دی بِگ سپیس فَک ( The Big Space Fuck )
کرٹ وونیگٹ ، اردو قالب ؛ قیصر نذیر خاورؔ
( کچھ مصنف کے بارے میں )
کرٹ وونیگٹ ’ Vonnegut Kurt ' ( 11 نومبر 1922 ء تا 11 اپریل 2007 ء)
کیا کرٹ وونیگٹ کی تحریریں ’ سائنس فکشن ‘ کے خانے میں شیلف کی جا سکتی ہیں یا نہیں ؟ یہ ایک اہم سوال ہے جو مجھے اس کے بارے میں یہ نوٹ لکھتے ہوئے نظر آتا ہے ۔ وہ ایک ایسا امریکی ادیب ہے جس کا لکھا اس کی زندگی میں جب جب چھپا ، کچھ زیادہ پسند نہیں کیا گیا تھا ، سوائے اس کے ناول ’ Slaughterhouse-Five ' کے جو 1969ء میں سامنے آیا تھا اور’ بیسٹ سیلر ‘ کی دوڑ میں لگا تھا ۔ بات سیدھی تھی اس کی ہر تحریر میں ’ ارد گرد ‘ پر اتنی گہری طنز ہوتی تھی کہ لوگ (ہر طرح کے ) اس کے تیر اپنے جسم میں اترتے محسوس کرتے تھے ۔
اس کے بھی وہی ہوا جو بہت سے ادیبوں کے ساتھ ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد ان کا کام اپنی اہمیت منواتا ہے اور اب بہت سے محقق اس کے لکھے میں مزاح ، طنز اور سائنس فکشن کی پرتیں نئے انداز سے کھول رہے ہیں ۔ اب ان کا کہنا ہے ؛
" ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے قلم سے نہیں نشتر سے بہت سی تکلیف دہ چیزوں کے بارے میں لکھا ، ہمارے اس خوف کے ، جو ہمیں آٹومیشن اور اسلحہ کی دوڑ سے ہے ، کا پردہ چاک کیا ۔ وہ ہمارے سیاسی احساس جرم کی گہرائی اور نفرت و محبت کی انتہائوں کو باریک بینی سے دیکھتا رہا ۔ لوگ ایسے موضوعات پر نہیں لکھتے ۔ ۔ ۔ ۔ "
یہ ادیب انڈیاناپولس ، انڈیانا سے تعلق رکھتا تھا ، ’ کورنیل یورنیورسٹی ‘ کا ' ڈراپ آﺅٹ ' تھا ۔ امریکہ کی افواج کاحصہ بننے پر مکینیکل انجینیئرنگ پڑھی ، یورپ میں تعینات ہوا اور ’ جنگ ِ بلج ‘ کے دوران جرمنی افواج کا قیدی بنا ، ’ ڈریسڈن ‘ میں قید کے دوران وہ اتحادیوں کی بمباری کے دوران ایک مذبح خانے میں چھپ کر جان بچائی ۔ جنگ کے بعد اس نے جین میری کوکس سے شادی کی اور تین بچوں کا باپ بنا ۔
اس کا پہلا ناول ’ پیانو بجانے والا ‘ ( Player Piano ) 1952 ء میں سامنے آیا تھا ۔ یہ مستقبل میں ہونے والی ’ آٹو میشن ‘ ( Dystopia of Automation ) کے موضوع پر تھا ، جس میں انسانی محنت کو ضرورت کو اضافی ہوتا دکھایا گیا تھا ۔ یہ ناول امیروں ، انجینیئرز اور آٹومیشن کے منیجروں کا عام عوام کے ساتھ تضاد بھی واضع اور طنزیہ طور پر دکھاتا ہے ۔ ناول قارئین میں مقبول نہ ہو سکا ۔ اس کے دیگر ناول بشمعول ’ بلی کا کھٹولا ‘ ( Cat's Cradle، 1963 ) ، ’مسٹر روز واٹر ، تم پر خدا کی سلامتی ہو‘ ( God Bless You, Mr. Rosewater ، 1964 ) بھی کچھ زیادہ پذیرائی حاصل نہ کر سکے ۔
