فینش افسانہ
جھیل ( Järvi , 1915 )
( The Lake )
فرانز ایمل سِلانپا ( Frans Emil Sillanpää) ، نوبل انعام یافتہ ۱۹۳۹ء
میں دنیا بھر میں گھومتا ہوں اس لئے نہیں کہ مجھے مہم جوئی کی تمنا ہے بلکہ اس لئے کہ میری زندگی ہی کچھ ایسی ہی ہے ۔ میری ان آوارہ گردیوں میں سے سب سے بہترین وہ ہیں جو دُور دَراز مقامات اور ایسے علاقوں کی ہیں جہاں پہلے کوئی نہ گیا اور جہاں زندگی میں کوئی رنگینی نہیں ہے اور وہاں یہ بہت ہی دھیرے سے چلتی رہتی ہے ۔ ایسی جگہوں میں مجھے اپنے ماضی کی یاد کو اس کارن پش پُشت نہیں ڈالنا پڑتا کہ زندگی بہت زیادہ مصروف ہے ؛ میرے دن یہاں موسم در موسم ہی گزرتے ہیں اور میں وہاں کے باسیوں کے درمیان ایک غیر اہم اور معمولی بندہ ہوتا ہوں ۔ وقت کے طویل عرصوں تک میری زندگی نہ تو روشن ہوتی ہے اور نہ ہی اکتانے والی ؛ میں اس کے انتہائی خالی پن سے ایک خاص قسم کی تسکین حاصل کرتا ہوں ۔ یہ کچھ ایسا ہے جیسے میں درجہ بدرجہ ، اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کسی قسم کا ادھار چکا رہا ہوں ۔
میں، لیکن ، وقتاً فوقتاً واپس پلٹ جاتا ہوں ، یہ کچھ ایسا ہے کہ میں اسے روک نہیں پاتا ۔ میں ایک سفر ، شاید لمبے سفر پر نکلتا ہوں ، جس میں صاف ستھری اور بے داغ قدرت کے علاوہ میرا کوئی ہمنوا نہیں ہوتا ۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ ماضی مجھ پر حاوی ہو جاتا ہے اور میں ایک جھیل کو اپنے سامنے پاتا ہوں جو قدرتی نظارے کی ایک عمدہ تاثراتی آنکھ ہے ۔ ایسا بہت پہلے کبھی ہوا تھا ۔ ناسٹلجیا کی لہر مجھے یوں بہا کر لے جاتی ہے جیسے بندہ اعتماد اور فاتح کی طرح کسی مانوس گناہ کی طرف لوٹتا ہے ۔ میں جان بوجھ کر اسے راستہ دیتا ہوں اور اس جانکاری پر خوش ہوں کہ میں ایک بار پھر کمزور پڑ رہا ہوں ۔ اور یہ کہ وہاں مجھے دیکھنے والا کوئی نہیں ہے ۔ جھیل اس سارے عمل میں حصہ نہیں لیتی اور میری ٹکٹکی بندھی نظر کو طمانت سے لوٹا دیتی ہے ۔ یہ جھیل کا قصور نہیں ہے ۔ اور شاید میرا بھی نہیں ؛ جو ہمیشہ یہ طے کر لیتا ہے کہ کس کو کس کے لئے قصوروار ٹہرانا ہے ؟ پھر بھی ، جھیل اور مجھ میں بہت سی یادیں مشترک ہیں ؛ اور ہماری یہ دُو بدُو ملاقاتیں کبھی بھی اہمیت سے خالی نہیں ہوتیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اب جبکہ مجھ پر جذبات کا حملہ ختم ہو چکا ہے اور میں ، چاہے تھوڑی دیر کے لئے ہی سہی ، ماضی پرایک بار پھر ، اس کے شاندار ہونے سے الگ رکھتے ہوئے ایک آزاد نکتہ نظر سے غور کر سکتا ہوں ۔ ۔ ۔ یہی کارن ہے کہ میں آپ کو وہ بتانے جا رہا ہوں جو مجھے اس جھیل کے بارے میں معلوم ہے ۔
