یونانی افسانہ
ایکسرشیا کا لیونارڈو ڈی کیپریو
( The Leonardo DiCaprio of Exarcheia)
کونسٹینٹینوس پولس ( Konstantinos Poulis)
تحریر مُکرر ؛ قیصر نذیر خاورؔ
تاکِس ایک اچھا بچہ تھا ۔ وہ خوش مزاج اور کھیل کود کا شوقین تھا ۔ اسے لطیفے سنانے کا سلیقہ بھی آتا تھا ۔ سارے علاقے کے لوگ اسے پیار کرتے تھے ۔ وہ ، جب ، سکول کے ڈراموں میں کام کرتا تو سب اسے کہتے کہ اسے اداکار بننا چاہیے ۔ لیکن وہ اداکار نہ بنا ، ایک حجام بن گیا بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ وہ ایک حجام کا نائب بنا ۔ حجام کا نام مسٹر ویسیلس تھا ۔ اس نے تاکِس کو اپنی مدد کے لئے اس لئے رکھا کہ وہ اس کی ماں کو جانتا تھا ۔ تاکِس بال دھوتا اور انہیں کاٹنا شروع کرتا ، تب اس کا مالک آتا اور انہیں مزید سنوارتا ۔ اسے اپنے کام پر فخر تھا ۔ پہلے وہ اس پر صرف مسکراتا رہتا لیکن بعد میں وہ اس جگہ کی دیکھ بھال بھی کرنے لگا اور اس کے لئے ایک چھوٹی تصویر یا پودے والا گملا بھی بازار سے لانے لگا ۔ اور۔ ۔ ۔ اور بالآخر حجام کی یہ دکان اس کی جان بن گئی ۔ گھر میں وہ اپنی ماں کے ساتھ رہتا جو اسے پاگلوں کی طرح چاہتی تھی ۔ آپ شاید کہیں گے کہ ساری مائیں ہی ایسی ہوتی ہیں لیکن وہ سچ میں ان سب سے زیادہ عظیم تھی ۔
ہر روز ایک لاٹری کے ٹکٹ بیچنے والا دکان کے پاس سے گزرتا ۔ ۔ ۔ یہ تو خدا کو ہی معلوم تھا کہ وہ وہاں کیوں آ جاتا تھا کیونکہ اس علاقے کے رہنے والے قسمت پر یقین نہیں رکھتے تھے ۔
” دیکھو ، تاسوس ، میں تو ابھی پچھلے سال کی جیتی ہوئی رقم خرچ نہیں کر پایا ۔“ ، تاکِس کہتا اور بال کاٹنے کے لئے واپس چلا جاتا ۔ ایک روز اس نے مسٹر ویسیلس سے گفتگو کرنے کی بھاری غلطی کی ۔ ۔ ۔ یہ لاٹری کے بارے میں ایک پرانی بحث تھی ؛ اگر ویسیلس جیت جائے تو وہ کیا کرے گا ؟
وہ انکساری سے بات شروع کرتا ؛ ” میں اپنی بیٹی کے لئے ایک اپارٹمنٹ خریدوں گا ؛ میں اپنی بہن کاتیا سے لیا ہوا قرضہ اتاروں گا کیونکہ اس نے یہ دکان کھولنے میں میری مدد کی تھی ؛ میں کچھ خالی کھپے بھروں گا “ اور وہ کچھ اسی طرح کی باتیں اور کرتا ۔
” ٹھیک ہے، مسٹر ویسلس ، ایسے خواب دیکھنا ٹھیک ہے ، کوئی نئی بات کرو ۔ اگر تم کروڑوں جیت جاﺅ ، کیا تم پھر بھی کاتیا کے بارے میں سوچو گے؟ “
” میں دکان کا سائن بورڈ بدل دوں گا ۔ مجھے اس کو لگائے پچیس برس ہو چکے ہیں ۔“
” ٹھیک ہے مسٹر ویسلس ! لیکن کیا تم پھر بھی حجام ہی رہو گے ؟ “
” میں اور کیا بن سکتا ہوں ؟ کیا میں طبیب بن جاﺅں؟ اس گفتگو پر لعنت بھیجو ۔ “
اس رات تاکِس سویا اور اس نے خواب دیکھا جس میں ڈھیروں دولت پانے پر وہ کیسا لگتا تھا ۔ کیا حجام کی دکان ؟ کیا اس کا سائن بورڈ ؟ وہ تو ہالی ووڈ کا ایک ستارہ تھا ! اس نے خواب دیکھا کہ وہ ایک فلم میں ایک خوبصورت ہیروئن کے مد مقابل اداکاری کر رہا ہے۔ شروع میں وہ ایک دوسرے کے ساتھ چل نہیں پاتے ، وہ اس سے نفرت کرتی اور اس کا مذاق اڑاتی ۔ لیکن ۔ ۔ ۔ شاید یہ پھول تھے ، یا اسے بدمعاشوں سے بچانا ۔ ۔ ۔ وہ فلم میں اس کے بوسے لیتا اور دونوں ایک دوسرے کو پسند کرنے لگتے اتنا کہ وہ سیٹ کے علاوہ بھی بوس و کنار میں مصروف رہتے ۔ اور دیکھیں ؛ وہاں کلب تھے ؛ وہاں سمندروں کے ساحل تھے جو خوبصورت عورتوں سے بھرے تھے ، جن کے چہروں پر مسکراہٹ اور جن کی رانیں گداز تھیں ؛ وہاں سیٹ تھے ۔ ۔ ۔ اوہ ، اسے یہ بھی خواہش ہوئی کہ وہ لاٹری کے بارے میں کبھی بات نہ کرتا ۔ پھر صورت حال اس کے ہاتھوں سے نکل گئی ۔ ۔ ۔ یہ سب اس کے تحت الشعور کی خرابی تھی ! اورغیر متوقع لیکن خوش کُن بات یہ ہوئی کہ اس نے خواب میں اپنے باس کے لئے بھی جگہ بنا لی ؛ وہ اس کے ٹریلر میں ایک حجام کا اسٹنٹ ہوتا ہے ۔ باس اس سے یہ بھی پوچھتا ہے کہ وہ اتنا بڑا آدمی کیسے بن گیا اور تاکِس اسے جواب دیتا ہے ؛ ” میری شروعات بہت عاجزانہ تھی“ اور کچھ ایسی باتیں بھی جو لوگ اس وقت کرتے ہیں جب وہ عاجزی سے نکل جانے کے بعد کرتے ہیں ۔
صبح جب تاکِس جاگا اس کے ساتھ کچھ ایسا ہوا ، جس کا اسے پہلے کبھی تجربہ نہ ہوا نہ اس نے کبھی سنا تھا ۔ ۔ ۔ لیکن میرے پیارے قاری میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ایسا ہوتا ہے اور اکثر ہوتا ہے ۔ گو کہ وہ جاگ چکا تھا لیکن اس نے سوچا کہ اس کا خواب سچ تھا ۔ ایسا تو نہ ہوا کہ وہ اس کا ٹریلر پھر سے دیکھنے لگا ، نہیں ، وہ سیدھا اپنے کام پر چلا گیا ۔ بس اتنا تھا کہ اس کے دماغ کا ایک حصہ ابھی تک جاگا نہیں تھا ۔ لوگ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک ترکھان نے خواب دیکھا کہ ایک حادثے میں اس کا ایک بازو آرے سے کٹ گیا ہے ۔ وہ جاگا ، اپنی دکان پر گیا اور ایک ہاتھ سے ہی کام کرتا رہا ۔ وہ خود کو قائل ہی نہ کر پایا کہ اس نے اپنا ایک ہاتھ خواب میں کھویا تھا ۔ ۔ ۔ اسے ایسا لگا جیسے اس کا ایک ہاتھ تھا ہی نہیں ۔ ٹاکِس کی ماں نے اسے یونانی کافی پینے کو دی اور وہ اسے پیتے ہوئے یہی سوچتا رہا کہ وہ ہالی ووڈ میں ہے ۔ اسے یہ خیال ہی نہ آیا کہ چیزوں کو جوڑ کر دیکھے اور حیران ہو کہ اس کی ماں ہالی ووڈ میں کیا کر رہی تھی ۔ ۔ ۔ اس کی ماں جو بس میں بیٹھ کر کبھی بھی قصبے سے باہر نہیں گئی تھی ۔ ۔ ۔ اور اس نے کہاں سے ایک ’بریکی ‘، کافی کا یونانی برتن وہاں پا لیا تھا ۔
وہ، جب ، حجام کی دکان پر پہنچا تو اسے بالکل خواہش نہ تھی کہ کام کرے ۔ چند گھنٹے پہلے وہ کیا تھا ، چاہے سوتے میں تھا ، اور اب وہ اتنا نیچے گر جائے ۔ جہاں تک لطیفہ گوئی کا تعلق تھا اس کے منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکل پایا ۔ جب اس نے مسٹر ویسیلس کو دیکھا تو وہ اسے مالک بالکل نہ لگا ۔ وہ ، آخر، اس کے لئے کچھ بھی نہ تھا ۔ ۔ ۔ وہ محاورہ ہے نا ؟ ” وہ کیبن بوائے جنہیں ہم گھٹنوں میں دبا کر رکھتے تھے ، کیپٹن بن بیٹھے ۔ “
ایک طالب علم نے اس وقت غلطی کی جب تاکِس نے اس سے پوچھا کہ کیا اسے اپنے بال پسند آئے ، اس پر طالب علم نے جواب دیا ؛
” ذرا اور چھوٹے کریں ۔ “
” کیا میں نے پہلے نہیں پوچھا تھا کہ تمہیں کیسے بال چاہئیں ؟ اب تو تمہارے بال کٹ چکے ! “ ، یہ کہہ کر اس نے لڑکے کے گرد لپٹی چادر کھینچ لی اور اسے جھٹکا دے کر بال نیچے گرا دئیے ۔