وہ خدا کا منکر اور ’ انسانیت ‘ پر یقین رکھنے والا انسان تھا ( اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اپنے بہنوئی و بہن کی وفات کے بعد اس نے ان کے تین بچوں کو بھی گود لیا تھا ) ۔ وہ سیاسی طور پر کسی نظریے سے منسلک نہ تھا اور امریکی سیاست کو تمسخرانہ انداز میں دیکھتا تھا اور اس کے حل کے لئے سوشلزم کی طرف دیکھتا تھا ۔ اس کا کہنا تھا ؛ ” یہ ایک طرح کا سوشل ڈارون ازم ( Social Darwinism ) ہے ۔
عمر کے آخری حصے میں اس نے اپنی زندگی پر بہت سے مضامین اور بہت سی مختصر کہانیاں ( افسانے ) لکھیں۔ جن میں ’نصیب جو موت سے بھی زیادہ برے ہیں ‘ ( Fates Worse than Death ، 1991) اور ’ بے وطنا آدمی ‘ ( A Man Without a Country ، 2005 ) اہم ہیں ۔ اس نے اپنے پچاس سالہ ادبی کیرئیر میں چودہ ناول ، تین کہانیوں کے مجموعے ، سات ڈرامے اور پانچ ’ نان فکشن ‘ کی کتابیں لکھیں ۔
درج ذیل کہانی اس نے اپنے دوست ’ ہارلن ایلیسن‘ (Harlan Ellison) کی فرمائش پر لکھی جو سائنس فکشن کہانیوں کی ایک اور کتاب مرتب کر رہا تھا ۔ وہ اس سے پہلے بھی ایسی کہانیوں کا مجموعہ ' Dangerous Visions ' کے نام سے 1967ء میں چھاپ چکا تھا ۔ کرٹ وونیگٹ کی یہ کہانی ہارلن ایلیسن کی دوسری مرتب کردہ کتاب ’ Again, Dangerous Visions ‘ میں شامل ہے جو 1972 ء میں شائع ہوئی تھی ۔ یہ ڈِسٹوپین ( Dystopian ) کہانی سائنس فکشن ہونے کے ساتھ ساتھ امریکی سوسائٹی پر ایک عمدہ طنز بھی ہے ۔
دی بِگ سپیس فَک ( The Big Space Fuck )
1987 ء میں متحدہ ریاست ہائے امریکہ میں ایک جوان بندے کے لئے یہ ناممکن ہو گیا کہ وہ اپنے ماں باپ کے خلاف مقدمہ دائر کر سکے ۔ پہلے وہ انہیں عدالت میں کھینچ کر لے جاسکتا تھا کہ انہوں نے ، اس وقت جبکہ وہ ایک لاچار بچہ تھا ، اس کی پرورش میں کونسی سنجیدہ غلطیاں کی تھیں ۔ یوں وہ مقدمہ جیتنے پرنہ صرف بھاری معاوضہ حاصل کر سکتا تھا بلکہ اس کے ماں باپ کو جیل بھی ہو سکتی تھی ۔ ایسا نہ صرف اس لئے کیا گیا تھا کہ انصاف کو مزید بہتر کیا جا سکے بلکہ افزائش نسل کی حوصلہ شکنی بھی ہو سکے ، وجہ سیدھی تھی کہ کھانے کو کچھ بچا ہی نہ تھا ۔ حمل گرانا مفت تھا ۔ حقیقت تو یہ تھی کہ جو عورت اس کے لئے رضاکارانہ طور پر خود کو پیش کرتی تھی اسے وزن کرنے والی ایک مشین یا ایک ’ ٹیبل لیمپ ‘ کا تحفہ بھی دیا جاتا تھا ۔
1989 ء میں امریکہ نے’ دی بِگ سپیس فَک‘ پروگرام کو شروع کیا ، یہ ایک سنجیدہ کوشش تھی کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ انسانی زندگی کائنات میں کہیں ، کسی اور جگہ ، اپنا تسلسل جاری رکھ سکے کیونکہ یہ طے ہو چکا تھا کہ یہ زمین پر اب کچھ زیادہ دیر تک خود کو برقرار نہیں رکھ سکتی تھی ۔ ہر شے بیئر کینز، پرانی گاڑیوں ، کچرے و فضلے اور ’ کلوروکس‘ کی بوتلوں میں بدل چکی تھی ۔ جزائر ہوائی میں تو ایک دلچسپ واقعہ یہ ہوا کہ وہاں کے مردہ آتش فشانوں میں سے دو ایک نے ، جنہیں سالہا سال تک کچرے سے بھرا جا رہا تھا ، اچانک اسے واپس اگل دیا تھا ۔ اوریہ سلسلہ جاری رہا ۔