یہ جھیل نظارے کی آنکھ ہے ، یہ آپ کو ایسی ہی نظر آتی ہے ۔ ایک ایسا نظارہ جس میں جھیل نہ ہو ، یقیناً ، ایک اور طرح کا اور اپنی ہی نوعیت کا تاثر دیتا ہے ۔ جب آپ کسی سوئے بندے کے چہرے کا مطالعہ کر رہے ہوتے ہیں تو یہ کئی طرح کی جانکاری دیتا ہے ؛ آپ اسے جانے بغیر اس کی روح کی پڑتال کر سکتے ہیں ۔ لیکن جیسے ہی وہ آنکھیں کھولتا ہے ، ہم بسا اوقات اپنی روح کو اس کی روح سے نتھی پاتے ہیں ۔ جب میں کسی سے محبت کرتا ہوں ، تو یہ اس بندے کی آنکھیں ہی ہوتی ہیں جن کے بارے میں ، میں سب سے زیادہ غور کرتا ہوں ؛ اور جب میں کسی نظارے کو پسند کرتا ہوں ، ایک ایسا نظارا ،جسے میں نے اپنے کئی رازوں کا امین بنایا ہوتا ہے تو میرے ذہن میں ایک جھیل کا تصور ہی ابھرتا ہے جو اتھاہ گہرے غم اورتلخ اذیتیں ، کسی بھی دیکھنے والے پر آشکار نہیں ہونے دیتی بلکہ یہ آنسوﺅں کی شکل میں درختوں کو خراج دیتی ہیں جن کا شاہانہ انداز میں ساکت رہنا ایسا ہی ہے جیسے خدا ٹکٹکی باندھے دنیا کو دیکھتا ہے ۔ لیکن زیادہ ہم آہنگ تناﺅ ، چاہے روح کا گیت المیہ ہو یا طربیہ ، جھیل کی متحرک سطح ہی ہمیشہ اس کا بہترین صدائی تختہ ہوتا ہے ۔ جھیل ایک ہمدرد دوست کی مانند ہے ۔ یہ اکیلی نہیں ہے اور نہ ہی درختوں کی طرح سخت گیر ، بلکہ یہ تو ہمیشہ بوڑھی بھی ہے یا جوان ، ویسے ہی جیسے اس کا احساس کرنے والا ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ایک مثالی ہمزار ہے ۔ کسی وقت یہ میری دماغی کیفیت کو سکون کے ساتھ پلکیں جھپکائے بنا ٹکٹکی باندھے انداز میں بیان کرتی ہے لیکن اکثر یہ چھوٹی موجوں کو مدہم سرگوشی کی شکل دیتی ہے جبکہ بسا اوقات اس کی لہریں ایک دوسرے کو یوں کاٹتی ہیں کہ لگتا ہے کہ اونچی اور صاف آواز میں گیت گا کر اس کا اظہار کر رہی ہوں ۔ مجھے خود کو صرف ایک لفظ ، جھیل ، ہی کہنا پڑتا ہے اور یہ میرے ذہن میں ایک زندہ شے کی طرح ، اپنی روح کے ساتھ آ موجود ہوتی ہے ؛ زندہ شے ، جس سے میں آٹھ برس کی عمر میں شناسا ہوا تھا ۔ جس کے بعد یہ ساری زندگی ، میری آنکھوں اور روح کے لئے دفادار دوست رہی ہے اور اس نے ایک وفادار کامریڈ کی طرح میری کئی مہمات میں ، میرا ساتھ دیا ہے ۔ ۔ ۔ پھر ایک دن اس نے سرد مہری سے منہ پھیرا اوریہ کسی اور طرف دیکھنے لگی ۔
