۹ ۔ آدمی ، جو مسکراتا نہ تھا (Warawanu otoko, 1929 )
( The Man Who Did Not Smile)
کاواباتا یاسوناری ، اردو قالب ؛ قیصر نذیر خاورؔ
آسمان کا رنگ گہرا ہو گیا تھا ؛ یہ ایسا دکھائی دے رہا تھا جیسے کسی چینی کے برتن کی روغنی سطح ہو۔ میں نے اپنے بستر میں لیٹے لیٹے ہی ’ کیمو‘ دریا کی طرف دیکھا جس کے پانی میں صبح کا رنگ جھلکنے لگا تھا ۔
ایک ہفتہ ہو چلا تھا کہ فلم کی عکس بندی شب کے درمیان تک جاری رہتی کیونکہ فلم کا مرکزی کردار ادا کرنے والے اداکار دس دن بعد سٹیج پر اداکاری کے لئے پہلے سے پابند تھا ۔ میں تو بس ایک لکھاری تھا ، چنانچہ میرا کام تو اتنا ہی تھا کہ میں کبھی کبھار فلم بندی دیکھ لیا کروں لیکن میرے ہونٹ خشکی سے پھٹ چکے تھے اور میں اتنا تھک چکا تھا کہ مجھ سے آنکھیں کھلی رکھنا مشکل ہوتا تھا ، چاہے میں کاربائڈ لیمپ کے پاس ہی کیوں نہ کھڑا ہوں ۔ اس صبح ، میں اُس وقت ہوٹل کے اپنے کمرے میں پہنچا تھا جب ستارے غائب ہونا شروع ہو چکے تھے ۔
بہرحال آسمان کی چینی کے برتن جیسی روغنی رنگت نے مجھ میں پھر سے تازگی بھر دی تھی اور مجھے لگا جیسے میں کوئی خوبصورت ’ دن کا خواب‘ دیکھنے جا رہا ہوں ۔
پہلے میرے ذہن میں ’ شی جُو ‘ گلی کا نظارہ ابھرا ۔ ایک روز قبل میں نے ، کیکوسوئی ، اوہاشی کے قریب ایک مغربی طرز کے ریستوراں ، میں دوپہر کا کھانا کھایا تھا ۔ میری آنکھوں کے سامنے پہاڑ نمودار ہوئے اور میں ’ ہیگشییاما ‘ درختوں کو تیسری منزل پر واقع اپنے کمرے کی کھڑکی کے باہر دیکھ سکتا تھا ۔ ایسا ہونا ممکن تھا کیونکہ میں ٹوکیو سے کچھ روز پہلے ہی یہاں آیا تھا ۔ پھر میرا دھیان اس ’ مکھوٹے ‘ کی طرف گیا جسے میں نے ایک نادر اشیاء کی دکان کی کھڑکی میں سجا دیکھا تھا ۔ یہ ایک قدیم ’ مسکراتا مکوٹھا ‘ تھا ۔
”میں نے پا لیا ، مجھے میرا خوبصورت ’ دن کا خواب ‘ مل گیا ہے۔“ ، میں نے لکھنے کے لئے کچھ کاغذ اپنی طرف کھینچتے ہوئے اپنے آپ سے خوش دلی سے سرگوشی کی اور پھر میں نے اپنے دن کے خواب کو الفاظ کے روپ میں ڈھال دیا ۔ میں نے فلم سکرپٹ کا آخری منظر دوبارہ لکھا ۔ جب میں نے اسے مکمل کر لیا تو میں نے ہدایت کار کے نام ایک خط بھی لکھا ؛
” میں چاہتا ہوں کہ فلم کا آخری منظر دن میں دیکھے جانے والے ایک خواب جیسا ہو ۔ چونکہ میں اس ’ تاریک ‘ کہانی کے اختتام پر چمکیلی مسکراہٹ نہیں دکھا سکتا تھا ، تو میں نے سوچا ہے کہ میں یہ تو کر سکتا ہوں کہ سچائی کو ایک خوبصورت مسکراتے مکھوٹے میں ملفوف کر دوں ۔ “
میں مسودہ لے کر سٹوڈیو گیا ۔ دفتر میں ابھی صرف صبح کا اخبارہی آیا تھا ۔ کیفے ٹیریا چلانے والی عورت ’پراپ روم‘ کے سامنے سے لکڑی کا برادہ صاف کر رہی تھی ۔
” کیا تم یہ ہدایت کار کے بستر کی سائیڈ میز پر یہ رکھ کر آ سکتی ہو ؟ “