یہ وہ زمانہ تھا جب لسانی معاملات میں بھی آزادی اپنی انتہا پر تھی ، یہاں تک کہ صدر بھی ’ شِٹ‘ اور ’ فَک ‘ جیسے بہت سے الفاظ کا کھل کر استعمال کرتا تھا جس سے نہ تو کسی کے جذبات مجروح ہوتے اور نہ ہی لوگ اسے برا گردانتے ۔ یہ مکمل طور پر ’ او کے ‘ تھا ۔ اس نے ’ سپیس فَک ‘ کو سپیس فَک کہا اور باقی سب بھی اسے ایسا ہی کہنے لگے ۔ یہ ایک خلائی راکٹ تھا جس کی ناک میں آٹھ سو پاﺅنڈ جما کر خشک کیا ’جیزم ‘ بھرا ہوا تھا ۔ اس کو ’ اینڈرومیڈا ‘ کہکشاں میں ، جو دو ملین روشنی کے سالوں کی دوری پر تھی ، میں بھیجا جانا تھا ۔ اس خلائی جہاز کا نام ’ آرتھر سی کلارک ‘ رکھا گیا تاکہ اس مشہور خلائی کھوجی کو خراج عقیدت پیش کیا جا سکے ۔
اسے 4 جولائی کو رات بارہ بجے چھوڑا جانا تھا ۔ اس رات دس بجے ،’ ڈیوینی ہوبلر‘ اور اس کی بیوی ’ گریس ‘ ، ایلک ہاربر، اوہایو ، میں اپنے سادہ سے گھر کے’ لِوونگ روم ‘ میں ٹیلی ویژن پر اس کے خلاء میں چھوڑے جانے کی’ الٹی گنتی‘ کی نشریات دیکھ رہے تھے ۔ ان کا یہ گھر اس جھیل کے کنارے پر تھا جو ’ ایری‘ کہلاتی تھی اور اب مکمل طور پر گندے اور غلاظت بھرے پانی کا جوہڑ بن چکی تھی جس میں 38 فٹ لمبی آدم خور ’ لیمپری‘ مچھلیاں بھی موجود تھیں ۔ ڈیوینی ’ اوہایو بالغ درستی انسٹی ٹیوٹ ‘ میں بطور ایک ’ گارڈ ‘ کام کرتا تھا ، جو اس کے گھر سے دو میل کے فاصلے پر تھا ۔ اسے کلوروکس کی خالی بوتلوں سے پرندوں کے لئے گھر بنانے کا شوق تھا ۔ وہ انہیں بناتا رہتا اور اپنے گھرسے متصل زمین پر ٹانگتا رہتا ، گو اب وہاں پرندے ناپید تھے ۔
ڈیوینی اور گریس ٹی وی پر دکھائی جانے والی فلم ، جس میں اس خلائی جہاز میں بھیجے جانے والے ’جیزم ‘ کو جما کر خشک کرنے کا عمل دکھایا جا رہا تھا ، کو دیکھ کر حیران ہو رہے تھے ۔ ایک چھوٹے سے بیکر میں وہ مواد موجود تھا جو یونیورسٹی آف شکاگو کے شعبہ ریاضی کے سربراہ نے دان کیا تھا ۔ اس مواد کو ایک ’ بیل جار ‘ میں رکھا گیا اور اس میں سے ہوا نکال لی گئی ۔ ہوا کے ختم ہونے پر بیکر میں اب باریک سفید سفوف رہ گیا تھا ۔
” یہ سفوف تو اب ’ جیزم‘ رہا ہی نہیں “ ، ڈیوینی ہوبلربولا ۔ ۔ ۔ لیکن فلم میں ’ اینیمیشن ‘ کے ذریعے دکھایا جا رہا تھا کہ اس میں لاکھوں تولیدی خلیے موجود تھے ۔ اصل دان یا ایک اوسط درجے کا دان زیادہ سے زیادہ دو کیوبک سنٹی میٹر کے برابر تھا ۔ ڈیوینی نے اونچی آواز میں حساب لگایا کہ سوئی کا ناکہ بند کرنے کے لئے یہ کافی سفوف تھا ۔ آٹھ سو پاﺅنڈ کا یہ مواد جلد ہی ’ اینڈرومیڈا ‘ کہکشاں کی طرف روانہ کیا جا رہا تھا ۔
” فَک یو ، اینڈرومیڈا “ ڈیوینی نے کہا ۔ وہ یہ حقارت سے نہیں کہہ رہا تھا وہ تو ان اشتہاروں ، بِل بورڈوں اور سٹکرز کی زبان بول رہا تھا جن سے سارا شہر بھرا ہوا تھا ۔ کچھ پر لکھا ہوا تھا ؛ ” اینڈرومیڈا، ہمیں تم سے محبت ہے ۔ “ اور ” زمین کے پاس اینڈرومیڈا کے لئے گرمائش موجود ہے “ اور اسی طرح کے بہت سے نعرے ۔