میں جس گھر میں پیدا ہوا تھا وہاں سے جھیل کسی طور بھی نظر نہیں آتی تھی ۔ یہ البتہ ایک رعب دار گھاٹی کے گہرے کٹاﺅ میں موجود تھی جہاں سے چار میٹر چوڑی ایک ندی بہتی تھی ۔ اس کے پرلی طرف کی کھڑی ڈھلوان چیڑ کے گھنے درختوں سے لدی ہوئی تھی ، لیکن ندی ہمارے علاقے میں چھوٹے قد کے صنوبروں میں سے ایسے بہتی تھی جیسے باڑ کے نیچے سے چھپ چھپا کر گزر رہی ہو ۔ پھر یہ جنگلی شاہ دانوں اور بید کے الجھے جھاڑ جھنکاڑ میں ننھی ننھی آبشاریں بناتی چھینٹیں اڑاتی آگے بڑھتی ۔ اگر بندہ پُل پر کھڑے ہو کر اس جانب دیکھے تو اسے وہاں ایک پن چکی کی چھت نظر آتی اور ساتھ میں اس طرف جاتی پانی کی نالی بھی ، جن کے پیچھے وہ مرغزار کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بھی محسوس کر سکتا تھا ۔ اسے ، ایک درز سے ، دور کی دنیا کی جھلک بھی نظر آتی اور دور جنگل پر آسمان اور زمین کا میل بھی دکھائی دیتا ۔
دور نظر آتا یہ افق مجھے بہت لبھاتا اور میں ، اپنے اندر ایک عجیب کیفیت پاتا جیسے اس کی جانب کھنچا جا رہا ہوں ۔ ندی کے بھنور بھی اسی طرف بھاگتے دکھائی دیتے اور ایسے لگتا جیسے وہ آپس میں باتیں کر رہے ہوں کہ وہی ان کی منزل مقصود تھی ۔ وہ ایک دوسرے کے پیچھے ایک قدرتی خواہش کے دباﺅ تلے یوں تیزی سے بڑھتے چلے جاتے جیسے ایسا کرنا ہی ان کا کرتبے ہو ۔ میں تنہا لڑکا ، کوئی دھن گنگناتا ، کہیں جانے کی تڑپ لئے کنارے پر بیٹھا رہتا ؛ کہاں جانا تھا ، یہ مجھے معلوم نہ تھا ۔ دور کا جنگل مجھے آواز دیتا جیسے وہ ندی کو بھی اپنی اوّر بلاتا ہو ؛ ندی تو اس کے بلاوے کا جواب دیتی لیکن میں وہیں ، اپنی جگہ ہی بیٹھا رہتا ۔ میں انہی احساسات میں جکڑا ، نوجوانوں کی ان ٹولیوں کے بارے میں سوچتا جو اتوار کی شاموں کو ، زور زور سے گاتے ، ہمارے گھر کے پاس سے گزرتے تاکہ اپنے دوستوں سے جا ملیں ۔ انہوں نے چوڑے چھجے والے ہیٹ پہن رکھے ہوتے اوران کی گھڑیوں کی زنجیریں چمک رہی ہوتیں ۔ میرے لوگ انہیں پسند نہیں کرتے تھے لیکن وہ اپنی دنیائیں پیچھے چھوڑ اس دور کے جنگل کی طرف بڑھتے جاتے جس کی طرف ندی بھی بھاگتی جا رہی ہوتی ۔
میرے تخیل میں یہ ایک خوشی بھری اور مدہوش کر دینے والی جگہ تھی ۔ اپنے گھر سے بالکل مختلف ، جہاں میں صرف دو طرح کی زندگیوں سے واقف تھا ؛ وہاں بوڑھے تھے جو ٹھنڈے سانس لیتے پگڈنڈیوں پر چلتے تھے اور جہاں بچوں کو ڈانٹ پڑا کرتی تھی ۔ کبھی کبھی میں ’ ناچتی ‘ ، ’ جھیل ‘ جیسے عجیب الفاظ بھی سنتا جن کا مطلب مجھے معلوم نہ تھا ۔ لیکن مجھے اتنا ضرور معلوم تھا کہ ان کا تعلق اِن گیت گاتے آدمیوں اور دور کے اس نظارے سے ضرور تھا ۔ میں خود میں یہ الفاظ بھی گنگناتا ۔ ۔ ۔ ۔ ’ ناچنا ، ناچنا ۔ جھیل کے کنارے ناچنا ۔“ اور مجھ میں جوش و جذبے کی ایک لہر دوڑ جاتی ۔
