بابل کی لاٹری
خورخے لوئس بورخیس
Jorge Luis Borges
انگریزی سے ترجمہ:اجمل کمال
The Babylon Lottery
بابل کی لاٹری
بابل کے تمام باشندوں کی طرح میں ایک حاکم رہا ہوں، اور سب کی طرح ایک غلام بھی۔ میں قدرتِ مطلق ، ذلت اور قید سے بھی واقف رہا ہوں۔ دیکھو: میرے دائیں ہاتھ کی انگشتِ شہادت غائب ہے۔ دیکھو: میری قبا کے اس چاک سے تم میرے پیٹ پر بنے اس سرخ کیے ہوے نقش کو دیکھ سکتے ہو۔ یہ دوسرا حرف ’ب‘ ہے۔ یہ حرف پورے چاند کی راتوں کو مجھے ان لوگوں پر قدرت عطا کرتا ہے جن کا نشان ’ج‘ ہے، لیکن یہ مجھے ’الف‘ کے نشان والوں کے تابع بھی کر دیتا ہے، جو بےچاند کی راتوں کو ’ج‘ کے نشان والوں کے مطیع ہوتے ہیں۔ فجر کے وقت ایک تہہ خانے میں میں نے ایک سیاہ پتھر پر متبرک بیلوں کی شہ رگیں قطع کی ہیں۔ ایک قمری سال کے دوران مجھے غیرمرئی قرار دے دیا گیا تھا: میں چلّاتا تھا اور میری آواز کا کوئی جواب نہیں ملتا تھا، میں روٹیاں چراتا تھا اور میرا سر قلم نہیں کیا جاتا تھا۔ میں اس چیز سے بھی واقف ہوں جس سے یونانی بےخبر تھے: غیریقینیت سے۔ کانسی کی ایک کوٹھڑی میں پھانسی دینے والے کے خاموش رومال کے سامنے امید ہمیشہ مجھ سے وفادار رہی ہے، جس طرح مسرتوں کے بہاؤ میں دہشت نے کبھی میرا ساتھ نہیں چھوڑا۔ پونٹیکا کے ہیریقلیطس نے مداحانہ انداز میں بیان کیا ہے کہ فیثاغورث کو یاد تھا کہ وہ اس سے پہلے فیرو رہ چکا ہے، اور اس سے پہلے یوفوربس، اور اس سے پہلے کوئی اور۔ ان یکساں نشیب وفراز کو یاد کرنے کے لیے مجھے موت سے (حتیٰ کہ عیاری سے بھی ) رجوع کرنے کی ضرورت نہیں۔
اس تقریباً وحشیانہ تنوع کے لیے میں ایک ایسے ادارے کا مرہونِ منت ہوں جس کے بارے میں دوسری جمہوریتیں کچھ نہیں جانتیں، یا جو ان کے درمیان خام صورت میں یا خفیہ طور پر کام کرتا ہے — یہ ادارہ لاٹری ہے۔ میں نے اس کی تاریخ کی کرید نہیں کی۔ مجھے معلوم ہے کہ داناؤں میں اس بارے میں اتفاقِ رائے نہیں ہو سکتا۔ اس کے طاقتور مقاصد کے بارے میں میں اتنا ہی جانتا ہوں جتنا علمِ فلکیات سے ناواقف کوئی شخص چاند کے بارے میں۔ میرا تعلق ایک مضطرب سرزمین سے ہے جہاں لاٹری پر حقیقت کی بنیاد ہوتی ہے۔ آج تک میں نے اس کے بارے میں اتنا ہی کم سوچا ہے جتنا ناقابلِ فہم خداؤں کے طرزعمل کے بارے میں یا اپنے دل کے بارے میں۔ اب جبکہ میں بابل سے اور اس کے محبوب رسم ورواج سے دور ہوں، میں لاٹری کے متعلق قدرے تعجب سے سوچتا ہوں اور جھٹ پٹے کے وقت نقاب پوش انسانوں کے ان ملحدانہ منتروں کے ادا کرنے پر غور کرتا ہوں۔