دروازے پر دستک ہوئی اور ساتھ ہی ایک دوست جو کاﺅنٹی ’ شیرف ‘ تھا اندر داخل ہوا ۔ ” ارے بڈھے مدر فَکر ، کیسے ہو تم ؟ “ ، ڈیوینی نے کہا ۔
” کوئی شکایت نہیں ہے ، فضلے جیسے چہرے والے “ ، شیرف نے جواب دیا ۔ وہ دونوں کچھ اسی طرح ایک دوسرے سے چھیڑخانی کرتے رہے اور گریس ان کے مذاق پر قہقہے لگاتی رہی ۔ وہ اتنا کھل کر نہ ہنستی اگر اس کا مشاہدہ تیز ہوتا ، کیونکہ شیرف کے چہرے پر مزاح تو پھوٹ رہا تھا لیکن کچھ ایسا بھی تھا جو اسے دماغی طور پر پریشان کر رہا تھا ۔ اگر وہ دھیان دیتی تو دیکھ لیتی کہ اس کے ہاتھ میں کچھ قانونی کاغذات بھی تھے ۔
” احمق اور فضول بڈھے ، بیٹھ جاﺅ “ ، ڈیوینی نے کہا ، ” اور دیکھو کہ’ اینڈرومیڈا ‘ کو انسانی زندگی سے کیا تحفہ ملنے والا ہے ۔ “
” مجھے جو سمجھ آیا ہے “ ، شیرف نے جواب دیا ، ” مجھے بیس لاکھ سال تک بیٹھنا پڑے گا ۔ اور میری بوڑھی بیوی کو حیرانی ہو گی کہ میں کیا سے کیا ہو گیا ہوں ۔ “
وہ ڈیوینی سے زیادہ ہوشیار تھا ۔ اس کا ’ جیزم ‘ آرتھر سی کلارک پرموجود تھا جبکہ ڈیوینی کا نہیں لیا گیا تھا ۔ ایسے بندوں کا ’ جیزم ‘ قابل قبول تھا جن کا ’ آئی کیو ‘ 115 سے اوپر تھا ، اس فارمولے سے کچھ لوگ مستشنٰی بھی تھے جیسے اچھے کھلاڑی یا موسیقار یا پھر مصور ، لیکن ڈیوینی اس قسم کے لوگوں میں سے بھی نہیں تھا ۔ اسے امید تھی کہ پرندوں کے لئے گھر بنانے والوں کو بھی خصوصی اہمیت دی جائے گی ، لیکن ایسا نہیں ہوا تھا ۔ اس کے برعکس ’ نیویارک فلہارمونک ‘ کے ڈائریکٹر کو یہ حق حاصل تھا کہ اگر وہ چاہتا تو کوارٹر پاﺅنڈ ’ جیزم ‘ دے سکتا تھا ، وہ 68 سال کا تھا جبکہ ڈیوینی 42 سال کا تھا ۔
اب ٹیلی ویژن پر ایک پرانا خلاء نورد تھا ۔ وہ کہہ رہا تھا کہ وہ بھی وہاں جانے کا خواہاں تھا جہاں اس کا ’جیزم‘ جارہا تھا لیکن اب وہ گھر میں بیٹھا رہے گا اور یادوں اور ’ ٹینگ ‘ کے ایک گلاس پر ہی گزارا کر ے گا ۔ ٹینگ خلاء نوردوں کا سرکاری مشروب تھا ۔ یہ جما کر خشک کئے مالٹوں کا سفوف تھا ۔
” تمہارے پاس شاید دو ملین سال نہ ہوں “ ، ڈیوینی نے کہا ، ” لیکن پانچ منٹ تو ہوں گے ۔ وہاں بیٹھ جاﺅ ۔“
” میں یہاں کیوں آیا ہوں ۔ ۔ ۔؟ “ ، شیرف نے کہا اور یوں اس نے اپنی ناخوشی کا اظہار کیا ، ” کیا میں روایتی طور کچھ کرنے کے لئے کھڑا ہوں ۔ “
ڈیوینی اور گریس بری طرح تذبذب میں پڑ گئے ۔ انہیں کوئی اندازہ نہ تھا کہ آگے کیا ہونے والا تھا ۔ یہ کچھ ایسا تھا ؛ شیرف نے ان دونوں کو ایک ایک ’ سمن ‘ تھمایا اور بولا ، ” یہ میرا افسوسناک فرض ہے کہ تمہیں یہ بتاﺅں کہ تمہاری بیٹی ، وانڈا جون ، نے تم دونوں پر الزام کھڑا کر دیا ہے کہ اس کے والدین نے اسے تباہ کر دیا تھا جب وہ بچی تھی ۔ “