میں جب تک زندہ رہوں گا تب تک وہ دن نہیں بُھلا پاﺅں گا جب میں نے جھیل کو دیکھا اورمیں پہلی بار ناچا تھا ۔
یہ گرمیوں کے اوائل میں ایک اتوار کی دوپہر تھی ۔ میں لکڑی کی باڑ والے احاطے میں سفید پھولوں کے درمیان کھیل رہا تھا کہ میں نے برچ کے درختوں کے درمیان سے دو آدمیوں کو پگڈنڈی پر جاتے دیکھا ۔ ان کے کندھوں پر کفگیری جال تھے ۔ میں کھڑا انہیں دیکھتا رہا ۔ تب ان میں سے ایک نے ( مجھے یاد ہے کہ اس کی آواز محبت بھری تھی ) کہا تھا ، ” ایمل ، ہمارے ساتھ آﺅ اور کچھ مچھلیاں پکڑو ۔ ۔ ۔ چلیں ؟ “ ۔ وہ رکے نہیں تھے اور میں اپنے تذبذب کے ساتھ اکیلا رہ گیا تھا ؛ میں اب وہاں جا سکتا تھا ، میں اب وہ سب دیکھ سکتا تھا ! لیکن میرے گھر کی طرف سے آنے والی ہوائیں زیادہ خطرہ لئے ہوئے تھیں ؛ میرے ماں باپ وہاں تھے اور شام بھی قریب ہی تھی ۔ ۔ ۔ یہی سوچتا میں کچھ دور تک ان آدمیوں کے پیچھے چلتا رہا اور اس بات سے کانپ رہا تھا کہ نتیجہ کیا نکلے گا ۔ گھر میرے پیچھے تھا ۔ میں غلطی تو کر چکا تھا ، اب اس سے گزر جانے میں کیا ہرج تھا ؟ جنگل کا گھنا پن ختم ہوا اور اِکا دُکا درخت ہی رہ گئے ، منظر میں ایک کاٹیج سامنے آیا اور پھر اس کے پیچھے ایک اور، یہ لال رنگ کا تھا ۔ گھر کا خیال ماضی میں سکڑ کر مدہم ہوتا ہواغائب ہو گیا ۔ انہیں کیا معلوم کہ میں کیا دیکھ سکتا تھا ۔اور وہ وہاں تھی ۔
صاف ، شفاف نیلی جھیل نے مجھے بے خود کر دیا ، ایسی بے خودی مجھ پر بعد میں ، دس سال بعد ، طاری ہوئی تھی جب میں نے پہلی بار ایک خاص لڑکی سے بات کی تھی ۔ اس وقت میں نے یہ سوچا بھی نہ تھا کہ یہ نیلا نیلا جوکچھ بھی تھا فقط پانی ہی تھا ؛ مجھے تو یہ اس وقت جنت کی سرزمین لگی تھی ، جس کے نزدیک میں گیا تھا ۔ میں ششدر رہ گیا اور میرا ملزم ضمیر خاموش تھا ۔ مجھے آسودگی و اطمینان پا کر واپس چلے جانا چاہیے تھا کہ وہاں جھیل تھی اور میں نے اسے دیکھ لیا تھا ؛ رازداری سے اور خود اپنی آنکھوں سے ، اور ایک آواز بھی تھی جو مجھے کہہ رہی تھی ، ' تمہارا لوٹ جانا ہی خوش قسمتی ہو گی ' ، لیکن ایک شدید خواہش نے مجھے تڑپا دیا کہ میں اس کے قریب جاﺅں اور اسے چھوﺅں ۔ ۔ ۔ مجھے پھر سے لگا کہ میں غلطی کرنے لگا تھا ، لیکن میں اس کے نزدیک چلا گیا ۔
