زمین (The Earth)
زمین نظام شمسی کا وہ واحد سیارہ ہے جہاں پر زندگی موجود ہے۔ پانی زمین کی ۳/۲ سطح کو ڈھکے ہوئے ہے۔ زمین کی بیرونی سطح پہاڑوں، ریت اور مٹی کی بنی ہوئی ہے۔ پہاڑ زمین کی سطح کا توازن برقرار رکھنے کے لیے بہت ضروری ہیں۔ اگر زمین کو خلا سے دیکھا جائے تو ہمیں سفید رنگ کے بڑے بڑے نشان نظر آئیں گے۔ یہ پانی سے بھرے بادل ہیں جو زمین کی فضا میں ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ پچھلے چند سالوں سے ان بادلوں کی تعداد میں کمی آئی ہے جس کا اثر زمین کی فضا کو پڑا ہے۔ زمین کا صرف ایک چاند ہے۔ زمین کا شمالی نصف کرہ زیادہ آباد ہے جبکہ جنوبی نصف کرہ میں سمندروں کی زیادہ تعداد اورخشکی کم ہونے کی وجہ سے آبادی کم ہے، اِس کے علاوہ اور کئی وجوہات ہیں (جیسے پچھلے دور میں اُن علاقوں کا کم جاننا وغیرہ)۔ قطب شمالی اور قطب جنوبی پر چھ ماہ کا دن اور چھ ماہ کی رات رہتی ہے۔ عام دن اور رات کا دورانیہ چوبیس گھنٹے کا ہوتا ہے۔
نظام شمسی میں پائے جانے والے قدیم ترین مواد کی تاریخ 4.5672 (0.0006±) بلین سال قدیم ہے۔ آغاز میں زمین پگھلی ہوئی حالت میں تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ زمین کی فضا میں پانی جمع ہونا شروع ہو گیا اور اس کی سطح ٹھنڈی ہو کر ایک قرش(crust) کی شکل اختیار کر گئی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد ہی چاند کی تشکیل ہوئی۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ مریخ کی جسامت کا ایک جسم تھیا (Theia)، جس کی کمیت زمین کا دسواں حصہ تھی، زمین سے ٹکرایا اور اس تصادم کے نتیجے میں چاند کا وجود عمل میں آیا۔ اس جسم کا کچھ حصہ زمین کے ساتھ مدغم ہو گیا، کچھ حصہ الگ ہو کر خلا میں دور نکل گیا، اور کچھ الگ ہونے والا حصہ زمین کی ثقلی گرفت میں آگیا جس سے چاند کی تشکیل ہوئی۔
پگھلے ہوئے مادے سے گیسی اخراج اور آتش فشانی کے عمل سے زمین پر ابتدائی کرہ ہوا ظہور پذیر ہوا۔ آبی بخارات نے ٹھنڈا ہو کر مائع شکل اختیار کی اور اس طرح سمندروں کی تشکیل ہوئی۔ مزید پانی دمدار سیاروں کے ٹکرانے سے زمین پر پہنچا۔ اونچے درجہ حرارت پر ہونے والے کیمیائی عوامل سے ایک (self replicating) سالمہ (molecule) تقریباً 4 ارب سال قبل وجود میں آیا، اور اس کے تقریباً 50 کروڑ سال کے بعد زمین پر موجود تمام حیات کا جدِ امجد پیدا ہوا۔
ضیائی تالیف کے ارتقاء کے بعد زمین پر موجود حیات سورج کی توانائی کو براہ راست استعمال کرنے کے قابل ہو گئی۔ ضیائی تالیف سے پیدا ہونے والی آکسیجن فضاء میں جمع ہونا شروع ہو گئی اور کرہ ہوائی کے بالائی حصے میں یہی آکسیجن اوزون (ozone) میں تبدیل ہونا شروع ہو گئی۔ چھوٹے خلیوں کے بڑے خلیوں میں ادغام سے پیچیدہ خلیوں کی تشکیل ہوئی جنھیں (eukaryotes) کہا جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ یک خلوی جانداروں کی بستیاں بڑی سے بڑی ہوتی گئیں، ان بستیوں میں خلیوں کا ایک دوسرے پر انحصار بڑھتا چلا گیا اور خلیے مختلف کاموں کے لیے مخصوص ہوتے چلے گئے۔ اس طرح کثیر خلوی جانداروں کا ارتقاء ہوا۔ زمین کی بالائی فضا میں پیدا ہونے والی اوزون (ozone) نے آہستہ آہستہ زمین کے گرد ایک حفاظتی حصار قائم کر لیا اور سورج کی بالائے بنفشی شعاعوں (ultra violet rays) کو زمین تک پہنچنے سے روک کر پوری زمین کو زندگی کے لیے محفوظ بنا دیا۔ اس کے بعد زندگی زمین پر پوری طرح پھیل گئی۔