یہ فلم ایک دماغی امراض کے ہسپتال کے گرد گھومتی تھی ۔ ہم ہر روز جب پاگل لوگوں کی جی کو متلا دینے والی زندگیوں کے بارے میں فلم بندی کر رہے ہوتے تھے تو میں خاصا مایوس اور نا امید ہوتا تھا کہ میں اس کا روشن اختتام نہیں کر پایا ۔ مجھے پتہ بھی تھا کہ میں اس کا خوشی والا اختتام اس لئے نہیں کر پایا کیونکہ میری اپنی شخصیت بھی بےکس سی تھی ۔
اسی لئے میں نازاں تھا کہ مجھے مکھوٹوں کا خیال آ گیا ۔ مجھے اس خیال نے خوشگواری کا احساس دلایا کہ فلم کے اختتام پر پاگل خانے کے بچے کھچے آخری افراد نے ’مسکراتے مکھوٹے‘ پہن رکھے ہیں ۔
سٹوڈیو کی شیشے کی چھت اب سبز روشنی سے روشن ہوگئی تھی ۔ دن کی روشنی نے آسمان کا رنگ بھی ہلکا کر دیا تھا ۔ مجھے سکون کا احساس ہو ا اور میں اپنے کمرے میں واپس آ کر گہری نیند سو گیا ۔
جو آدمی مکھوٹھے خریدنے گیا تھا وہ رات کو گیارہ بجے واپس آیا ۔
”میں صبح سے ’ کیوٹو‘ کی تمام کھلونوں کی دکان پر پھرتا رہا ہوں لیکن مجھے کہیں بھی اچھے مکھوٹے نہیں نظر آئے ۔ “
” مجھے دکھاﺅ ، کہ تم کیا لائے ہو ۔ “
جب میں نے پیکٹ کھولا تو مجھے سخت مایوسی ہوئی۔ ” یہ ؟ خیر ۔ ۔ ۔ “
مجھے معلوم تھا کہ ان سے کام نہیں چلے گا ۔ میرا خیال تھا کہ یہ تو کہیں سے بھی مل جائیں گے ، اور میں نے ساری دکانیں بھی چھان ماری ہیں ۔ لیکن بس یہی کچھ ہے جو مجھے سارے دن کی کھوج کے بعد مل پایا ہے ۔ “
” میرے ذہن میں مکھوٹوں کا جو تصور تھا وہ ویسا تھا جیسے جاپانی رزمیہ ڈراموں میں استعمال ہوتے ہیں ۔ اگر مکھوٹے فنکارانہ نہیں ہیں تو یہ فلم میں بہت ہی بیہودہ لگیں گے ۔“ ، اپنے ہاتھ میں ان بچگانہ مکھوٹوں کو دیکھ کرمجھے ایسے لگا جیسے میں رو پڑوں گا ۔ ” ایک بات تو یہ تھی کہ جب ان کی عکس بندی ہونی تھی تو انہوں نے پھیکے پڑے کالے رنگ کا لگنا تھا اور اگر ان کی سفید چمکیلی جلد پر نرم مسکراہٹ واضع نہ ہوئی تو ۔ ۔ ۔ ۔ “
ان میں تو بھورے چہروں پر لال زبان باہر نکلی ہوئی تھی ۔
” اب وہ دفتر میں ان پر سفید رنگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ “
عکس بندی عارضی طور پر رک گئی تھی ، چنانچہ ہدایت کار بھی ہسپتال کے کمرے کے ’ سیٹ ‘ سے باہر آ کر ہر بندے کو گھور تے ہوئے ہنس پڑا ۔ کوئی ایسا راستہ نہ تھا کہ کافی سارے مکھوٹے مل سکتے؛ انہیں فلم کے اس آخری منظر کی عکس بندی اگلے دن پر ملتوی کرنا پڑی ۔ اگر انہیں قدیم مکھوٹے نہ مل پائے تو ، کم از کم ’سیلو لائیڈ ‘ کے بنے ہوئے تو ہوں ۔
” اگر ہمیں فنکارانہ مکھوٹے نہ مل پائے تو ہمیں اس منظر کو چھوڑ دینا چاہئے ۔ “ سکرپٹ کے شعبے کا ایک بندہ بولا، شاید وہ میری مایوسی کی وجہ سے ہمدردی جتانے کی کوشش کر رہا تھا ۔