مسٹر ویسیلس نے اسے بے یقینی سے دیکھا ۔ ۔ ۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے تاکِس نے اس کے سر پر کافی انڈیل دی ہو ۔ جب وہ اکیلے رہ گئے تو مسٹر ویسیلس نے اسے سمجھایا ؛
” ہم اپنے گاہکوں سے یوں بات نہیں کرتے ۔“
’ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ہم کرتے ہیں خیر ۔ ۔ ۔ یہ ’ہم ‘ کون ہیں؟ “
” یہ گاہک دوبارہ نہیں آئے گا ۔ “ ، مسٹر ویسیلس نے اسے کہا ۔
اس کے بعد سارا دن دونوں کے درمیان کوئی بات نہ ہوئی ۔ جب شام ڈھلی تو تاکِس دروازے سے باہر بھاگا اور گھر کی جانب بڑھا ۔ وہ اپنا خواب بھول نہ پایا تھا ۔ لیکن یہ کچھ ایسا نہ تھا کہ وہ لوگوں کو اس بارے میں بتاتا پھرتا ۔ ہربندہ ہی بے روزگار تھا چنانچہ وہ ان سے کہتا بھی تو کیا کہتا ؟ کہ حجام کی دکان ہی ٹھیک تھی ، پیسے بھی مناسب تھے کہ ان سے زندگی گزاری جا سکے لیکن اگر کوئی پوچھتا تو یہی کہتا کہ اسے تو ہالی ووڈ کا سٹار بننا تھا ؟ سچائی بہرحال یہی تھی ۔ شان و شوکت والے یہ خواب قابل رحم ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ وہ کہتے ہیں نا کہ زمانہ قدیم میں ایک تباہ حال مقرر تھا جس نے خواب دیکھا تھا کہ وہ سوفوکلیز ، ایسکلیلس کے ساتھ رہا اور مارکس اوریلیئس کو مشورے دیتا تھا ؛ اور یہ کہ بادشاہ ہیڈرین اس کی عزت کرتا اور ڈیموستھینس تو اس کی تعریف کئے نہ تھکتا ۔ اور جب ڈیموستھینس کا یہ پریشان حال ساتھی جاگتا تو اس زمانے کے مسیحی اسے ” غلیظ پاگل “ کہہ کر بلاتے ۔
جب رات ہوئی تو تاکِس سونے سے گھبرایا ۔ مسٹر ویسیلس نے ایسا کچھ نہ کیا تھا کہ تاکِس ایسی گھبراہٹ کا شکار ہوتا ۔ دن میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک رہا تھا ؛ مسئلہ تھا تو اس بدعائے ہوئے خواب کا اور اس سے جڑے لاٹری کے ٹکٹ بیچنے والے کا ۔ اسے یہ سب یاد آیا ؛ حجام کی دکان ، اس کا سائن بورڈ ، سکول کا پرنسپل جس کے بال تیل سے چپڑے ہوتے اور وہ کسی سیاست دان کی طرح لچھے دار گفتگو کرتا اور اپنی ایک بیٹی کے بارے میں نہ ختم ہونے والی شیخیاں مارتا جس کی لوگ پرواہ بھی نہ کرتے ۔ ۔ ۔ اسے اور بھی بہت کچھ یاد آیا ۔ اس لمحے اسے ان سب سے سخت نفرت محسوس ہوئی اور پھر اسے احساس ہوا کہ اس کا اصل دشمن ہالی ووڈ اور گزشتہ شب والا خواب تھا ۔ اس سے پہلے سب اچھا بھلا تھا ۔ وہ ، چنانچہ ، بازو ایک دوسرے میں پھنسائے ، کیکڑے کی طرح آنکھیں پھاڑے ہوا میں گھورتا رہا تاکہ نیند کو دور رکھ سکے ۔ وہ ایسے تاک میں بیٹھا تھا جیسے کسی چور کی آمد متوقع ہو ۔
اسے صبح چار بچے نیند آئی اور جیسے قسمت کام کرتی ہے ، اسے وہی خواب دوبارہ آیا ۔ یہ خواب وہیں سے شروع ہوا جہاں یہ ختم ہوا تھا ؛ آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ ہالی ووڈ کے رومانس ہمیشہ مسائل اور الجھنوں سے بھرے ہوتے ہیں ۔ تاکِس کو بھی پتہ تھا یا کم از کم نیند کے دوران پتہ تھا ۔ وہ میک اپ کے لئے بیٹھا ۔ میک اپ کرنے والی کی چھاتیاں تارپیڈو جیسی تھیں ۔ مسٹر ویسیلس جا چکا تھا ۔ ۔ ۔ تاکِس کو ہرگز چاہت نہ تھی کہ وہ حجام وہیں گھومتا پھرے ۔ ۔ ۔ جب وہ میک اپ کرنے والی لڑکی کے ساتھ تنہا تھا تو لڑکی کو ایک سٹار کی موجودگی میں حوصلہ افزائی کی کچھ خاص ضرورت نہ تھی ۔ وہ اس پر لد گئی اور اس کے بالوں کی ایک لٹ کو اس کے کان پر سنوارنے کے بہانے اس کے سر پر منڈلانے لگی ۔ وہ ہنسی اور پوچھنے لگی کہ وہ اسے پریشان تو نہیں کر رہی ۔ اسی لمحے دروازہ کھلا اور فلم کی ہیروئن اندر داخل ہوئی ، وہ خوبصورت اور دلکش تو تھی ہی لیکن حساس بھی تھی ۔ اس کی آنکھوں میں آنسوبھر آئے ۔ ” تاکِس! مجھے تم سے یہ توقع نہیں تھی ۔ تم نے میرے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔“ ، تاکِس نے اسے ٹھنڈا کرنے کی بھرپور کوشش کی ۔
اگلی صبح جب وہ جاگا تو نہ صرف اس کا دل ٹوٹا ہوا تھا بلکہ حجام کی دکان پر جانا ایک انتہائی بھاری کام لگ رہا تھا ۔ وہ اس بات پر اجڑا اجڑا محسوس کر رہا تھا کہ اس نے اپنی محبوبہ کو بلا وجہ ناراض کر دیاتھا ۔ وہ گھر سے کام کے لئے نکلا لیکن راستے میں ہی مایوسی اسے کھا گئی ۔ بالآخر جب وہ حجام کی دکان پر پہنچا تو اس نے خود کو اس قابل نہ پایا کہ اندر جا سکے ۔ یہ ممکن نہیں ۔ اُس کا اس جگہ سے کیا تعلق ۔ لیکن اس کے پاس اتنے پیسے نہ تھے کہ وہ ادھر ادھر گھوم سکے اور کوئی گیم کھیل سکے ۔ وہ گھر واپس گیا اور اپنی ماں ، جو حجام کے خاندان کی دوست تھی ، سے کہا کہ وہ حجام کو فون کرکے کہہ دے کہ اسے بخار ہے اور وہ بستر سے باہر نکلنے کے قابل نہیں ۔ اس کی ماں کو سمجھ نہ آیا کہ اسے ہوا کیا ہے اور اس نے پوچھا بھی نہیں ۔ اسے صرف اتنا پتہ تھا کہ بندے کو اپنے روزگار سے کھلواڑ نہیں کرنی چاہیے ۔ اس نے اسے نصیحت کی اور کام پر جانے کے لئے کہا ، لیکن آخر اس نے مسٹر ویلسیلس کو فون کر دیا ، بہانہ بنایا اور اپنے بیٹے سے یہ قسم لی کہ وہ اگلے روز کام پر جائے گا ۔
جب ، پھر سے ، رات پڑی ، تاکِس خوفزدہ ہوا کہ اسے نیند آئے گی اور اس کی اذیت پھر سے شروع ہو جائے گی ۔ وہ بیٹھا رہا اور دیوار کو گھورتا رہا ۔ وہ اسے دیکھتا رہا اور اس حد تک اسے گھورا جیسے پاگل ہو گیا ہو اور اُس سے جنگ کی حالت میں ہو۔ اس نے وہ ، جو موجود تھا اور وہ بھی جوموجود نہیں تھا سب دیکھ ڈالا ، یہاں تک کہ ٹی وی پر رات دیر گئے چلنے والے اشتہارات کو بھی باریکی سے دیکھا ۔ اس نے تہیہ کیا کہ وہ بیدار رہے گا ۔ اس کے دماغ پر ، البتہ ، وہی خواب ۔ ۔ ۔ ہالی ووڈ ، لڑکی ۔ ۔ ۔ سوار تھی ۔ ایک لمحے کے لئے اس نے خود پر لحاف تانا لیکن اگلے ہی لمحے اسے اتار پھینکا ۔ اس نے ریڈیو لگایا تاکہ موسیقی سن سکے لیکن وہ اچھی نہ تھی ۔ خواب ہی اس کے دماغ کے ساتھ چمٹا رہا ۔
وہ کہتے ہیں نا کہ ایک دفعہ ایک سپاہی تھا جس نے خود کو مار ڈالا تھا ۔ اس نے خواب میں دیکھا تھا کہ وہ اپنی سابقہ محبوبہ کے ساتھ ساحل سمندر پر ٹہل رہا ہے ۔ جب وہ جاگا اور اس نے اپنے جنگی بوٹوں پر نظر ڈالی تو اسے اندازہ ہوا کہ وہ کہاں تھا ۔ اس نے رونا شروع کر دیا اور اپنی بندوق کی نالی منہ میں رکھی اور اس کا گھوڑا دبا دیا ۔ یوں اس بیچارے کے ، واحد امید بھرے خواب پر بندوق حاوی ہو گئی تھی ۔ تاکِس نے ، چنانچہ ، گھر سے نکل بھاگنے کی ٹھانی تاکہ نیند کے قابو میں نہ آ سکے ۔