اگرچہ کائنات کی عمر کے بارے میں سائنسدان متفق نہیں ہیں ۔ لیکن زمین کی عمر کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ آج سے پانچ ارب سال پہلے گیس اور غبار کا ایک وسیع و عریض بادل کشش ثقل کے انہدام کے باعث ٹکروں میں تقسیم ہو گیا سورج جو مرکز میں واقع تھا سب سے زیادہ گیس اس نے اپنے پاس رکھی ۔ باقی ماندہ گیس سے دوسرے کئی گیس کے گولے بن گئے ۔ گیس اور غبار کا یہ بادل ٹھندا تھا اور اس سے بننے والے گولے بھی ٹھندے تھے ۔ سورج ستارہ بن گیا اور دوسرے گولے سیارے ۔ زمین انہی میں سے ایک گولہ ہے ۔ سورج میں سارے نظام شمسی کا 99 فیصد مادہ مجتمع ہے ۔ مادے کی کثرت اور گنجانی کی وجہ سے اس میں حرارت اور روشنی ہے ۔ باقی ماندہ ایک فیصد سے تمام سیارے جو نظام شمسی کا حصہ ہیں بنے ۔ نظام شمسی کے یہ گولے جوں جوں سکڑتے گئے ان میں حرارت پیدا ہونے لگی ۔ سورج میں زیادہ مادہ ہونے کی وجہ سے اور اس کے شدید سمٹاؤ کی وجہ سے ایٹمی عمل اور رد عمل شروع ہوا اور شدید ایٹمی دھماکے شروع ہوئے ، جس کے نتیجے میں شدید حرارت پیدا ہوئی ۔ زمین میں بھی ان ہی اصولوں کے تحت حرارت پیدا ہوئی ۔ حرارت سے مادہ کا جو حصہ بخارات بن کر اڑا فضا کے بالائی حصوں کی وجہ سے بارش بن کر برسا ۔ ہزاروں سال یہ بارش برستی رہی ۔ ابتدا میں تو بارش کی بوندیں زمین تک پہنچتی بھی نہیں تھیں ۔ بلکہ یہ راستہ میں دوبارہ بخارات بن کر اڑ جاتی تھیں ۔ مگر لاکھوں کروڑں سال کے عمل سے زمین ٹھنڈی ہوگئی ۔ اس کی چٹانیں بھی صاف ہوئیں خشکی بھی بنی اور سمندر وجود میں آئے۔
ساخت اور ڈھانچہ
زمین قطبین پرشلجم کی طرح تقریباً چپٹی گول شکل میں ہے۔ زمین کے گھومنے سے اس میں مرکز گریز اثرات شامل ہوجاتے ہیں۔ جس کے باعث یہ خط استوا کے قریب تھوڑی ابھری ہوئی ہے اور اس کے قطبین یا پولز قدرے چپٹے ہیں۔ ان مرکز گریز اثرات ہی کی وجہ سے زمین کے اندرونی مرکز سے سطح کا فاصلہ خط استوا کے مقابلے میں قطبین پر 33 فیصد کم ہے۔ یعنی مرکز سے جتنا فاصلہ خط استوا کے مقامات پر زمین کی سطح تک ہے مرکز سے قطبین کی سطح کا فاصلہ اس سے لگ بھگ ایک تہائی کم ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس کا قطبی رداس اور استوائی رداس مختلف ہے. اس کا قطبی رداس 6,356.8 کلو میٹر یا 20,856,000 فٹ ہے اور اس کا استوائی رداس 6,378.1 کلو میٹر یا 20,926,000 فٹ ہے زمین کا اوسط رداس 6,371.0 کلو میٹر یا 20,902,200 فٹ ہے. اسی طرح زمین کے نصف النہاری محیط اور استوائی محیط میں بھی فرق ہے. اس کا نصف النہاری محیط 40,007.86 کلو میٹر یا 131,259,400 فٹ ہے اور استوائی محیط 40,075.017 کلو میٹر یا 131,479,710 فٹ ہے. زمین اپنے محور کے گرد 107,200 کلومیٹر فی گھنٹہ یا 66,600 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے حرکت کرتی ہے.