میرا باپ بیان کیا کرتا تھا کہ شروع میں — صدیوں یا شاید برسوں پہلے — بابل کی لاٹری ادنیٰ طبقے کے لوگوں کا ایک کھیل تھی۔ اس کا کہنا تھا (میں نہیں جانتا یہ کہاں تک سچ تھا) کہ حجام تانبے کے سکّوں کے بدلے ہڈی یا منقش چمڑے کے مستطیل ٹکڑے دیا کرتے تھے جن پر علامتیں کندہ ہوتی تھیں۔ نصف النہار کے وقت لاٹری کا قرعہ ڈالا جاتا تھا۔ جیتنے والوں کو قسمت کی مزید تائید کے بغیر چاندی کے ڈھلے ہوے سکے ملتے تھے۔ یہ طریقہ، جیسا کہ تم دیکھ سکتے ہو، بالکل ابتدائی درجے کا تھا۔
قدرتی طور پر یہ ’لاٹریاں‘ ناکام ہو گئیں۔ ان کی اخلاقی خوبی صفر تھی۔ ان میں انسانوں کی تمام صلاحیتوں کے لیے کشش نہ تھی، بلکہ صرف امید کے لیے۔ لوگوں کی بےتوجہی کے سبب وہ تاجر جنھوں نے یہ زراندوز لاٹریاں قائم کی تھیں، نقصان اٹھانے لگے۔ پھر کسی نے ایک خفیف سی اصلاح کرنے کی کوشش کی۔ جیتنے والے اعداد کے درمیان چند ناموافق ٹکٹ بھی شامل کر دیے گئے۔ اس اصلاح سے منقش مستطیلوں کے خریدار ایک رقم جیتنے یا ایک بڑا جرمانہ ادا کرنے کے دوہرے امکان کا سامنا کرنے لگے۔ اس خفیف سے خطرے نے (ہر تیس جیتنے والے اعداد پر ایک ناموافق ٹکٹ ہوتا تھا) فطری طور پر لوگوں کی دلچسپی کو ابھارا۔ بابلیوں نے خود کو اس کھیل کے سپرد کر دیا۔ جو شخص رقمیں نہ جیتتا اسے پست ہمت اور کم ظرف سمجھا جاتا۔ رفتہ رفتہ اس حقارت میں اضافہ ہوتا گیا۔ اب نہ صرف جو شخص کھیل میں حصہ نہ لیتا اسے حقیر سمجھا جاتا تھا بلکہ ہار کر جرمانہ ادا کرنے والوں پر بھی نفرین کی جاتی تھی۔ کمپنی کو (اسے اس نام سے جبھی پکارا جانے لگا تھا) جیتنے والوں کے تحفظ کے لیے انتظامات کرنے پڑے جنھیں جیتی ہوئی رقم اس وقت تک نہیں مل سکتی تھی جب تک جرمانوں کی ساری رقم جمع نہ ہو جائے۔ کمپنی نے ہارنے والوں پر مقدمہ دائر کر دیا۔ منصف نے انھیں جرمانہ اور مقدمے کے اخراجات ادا کرنے یا کچھ دن قید میں گزارنے کی سزا میں انتخاب کرنے کو کہا۔ کمپنی کو نقصان پہنچانے کی غرض سے ہر شخص نے قید کا انتخاب کیا۔ ابتدا میں چند لوگوں کی اسی دکھاوے کی بہادری کے سبب کمپنی کو اس کی موجودہ متبرک مابعدالطبیعیاتی حیثیت حاصل ہوئی۔
کچھ عرصے بعد قرعہ اندازی کی فہرستوں میں جرمانوں کی رقم کا اندراج غائب ہو گیا اور اس کی جگہ ہر ناموافق عدد کے لیے لازم آنے والی قید کی میعاد نے لے لی۔ یہ بلیغ اختصار، جسے اس وقت محسوس نہیں کیا گیا، بعد میں اصل اہمیت کا حامل بن گیا۔ ’’یہ لاٹری میں غیرمالیاتی عنصر کی پہلی آمد تھی۔‘‘ اسے عظیم الشان کامیابی حاصل ہوئی۔ کھیلنے والوں کے اصرار پر کمپنی کو ناموافق اعداد میں اضافہ کرنا پڑا۔
ہر کوئی جانتا ہے کہ بابل کے لوگ منطق کے بہت دلدادہ ہیں، حتیٰ کہ موزونیت کے بھی۔ انھیں یہ بات بےجوڑ معلوم ہوئی کہ خوش قسمت اعداد کو گول سکّوں میں شمار کیا جائے جبکہ بدقسمت اعداد کو قید کے دنوں اور راتوں میں۔ کسی معلّمِ اخلاق نے استدلال کیا کہ دولت کی ملکیت ہمیشہ مسرت کا باعث نہیں ہوتی اور یہ کہ خوش بختی کی دوسری صورتیں شاید زیادہ موثر ہیں۔