ڈیوینی اور گریس پر جیسے بجلی ٹوٹ پڑی ۔ انہیں معلوم تھا کہ وانڈا جون اب اکیس سال کی ہو چکی تھی اوراسے ایسا مقدمہ کرنے کی حق مل چکا تھا لیکن انہیں اس سے یہ توقع نہ تھی کہ وہ ایسا کرے گی ۔ وہ نیو یارک میں تھی اور جب انہوں نے اسے اس کی سالگرہ پر فون پر مبارکباد دی تھی تو ایسا ہوا تھا کہ گریس نے اور باتوں کے علاوہ یہ بھی کہا تھا ، ” ہاں ، اب تم اس قابل ہو گئی ہو ، ہنی بنچ ، کہ ہم پر مقدمہ کر سکتی ہو ، اگر تم چاہو تو “ ، گریس کو یقین تھا کہ وہ اور ڈیوینی اچھے ماں باپ رہے تھے ، اور جب وہ مزید کہہ رہی تھی ، ” اگر تم چاہو تو تم اپنے بوڑھے اور گلے سڑے ماں باپ کوجیل بھی بھجوا سکتی ہو “، تو وہ ہنس بھی رہی تھی ۔ وانڈا جون ، ان کی اکلوتی اولاد تھی ، اس کے بھائی بہن بھی ہو سکتے تھے لیکن گریس ہوبلر اپنے حمل گروا دیتی تھی ۔ گریس نے ایسا کرتے ہوئے تین ٹیبل لیمپ اور ایک وزن کرنے والی مشین حاصل کی تھی ۔
” وہ کیا کہتی ہے کہ ہم نے اس کے ساتھ کیا غلط کیا ؟ “ ، گریس نے شیرف سے پوچھا ۔
”تم دونوں کے سَمنوں کے ساتھ الزامات کی فہرست الگ سے لگی ہوئی ہے“ ، اس نے کہا ۔ وہ اپنے دکھی پرانے دوستوں سے آنکھیں چار نہیں کر سکتا تھا ، اس لئے اس نے ٹی وی کی طرف دیکھنا شروع کر دیا ۔ اس پرایک سائنس دان یہ وضاحت کر رہا تھا کہ ’ اینڈرومیڈا ‘ کو کیوں چنا گیا ۔ وہ بتا رہا تھا ؛ ” زمین اور ’ اینڈرومیڈا ‘ کے درمیان 87 ’ کرونو ۔ سِنکلاسٹک انفنڈیبولولائی‘ وقت کے ’ لپیٹے ‘ تھے ۔ اور اگر آرتھر سی کلارک ان میں سے ایک سے بھی گزر جائے تو جہاز اور اس پر موجود ’ جیزم ' کا لوڈ ایک کھرب بار ضرب کھا جائے گا اور خلاء اور وقت میں ہر جگہ ظاہر ہو جائے گا ۔ “
” اور اگر کائنات میں کہیں بھی حَملی زرخیزی ہے “ ، سائنس دان وعدہ کر رہا تھا ، ” توہمارا تخم اسے تلاش کر لے گا اور نمو پا لے گا “ ۔
لیکن اس خلائی پروگرام کی ابھی تک سب سے زیادہ مایوس کن باتوں میں ایک یہ تھی کہ حَملی زرخیزی ، اگر کہیں تھی تو وہ جہنم سے بھی کہیں پرے دوری میں موجود تھی ۔
ڈیوینی اور گریس جیسے کم عقل اورشیرف جیسے عقلمندوں کو یہ باور کرایا گیا کہ وہ یقین رکھیں کہ ’ باہر‘ مہانداری موجود ہے اور زمین فضلے کا ایک ڈھیرتھا جسے ’ لانچنگ پیڈ ‘ کے طور پر برتنا پڑ رہا تھا ۔
بات درست بھی تھی ؛ زمین واقعی فضلے کا ڈھیر بن چکی تھی اور کند ذہن لوگوں کے لئے بھی اس حقیقت پر یقین کرنے کا آغاز ہو چکا تھا کہ یہ سیارہ انسانوں کے لئے قابل رہائش تھا ہی نہیں ۔
اپنی بیٹی کی طرف سے مقدمہ کئے جانے کے بعد سَمن ہاتھ میں پکڑے گریس رو رہی تھی اور الزامات کی فہرست پڑھتے ہوئے اس کے آنسو بہت سے نقوش میں بدل گئے ۔ ” او خدایا ، او خدایا ، او خدایا ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے منہ سے بار بار نکلا ، ” وہ ایسی باتیں کر رہی ہے جن کو میں کب کا بھول چکی ہوں لیکن اس نے ایک بات بھی نہیں بھلائی ۔ وہ اس وقت کی باتیں کر رہی ہے جب وہ صرف چار سال کی تھی ۔ “