سیاروں کا نظام جو سورج سمیت اکثر ستاروں کے گرد پایا جاتا ہے، اُس میں واقع کچھ سیاروں میں زِندگی کا اِمکان بھی موجود ہے۔ تاہم ہمارے نظامِ شمسی میں صرف زمین ہی ایک ایسا سیارہ ہے جو متنوّع قسم کی اَنواعِ حیات سے معمور ہے۔ کسی سیارے پر زندگی کے پائے جانے کے لئے اُسے بقائے حیات کے لئے قدرت کی طے کردہ بہت سی کڑی شرائط پر پورا اُترنا پڑتا ہے۔ ہماری زمین اپنے اُوپر بسنے والی لاکھوں کروڑوں اَقسامِ حیات کے لئے ایک سازگار ماحول فراہم کرتی ہے، جس کے باعث یہاں زِندگی پنپ سکی ہے۔ اگر یہ ماحول کسی دُوسرے ستارے کے گرد گردِش کرنے والا کوئی سیارہ بھی مہیا کر سکے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہاں زندگی کے آثار پیدا نہ ہوں۔
اِس کائنات میں ہماری زمین کے علاوہ کسی اور سیارے پر بھی زندگی واقع ہے یا نہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس نے بنی نوع اِنسان کو شروع دِن سے ہی تجسس میں مبتلا کر رکھا ہے اور موجودہ سائنسی ترقی کے باوُجود ہم اِس سوال کا جواب سائنسی بنیادوں پر دینے سے اُسی طرح قاصر ہیں جیسے آج سے پانچ ہزار سال پہلے کا آدمی، تاہم اِس سائنسی ترقی نے ہمیں اِتنا پختہ فکر ضرور کر دیا ہے کہ ہم زندگی کے وہ سارے لوازمات جو کسی سیارے میں نمو و بقائے حیات کے لئے ضروری ہوتے ہیں اُنہیں جان سکیں۔ نظامِ شمسی کی حد تک تو تمام سیاروں کے بارے میں یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ وہاں زِندگی کا کوئی اِمکان موجود نہیں۔ اندرونی سیارے بہت زیادہ گرم ہیں تو بیرونی سیارے بہت زیادہ ٹھنڈے۔ رہ سہ کر ہمسایہ سیارے مِرّیخ سے توقع تھی سو وہ بھی ختم ہو گئی ہے، جب 1976ء میں وائکنگ (Viking) نامی خلائی جہاز (probes) اُس کی سطح پر اُترے۔ اُن کی بھیجی گئی تصاویر اور رپورٹس نے تمام اُمیدوں کو ختم کر دیا اور یہ بات طے پا گئی کہ ’سرخ سیارہ‘ بھی نظامِ شمسی کے دِیگر سیاروں کی طرح زِندگی سے خالی ہے۔ مِرّیخ کی سطح پر کچھ آڑے ترچھے خطوط نظر آتے ہیں، جنہیں سولہویں صدی عیسوی کے اِنسانی شعور نے وہاں بسنے والی مخلوق کی کھودی ہوئی نہریں اور دریا قرار دیا، مگر وائکنگ (Viking) اور اُس جیسی دُوسری مہمّات نے یہ بات واضح کر دِی کہ نظامِ شمسی کے دِیگر سیّاروں کی طرح وہاں بھی زِندگی کا کوئی اِمکان نہیں۔ تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ آج سے کم و بیش ایک ارب سال پہلے وہاں پانی موجود تھا۔ اب صرف قطبین پر تھوڑی برف جمی رہتی ہے۔ مِرّیخ کی سطح پر کچھ ہوا بھی موجود ہے، جس میں ’کاربن ڈائی آکسائیڈ‘، ’آکسیجن‘ اور ’نائٹروجن‘ گیسیں شامل ہیں، جو زِندگی کے لئے ضروری ہیں، لیکن وہ زندگی کے بے شمار ایسے لوازمات سے عاری ہے جن کے بغیر کسی سیارے پر زِندگی پروان نہیں چڑھ سکتی۔
