۸ ۔ لڑکی اور نابینا ( Mekura to shojo, 1928)
( The Blind Man and the Girl)
کاواباتا یاسوناری، اردو قالب ؛ قیصر نذیر خاورؔ
' اوکایو ' کو یہ بات سمجھ میں نہ آئی کہ جو بندہ ، سرکاری ریل گاڑی پر مضافات سے یہاں خود ہی پہنچا تھا ، کا ہاتھ تھام کر سیدھی سڑک پر سٹیشن تک پہنچانے کی کیا ضرورت تھی ۔ لیکن چاہے ایک یا کسی دوسرے وجہ سے اسے یہ سمجھ نہ آیا ہو لیکن ایسا کرنا اوکایو کا فرض بن گیا تھا ۔ پہلی بار جب ’ تمورا ‘ ان کے گھر آیا تھا تو اس کی ماں نے کہا تھا ؛
” اوکایو ، مہربانی کرو اور انہیں سٹیشن تک چھوڑ آﺅ۔ “
گھر سے نکلنے کے کچھ دیر بعد ہی تمورا نے اپنی لمبی چھڑی بائیں ہاتھ میں پکڑی اور دائیں سے اوکویو کے ہاتھ کو ٹٹولا ۔ جب اس نے یہ دیکھا کہ تمورا کا ہاتھ اس کے سینے پر ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے تو اس نے شرم سے شرخ ہوتے ہوئے اپنا ہاتھ خود ہی اس کے ہاتھ میں دے دیا تھا ۔
” شکریہ ۔ تم ابھی بھی ایک ننھی بچی ہو “ ، تمورا نے کہا تھا ۔
اس نے سوچا تھا کہ وہ گاڑی میں بھی اس کی مدد کرے گی ، لیکن تمورا نے جیسے ہی اپنی ٹکٹ وصول کی ، اس نے اوکایو کی ہتھیلی پر ایک سکہ رکھتے ہوئے تیزی سے قدم اٹھائے اور اس دروازے میں گھس گیا جہاں ٹکٹ کی پڑتال ہونی تھی ۔ اس نے گاڑی کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اپنا راستہ طے کیا ۔ اس کا ہاتھ مسلسل کھڑکیوں کے پاس ٹکا رہا اور پھر وہ گاڑی کے دروازے سے اس پر سوار ہو گیا ۔ اس کی حرکات میں مشق جھلک رہی تھی ۔ اوکایو جو اسے دیکھ رہی تھی ، نے سکھ کا سانس لیا ۔ جب گاڑی اپنے سفر پر روانہ ہوگئی تو وہ اپنی ہلکی مسکان کو نہ روک سکی ۔ اسے لگا تھا جیسے اس تمورا کی انگلیوں کی حرکت میں کسی عجیب سی خصوصیت کا عمل دخل تھا ، جیسے وہ اس کی آنکھیں ہوں ۔
کچھ ایسا بھی ہوا تھا ؛ اس شام اس کی بڑی بہن ’ اوٹویو ‘ کھڑکی ، جہاں سورج کی روشنی در آئی تھی ، کے پاس بیٹھی اپنا بگڑا ہوا میک اپ درست کر رہی تھی ۔
” کیا آپ آئینے میں عکس کو دیکھ سکتے ہیں ؟ “ اوٹویو نے تمورا سے کہا تھا ۔
اوکایو کو اپنی بہن کے جملے میں چھپی تضحیک کا اندازہ تھا ۔ ظاہر تھا کہ اس کی بہن آئینے کے سامنے اپنا میک اپ درست کر رہی تھی تو آئینے میں اس کے عکس کے علاوہ اور کیا ہونا تھا ؟
لیکن اوٹویو کا کینہ اس کے اپنے عکس سے باہر ابلا پڑ رہا تھا ؛ ” مجھ جیسی خوبصورت عورت آپ سے اتنے پیار سے بات کر رہی ہے ۔“ جب اس کی آواز تمورا کے گرد گھومی تو اس کے معانی کچھ یہی تھے ۔