اس نے دروازہ کھولا اور چہل قدمی کے لئے قدم باہر رکھا ۔ جب اس نے باہر لوگوں کو دیکھا تو وہ سب اچھے لباس میں ملبوس تھے اور ان کے چہرے مسکراہٹوں سے کھِلے ہوئے تھے ۔ اسے یاد آیا کہ ساری دنیا کے لئے یہ جمعہ کی شب تھی ۔ اس نے’ مارنی سٹریٹ ‘ سے ’میٹا کسورگیو‘ کی طرف پہاڑی سے اترنا شروع کیا ۔ اور نیچے اس نے’ واتھی‘ چوک میں ’ سوولاکی‘ کی دکان دیکھی جس سے وہ اچھی طرح واقف تھا ۔ وہاں کچھ ایسا ہو رہا تھا جو اس نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا ؛ انہوں نے وہاں ایک ’ کی بورڈ ‘ اور دو سپیکر لگا رکھے تھے ۔ ایک لڑکا ’ لیمے‘ قمیض میں ملبوس وہاں کھڑا ہجوم کے سامنے گا رہا تھا ۔ ۔ ۔ ایسا لگتا تھا جیسے یہ ایک چلتا پھرتا ’ نائٹ کلب ‘ تھا ۔ تاکِس کیرولوس سٹریٹ کی طرف مڑ گیا اور ایک مصری ریستوراں یا شاید کیفے ۔ ۔ ۔ یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس وقت وہاں بیلے ڈانس والا تیز میوزک بج رہا تھا اور ہر کوئی میزوں پر چڑھے رقص میں مصروف تھے۔ ۔ ۔ کے پاس سے گزرا ۔ یہ ان پارٹیوں میں سے ایک تھی جس میں کوئی بھی کرسیوں پر نچلا نہیں بیٹھتا جیسے ایسے بیٹھنے پر پابندی ہو ۔ ” اگر آپ غریب ہو تو اسی غربت کے ساتھ رہنا پڑتا ہے ۔“ ، تاکِس کو خیال آیا ۔ وہ اپنے راستے پر چلتا رہا ۔ اس کی یہ چہل قدمی اپنی ذات کو جاننے کا سفر تھا ، کچھ ایسا جیسے کسی نے اسے ترتیب دیا ہو ۔ کسی نے اسے ان لوگوں کی طرف دھکیل دیا تھا تاکہ وہ اور بھڑک اٹھے ۔ اسے یاد آیا کہ کبھی اس نے اخبار میں پڑھا تھا کہ مصر میں خودکشی کرنے کا رجحان بہت کم ہے اور اس کے ایک دوست نے ، جو وہاں سے ہو کر آیا تھا ، نے اسے بتایا تھا کہ وہاں بچے رات کے گیارہ بجے بھی گلیوں میں فٹ بال کھیلتے ہیں ۔ ” یہ سب جہنم میں جائیں ۔۔۔اور ان بچوں کو بھی ساتھ لے جائیں جو رات گیارہ بجے گلیوں میں فٹ بال کھیلتے ہیں ۔ “ ، تاکِس نے خود سے کہا ۔ ” اگر آپ غریب ہو تو آپ کو اپنے مصائب سے باہر نکالنا ہو گا ! “
وہ چلتا رہا اور ایک ہوٹل کے پاس سے گزرا ۔ یہ’ کاریسکا‘ کی چوک میں ہوٹل’ اینڈرومیڈا ‘ تھا جس میں شادی کی جیسی کوئی تقریب تھی ۔ ایک کمرہ مشرقی یورپی چہروں والے لوگوں سے بھرا تھا ۔ ان کے کرخت چہرے پر جوش تھے اور انہوں نے پرانے فیشن کے سوٹ اور سستے کپڑوں سے بنے بھڑکیلے گاﺅن پہن رکھے تھے ۔ وہ ’ ٹینگورقص‘ ناچ رہے تھے ۔ ” یہ سب کیوں ناچ رہے ہیں ؟ “۔ ۔ ۔” کیا ان کو زندگی سچ میں اچھی لگتی ہے ؟ ۔ ۔ ۔ پھر بھی اتنی شادمانی کیوں؟ ۔ ۔ ۔ اگر میں اس قسم کی پستی میں رہوں جس میں یہ لوگ رہتے ہیں تو میں تو خودکشی کر لوں ۔ ۔ ۔ ۔ میرے جوتوں میں سوراخ ہیں اور آپ مجھے میزوں پر ناچتے ہوئے بھی نہیں دیکھ رہے ۔ ۔ ۔ میں تو بجانے والوں کو ’ سوولاکی‘ کھانے کی دعوت بھی نہیں دے سکتا اور ایسی عورتوں سے شادی بھی نہیں کر سکتا جن کے دانت خراب ہیں ۔ “
گندگی اور غلاضت میں موجود ان ساری خوشیوں نے تاکِس کا دماغ آپے سے باہر کر دیا ۔ اسے ان سے ، ان کے ملکوں سے اور ۔ ۔ ۔ اورسب سے نفرت محسوس ہوئی ۔
