اردو کا قاری اس افسانچے ( فلیش فکشن ) کو کیسے دیکھتا ہے ؟
اطالوی افسانچہ ( فلیش فکشن(
نہانے کا مائع صابن
( The Body Wash …. 1998 )
ایلڈو نوو ( Aldo Nove )
مصنف (پیدائش ؛ 1967ء۔۔۔) ایک اطالوی شاعر ،ناول نگار اورکہانی کار ہے ۔ اس نے ’ اخلاقیات ‘ میں ماسٹرز کر رکھا ہے ۔ اس کا پہلا ناول ’ Woobinda ‘ سن 1995 ء میں سامنے آیا ۔ وہ اٹلی کی اس ادبی تحریک کا سرگرم رکن ہے جو ’ Giovani Cannibali‘ ( نوجوان کینی بالی ) کہلاتی ہے ۔ یہ تحریک آج کے صارفی ( consumerist ) اٹلی کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتی ہے جو اٹلی کے صدر سِلیو برلوسکونی کے زمانے میں عروج پر پہنچا تھا ۔ یہ افسانچہ اس کے افسانچوں کی کتاب ' Super Woobinda ' سے لی گئی ہے ۔
میں نے اپنے والدین کو قتل کر دیا کیونکہ وہ نہانے کے لئے ایک بیہودہ مائع صابن استعمال کرتے تھے ۔ ۔ ۔ خالص نباتاتی صابن
میری ماں کا کہنا تھا کہ یہ جلد کو نرم و ملائم رکھتا ہے جبکہ میں ’ ویڈال‘ استعمال کرتا تھا اور چاہتا تھا کہ گھر میں ہر کوئی ’ ویڈال ‘ ہی استعمال کرے ۔ اس کی وجہ سیدھی سادی تھی مجھے بچپن سے ہی ’ ویڈال ‘ صابن کے اشتہار اچھے لگتے تھے ۔
میں بستر میں لیٹا گھوڑے کو بھاگتے ہوئے دیکھتا رہتا ۔
یہ گھوڑا آزادی کی علامت تھا ۔
میں چاہتا تھا کہ ہر بندہ آزاد ہو ۔
میں چاہتا تھا کہ ہر کوئی ’ ویڈال ‘ خریدے ۔
تب ایک روز میرے باپ نے کہا کہ ’ ایسیلنگاہ ‘ پر دو پر تین کی ’ سیل ‘ لگی ہوئی ہے اور ہمیں اس کا فائدہ اٹھانا چاہیے ۔ مجھے یہ خیال ہی نہ آیا کہ سیل نہانے والے صابن پر بھی ہو گی ۔
میرے گھر والوں نے مجھے کبھی سمجھا ہی نہ تھا ۔
تب سے میں اپنے لئے ہمیشہ ویڈال کا صابن ہی خریدتا اور اس بات کی پرواہ نہ کرتا کہ گھر میں برتنے کے لئے ’ میری گولڈ ‘ کے تین بڑے ڈبے خالص اور نباتاتی صابنوں سے بھرے پڑے ہیں ۔ اور میں جب بھی غسل خانے میں جاتا تو ’ بیدے‘ پر پلاسٹک کی بھدی بوتلیں پڑی ہوتیں اور میں اپنے غصے کا اظہار کئے بِنا نہ رہ پاتا ۔ ۔ ۔ میں ان کے ساتھ کھانا کھانے سے انکاری ہو جاتا ۔
لیکن ہر شے کو بتایا نہیں جا سکتا تھا ۔
کبھی آپ نے اپنے آدرشوں کا خون ہوتے دیکھا ہے اور وہ بھی صرف چند سکوں کے فرق پر ، میں نے بہرحال اپنا منہ بند ہی رکھا ۔
میں اپنے کمرے میں ہی آلو کے چپس اور’ مولینو ٹیگولینو ‘ کی بنی اشیاء کھاتا اور میرا دل اپنے دوستوں سے بھی ملنے کو نہ چاہتا ۔ ۔ ۔ جب وہ مجھے سے بات کرنا چاہتے تو میں یوں ظاہر کرتا جیسے میں گھر پر ہوں ہی نہیں ۔
جوں جوں دن گزرتے گئے مجھے احساس ہوا کہ میری ماں کتنی بدصورت تھی ۔
