اِررئیل فکشن ( Irreal Fiction ) ۔ 3
افسانچہ
پشت کیے کھڑا شخص ( El Hombre De Espaldas)
(The Man With His Back Turned)
اَگستن کیڈنا (Agustín Cadena)
اردو قالب ؛ قیصر نذیر خاورؔ
ڈینیلا نے ہفتے کے روز استعمال شدہ و پرانی اشیاء کی مارکیٹ سے ایک آئینہ خریدا ۔ وہ اس روز اپنے بڑے بھائی کی کار میں وہاں سے گزر رہی تھی ۔ اس کے اصرار پروہ چِڑا اورتاﺅ کھا گیاتھا ۔ یہ آئینہ اپنی بنیاد سے اوپربارہ انچ لمبا اورآٹھ انچ چوڑا تھا ۔ اس کا اوپروالا حصہ ایک گوتھک محراب کی مانند تھا ۔ اس کا پیتل کا فریم جس پر بیل بوٹے بنے تھے ، جگہ جگہ سے پچکا ہوا تھا اور اس پر خراشیں بھی پڑی ہوئی تھیں لیکن اس کے باوجود یہ عمومی طور پر پیارا تھا ۔ آئینہ بذات خود گلابی جھلک مارتا تھا اور اس کا نادر شیشہ چیزوں کا عکس کچھ یوں دکھاتا جیسے سالوں کی دھند نے انہیں دھندلا کردیا ہو ، جیسے وہ حال کا نہیں ماضی بعید سے عکس دکھا رہا ہو۔ ڈانی کو یہ بہت پسند آیا ۔ اس کے پاس اتنے پیسے نہ تھے کہ وہ اسے خرید سکتی ، لیکن اتنے ضرور تھے کہ دکاندار نے اس بات سے اتفاق کر لیا کہ وہ اسے ، اس کے لیے روک سکتا تھا ۔
جب وہ گھر پہنچی تو اس نے اپنے والد سے کچھ پیسے مانگے ، دادی سے ادھار مانگا اور پھرآخر میں اپنے کچھ ہم جماعتوں کو اپنی کچھ سی ڈیز بیچیں ۔ اگلے ہفتے کے روز وہ آئینہ لینے کے لئے گئی ۔ اسے دکاندار تو نہ ملا البتہ اس کی بیوی ملی جو ایک خزاں زدہ سنہرے بالوں والی عورت تھی اور دیکھنے میں جادوگرنی جیسی لگتی تھی ۔ جب دانی نے اسے بتایا کہ وہ وہاں کس لئے آئی تھی تو عورت نے گتے کے ایک ڈبے سے آئینہ نکالا ، جہاں انہوں نے اسے چھپا کر رکھا تھا ۔ جوش سے بھری دانی نے باقی کے پیسے ادا کیے اور اپنے خزانے کو لیے گھر کی طرف دوڑی ۔ اس نے اپنے سونے کے کمرے میں اس کے لئے پہلے سے ہی ایک جگہ کا تعین کر رکھا تھا ۔
آزار کا آغاز اسی دوپہر کو شروع ہو گیا ۔ جب بھی کوئی اس آئینے میں دیکھتا ، تو ہر بارنہیں لیکن اکثر ، انہیں اپنے عام عکس کے علاوہ اس کے پیچھے ایک بندہ نظر آتا جس نے آئینے کی طرف پشت کی ہوتی ۔ یہ عجیب اور لرزا دینے والی بات تھی ۔ کیونکہ وہاں تو کوئی کھڑا نہ ہوتا اور کمرے میں کوئی ایسی شے بھی نہ تھی جو ایسا عکس بنا سکتی تھی ۔ سب سے زیادہ خراب بات یہ تھی کہ یہ کبھی وہاں ہوتا اور کبھی نہیں بھی ۔ اور ہمیشہ ایسے ہوتا کہ اسے ایک وقت میں ایک ہی بندہ دیکھ سکتا تھا ۔ ایسے میں کسی شے کے ہونے کا یقین کیسے کیا جا سکتا تھا ؟
پہلا مفروضہ یہ تھا کہ گھر میں ایک بھوت تھا اوراسے صرف اس گلابی آئینے کے ذریعے ہی دیکھا جا سکتا تھا ۔ لیکن جب وہ آئینے کو اوربھی جگہوں پر لے کر گئے تو منہ پھیرکر کھڑا یہ شخص ویسے ہی نظر آیا ۔
پورا کنبہ اسرارکا شکار ہو گیا ۔ وہ اس بات کی وجہ جاننا چاہتے تھے ۔ بالآخر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ منہ پھیرے کھڑا یہ شخص آئینے میں ہی رہتا تھا ۔
وہ اس سے زیادہ جاننا بھی نہیں چاہتے تھے ۔ اب تووہ صرف اتنا چاہتے تھے کہ کسی طرح اس سے چھٹکارا حاصل ہو ۔ ڈانی آئینے کو بیچنے اُسی دکاندار کے پاس گئی جس سے اس نے اِسے خریدا تھا ۔ و ہ مسکراتے ہوئے دانی کو چیستانی انداز میں مسلسل گھورتا رہا اور اسے ، اس رقم کی آدھی سے بھی کم قیمت بتائی جس پر اس نے دانی کو آئینہ بیچا تھا ۔
ڈینیلا اس سے سودا بازی نہیں کرنا چاہتی تھی ۔ وہ جب ، دکان سے پرے جا رہی تھی تو اس نے اتفاقاً سن لیا کہ آدمی کچھ یوں بُڑبُڑا رہا تھا جیسے آئینے سے کہہ رہا ہو؛
” تم پھر آ گئے ہو ۔ “
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ افسانچہ مُصنف کی کتاب ' Dibujos a lápiz ' ( Pencil Drawings ) میں شامل ہے جو 2015 ء میں میکسیکو سے شائع ہوئی ۔
یہ افسانچہ مُصنف کی اجازت سے ترجمہ کیا گیا ہے ۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...