ڈیوینی اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کو پڑھ رہا تھا اس لئے وہ گریس سے نہ پوچھ سکا کہ اس نے ایسا کیا کر دیا تھا جب وانڈا جون صرف چار سال کی تھی لیکن یہ کچھ ایسا تھا ؛ بیچاری ننھی وانڈا جون نے ’ لِوونگ روم ‘ کی دیواروں پر لگے نئے وال پیپر پر کریونز سے خوشنما تصویریں بنائی تھیں اور اس کا خیال تھا کہ اس کی ماں انہیں دیکھ کر خوش ہو گی لیکن اس کی ماں نے غصے میں آ کر اسے چماٹ مارے تھے ۔ تب سے وانڈا جون کسی قسم کے آرٹ میٹریل کی طرف ، ایک پتے کی طرح لرزے بغیر دیکھ نہ پائی تھی ، اس پر نظر پڑتے ہی وہ پسینے میں بھیگ جاتی تھی ۔ ” چنانچہ مجھے آرٹ کے میدان میں ایک روشن اور نفع بخش روزگار“ ، وانڈا جون کے وکیل نے اس سے یوں کہلوایا تھا ، ” سے محروم کر دی گئی تھی ۔ “
ڈیوینی کو اس دوران یہ جانکاری ہو رہی تھی کہ اس کی وجہ سے اس کی بیٹی کی شادی کے بہترین مواقع ، ان سے حاصل ہونے والی راحت اور محبت سب ضائع ہو گئے تھے ۔ ڈیوینی نے یہ کچھ ایسے کیا تھا کہ جب بھی اس کی بیٹی سے شادی کا کوئی خواہاں آتا تو ڈیوینی نشے میں دھت ہوتا ، جب وہ دروازہ کھولنے جاتا تو اکثر وہ کمر تک ننگا بھی ہوتا تھا ، ایسے میں البتہ اس کی گولیوں کی پیٹی اور ریوالور اس کے جسم سے لٹکی ہوتی ۔ اس نے اپنے ایک عاشق کا نام بھی لکھا تھا جسے وہ اپنے باپ کی وجہ سے حاصل نہ کر پائی تھی ؛ جان ایل نیوکومب ، جس نے بالآخر کسی اور سے شادی کر لی تھی ۔ اب اس کے پاس ایک اچھی نوکری تھی ۔ وہ ساﺅتھ ڈِکوٹا میں ، ایک اسلحہ خانے کی سیکورٹی فورس کا انچارج تھا ، انہوں نے وہاں ’ ہیضہ ‘ اور ’ طاعون ‘ کے ڈھیر لگا رکھے تھے ۔
شیرف کے پاس ایک اور بری خبر تھی جس کے بارے میں اس کا خیال تھا کہ اسے سنانے کا موقع بھی جلد ہی آ جائے گا ۔ بیچارے ڈیوینی اور گریس نے اس سے پوچھنا ہی تھا ، ” اسے کس بات نے ہمارے ساتھ ایسا کرنے پر مجبور کیا ؟ “
اس سوال کا جواب ہی وہ زیادہ بری خبر تھی جسے شیرف نے روک رکھا تھا اور وہ یہ تھی کہ وانڈا جون جیل میں تھی ۔ اس پر الزام تھا کہ وہ دکانوں میں چوریاں کرنے والے ایک گروہ کی سربراہ تھی ۔ جیل سے بچنے کے لئے اس کے پاس اور کوئی راستہ نہ تھا کہ وہ یہ ثابت کرے کہ اس نے جو کچھ کیا اور وہ اس وقت جو بھی تھی ، اس کے ذمہ دار اس کے والدین تھے ۔
اس دوران سینٹ کی خلائی کمیٹی کا چیئرمین ، مسیسیپی کا سینیٹر فلیم سنوپس ٹیلی ویژن پر نمودار ہوا ۔ وہ ’ بگ سپیس فَک ‘ کے بارے میں بہت خوش تھا اور اس نے کہا کہ امریکی خلائی پروگرام کافی عرصے سے اس پر کام کر رہا تھا ۔ وہ فخر سے کہہ رہا تھا کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے اس کے پیارے رہائشی قصبے ، مے ہیو ، کو سب سے بڑا ’ جیزم ‘ جمانے کا پلانٹ لگانے کے لئے مناسب جانا تھا ۔