زمین میں زِندگی کے لئے ضروری گیسیں ایک خاص تناسب کے ساتھ موجود ہیں اور پانی بھی وافر مقدار میں موجود ہے۔ زمین لاکھوں سالوں سے اپنے سینے پر کاروانِ حیات کو لئے سورج کے گرد محوِ سفر ہے۔ زمین پر زِندگی کے لئے سازگار ماحول میں اُس کی کمیّت، سورج سے فاصلہ، درجۂ حرارت اور ہوا کے دباؤ کو بھی اہم مقام حاصل ہے۔ یہ اور اِس جیسے بے شمار دُوسرے لوازمات مل کر زمین کو اِس قابل بناتے ہیں کہ ہم یہاں سانس لے سکیں۔
ظامِ شمسی کی اِبتدائی تخلیق کے وقت سورج کے گرد گردِش کرنے والے 9 بڑے اور ہزاروں چھوٹے گیسی مرغولے اوّلین عناصر کے دباؤ کے تحت مائع (یعنی لاوا) کی شکل اِختیار کرنے لگے، جن سے بعد میں 9 سیارے، اُن کے چاند اور بے شمار سیارچے وُجود میں آئے۔ زمین بھی اپنی اوّلین تخلیق کے وقت گیسی حالت میں سورج کے گرد محوِ گردش تھی اور وہ بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مائع حالت اِختیار کرتی چلی گئی۔ مائع اور گیسی حالت پر مشتمل اِبتدائی زمین کے بھاری عناصر اُس کے مرکز کی طرف سمٹ کر اِکٹھے ہونے لگے اور ہلکے گیسی عناصر لاوے کے اُوپر غلاف کی صورت میں چڑھ گئے۔ رفتہ رفتہ لاوے کے اُوپر جھاگ نما تہ چڑھنے لگی جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سخت ہوتی چلی گئی۔ اُس ٹھوس تہ کے نیچے گرم لاوا اُسی طرح مائع حالت میں رہا۔
لاوے کے اُوپر ٹھوس سطح کو وُجود مل جانے کے باوُجود زمین کی سطح اِس قابل نہ تھی کہ زِندگی اُس پر کسی بھی صورت میں پروان چڑھ سکتی۔ ابھی اُس کا ٹمپریچر بے اِنتہا شدید تھا اور وہ پانی کی نعمت سے بھی محروم تھی۔ پھر اُس کے بعد کرۂ ہوائی میں موجود گیسی عناصر میں کیمیائی تعامل ہوا جس کے نتیجے میں پانی نے جنم لیا اور یوں پورے کرۂ ارضی پر تاریخ کی پہلی اور طوِیل ترین مُوسلادھار بارِش ہوئی۔ یہ بارِش سالہا سال جاری رہی جس سے شدید گرم زمین پر ہر طرف جل تھل ہو گیا اور اُس کا درجۂ حرارت بھی نسبتاً کم ہونے لگا۔
لاوے اور گیسی غلاف کے درمیان موجود ٹھوس تہ، جو کافی سخت ہو چکی تھی، جن مقامات سے باریک (یعنی گہری) تھی بارش کا پانی اُن سمتوں میں بہ کر اِکٹھا ہونے لگا۔ یوں وسیع و عریض سمندر پیدا ہو گئے اور اُنہوں نے زمین کا بیشتر حصہ ڈھانپ لیا۔ اُس ٹھوس غلاف کے جو مقامات موٹے (یعنی بلند) تھے اُن کے اُوپر پانی نہ ٹھہر سکا اور وہ بتدرِیج براعظم اور سلسلہ ہائے کوہ بن گئے۔
زمین کو پیدا ہوئے 4,50,00,00,000 سال کا عرصہ گزر چکا مگر اُس کے باوُجود اُس کا مرکز اُسی لاوے پر مشتمل ہے اور شدید گرم ہے۔ 71 فیصد سطحِ ارضی پر پھیلے ہوئے سمندروں نے اُس کی حدّت کو کنٹرول کر کے ٹھوس خلاف کے اُوپر کے ماحول کا درجۂ حرارت اوسطاً 15 ڈگری سینٹی گریڈ کر رکھا ہے، جس سے وہ زندگی کے لئے سازگار ہوتا چلا گیا۔ آج بھی اگر کسی کیمیائی تعامل کے نتیجے میں سمندروں کا پانی ختم ہو جائے تو نہ صرف پانی کی قلت کی وجہ سے بلکہ اندرونی لاوے کی حدّت کے سبب بھی ہر طرح کی اَنواعِ حیات اِس طبقِ ارضی سے مفقود ہو جائیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