” کیا ہم ایک کوشش اور نہ کر کرکے دیکھ لیں ، ابھی تو صرف گیارہ ہی بجے ہیں ، ’کیوگوکو ‘ میں لوگ شاید ابھی جاگ رہے ہوں ۔ “
” تم چلو گے ؟ “
ہم’ کیمو‘ دریا کے بند کے ساتھ ساتھ کار میں عجلت میں جا رہے تھے ۔ دوسرے کنارے پر واقع یونیورسٹی ہسپتال کی کھڑکیوں سے نکلتی چمکیلی روشنیاں پانی سے منعکس ہو رہی تھیں ۔ میں یہ اندازہ تو نہ کر سکا کہ اتنی خوبصورت روشنیوں سے مزین کھڑکیوں والے ہسپتال میں کتنے مریض اپنی تکلیفوں کے باعث زیر علاج ہیں ، لیکن مجھے یہ خیال ضرور آیا کہ اگر ہمیں مناسب مکھوٹے نہ مل سکے تو ہم ہسپتال کی کھڑکیوں سے جھلکتی روشنیوں کو فلما سکتے ہیں ۔
ہم ’ شن کیووگوکو‘ کی کھلونوں کی تمام دکانوں میں پھرتے رہے جن کے مالک اب انہیں بند کر رہے تھے ۔ ہمیں اندازہ تھا کہ ہماری تلاش بے سود ہی جائے گی ۔ ہم نے بیس کاغذی کچھوﺅں کی شکل کے مکھوٹے خریدے ، وہ پیارے تو تھے لیکن انہیں فنکارانہ نہیں کہا جا سکتا تھا ۔ ’ شی جو‘ گلی تو ساری سو رہی تھی ۔
”رکیں ، رکیں “ سکرپٹ شعبے کا ایک بندہ ایک تنگ سی گلی کی طرف مڑا ۔ ” یہاں بہت سی دکانیں ہیں جہاں بدھ قربان گاہوں میں استعمال ہونے والی پرانی اشیاء بکتی ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ ان کے پاس جاپانی رزمیہ ڈراموں میں استعمال ہونے والا سامان بھی ہو گا ۔ “
لیکن اس گلی میں کوئی بھی جاگ نہیں رہا تھا ۔ میں نے دروازوں کی درزوں سے اندر جھانکا ۔
” میں کل صبح سات بجے یہاں دوبار ہ آﺅں گا ۔ ویسے بھی تو میں ساری رات جاگتا ہی رہتا ہوں ۔ “
میں بھی تمہارے ساتھ آﺅں گا ، مہربانی کرکے مجھے بھی اٹھا دینا “ ، میں نے کہا ۔ لیکن اگلی صبح وہ اکیلا ہی چلا گیا ۔ جب میں سو کر اٹھا تو وہ مکھوٹوں کی عکس بندی پہلے ہی شروع کر چکے تھے۔ انہیں پانچ مکھوٹے مل چکے تھے جو قدیم موسیقی کی اداکاریوں میں برتے جا چکے تھے جبکہ میرا خیال تھا کہ ایسے تیس ، نہیں تو کم از کم بیس مکھوٹے استعمال کئے جانے چائییں لیکن میں یہ سوچ کر مطمئن ہو گیا کہ چلیں دیکھتے ہیں کہ پانچ مکھوٹوں کی مسکراہٹ میں تیرنا کیسا لگے گا ۔ مجھے محسوس ہو ا کہ میں نے پاگلوں کے حوالے سے اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے ۔
” میں نے انہیں کرایے پر لیا ہے، کیونکہ یہ بہت مہنگے ہیں ، اگر تم انہیں گندہ کر دو گے تو ان کی واپسی ممکن نہ رہے گی اس لئے انہیں ذرا احتیاط سے برتنا ۔ “
سکرپٹ پڑھنے والا جب یہ بولا تو تمام اداکاروں نے اپنے ہاتھ دھوئے اور انہیں اپنی انگلیوں کی پوروں سے پکڑا اور انہیں گھورنے لگے جیسے وہ کوئی خزانہ دیکھ رہے ہوں ۔
” اگر انہیں دھویا گیا تو ان کا رنگ اتر جائے گا ، ایسا نہیں ہے کیا ؟ “
