال بعد یہ انتظار ختم ہوا اور ارون دھتی رائے کا تازہ ناول ’’دی منسٹری آف اٹموسٹ ہیپینس‘‘ (The Ministry of Utmost Happiness) نظر عام پر آگیا۔ امید کے عین مطابق ارون دھتی رائے نے اس ناول میں سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل کی بھر پور جمالیاتی عکاسی کی ہے۔
انجم اور تلوتما جیسے مرکزی کرداروں کے ذریعے بھارتی سماج کو درپیش مسائل کو ایک طلسماتی انداز سے پیش کیا ہے۔ انجم ایک خواجہ سرا ہے اور تلوتما ایک سماجی کارکن ہے ان دو مرکزی کرداروں کے ذریعے بتایا گیا ہے کہ بھارتی معاشرہ تیزی سے عدم رواداری کا شکار ہوتا جا رہا ہے، 2002 کے گجرات فسادات نے کیسے سیکولرازم کو شدید نقصان پہنچایا اور ان شعلوں سے ایک سیاسی راہنما وزیر اعظم بن کر سامنے آیا جو اب بھارتی سیکولرازم کو مکمل طور پر تباہ کرنے کا باعث بن رہا ہے۔
کہانی ’دہلی کے ایک قبرستان کی ہے جہاں ایک ہیجڑے نے چھوٹی سی بستی آباد کی ہے،اس میں دنیا بھر کے دھتکارے ہوئے لوگ پناہ لے سکتے ہیں صرف انسانوں ہی کی نہیں، جانوروں اور پرندوں کی بھی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔
دی منسٹری آف اٹ موسٹ ہیپی نیس وسیع و عریض اور بہت ہی خوشنما گنجان کہانی ہے ایک ٹرانس جینڈر عورت کی جسے ہندوستان میں ہیجڑا کہا جاتا ہے،جو کہ دلّی کی ایک خستہ حال بستی میں جہاں ہیجڑا کمیونٹی رہتی ہے اپنے بچپن میں ہی گھر چھوڑ کر وہاں چلی آتی ہے۔یہ کمیونٹی ایک دوسرے کے ساتھ سلوک سے رہنے والی تو ہے مگر ساتھ ساتھ سرکش ،بہت غیر محفوظ بھی ہے جسے معاشرے سے خارج کردیا گیا ہے اور یہ صرف دل بہلانے اور تجسس کو بھڑکانے والی مخلوق خیال کی جاتی ہے۔46 سال کی انجم گجرات کے قتل عمل میں پھنس جاتی ہے ،اس کے بعد جب وہ اس سب سے نکلتی ہے تو وہ ہیجرا برادری کو چھوڑ دیتی ہے اور دنیا میں ایک نئے طور سے داخل ہوتی ہے۔ٹراما کا شکار مگر یک سو ،وہ اپنا گھر ایک قبرستان میں بناتی ہے اور وقفے وقفے سے قبروں پہ مہمان کمرے بناتی ہے، یہاں تک کہ جنت گیسٹ ہاؤس دھتکارے گئے،خارج کرڈالے گئے، اچھوت ، مسلمان ہوجانے والوں ، ہیجڑا اور یہاں تک کہ ایک لاوارث بچی زینب کا گھر بن جاتا ہے جسے انجم گود لے لیتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ جڑا ایک اور بہت واضح بیانیہ بھی چلتا ہے جو کہ کشمیر کی فضا میں ہے۔ناول پڑحتے احساس ہوتا ہے کہ کشمیر کی کہانی کو الگ سے ناول کی شکل دی جا سکتی تھی مگر رائے کے لئے مختلف ٹکڑے ایک ساتھ اکٹھے ہوجاتے ہیں،
یہاں بھارتی فوج اور حساس ادارے کشمیر میں جو کر رہے ہیں اس کا ذکر ہے اور چھتیس گڑھ کے صوبے میں عالم گیر تاجرانہ مفادات اور سراکر کے گٹھ جوڑ کے خلاف جدوجہد کا ذکر بھی آ گیا ہے۔ ایک سماجی ٹوٹ پھوٹ کی کہانی ہے افلاس، ناانصافی، تشدد اور تضاد کے کے مناظر ہیں
کشمیر میں جاری کشیدگی کیسے عام کشمیریوں کی سوچ کو متاثر کر رہی ہے۔ اس ناول میں موسیٰ نام کا ایک کشمیری کردار ہے جس کے خاندان کو بھارتی فوج نے ہلاک کر دیا، ۔
’’دی منسٹری آف اٹموسٹ ہیپینس‘‘ پڑھ کر یہی احساس ہوتا ہے کہ یہ ناول نہیں اصل میں کوئی طلسم ہوش ربا ہے جو کبھی ہمیں کشمیر لے جاتا ہے تو کبھی گجرات کے فسادات کو دیکھتے ہیں اور اس کے ساتھ نکسل باغی علاقوں کی صورتِ حال ہمارے سامنے آجاتی ہے اور اس سب کے درمیان کہیں کہیں دہلی کا ذکر بھی آجاتا ہے
کچھ ادبی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ ارون دھتی رائے کے اس ناول میں نثر میں اتنی کاٹ نہیں جتنی پہلے ناول میں تھی,کہیں کہیں جملوں کی کشش اپنی طرف کھینچ لیتی ہے اور اپنے سحر میں گرفت کرلیتی ہے لیکن مجموعی تأثر یہی ہے کہ ارون دھتی کی صحافت اس کے ادبی پیرائے پر غالب آگئی ہے۔ بعض جگہوں پر خوش گوارحیرت ہوتی ہے۔ کہ ناول میں اردو کے کئی اشعار شامل ہیں جن میں میر تقی میر کا یہ معروف شعرب: لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام آفاق کی اس کارگاہ شیشہ گری کا بھی شامل ہے The Ministry of Utmost Happiness میں گالیاں بھی لکھی گئی ہیں۔
2011ء میں انہوں نے اپنے دوسرے ناول کے زیر طبع ہونے بارے اشارہ دیا۔۔اپنے ادبی لکھیک ہونے یا نہ ہونے بارے سوال پہ اس نے کہا،”میرے لئے فکشن سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔کچھ بھی نہیں۔بنیادی طور پہ یہ وہ ہے جو میں ہوں۔میں داستان گو ہوں۔میرے لئے یہ واحد راستہ ہے جس پہ چل کر مجھے دنیا بامعنی لگنے لگتی ہےاس سارے رقص کے ساتھ جس میں یہ ملوث ہے۔
رائے کا کہنا ہے کہ” انہوں نے شاید دس سال پہلے دوسرا ناول شروع کیا،اور جب میں نے اسے شروع کیا تو ایسا خیال کبھی قریب پھٹکنے نہیں دیا کہ کتنی مدت میں یہ مکمل ہوگا۔
دی منسٹری آف اٹ موسٹ ہیپی نیس بہت پیچیدہ اور گستاخانہ ہے بالکل اپنے مصنف کی طرح۔
یہ تبصرہ مختلف مضامین کی مدد سے کیا گیا
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