وہ ساری رات چلتا رہا اور ( خوش قسمی) سے جب گھر واپس پہنچا وہ اتنا تھک چکا تھا کہ وہ سو نہ سکا ۔ اس کی ماں بھی اس کے انتظار میں ساری رات جاگتی رہی لیکن جب اس نے گھر میں اسے داخل ہوتے دیکھا تو وہ کچھ نہ بولی ۔ اسے دیکھ کر اسے اطمینان ہوا اور وہ انتظار کرنے لگی کہ وہ کب بستر پر جا کر سوتا ہے اور یہ کہ سب ٹھیک ٹھاک ہے ۔ اس نے میز پر کھانا لگا کر اسے کپڑے سے ڈھانپ رکھا تھا تاکہ اگر تاکِس کو بھوک لگی ہو تو وہ اسے کھا سکے لیکن تاکِس نے اسے ہاتھ تک نہ لگایا ۔
صبح سات بجے کے قریب اس نے کپڑے بدلے اور حجام کی دکان پر چلا گیا ۔ پرانے دن لوٹ آئے تھے جب اس نے یہ محسوس نہیں کیا تھا ،” کام کرنے کو جی نہیں“ یا کام پر جانے کو دل نہ چاہتا ؟ اس روز وہ ڈھہ چکا تھا ۔ مسٹر ویلسیلس نے اسے دیکھا اور اس کے پاس سے گزرا ۔ تاکِس کی حالت پتلی تھی ۔ ” تاکِس ، میرے بچے “ ، وہ بولا ، ” تم ایسی حالت میں نہیں ہو کہ کام کر سکو ۔ گھر جاﺅ ، شیو کرو ، نہاﺅ ، آرام کرو اور کل کام پر واپس آنا ۔ “
لیکن تاکِس کو کچھ سمجھ نہ آیا کہ مسٹر ویلسیلس نے کیا کہا تھا ۔ اس نے سنا ہی نہ تھا ، وہ بولا بھی نہیں اور اسے پرواہ بھی نہ تھی ۔ اگر مسٹر ویلسیلس مر جاتے اور حجام کی دکان بند ہو جاتی تو وہ تین دن میں یہ سب بھول جاتا ۔ اس نوکری کا مقصد کیا تھا ؟ تاکِس نے سوچا ، جس کا دماغ اب واضح طور پر بھٹک گیا تھا ۔ وہ ایکسرشیا ، جہاں حجام کی دکان تھی ، سے باہر نکلا اور’ کلوناکی‘ کی طرف بڑھنے لگا ۔ وہ چوک کی طرف گیا لیکن کہیں بیٹھا نہیں ۔ اسے لگا جیسے وہ ایک بدیسی ہو ۔ وہ کچھ دیر کافی خانوں کی ان کرسیوں کے ارد گرد گھومتا رہا جو گلیوں میں بنی فٹ پاتھوں پربچھی تھیں اور گھر واپس چلا گیا ۔
وہاں اس نے پھر سے ٹی وی چلایا اور ایک فضول سا پروگرام لگا لیا ، کچھ ایسا جس میں’ لسٹ ۔ ڈی‘ کے نامور لوگوں کے انٹرویو کئے جاتے لیکن وہ اپنے اندر کی گہرائیوں میں خود کو ’ ایکسرشیا کا لیونارڈو ڈی کیپریو‘ سمجھ رہا تھا اور اس کے لئے یہ کچرا پروگرام ناقابل برداشت ہو گیا ۔ اور جب شام پھر سے ڈھلی تو اس کے جگ راتے کی تیسری رات سامنے تھی اور اس کے دماغ نے اس کے ساتھ عجیب سی شعبدہ بازی شروع کر دی ۔ اسے نیند کی کوئی خواہش نہیں تھی ۔ وہ غسل خانے میں گیا ، منہ پر پانی کے چھینٹے مارے ، کمرے میں واپس آیا اور بتیاں جلا کر بیٹھ گیا ۔ کسی نے اسے یہ نہ بتایا تھا کہ اس طرح کرنے سے حالت اور خراب ہو جاتی ہے ۔ وہ جو کچھ خواب میں نہیں دیکھنا چاہتا تھا اب فریب نظر میں بدل گیا جو جاگتے میں اس کے لئے ڈراﺅنا خواب بن گیا تھا۔
اسے ایسا لگا جیسے اس نے حجام کی دکان کا دروازہ کھولا ہو اور اندر لیونارڈو ڈی کیپریو موجود ہو ۔ تاکِس نے اسے دیکھا اور لیونارڈو نے امریکی زبان میں قسمیں کھانا شروع کر دیں ۔ اسی فریب ِنظر ی میں اسے عجیب انگریزی کے کچھ الفاظ یاد رہے جو ہمیں کبھی معلوم نہ ہوں گے ۔ بہرحال لیونارڈونے اسے برا بھلا بھی کہا ۔ ۔ ۔ ” بیوقوف ! ’جیک ایس‘ جو کبھی بھی وقت پر نہیں پہنچتا ! “