بات سے بات نکلتی ہے ؛ لفظ ’ جیزم‘ کی تاریخ بھی دلچسپ تھی ۔ یہ اتنا ہی پرانا لفظ تھا جتنا کہ ’ فَک‘ اور ’ شِٹ‘ اور اسی طر ح کے دوسرے الفاظ ، لیکن اسے ہمیشہ لغات سے باہر ہی رکھا گیا تھا اور باقی کو شامل لغات کرنے کے بہت بعد ہی اسے بھی لغات میں جگہ ملی تھی ، یہ اس وجہ سے تھا کہ بہت سے لوگ چاہتے تھے کہ اس حقیقی جادوئی لفظ کو باہر ہی رہنے دیا جائے ۔ ۔ ۔ واحد لفظ کے طور پر ۔
اور جب امریکی حکومت نے یہ اعلان کیا کہ وہ’ اینڈرومیڈا ‘ کہکشاں پر ’ سپرم ‘ داغنا چاہتی تھی تو عوام نے حکومت کی تصیح کی تھی ۔ ان کے اجتماعی لاشعور نے یہ اعلان کیا کہ وقت آ گیا تھا کہ یہ آخری جادوئی لفظ بھی عرف عام ہو ۔ انہوں نے اصرار کیا کہ ’ سپرم ‘ کوئی ایسی شے نہیں جسے کسی دوسری کہکشاں پر داغا جا سکے ۔ صرف ’ جیزم ‘ کو داغا جا سکتا تھا ، چنانچہ حکومت نے اس لفظ کا استعمال شروع کر دیا اور اس نے وہ کر دکھایا جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا اور اسے اسی طرح ، جس طرح یہ لکھا اور بولا جاتا تھا ، معیاری تسلیم کر لیا گیا ۔
وہ آدمی جو سینیٹر سنوپس کا انٹرویو لے رہا تھا نے اس سے درخواست کی وہ کھڑا ہو جائے تاکہ ہر کوئی ٹھیک طرح سے اس کے ’ کوڈ ۔ پیس ‘ کو دیکھ سکے ، سینیٹر نے ایسا ہی کیا ۔ اس وقت کوڈ ۔ پیس پہننے کا فیشن عام تھا اور کئی مرد ایسے کوڈ ۔ پیس پہنے پھرتے تھے جو خلائی راکٹ کی طرز پر بنے ہوئے تھے ، یہ بھی ’ بِگ سپیس فَک ‘ کو خراج عقیدت پیش کرنے کا ایک طریقہ تھا ۔ ان کی بَلی پر روایتی طور پر ’ یو ایس اے‘ لکھا ہوا تھا ، البتہ سینیٹر سنوپس کے کوڈ ۔ پیس کی بَلی پر ستارے اور وہ پٹیاں بنی تھیں جو متحدہ ریاستوں کی علامت تھیں ۔
اب گفتگو آہنی لباس اور حسب ونسب کی طرف چل پڑی اور انٹرویو لینے والے نے سینیٹر کو اس کی چلائی وہ مہم یاد دلائی جو اس نے اس حوالے سے چلا رکھی تھی کہ گنجے عقاب کو بطور قومی پرندہ ماننا بند کیا جائے ۔ سینیٹر نے وضاحت کی کہ وہ نہیں چاہتا کہ ایک ایسا پرندہ جو اس جدید زمانے میں رائی بھی نہیں کاٹ سکتا ، ملک کی نمائندگی کیسے کر سکتا تھا ۔
اور جب اس نے کسی ایسی مخلوق کے بارے میں پوچھا جو رائی کاٹ سکتی ہو تو سینیٹر نے دو نام لئے ؛ لیمپری اور بلڈورم ۔ اسے یا کسی اور کو بھی یہ معلوم ہی نہ تھا کہ لیمپری مچھلیوں نے تو بڑی جھیلوں کو بھی معمولی اور اپنے لئے مہلک سمجھنا شروع کر دیا تھا ۔ اس وقت جب لوگ اپنے گھروں میں ’ بِگ سپیس فَک ‘ کی نشریات دیکھ رہے تھے، لیمپری مچھلیاں چپچپے گندے پانی سے تلملاتی اور انیٹھتی خشکی پر آ رہی تھیں ۔ اس میں سے کچھ اتنی لمبی اور موٹی تھیں جتنا کہ ' آرتھر سی کلارک ‘ تھا ۔
گریس ہوبلر نے اپنی نم آنکھیں ان کاغذوں سے ہٹائیں جنہیں وہ پڑھ رہی تھی اور اس نے شیرف سے وہ سوال پوچھا جسے سننے سے وہ ڈر رہا تھا ؛ ” اسے کس بات نے ہمارے ساتھ ایسا کرنے پر مجبور کیا ؟ “
