The Master of Petersber
دی ماسٹر آف پیٹرزبرگ۔۔۔ پورے ڈھائی سو پیجز کا یہ ناول انیس سو چورانوے میں شائع ہوا تھا۔ کون ہوسکتا تھا بھلا پیٹرزبرگ کا نابغہ! جاننے والے جان سکتے ہیں، جُوں آج تارڑ جی لاہور میں ہیں، اور لاہور تارڑجی میں، تُوں انیسویں صدی کا پیٹرزبرگ دوستوئفسکی کا تھا، اور دوستوئفسکی، پیٹرزبرگ کا۔ محب و محبوب! آپ دوستوئفسکی کی Crime and Punishment کی سیر کیجئے، یا The Brothers Kramazov کی دنیا کے باسی بنیے، The Idiot کے ساتھ خود بے وقوف بن جائیے کہ Demons کو پڑھتے پڑھتے خود اس المیے کے طنز کا شکار ہوجائیے، آپ پیٹرز برگ کے جادو سے باہر نہ آپاویں گے۔
شہرِ فسوں ہے یہ، شہرِ لاہور کے مانند!
چلیے واپس آئیے حضرت کٹسیا کی ناول کی طرف: سرِورق، اٹھارہ صد انہتر کے پیٹرزبرگ کی ایک کشادہ دل سڑک اور اس کے داہنے ہاتھ میں کھڑی ایک لمبی اونچی کلاسیکی عمارت کا شکوہ جھلکاتا ہے، اور کتاب دیکھتے ہی قاری سے داد پاتا ہے۔
کتاب کی ونڈرلینڈ میں داخل ہوتے ہی آپ انیس ویں صدی کے روس میں باقاعدہ داخلے کے سزاوار قرار پاتے ہیں۔ یہ ناول ہے جناب دوستوئفسکی کی حیات کے چند برسوں پر محیط۔ عظیم تخلیق کار کی نفسیاتی پیڑ کا بیانیہ، اس کے شب وروز کے چرکوں کا آئنہ۔ اس کی خود سے، بنتے بگڑتے روس سے، روس کے دوستوں دشمنوں سے جنگ کا قصہ۔ اس کے ادھیڑ عمر دل میں بڑھکتی عشقی چنگاریوں کے جلنے، بجھنے، تڑپنے، پھڑکنے کا افسانہ اور ان سب تعبیروں، تفسیروں سے آگے: حضرت کٹسیا کے شان داراسلوب، زبان، بیانیہ، اور تیکنیکی مہارتوں کا دکھاوا کرتی یہ ناول، ڈیڑھ سو سال پرانی سیٹنگ کے با وجود، آج کی ناول ہے۔
سچ یہ ہے:
بابِ اول کے چند صفحوں کی پڑھت اور آپ دوستوئفسکی کا ایسا قرب حاصل کرلیں کہ اس کی داڑھی کے سپید و سیاہ مُوہائے جہاں دیدہ کو الگ الگ دیکھ سکنے کی بصارت سے بہرہ مند ہوجائیں، اس کے دل کی دھک دھک دھک محسوس سکیں، اس کے میلے لباس کی بُو سونگھ سکیں،پل پل اٹھتے واہمے،اس کے سینے سے اٹھتے دیکھ پائیں۔
اب آئیے بھیتر کی اور:
بابِ اول میں داخلہ گویا، پیٹرز برگ میں داخلہ ہے۔ محسوسیے: آپ اس دم اٹھارہ سو ستر میں ہیں۔ سامنے دیکھیے، ہیمارکیٹ میں گھوڑا گاڑی چلتی ہے، یہ گاڑی جسے ڈروشکی کہیے، اس شہرِ بے مثال کے پرانے واقف کار، درمیانی عمر کے ایک باریش مرد کو،سامنے کھڑی لاچار عمارت کے سامنے اتارتی ہے۔مسافر، بظاہر متامل، گاڑ ی سے اترتا ہے، ساتھ اس کے سسفس کے ہاتھوں میں تھامے پہاڑ جتنا غم بھی اترتا ہے۔ مسافر، جیسے کہ اب جان لینا واضح ہوچکا، فیودر دوستوئفسکی ہے، جب کہ اس کی ہمرہی میں اترنے والا غم ، اس کے حال ہی میں خود کش یا مقتول سوتیلے فرزندکی یادیں اور اس عمارت کے اس حجرے میں، جو فوت شدہ کے استعمال میں رہا، پڑی اس کی دستاویزی املاک کی کھوج ہے۔ مسافر کو سامنے کی عمارت ہی میں ٹھیرنا، سکون کرنا، سونا، جاگنا، محبت کرنا، ملال سے دوچار ہونا، رونا، ہنسنا، اور خود کو کھونا اور دریافت کرنا ہے۔۔ یہ آغازیہ ہے! پھر آدھی ایک درجن چھوٹے پیمانے کے واقعات ہیں جو پر اسرار مکالمات سے لبریز ہیں، اور جو ایک بڑا واقعہ وجود میں لاتے ہیں۔ با لذات بڑا واقعہ لاموجود ہے۔ اور یہی بڑا واقعہ ہے!
بیسویں باب پر ناول کے اختتام کا آغاز ہے۔
بابا جی سرکار کٹسیا، جوں قدم قدم اپنے بڑے چھوٹے کرداروں کو واضح شکل عطا کرتے ہیں، تُوں قدم قدم محسوس مگر نفیس طریق سے موضوع کو بھی بناتے ، سمیٹتے ہیں۔ ایک موضوعِ کتاب صریح ہے، باقی کئی ایک نہان و مضمر۔ پر رمز، پر سحر۔ جو قاری کے دماغ کے غیر مرئی حجم کے مطابق متحرک ہیں۔بیانیہ زمانے کے، زمانہ بیانیے کے موافق و مطابق۔
بیس بابی یہ ناول سانس لیتی، سوتی، سلاتی، جاگتی، جگاتی، روتی رلاتی ہے۔ (اور مجھے تو اس سمے بھی رلا رہی ہے!) انیس ویں صدی کی ساتویں دہائی کے روس کی سیاسی، سماجی، معاشی صورت اور بے صورت کو ریکارڈ میں لاتے سمے اس عہد کی پولیس، پولیس گردی، قبل از انقلاب کی ناپختہ شکلی، غدر، فن اور تخئیل کی کار گزاریوں کو لشکاتی ہے۔
ناول ختم کرانے کے بعد، حضرت کٹسیا آپ کو روس ہی میں چھوڑ دیں گے، مگر ایسے کہ ہتھوڑے اور درانتی کی ضربیں، اور کاٹیں آ پ کو چھو نہ پائیں۔البتہ آنکھوں کے ڈورے ضرور سرخ ہوجاویں، خون کے مانند۔ خون، خون۔۔۔
یا کٹسیا المدد!!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“