تاکِس نے اس کو حیرانی سے دیکھا ۔۔۔” لیونارڈو “، اس نے پوچھا ، ” آپ یہاں کیا کر رہے ہو ؟ “
”اس بات سے تمہارا کیا مطلب ہے؟ میں اپنا کام کر رہا ہوں اور تمہیں بھی اپنا کام کرنا چاہیے ۔ “
” فلموں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ “ ، اس نے پوچھا ۔
لیونارڈو کچھ نہ بولا ، تاکِس نے سیدھے آگے دیکھا اور اپنے سامنے بیٹھی زرد رنگت والی خاموش لڑکی کے بال مختصر کرنے لگ ۔ پھر اس نے لڑکی کا سر آہستہ آہستہ اور آرام سے شیو کیا اور پھر اس میں ہاتھ یوں گھبوئے جیسے وہ اس کی مُنڈھی اتارنا چاہتا ہو ۔ لڑکی نے کوئی احتجاج نہ کیا ۔ بیچارے تاکِس کا رنگ سفید ہو گیا کیونکہ اسے احساس ہی نہ تھا کہ خوابوں میں ایسا ہی کچھ ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ یہ ایسی سر زمین ہوتی ہے جہاں 1 + 1 5 = ہوتے ہیں اور جہاں کتے مِلٹن کے شعر پڑھتے ہیں ۔
اس نے اپنا سر جھٹکا تاکہ حجام کی دکان کے عکس ذہن سے نکال سکے ۔ وہ بستر پر بیٹھا رہا جبکہ کمرے میں بتیاں جلتی رہیں ۔ اس کا دل ڈوبنے لگا ، اس کا سارا جسم درد کر رہا تھا ، اسے لگا جیسے اس کی حسیات زیادہ حساس ہو گئی ہوں ۔ جگ راتے کا ہر دن اس کے جسم پر اتنا بھاری گزرتا جیسے ایک دہائی گزرتی ہو۔ وہ سارا دن گھر پر رہا اور دوپہر کے بعد کسی وقت وہ پھر فریب نظری کا شکار ہوا ۔ اسے لگا کہ وہ ایسی دعوتوں میں سے ایک دعوت میں ہے جہاں اینی ہیتھ اوے ، جسے وہ پسند کرتا تھا ، بھی مہمان ہوتی ہے۔ وہ جلد ہی یہ احساس کر لیتا ہے کہ وہ حجام کی دکان والا ایپرن پہنے ہی پارٹی میں آ گیا ہے اور اچانک سارے لوگ اسے دیکھنا اور اس پر ہنسنا شروع کر دیتے ہیں ۔ اس کے پیروں کے پاس بالوں کا ڈھیر پڑا ہے اور وہ ہاتھ میں قینچی پکڑے، چِلاتے ہوئے لوگوں کے پیچھے بھاگ رہا ہے جبکہ وہ اس سے دور بھاگ رہے ہیں ۔
اس نے گھبراہٹ اور انتہائی تکلیف میں ہانپتے ہوئے اپنی آنکھیں کھولیں اور جاگنے کی کوشش کی ۔ اس بات کو سمجھے بغیر کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا تھا ، اس نے زار و قطار رونا شروع کر دیا ۔ یہ اداسی کے آنسو نہیں تھے بلکہ مایوسی کی وجہ سے اس کی آنکھوں سے پھوٹ رہے تھے ۔ اُس لمحے اس کی ماں کمرے میں داخل ہوئی اور اس نے پوچھا کہ اسے کیا ہوا ۔ تاکِس نے اسے نہ پہچانا اور کچھ ایسا بھی کیا جو ناقابل فہم تھا ۔ وہ چیختا رہا اور اس طرح کی اداکاری کرتا رہا جیسے اس نے قینچی ہاتھ میں پکڑی ہو ۔ وہ انگریزی بول رہا تھا اور اس نے اپنا رونا جاری رکھا ۔ اس کی ماں سنتی رہی اور اس کے بال پیار سے یوں سہلاتی رہی جیسے وہ اس وقت کیا کرتی تھی جب وہ بچہ تھا ۔ وہ خاموش رہی اور کچھ نہ بولی کیونکہ اسے معلوم ہی نہ تھا کہ کیا کہے ۔ ہاں اسے یہ ضرور معلوم تھا کہ اسے کیا کرنا تھا ۔ وہ اس کا ہاتھ تھامے اس وقت تک منتظر رہی جب تک وہ پرسکون نہ ہو گیا اور اس کی نظر فریبی ختم نہ ہو گئی ۔