شیرف نے اسے بتایا اور ظالم قسمت کی ستم ظریفی پر خود بھی رونا شروع کر دیا ۔ ” یہ سب سے بھیانک فرض تھا جسے میں نے آج سرانجام دیا ہے ۔ ۔ ۔ “ اس نے ٹوٹے دل سے کہا ، ” تم جیسے پرانے دوستوں کو دل چیر دینے والی ایسی خبر دینے کا ۔ ۔ ۔ وہ بھی ایک ایسی رات کو جو انسانی تاریخ کی سب سے پُر مسرت رات ہے ۔ “
وہ آنسو بہاتا باہر نکلا اور ڈگمگاتا ہوا ایک لیمپری کی تھوتھن میں جا گرا ۔ لیمپری نے اسے فوراً نگل لیا لیکن اتنی جلدی بھی نہیں کہ وہ چیخ بھی نہ سکے ۔ ڈیوینی اور گریس ہوبلر جلدی سے باہر نکلے کہ دیکھیں کہ یہ کیسی چیخ تھی ، اور لیمپری انہیں بھی چٹ کر گئی ۔
” نو “ ، اور ” آٹھ “ اور پھر ” سات “ ۔ ۔ ۔ ٹیلی ویژن سے آواز آ رہی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فَک = Fuck
فضلہ ، ’ شِٹ‘ = Shit
’ کلوروکس‘ = Clorox ، امریکہ کی ایک مشہور کمپنی جو صفائی اور جراثیم کُشی کے لئے بلیچ جیسے مختلف محلول اورسفوف بناتی ہے ۔
’جیزم ‘ = Jizzum ، امریکی انگریزی میں sperm کے لئے ایک سلینگ ( slang ) لفظ
’ اینڈرومیڈا ‘ کہکشاں = Andromeda Galaxy ، یہ مِلکی وے ( Milkyway) کہکشاں، جس میں ہمارا سولر سسٹم واقع ہے ،کی سب سے نزدیکی کہکشاں ہے جو اس سے لگ بھگ 22 لاکھ لائٹ ۔ ایئرز ( light-year ) کے فاصلے پر ہے ۔ یاد رہے کہ ایک لائٹ ایئر 5.9 ٹریلین میل کے برابر ہوتا ہے ۔
’ آرتھر سی کلارک ‘ = Arthur C. Clarke ، برطانوی سائنس فکشن ادیب ، مستقبل پسند اور زیر آب کھوجی ( 1917 ء تا 2008ء) ۔ افسانے میں مصنف نے طنزیہ طور پر اسے خلائی کھوجی کہا ہے ۔
’ لِوونگ روم‘ = Living Room
’ الٹی گنتی‘ = Countdown
’ اوہایو بالغ درستی انسٹی ٹیوٹ ‘ = Ohio Adult Correctional Institution
’ بیل جار ‘ = Bell Jar ، شیشے سے ایک سائنسی آلہ
’اینیمیشن ‘ = Animation
’شیرف‘ = Sheriff ، امریکہ میں تھایندار کو شیرف کہا جاتا ہے ۔
مدر فَکر = Motherfucker
’ نیویارک فِلہارمونک ‘ = New York Philharmonic ، موسیقی کا ایک ادارہ
’ ٹینگ ‘ = Tang
ہنی بنچ = Honeybunch
’ کرونو ۔ سِنکلاسٹک انفنڈیبولولائی‘ = Chrono-Synclastic Infundibulae ، مصنف نے اس مظہر ( phenomenon ) کو اپنے ہی ناول ’ The Sirens of Titan ‘ سے مستعار لیا ہے جو 1959 ء میں شائع ہوا تھا ۔ اس میں رَم فروڈ ( ناول کا مرکزی کردار) کا خلائی جہاز زمین سے مریخ تک کے سفر کے دوران اس مظہر کا سامنا کرتا ہے ۔
’ کوڈ ۔ پیس ‘ = Codpiece ، قرون وسطیٰ کے یورپی لباس کا لازمی حصہ جو مردانہ اعضائے تولید کے حصے کو حفاظتی طور پرڈھانپتا ہے ۔ آج کل کئی کھلاڑی بھی اسے پہنتے ہیں ۔
لیمپری = Lamprey ، بام مچھلی جیسی ایک مچھلی جس کے جبڑے نہیں ہوتے بس ایک دانتوں والی تھوتھن ہوتی ہے جس سے یہ اپنی خوراک کو چوس لیتی ہے ۔
بلڈ ورم = Bloodworm ، یہ بھی سمندروں میں پائی جانے والی ایک آبی مخلوق ہے جسے امریکہ کے شمال مشرقی ساحل پر کثرت سے پالا جاتا ہے تاکہ اسے مچھلی کے شکار کے لئے استعمال کیا جا سکے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