اس سارے تجربے کا سب سے شانداراور اچھوتا حصہ ، جھیل کی پہلی جھلک تھی ۔ اس ساری شام میں نے ایک غیر معمولی مہم جوئی کا سامنا کیا تھا ؛ ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ میں اجازت کے بغیر گھر سے اتنی دور گیا تھا اور پانی کے کنارے تک پہنچا تھا ۔ میں نے وہاں لگے نرسلوں کی ، سر کو چڑھ جانے والی خوشبو سونگھی تھی ۔ میں نے ہلکی ، پھرتیلی ننھی لہروں کو بالکل پاس سے ، اپنے ہاتھ سے چھوا تھا اور ان کے ہلکے ہلکے تھپیڑے بھی سنے تھے جیسے وہ مجھے کہہ رہے ہوں ، ’ یہی تو اصل دُنیا ہے ۔‘ ۔ اور یہی نہیں ، کنارے کے ساتھ ساتھ دور تک پھیلا وسیع منظر جس میں جنگل کے پار جھیل کے دوسرے کنارے پربلند پہاڑ بھی تھے ۔ رات کی آمد نے شام کو گداز کر دیا تھا اور ہر شے ، کناروں پر لگے شاہ دانوں کے پودے ، چٹانوں پر ناچتے مرد اور عورتیں ، نزدیک اور دور سے نظر آتی روشن ، بھرپور اور یکساں انداز میں ٹکٹکی باندھے دیکھتی جھیل ، ایک دوسرے میں مدغم ہو گئی تھی ۔ میں چلتا ہوا اس جگہ پر پہنچا جہاں سے میں پانی میں دیکھ سکتا تھا ۔ میں کنارے پر جھکا اور پانی مجھ سے چند انچ کی دوری پر تھا ۔ وہاں جھیل اور میں دونوں اکیلے تھے ۔ تب اس نے سرگوشی کی ؛ ’ تم جلد ہی بڑے ہو جاﺅ گے اور اتوار کی شاموں کو تمہیں دور تک سیر کرنے سے کوئی بھی روک نہیں پائے گا اور تم شاید دوسرے کنارے پر بھی جا سکو گے جہاں شام کی مدہم روشنی میں ، تمہیں ایک نیچی چھت والا گھر نظر آ رہا ہے ۔ یہاں سے وہاں تک بس پانی ہی پانی ہے ۔ یہاں تم اسے چھو سکتے ہو لیکن وہاں یہ دور فاصلے پر ہے ۔
میری ماں غصے سے کانپتی آئی اور مجھے لوگوں میں سے باہر کھینچ لیا ۔ جھیل ، گرمیوں کی شام والی مدہم روشنی میں ، ہمارے پاس اپنی جگہ پرموجود تھی ۔ اور جب میں اپنی دھمکیاں دیتی اور ڈانٹتی ماں کے پیچھے جنگل میں تیز تیز چل رہا تھا تو میں نے مڑ کر دیکھا ، مجھے لگا کہ وہ یوں دیکھ رہی تھی جیسے شاکی ہو کہ میں اسے چھوڑ کر کیوں جا رہا تھا ۔ اچانک مجھے لگا جیسے میرا گھر نہ صرف دھندلا گیا تھا بلکہ چھوٹا بھی ہو گیا تھا ۔
جھیل اور میری ماں قدرت کی دو متضاد طاقتوں کی نمائندہ تھیں ۔
دس سال بعد ، یہی تجربہ میری یاد میں دوبارہ آیا لیکن اس بار میں پانی کے دوسرے کنارے پر تھا اور پچھلے کمرے کی کھڑکی کے سبزی مائل شیشے سے باہر جھانک رہا تھا ۔ میں ایک لڑکی کے ساتھ بیٹھا اور ہم چاند کی چاندنی کو دیکھ رہے تھے جوہمارے قریب پانی کی ہموار سطح پر پڑ تے ہوئے منعکس ہو رہی تھی ۔ ہم دونوں نے اس تجربے کا پہلی بار مزہ چکھا تھا اسی لئے ہمارے خیالات میں ایک خوش کُن ہم آہنگی تھی اور ہم نے یہ جان لیا تھا کہ ہم دونوں اب اُن سے مختلف تھے جو ایک اتوار پہلے ایک دوسرے سے شرمائے شرمائے ملے تھے ۔ بات چیت تو ہم اس وقت بھی نہیں کر رہے تھے ، آنکھوں سے بھی نہیں ، کیونکہ ہم دونوں جھیل کو تک رہے تھے ، خاص طور پر چاندنی کے روشن چاندی جیسے اس راستے کو ، جوتیزی سے نئی سے نئی کرنوں سے بنے چلے جا رہا تھا اور لگاتارہمیں مبارک باد رہا تھا ، ہم جو اِن باریک و متحرک کرنوں کو وصول کر رہے تھے ؛ وہ شاید یہ محسوس کر رہی تھیں کہ انہیں ہم دونوں کے حوالے سے یونہی جلدی جلدی جگمگ جگمگ کرنا تھا کہ کہیں مبارک باد میں تاخیر نہ ہو جائے ۔ اور تمام تر عمومیت کے ساتھ جیسے وقت ہر شے پر اثرڈالتا ہے ، کچھ لمحوں کے لئے ہی سہی ہم اپنی اصل کو دیکھنے اور ایک دوسرے کے اندر جھانکنے کے قابل تھے ۔ ۔ ۔
جھیل ایک پرانی شناسا ہونے کے ناطے ، اس سب کا حصہ تھی ۔ چونکہ وہ خود بھی اپنا خوشگوار لمحہ گزار رہی تھی اس لئے اسے ہم سے کوئی حسد یا رقابت نہیں تھی ۔ اس روشن چاندنی کے بہاﺅ اور جھیل کے کم روشن وسیع پھیلاﺅمیں وقت کا احساس ہی گم ہو چکا تھا ۔
اب میرے لئے یہی بتانا باقی رہ گیا ہے کہ جھیل نے ، میری پرانی شناسا ہونے کے حوالے سے کب مجھ سے منہ موڑا ۔ میں چاہتا ہوں کہ میں اسے کم سے کم الفاظ میں یہاں اختصار سے بیان کر دوں ۔
چند سالوں تک میں اپنی طاقت کے عروج پر تھا ؛ یہ وہ گرمیاں تھیں جب میں خود کو ہر شے کا مرکز گردانتا تھا ۔ مجھے نیکی اور بدی کا کچھ پتہ نہ تھا مجھے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ خوبصورتی اور بد صورتی کیا تھی ۔ میں اُس زندگی کا ہی شعور رکھتا تھا جو میرے اندر تھی اور توانائی سے بھرپور ہوتے ہوئے اُبلی پڑتی تھی ۔ اس زمانے میں ، میں جو کچھ کرتا ، اس سے جھیل کا تعلق کم ہی ہوتا ۔ مجھ پر اس چھوٹے کمرے کا سرور بھرا ماحول ہی چھایا ہوتا ۔ اور جب میں کشتی چلاتا دور جاتا تو میں یہ دیکھ ہی نہ پاتا کہ جھیل جاگ رہی تھی یا سو رہی تھی یا یہ کہ وہ کیا سوچتی تھی ۔ ان گرم دنوں میں ،میں جب بھی اسے دیکھتا تو وہ مجھے طاقت کا اظہار ہی لگتی ، جو اصل میں میری اپنی طاقت کا پرتو تھا ۔
لیکن یہ اگست کی ایک شام تھی ، چاند بادلوں میں چھپا ہوا تھا ، میں نے مانوس کھڑکی کے شیشے پر دستک دی ۔ مجھے پہلے بستر کے ساتھ رکھی گھڑی کی ٹک ٹک سنائی دی اور پھر میں نے لہروں کی تسلسل سے آتی سرسراہٹ کو سنا جو کچھ عجیب طریقے سے میرے پاس بہہ رہی تھیں ۔ میں نے دوبارہ دستک دی ، لیکن مجھے کوئی جواب نہ ملا ۔ ایسا دو بار پہلے بھی ہو چکا تھا لیکن اس بار میں دل ہار گیا ۔ جب میں نے تیسری بار دستک دی تو میں نے دیکھا کہ کمرے میں کوئی اٹھ کر بیٹھا اور پھر دوبارہ لیٹ گیا ۔