اس نے، بعد ازاں ، تاکِس کے لئے دودھ گرم کیا ، اسے پلایا ، اسے بستر میں لٹا دیا اور اسے یقین دلایا کہ اگلے روز جب وہ کام پر جائے گا تو سب کچھ ویسا ہی ہو گا جیسا کہ پہلے تھا اور اسے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ۔ اس نے ایک بار پھر اس کے بال سہلائے جیسے وہ ایک ننھا بچہ ہو ۔ اسے چپ کرایا اور نرمی سے لحاف اوڑھا دیا ۔ تاکِس اس کے کچھ ہی دیر بعد سو گیا ۔ اورجب اس کی ماں نے احتیاط اور نرمی سے اس کا سر تکیے پر رکھا اور اس نے اسے ایک بار اور اچھی طرح یوں ڈھانپا کہ اس میں حجام کی دکان بھی لپٹ گئی ۔ ۔ ۔ وہ دکان جو اس کے لئے زندان بھی تھی اور موت بھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایکسرشیا= Exarcheia ، ایتھنز کے قدیمی شہر کا ایک حصہ ۔ یہ یونانی انارکِسٹوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے ۔ یہ علاقہ بائیں بازو ، فاشزم مخالف لوگوں اور مہاجروں کی آماجگاہ بھی ہے ۔ یہیں نیشنل ٹیکنیکل یونیورسٹی آف ایتھنز بھی ہے جس کے ساتھ 17 دسمبر 1973 ء کا وہ قتلام بھی جڑا ہے جب یونانی فوج نے اس پر دھاوا بولا اور لگ بھگ پچاس شہری ہلاک کر دئیے تھے ۔ یوں عوامی تحریک چلی تھی جس کے بعد یونیورسٹی کے کئی علاقے پولیس اور فوج کی دسترس سے باہر کر دئیے گئے تھے ۔ اسی طرح 2008 ء میں بھی ایک پندرہ سالہ نوجوان پولیس کے ہاتھوں مارا گیا اور فسادات ہوئے ۔ اس علاقے میں بندہ سرمایہ داری کے خلاف بنائی ہوئی بے شمار ’ گرافٹی‘ بھی دیکھ سکتا ہے ۔ یہ علاقہ ’ فنون لطیفہ ‘ کا مرکز بھی ہے جہاں تھیئٹر اور موسیقی کی محفلیں بھی سجتی ہیں ۔
’ لیمے‘ = Lamé، سنہرا یا چاندی رنگا بھڑکیلا لباس
سوولاکی = Souvlaki ، یونانی فاسٹ فوڈ
مندرجہ بالا کہانی مصنف کی کتاب ’ Thermostat‘ کی پہلی کہانی ہے ۔ اس کتاب میں کل تیرہ کہانیاں ہیں جو’ یونانی بحران ‘ کے عرصے میں لکھی گئیں ۔ یونان کا یہ بحران 2008 ۔ 2009 کا وہ معاشی بحران تھا جس کی وجہ سے وہاں افلاس پھیلا ، آمدن میں انتہائی کمی پیدا ہوئی اور وہاں جائیداد کی قیمتیں زمین بوس ہو گئی تھیں ۔ اس بحران نے انسانی بنیادوں پر بھی یونانی معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا اور وہاں کے لوگ ایک ایسی نفسیاتی کیفیت کا شکار ہو گئے جس کے اظہار مختلف شکلوں میں ہوئے اور ان کی زندگی ڈیڑھ مربع میٹر کے رقبے میں سمٹ کر رہ گئی ۔ یونانی معاشرے پر اس معاشی بحران کے اثرات ابھی بھی موجود ہیں ۔ مصنف نے اپنی ان تیرہ کہانیوں میں اسی بحران کو پس منظر میں رکھتے ہوئے ایسی ہی انسانی کیفیات کو ان کہانیوں کا موضوع بنایا ہے ۔ مندرجہ بالا کہانی بھی ڈیڑھ مربع میٹر کے رقبے میں سمٹی زندگی کی ایک کہانی ہے ۔
کونسٹینٹینوس پولس ( Konstantinos Poulis) ،1973 ء میں ایتھنز میں پیدا ہوا ۔ اس نے یونانی ڈرامہ میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے ۔ وہ ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ اچھا مترجم ، صحافی اور براڈ کاسٹر بھی ہے ۔ اس کی شائع شدہ کتابوں میں آسکر وائلڈ کی ویرا کا یونانی ترجمہ ، سیاسی مضامین کا مجموعہ ’ Tax the Rag pickers ‘ اور کہانیوں کا مجموعہ ’ Thermostat‘ شائع شدہ 2014 ء شامل ہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