یہ سن کر وہ جاپانی انداز میں جہاں بیٹھا تھا ، وہاں سے رینگتا ہوا ، اس کے ساتھ جا بیٹھا اوراس نے آئینے کو اپنی انگلیوں کی پوروں سے محسوس کرنا شروع کر دیا اور پھر دونوں ہاتھوں سے شیشے کے سٹینڈ کو اپنی طرف موڑا ۔
” ارے ، آپ یہ کیا کر رہے ہیں ؟ “
” اس میں ایک جنگل کا عکس ہے ۔“
” ایک جنگل کا عکس ؟ “
آئینے سے کشش محسوس کرتے ہوئے اس نے اسے اپنے گھٹنوﺅں پر رکھ لیا ۔
” شام کا سورج جنگل کے پار چمک رہا ہے ۔ “
اوٹویو نے تمورا کی طرف شک سے دیکھا ، وہ آئینے کی سطح پر اپنی پوریں پھیر رہا تھا ۔ وہ تحقیر سے ہنسی اور آئینے کو واپس اپنی جگہ رکھ کر اپنے میک اپ کو درست کرنے لگی ۔
لیکن اوکایو کو تمورا کے منہ سے آئینے میں جنگل والی بات سن کر حیرت ہوئی تھی کیونکہ غروب ہوتا سورج ، واقعی ،جنگل کے اونچے درختوں کے اوپر سے ارغوانی مائل دھندلی روشنی پھیلا رہا تھا ۔ خزاں زدہ بڑے پتے پیچھے سے پڑتی روشنی میں گرم شفافیت سے دہک رہے تھے ۔ یہ خزاں کا ایک روغنی اور شدید پرامن دن تھا ۔ لیکن آئینے میں نظر آنے والا جنگل مکمل طور پر اس جنگل سے مختلف تھا جو حقیقت میں موجود تھا ۔ شاید اس وجہ سے کہ روشنی کا نازک ’ دھواں پن ‘ کچھ ایسا تھا جیسے یہ روشنی ریشمی چھاننی سے چھن کر آ رہی ہو ۔ یہ نازکی عکس میں موجود نہ تھی، اس کے برعکس اس میں ایک واضع اور گہری ٹھنڈ موجود تھی ۔ یہ ایک ایسا منظر تھا جیسے کسی جھیل کی تہہ سے نظر آ رہا ہو ۔ گو اوکایو اپنے گھر کی کھڑکی سے ہر روز ہی اصلی جنگل کو دیکھتی تھی لیکن اس نے اس کو کبھی دھیان سے نہ دیکھا تھا ۔ نابینا کے بیانیے کے بعد اسے ایسا لگا جیسے وہ جنگل کو پہلی بار دیکھ رہی ہو ۔ کاش تمورا جنگل کوحقیقت میں دیکھ سکتا ، اس نے سوچا ۔ وہ اس سے پوچھنا چاہتی تھی کہ کیا اسے اصل جنگل اور اس کے’ آئینی ‘عکس میں کچھ فرق محسوس ہوتا تھا یا نہیں۔ اسے تمورا کے ہاتھ جو آئینے کو چھو رہے تھے ، عجیب لگے ۔
اور جب وہ اسے چھوڑنے جا رہی تھی اور تمورا نے اس کا ہاتھ تھام رکھا تھا تو اچانک اسے خوف محسوس ہوا تھا ۔ لیکن ، چونکہ یہ اس کے فرض، کہ وہ تمورا کو ، ہر بار جب وہ ان کے گھر آئے، سٹیشن تک چھوڑنے جائے ، کا ایک حصہ تھا لہذٰا اس نے اپنے اس خوف کو بھلا دیا تھا ۔
” ہم پھلوں کی دکان کے سامنے ہیں ، کیا ایسا ہے ؟ “
” کیا ہم گورکن کے ٹھکانے تک آ گئے ہیں ؟ “
” کیا خشک اشیاء والی دکان ابھی آگے ہے ؟ “