میری ماں ایک ایسی عورت تھی جو دفتر جانے کے لئے دوڑ بھی نہ سکتی تھی کیونکہ اس کی رگیں شوجن کا شکار تھیں اور اس کی انگلیاں سگریٹ پینے کی وجہ سے پیلی پڑی ہوئی تھیں ۔
مجھے اپنی ماں سے گھن آتی تھی اور میں سوچتا تھا کہ ایک لڑکے کے طور پر میں اس سے کیسے محبت کر سکتا تھا ۔
میرا باپ بھی دن بدن بوڑھا ہو رہا تھا ۔
اب سچ میں وقت آ گیا تھا کہ میں انہیں مار ڈالوں ۔
ایک شام میں اپنے کمرے سے باہر آیا اور انہیں بتایا کہ میں نے انہیں ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔
انہوں نے مجھے اپنی بوڑھی آنکھوں سے گھورتے ہوئے ، شاید میرے اس طرح بات کرنے پر حیران ہو کر کہا ؛ ” کیوں؟ “
میں نے کہا کہ انہیں کم از کم کوئی دوسرا نہانے کا صابن برتنا چاہیے تھا ۔
یہ سن کر وہ ہنسنے لگے ۔
ان کو ہنستے دیکھ کر میں اپنے کمرے میں گیا اور چھلے ہوئے ٹماٹروں کا خالی کین پکڑا ۔ میں نے یہ کین گزری رات کو کھانے کے لئے بستر کے نیچے چھپایا تھا ۔
میں واپس باورچی خانے میں گیا اور اس کے دروازے کو تالا لگا دیا ۔
میہں اپنی ماں پر چلایا کہ وہ ایک نیچ عورت تھی اورمیرا حمل وضع کرنے سے پہلے اسے اپنی بچہ دانی نکلوا دینی چاہیے تھی ۔
یہ سن کر میرا باپ اپنی جگہ سے اچھلا اورمجھ پر جھپٹا لیکن میں نے اس کے خصیوں پر اس زور سے لات ماری کہ وہ گر پڑا اور اس کا سانس گم ہو گیا ۔
میری ماں نے خود کو اس پر گرایا اور رونے پیٹنے لگی ۔ وہ بے ربط طریقے سے چیخ بھی رہی تھی ۔ ایسے میں وہ مجھے مزید بوڑھی اور مضحکہ خیز لگی ۔ میں نے کین کا تیز دھار والا ڈھکن اس کی گردن میں گاڑ دیا جس سے خون ابل کر گرنے لگا ۔ وہ ایک سورنی کی طرح ڈکارنے لگی ۔
تب میں نے اپنے باپ کو بھی یخ کھانے کو کاٹنے والے چاقو سے قتل کر دیا ۔
مجھے اپنے بیمار ہونے کا احساس ہوا جب میں نے انہیں خون کی الٹیاں کرتے ہوئے دیکھا ۔
فرش کی ٹائلوں پر ہر طرف خون ہی خون تھا اور ان کی لاشوں کا رنگ ہر منٹ مختلف سے مختلف ہو رہا تھا ۔میں اوپر واپس گیا اور ، ان کے فکنگ مائع صابن کی دو بوتلیں ( ایک جسے وہ برت رہے تھے ) پکڑیں ۔
میں انہیں نیچے واپس باورچی خانے میں لایا ، انہیں میز پر رکھا اور اپنی ماں کی کھوپڑی گوشت دبانے والے کاسٹ آئرن کے دستے سے توڑی ۔
اس سے بھیجا باہر نکل آیا ۔ یہ سب لجلجہ تھا جس کے ساتھ بالوں والی کھال کا ایک ٹکڑا بھی چپکا ہوا تھا جیسے ٹیپ سے چپکایا گیا ہو ۔
مجھے اپنے باپ کا سر نرم لگا یا شاید میں نے اسے ایک زوردار ضرب سے توڑا تھا ۔
میں نے اس کے بھیجے چلمچی میں رکھے اور اور ان کے سروں کوکاغذی تولیے سے اندر سے صاف کیا ۔
اور پھر میں نے ان کی کھوپڑیوں میں خالص نباتاتی مائع صابن بھر دیا ۔ انہیں یہ بات سمجھ آنی چاہیے تھی ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