” اچھا تو ٹھیک ہے ، میں انہیں خرید لوں گا ۔ “ میں واقعی انہیں لینا چاہتا تھا ۔ میں نے پھر سے ’دن کا خواب ‘ دیکھا ، جس میں اس مستقبل کا منتظر تھا جب ساری دنیا میں ہم آہنگی ہو گی اور لوگوں کے چہروں پر ویسی ہی نرماہٹ ہو گی جیسی ان مکھوٹوں پر تھی ۔
جیسے ہی میں ٹوکیو واپس پہنچا ، میں ہسپتال میں اپنی بیوی کے کمرے میں گیا ۔ بچے کبھی ایک مکھوٹا پہنیں کبھی دوسرا ، وہ خوشی سے ہنس رہے تھے ۔ مجھے بھی ایک مبہم سی طمانیت کا احساس ہوا ۔
” ڈیڈی، آپ بھی ایک پہنیں ۔“
” نہیں ۔ “
'' پلیز، ڈیڈی، ایک پہن لیں نا ! “
” نہیں ۔“
” ایک پہن لیں نا ۔ “
میرے دوسرے بیٹے نے کھڑے ہو کر میرے چہرے پر ایک مکھوٹا چڑھانے کی کوشش کی ۔
” باز آﺅ ! “ ، میں چلایا ۔
اس خجالت بھرے لمحات سے مجھے میری بیوی نے بچایا ۔ ” لاﺅ مجھے دو، میں ایک پہن لیتی ہوں ۔ “
بچوں کے ہنسنے کے دوران میرا رنگ فق ہو گیا ۔ ” تم یہ کیا کر رہی ہو ، تم تو بیمار ہو ۔ “
کتنا خوفناک تھا ، ایک بیمار بندے کو یہ ہنستا مکھوٹا پہنا دیکھ کر، وہ بھی ہسپتال کے پستر پر!
جب میری بیوی نے مکھوٹا اتارا تو اس کا سانس پھول چکا تھا ۔ مجھے اس بات نے خوفزدہ نہیں کیا تھا ۔ اس نے جیسے ہی مکھوٹا اتارا تھا اس کا چہرہ مجھے کچھ بھدا سا لگنے لگا تھا ۔ جیسے ہی میں نے اس کے لاغر چہرے پر نظر جمائی تو میرے جسم میں ایک سرد لہر دوڑ گئی ۔ مجھے لگا کہ میں نے اپنی بیوی کے اصل چہرے کو پہلی بار دیکھا ہے ۔ اس نے صرف تین منٹ تک خوبصورت ، نرماہٹ بھرا اورمسکراہٹ لئے مکھوٹا پہنا تھا لیکن اس نے پہلی بارمجھے اس کے اصلی چہرے کی بدہیتی کا احساس دلا دیا تھا ۔ لیکن نہیں، یہ بدہیتی نہیں تھی، یہ تو اس اذیت کا اظہار تھا جو ایسے بندے کے چہرے پر پھیل جاتی ہے جوبدقسمتی کا شکار ہو ۔ خوبصورت مکھوٹے میں چھپنے کے بعد ہی تو یہ بات آشکار ہوئی تھی کہ اس کی دکھی زندگی کا سایہ کیسا تھا ۔
” ڈیڈی ، پہنیں نا ! “
” اب ڈیڈی کی باری ہے ۔ “ ، بچوں نے پھر سے اصرار شروع کر دیا ۔
” نہیں ۔“ میں کھڑا ہو گیا ۔ اگر میں نے مکھوٹا پہن لیا اور پھر اتارا تو میں بھی اپنی بیوی کو ایک بھدا شیطان دکھِنے لگوں گا ۔ میں اس خوبصورت مکھوٹے سے خوف کھانے لگا ۔ مجھے یہ بھی خیال آنے لگا کہ میری بیوی کا سدا مسکراتا چہرہ کہیں از خود مکھوٹا تو نہیں اور اس کی مسکراہٹ کہیں نقلی تو نہیں ، ویسی ہی جیسی مکھوٹے کی ہوتی ہے ۔
مکھوٹا اچھا نہیں ہے ، یہ آرٹ بھی اچھا نہیں ہے ۔
میں نے’ کیوٹو ‘ میں واقع سٹوڈیو کے لئے ایک ’ تار ‘ لکھی ؛
” مکھوٹوں والا منظر کاٹ دیں ۔ “
پھر میں نے ’ تار‘ کے پرزے پرزے کر دئیے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’ ہیگشییاما ‘ = ٹوکیو میں پائے جانے والے مخصوص درخت
’پراپ روم‘ = Prop Room
’ تار‘ = ٹیلی گرام
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