وہ ، جب ، اسی ایک سڑک پر بار بار اکٹھے جاتے تھے تو تمورا نہ تو کھلنڈرا ہوتا اور نہ زیادہ سنجیدہ ، وہ اس طرح کی باتیں اکثر پوچھتا ۔ ان کے دائیں طرف تمباکو بیچنے والا ، رکشا سٹینڈ ، جوتوں کی دکان ، بیدکے بنے صندوقوں کی دکان ، چاولوں کے گولوں کے ساتھ لال لوبیے کا سوپ بیچنے والا کھوکھا ؛ اور بائیں طرف ’ سیک ‘ بیچنے والا ، جاپانی موزوں والا ’ بک ویٹ‘ نوڈل بیچنے والا کھوکھا ، سوشی مچھلی کی دکان ، ہارڈویئر کی دکان ، ہار سنگھار کی دکان ، دندان ساز ۔ ۔ ۔ جیسا کہ اوکایو نے اسے سکھایا تھا ، تمورا کو دکانوں کی یہ ساری ترتیب یاد تھی جو سٹیشن تک کے چھ سات بلاک والے راستے پر موجود تھیں ۔ یہ اس کے لئے وقت گزاری کا طریقہ تھا کہ وہ چلتے چلتے ایک کے بعد دوسری دکان کا نام پکارتا رہتا اور جب کبھی اس راستے کے منظر نامے میں کوئی تبدیلی آتی ، جیسے کوئی جاپانی الماریاں بنانے والا اپنا اڈہ جماتا یا کوئی مغربی طرز کا ریستوراں کھلتا ، اوکایو اس کا احوال تمورا کو بتا دیتی ۔ یہ سوچتے ہوئے کہ تمورا اس کی توجہ بٹانے کے لئے یہ اداس کھیل کھیلتا تھا ، اوکایو اس بات پر حیران ہوتی تھی کہ وہ راستے کے ساتھ ساتھ پھیلے مکانات کے بارے میں بھی ویسے ہی جاننا چاہتا تھا جیسے کہ ایک بینا شخص متجسس ہوتا ہے لیکن اسے یہ یاد نہ تھا کہ یہ اداس کھیل کب شروع ہوا اور کب وکیسے ایک عادت بن گیا تھا ۔
ایک بار جب اس کی ماں بیمار اور بستر میں تھی تو تمورا نے پوچھا تھا ؛
” کیا گورکن کی کھڑکی میں آج مصنوعی پھول ہیں ؟ “
اور اسے ایسا لگا تھا جیسے کسی نے اس پر پانی پھینک دیا ہو ۔ اوکایو اسے سوائے حیرت سے دیکھنے کے علاوہ اور کچھ نہ کر سکی تھی ۔
ایک اور بار اس نے سرسری طور پر یہ بھی کہا تھا ؛
” کیا تمہاری بڑی بہن کی آنکھیں واقعی خوبصورت ہیں ؟ “
” ہاں وہ خوبصورت ہیں ۔“
” کیا اس کی آنکھیں دوسروں کے مقابلے میں سب سے زیادہ خوبصورت ہیں ؟ “
اوکایو خاموش رہی تھی ۔
کیا یہ تمہاری آنکھوں سے بھی زیادہ خوبصورت ہیں ، اوکایو؟ “
” لیکن آپ کو کیسے پتہ چلے گا ؟ “
” تم کہہ رہی ہو ، میں کیسے جان سکتا ہوں ۔ تمہاری بہن کا خاوند نابینا تھا ۔ تب سے وہ صرف نابینا لوگوں کو ہی جانتی ہے ۔ اور تمہاری ماں بھی تو اندھی ہے ۔ اس لئے یہ قدرتی بات ہے کہ تمہاری بہن یہ سمجھے کہ اس کی آنکھیں غیرمعمولی طور پر خوبصورت ہیں ۔“
کسی وجہ سے ، تمورا کے یہ الفاظ اوکایو کے دل کی گہرائی میں پیوست ہو گئے ۔