میں کنارے پر گیا اور اپنی کشتی میں بیٹھ گیا ۔ میں اندر سے خالی تھا ایسے جیسے نچڑ گیا ہوں ۔ لہریں میرے پاس سے اٹھکیلاں کرتی بہہ رہی تھیں لیکن میں نے ان پر کوئی دھیان نہ دیا ۔ اورجب میں ان پر کشتی چلا رہا تھا تو انہوں نے بھی میری پرواہ نہ کی ۔
میں پھر سے ایک ذرہ اور بے حیثیت جہاں گشت بن گیا ہوں اور میں اکثر جھیل کو دیکھتا ہوں ۔ لیکن ہمارے تعلق میں دراڑ آ چکی ہے ۔ مجھے کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ شاید ایک راستہ ہے کہ ہم پھر سے یکجا ہو سکیں ۔ ” تو بہت سے انسان تمہاری گہرائیوں میں ڈوب چکے ہیں “ ، میرے منہ سے یہ الفاظ ابھرتے ہیں ۔
لیکن لہریں ہیں کہ سرد مہری سے پاس سے گزر جاتی ہیں ۔ وہ منع نہیں کرتیں ۔ وہ حکم بھی نہیں دیتیں ۔ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ انہیں اس بات کی کوئی پرواہ ہی نہیں ہے کہ میں کیا کرتا ہوں اور کیا نہیں ۔ میرے سامنے ایک بار پھر جھیل کا مانوس پھیلاﺅ ہے ، لیکن اب مجھے صرف پانی نظر آ رہا ہے ، پانی جو خشکی میں گھرا ہوا ہے ۔ ابھی بھی اس کا چہرہ تاثرات سے مکمل طور پر خالی نہیں ہے ۔ دور پانی پر ، میرا خیال ہے کہ مجھے کچھ نظر آتا ہے لیکن یہ نہ تو پچھتاوا ہے اور ہی کسی طرح کا غصہ ۔ ۔ ۔ یہ صرف ایک بڑا اور زہد بھرا لاتعلقی کا اظہار ہے ۔ وہاں بھی لہریں ایک دوسرے کو کاٹتی ہیں اور بار بار کاٹے چلی جاتی ہیں ، لیکن ان کی مجسم گُھوری مسلسل موجود ہے ، ایسے جیسے کہ کسی چٹان میں کوئی کہانی کندہ ہو ۔
میں اس سنگ دل آنکھ کا قیدی ہوں ۔ بعض اوقات میں جنگل میں بھاگ جاتا ہوں اور اپنا سر کائی میں دے دیتا ہوں لیکن جلد ہی مجھے جھیل کی نزدیکی کا احساس ہوتا ہے اور میں اس کے کنارے پر واپس آ جاتا ہوں ۔ میں پھر سے آٹھ سالہ بچہ بن جاتا ہوں جسے غصے میں بھری ماں اور قدرت ، گھر کی طرف کھینچ کر لے جا رہی ہے تاکہ مجھے اس بات کی سزا دے سکے کہ میں ایسی مہمات پر کیوں جاتا ہوں جن کی ممانعت ہے ۔ کیا میں اتنا بڑا ہو گیا ہوں کہ نادم ہو سکوں ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فراز ایمل سِلانپا ( Frans Emil Sillanpää) فِن لینڈ کا وہ نامور ادیب ہے جو اپنے ملک کی دیہاتی زندگی کو نہ صرف گہرائی میں سمجھتا ہے ، وہاں کے لوگوں کی دھرتی سے وابستگی کو جانتا ہے بلکہ وہاں رہنے والے کسانوں کی رہن سہن کو قدرت کے ساتھ حسین امتزاج کے ساتھ اپنی تحریروں میں جگہ دیتا ہے ۔ اس کی اسی خوبی کے اعتراف میں اسے 1939 ء کا نوبل انعام برائے ادب دیا گیا تھا ۔