” اندھے پن کا ’کوسنا ‘ تین نسلوں تک چلتا ہے ۔ “ ، جب بھی ان کی ماں یہ کہتی تھی تو اوٹویو ایک ٹھنڈی سانس بھرتی تھی ۔ اوٹویو ہمیشہ اس بات سے خوفزدہ رہتی تھی کہ وہ ایک نابینا کے بچے کو جنم دے ۔ اسے یہ احساس رہتا تھا کہ اگر وہ لڑکی ہوئی تو اسے شاید ایک نابینا کے ساتھ بیاہ کرنا پڑے گا ۔ اسے بھی توایک نابینا بندے سے بیاہ کرنا پڑا تھا کیونکہ اس کی ماں بھی تو نابینا تھی ۔ اس کی ماں کا تعلق نابینا مالشیوں کے ساتھ ہی رہا تھا اور وہ ایک بینا داماد کے تصور سے ہی خوف کھاتی تھی ۔ جب سے اوٹویو کا خاوند فوت ہوا تھا ، اس گھر میں کئی مرد رات بھر کے لئے رکتے تھے لیکن ان میں سے ایک بھی بینائی والا نہیں تھا ۔ ایک اندھے سے دوسرے کو پتہ چلتا گیا ۔ اس کنبے پر یہ خیال بری طرح چھایا ہوا تھا کہ اگر انہوں نے جسم کسی بینا مرد کو بیچا تو انہیں فوری طور پر پکڑ لیا جائے گا ۔
ایک دن ، نابینا مالشیوں میں سے ایک تمورا کو لے کر وہاں آیا ۔ وہ ان مالشیوں میں سے نہیں تھا ، بلکہ ایک امیر جوان تھا جس کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ اس نے اندھوں اور گونگوں بہروں کے سکول کو کئی ہزار ین دان کئے تھے ۔ اس کے بعد سے اوٹویو نے اسے اپنا واحد گاہک بنا لیا تھا ۔ وہ اسے ایک بےوقوف سمجھتی تھی ۔ تمورا اِس تنہائی میں ہمیشہ نابینا ماں کے ساتھ بات چیت کرتا تھا ، ایسے موقعوں پر اوکایو خاموشی اور دھیان سے اس کی باتیں سنتی تھی ۔
پھر اس کی ماں بیماری سے مر گئی ۔
” اب ہم اندھے پن کے’ کوسنے‘ سے آزاد ہو گئے ہیں ، اب ہم آزاد ہیں ، اوکایو “ ، اوٹویو نے کہا ۔
زیادہ عرصہ نہ ہوا تھا کہ مغربی طرز کے ریستوراں کا باورچی اس گھر میں چلا آیا ۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب اوٹویو نے تمورا سے تعلق توڑ لیا ۔ اوکایو آخری بار اسے چھوڑنے سٹیشن تک گئی تھی ۔جب گاڑی چل پڑی تو اس نے ایسی تنہائی محسوس کی جیسے اس کی اپنی زندگی ہی ختم ہو گئی ہو ۔ اگلی گاڑی پر بیٹھ وہ بھی تمورا کے پیچھے چل دی ۔ اسے یہ معلوم نہ تھا کہ وہ کہاں رہتا تھا لیکن اسے اس بات کا یقین تھا کہ وہ اسے تلاش کر ہی لے گی ، آخر اس نے اس کا ہاتھ تھام کر بہت بار اس کا سٹیشن تک ساتھ دیا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’ سیک ‘ = Sake ، ایک طرح کی جاپانی شراب
’ بک ویٹ‘ نوڈل = Buckwheat Noodle
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