وہ 16، ستمبر 1888ء کو’ ہیمینکائرو‘ کے ایک کسان خاندان میں پیدا ہوا ۔ گو اس کے والدین غریب تھے لیکن انہوں نے اسے ُ ٹیمپری ‘ میں سکول کی تعلیم دلائی ۔ وہ پڑھائی میں اچھا تھا اس لئے مالی امداد کے سہارے 1908ء میں یونیورسٹی آف ہیلسنکی میں طب پڑھنے کے لئے داخل ہوا ۔ 1913ء میں وہ واپس اپنے گاﺅں چلا گیا اور طب بھول ، لکھنے میں جُت گیا ۔ اگلے برس ہی اس کے مضامین Uusi ' Suometar‘ اخبار میں چھپنے لگے اور اس کی ملاقات سگرڈ ماریا سیلوماکی سے ہوئی ، جس سے اس نے 1916 ء میں شادی کی ۔ وہ ٹالسٹائی کی طرح اہنسا کا قائل تھا اور ایک ایسا امید پرست جو سائنسی فکر میں ہی انسان کی نجات دیکھتا ۔ یہی وجہ تھی کہ اس کا ناول ’ Hurskas kurjuus ، 1919 ‘ ایک متنازع تحریر بنا ؛ اس نے اس میں فینش خانہ جنگی کے اسباب کو اسی فکر کے تحت دیکھا تھا ۔ سِلانپا کو عالمی سطح پر متعارف کروانے والا ناول ’Nuorena nukkunut‘ ہے جو 1931 ء میں شائع ہوا تھا ۔ یہ ناول ’ The Maid Silja‘ کے نام سے انگریزی میں شائع ہوا ۔ سوویت یونین اور فِن لینڈ کے تنازعات جو عرصے سے چلے آ رہے تھے بالآخر نومبر 1939 ء میں جنگ کی شکل اختیار کر گئے جو ساڑھے تین ماہ تک جاری رہی ۔ یہ ’ سرما جنگ ‘ کے نام سے مشہور ہے ۔ جب یہ جنگ شروع ہوئی تو سِلانپا نے نوبل انعام کی رقم اور سونے کا میڈل جنگ فنڈ میں دان کر دیا ۔ اسی برس اس کی بیوی نمونیہ کے ہاتھوں فوت ہوئی جس کے کچھ عرصہ بعد سلانپا نے اپنی سیکرٹری آنا سے شادی کر لی ۔ 1941 ء میں یہ شادی بھی ختم ہو گئی ۔ وہ شراب نوشی اور دیگر بیماریوں کے علاج کے لئے دو سال ہسپتال میں رہا اور 1943ء میں دوبارہ عوام کے سامنے آیا ۔ اب وہ ایک بدلا ہوا شخص تھا ، اس نے داڑھی رکھ لی تھی اور اب لوگ اسے ’ گرینڈ پا سِلانپا ‘ کہہ کر بلاتے اور اس کے ریڈیو لیکچر شوق سے سنتے ۔ یہ سلسلہ 1963ء تک جاری رہا ۔ وہ 3 ، جون 1964 ء کو 75 سال کی عمر میں ہیلسنکی میں فوت ہوا ۔
اس کا ادبی کام لگ بھگ پینتس کتابوں پر مشتمل ہے جو اب آٹھ جلدوں پر مشتمل کلیات کی شکل میں یکجا کر دیا گیا ہے ۔ تاحال وہ فِن لینڈ کا واحد ادیب ہے جسے نوبل انعام برائے ادب ملا ۔ اس کی تحریروں میں سے کچھ پر فلمیں بھی بن چکی ہیں جن میں ناول ’ The Maid Silja ‘ تو ایک سے زائد بار فلمایا گیا ہے ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...