غریب لوگوں میں بےچینی کا ایک اور سبب بھی تھا۔ راہبوں کے کالج کے ارکان نے داؤ پر لگائی جانے والی رقم بڑھا دی اور دہشت اور امید کے مدّوجزر سے خود لطف اندوز ہونے لگے۔ غریب لوگوں نے معقول یا ناگزیر رشک کے ساتھ خود کو اس بدنام لذت سے بھرے مدوجزر سے محروم پایا۔ اس جائز مطالبے نے کہ غریب اور امیر دونوں کو لاٹری میں برابر کا حصہ حاصل ہو، اس غضب ناک احتجاج کو جنم دیا جس کی یاد اتنے برسوں میں بھی محو نہیں ہوئی۔ چند ضدی لوگ نہ سمجھ سکے (یا انھوں نے نہ سمجھنے کا ڈھونگ رچایا) کہ یہ نیا ضابطہ تاریخ کی ایک لازمی منزل تھی… ایک غلام نے ایک قرمزی رنگ کا ٹکٹ چرا لیا جس سے اگلی قرعہ اندازی کے موقعے پر اس کی زبان جلائی جانے کا قرعہ نکلا۔ تعزیرات میں ٹکٹ چرانے والے کے لیے یہی سزا مقرر کر دی گئی۔ بہت سے بابلیوں نے کہا کہ وہ اس چوری کی پاداش میں تپتے ہوے لوہے سے داغے جانے کا مستحق ہے۔ جو زیادہ عالی ظرف تھے انھوں نے قرار دیا کہ جلاد لاٹری کی سزا کو خود عائد کرے کہ قسمت کا یہی فیصلہ ہے۔
ہنگامے پھوٹ پڑے، افسوسناک طریقے سے خون بہنے لگا۔ لیکن آخرکار بابل کے عوام نے امیروں کی مرضی کے خلاف اپنی مرضی منوا لی۔ لوگوں کو اپنے اعلیٰ مقاصد مکمل طور پر حاصل ہو گئے۔ ایک تو یہ کہ کمپنی کو مطلق اختیار حاصل ہو گیا۔ (نئے طریقوں کی وسعت اور پیچیدگی کے پیش نظر یہ اکائی قائم کرنا ضروری تھا۔) دوسرے یہ کہ لاٹری کو خفیہ، مفت اور عام کر دیا گیا۔ رقم کے بدلے ٹکٹوں کی فروخت ختم کر دی گئی۔ ایک بار بعل کے اثر میں آ جانے کے بعد، ہر آزاد شخص خودبخود مقدس قرعہ اندازی میں حصہ لینے لگتا، جو ہر ستر راتوں کے بعد دیوتاؤں کی بھول بھلیوں میں کی جاتی تھی اور اگلی قرعہ اندازی تک ہر شخص کی تقدیر کو متعین کرتی تھی۔ اس کے نتائج ناقابلِ شمار تھے۔ کوئی موافق نتیجہ کسی شخص کو داناؤں کی کونسل تک پہنچا سکتا تھا یا کسی بدنام یا جانی دشمن کو اس کی تحویل میں دے سکتا تھا یا وہ ایک کمرے کے سکون بھرے سایوں میں اشتعال دلانے والی اس عورت کو پا سکتا تھا جسے دوبارہ دیکھنے سے وہ مایوس ہو چکا ہو۔ کسی ناموافق نتیجے سے مراد قطعِ اعضا، ذلت یا موت ہو سکتی تھی۔ کبھی کبھی کوئی ایک واقعہ — مثلاً ج کا مے خانے میں قتل یا ب کے درجات میں پراسرار بلندی — تیس یا چالیس قرعہ اندازیوں کا پُرمسرت نتیجہ ہو سکتا تھا۔ بہت سی قرعہ اندازیوں کے نتائج کو جوڑنا مشکل تھا لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کمپنی کے عملدار عیار اور سب کچھ کرنے پر قادر تھے (اور ہیں)۔ بہت سی صورتوں میں یہ علم ہو جانے سے کہ کسی خاص مسرت کا سبب محض قسمت ہے، ان کی مہارت کی شہرت کو ضعف پہنچ سکتا تھا۔ اس سے بچنے کے لیے کمپنی کے ایجنٹ ترغیب اور جادو کی قوت کا استعمال کرتے تھے۔ ان کے افعال اور نقل وحرکت خفیہ تھی۔ ہر شخص کی دلی دہشتوں اور دلی امیدوں کا کھوج لگانے کے لیے وہ نجومیوں اور جاسوسوں کو استعمال کیا کرتے تھے۔ کچھ پتھر کے بنے ہوے شیر تھے، ایک مقدس بیت الخلا تھا جو قفقہ کہلاتا تھا، ایک نالے میں کچھ دراڑیں تھیں جو عام خیال کے مطابق کمپنی کی طرف لے جانے والی تھیں۔ حاسد یا بہی خواہ لوگ ان شگافوں کو اپنی معلومات سے بھرتے رہتے تھے۔ سچائی کے مختلف معیاروں کی حامل ان معلومات کو حروفِ تہجی کے اعتبار سے ایک فائل میں اکٹھا کیا جاتا تھا۔
ناقابلِ یقین بات یہ ہے کہ شکایات پھر بھی ہوتی تھیں۔ کمپنی اپنی دوراندیشی کی عادت کے سبب براہ راست جواب نہیں دیتی تھی۔ اس نے نقابوں کے کارخانے میں لکڑی کے بیکار ٹکڑوں پر وہ مختصر سا بیان بےاعتنائی سے گھسیٹ دینے کو ترجیح دی جو اب مقدس منقولات میں شامل ہے۔ ادب کے اس اصول ساز نمونے میں کہا گیا تھا کہ لاٹری دنیا کے نظام میں قسمت کو داخل کرنے کا نام ہے اور غلطیوں کے وجود کو قبول کرنا قسمت کو رد کرنا نہیں بلکہ اس کی تائید کرنا ہے۔ مزید یہ کہ ان شیروں اور مقدس دراڑوں کو اگرچہ کمپنی کی طرف سے ناجائز قرار نہیں دیا گیا (کہ وہ ان سے استفادہ کرنے کے حق سے دستبردار نہیں ہونے والی) لیکن وہ کسی سرکاری ضمانت کے بغیر کام کرتے تھے۔
اس اعلان نے لوگوں کی بےچینی فرو کر دی۔ اس سے کچھ اور اثرات بھی پیدا ہوے جو لکھنے والے کے اندازے سے باہر تھے۔ اس نے کمپنی کی روح اور افعال میں گہری ترمیم کر دی۔ میرے پاس وقت بہت کم ہے، ہمیں پہلے ہی تنبیہ کی جا چکی ہے کہ جہاز لنگر اٹھانے والا ہے، پھر بھی میں وضاحت کرنے کی کوشش کروں گا۔
خواہ یہ کتنا ہی خارج از امکان نظر آتا ہو، لیکن اس وقت تک کسی نے کھیلوں کا کوئی عام نظریہ قائم کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ بابلی زیادہ قیاس آرائیاں کرنے والے نہیں ہوتے۔ وہ تقدیر کے فیصلوں کی تعظیم کرتے ہیں اور اپنی زندگیاں، اپنے خوف اور اپنی امیدیں اس سے وابستہ کر دیتے ہیں، لیکن انھیں کبھی ان کے چیستانی قوانین یا ان کا اعلان کرنے والے گھومتے ہوے کُروں کی تحقیق کرنے کا خیال نہیں آتا۔ اس کے باوجود اس غیرمستند اعلان سے، جس کا میں نے ابھی ذکر کیا، بہت سی قانونی اور ریاضیاتی بحثوں کی ابتدا ہوئی۔ ان میں سے ایک بحث سے یہ قیاس پیدا ہوا کہ اگر لاٹری کا مقصد قسمت میں شدت پیدا کرنا ہے، اور کائنات میں انتشار کا مسلسل نفوذ ہے، تو کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ اتفاق کا دخل صرف قرعہ اندازی کے موقعے پر ہونے کے بجاے ہر مرحلے پر ہو؟ کیا قسمت کے لیے یہ بات مضحکہ خیز نہیں کہ وہ صرف کسی کی موت کا اعلان کرے جبکہ اس کی موت کے تفصیلی حالات، اس کا برسرِعام یا خفیہ ہونا، یا ایک گھنٹے یا ایک صدی کے بعد واقع ہونا، اس کی دسترس سے باہر رہیں؟ آخرکار ان اعتراضات نے بہت بڑی اصلاح کی راہ ہموار کی جس کی پیچیدگیاں (جن میں برسوں کے عمل سے اور اضافہ ہو گیا) معدودے چند ماہرین کے سوا کوئی بھی نہ سمجھ سکتا تھا۔ لیکن میں انھیں، علامتی طور پر ہی سہی، مختصراً بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
ایک پہلی قرعہ اندازی کا تصور کرو جس میں کسی شخص کے لیے موت کی سزا کا قرعہ نکلتا ہے۔ اس سزا کی انجام دہی کے لیے ایک اور قرعہ اندازی ہوتی ہے جس سے (مثال کے طور پر) نو ممکنہ جلادوں کے نام تجویز ہوتے ہیں۔ ان میں سے چار ایک اور قرعہ ڈال سکتے ہیں جس سے اصل جلاد کا تعین ہو جائے؛ دو اس ناموافق حکم کو موافق حکم میں بدل سکتے ہیں (مثلاً کسی خزانے کا حصول)؛ ایک اور شخص سزاے موت کے حکم میں مزید شدت پیدا کر سکتا ہے (یعنی اسے خفیہ رکھ کر یا اس میں تشدد کا اضافہ کر کے)؛ باقی لوگ اس سزا کو عائد کرنے سے انکار کر سکتے ہیں۔ اس کی علامتی صورت اس طرح کی ہے: درحقیقت قرعہ اندازیوں کی تعداد لامحدود ہے، کوئی فیصلہ آخری نہیں، سب دوسرے فیصلوں میں گم ہو جاتے ہیں۔ بےخبر لوگ فرض کر لیتے ہیں کہ لامحدود قرعہ اندازیوں کے لیے لامحدود وقت درکار ہوتا ہو گا، حقیقت میں وقت کا صرف لامحدود طور پر قابلِ تقسیم ہونا کافی ہے، جیسا کہ کچھوے اور خرگوش کی مشہور حکایت میں ہے۔ یہ لامحدودیت لاٹری کے اس مقدس نمونے سے پُرستائش مطابقت رکھتی ہے جس کے فلاطونی مداح تھے۔ ہمارے رواج کی ایک ذرا بگڑی ہوئی گونج دریاے ٹائبر کے کنارے پر سنائی دیتی معلوم ہوتی ہے۔ ایلیس لیمپریڈیس نے اپنی کتاب LIFE OF ANTONINUS HELIOGABALUS میں بتایا ہے کہ کس طرح یہ بادشاہ اپنے مہمانوں کو ملنے والی چیزیں سیپیوں پر تحریر کر دیا کرتا تھا کہ کسی کو دس پونڈ سونا حاصل ہو اور کسی کو دس مکھیاں، دس گلہریاں یا دس ریچھ۔ یہ یاد کرنا برمحل ہو گا کہ ہیلیوگبالس نے ایشیاے کوچک میں نامور خدا کے راہبوں کے درمیان پرورش پائی تھی۔
غیرشخصی قرعہ اندازیاں بھی ہوتی ہیں جن کا مقصد متعین نہیں ہوتا، مثلاً کسی قرعے سے یہ حکم صادر ہو سکتا ہے کہ ٹپروبین کا ایک یاقوت فرات کے پانیوں میں پھینک دیا جائے، یا یہ کہ ایک پرندے کو کسی مینار پر سے آزاد کیا جائے، یا یہ کہ ساحل پر پڑے ہوے ریت کے ناقابلِ شمار ذروں میں ہر ایک صدی کے بعد ایک ذرہ بڑھا (یا گھٹا) دیا جائے۔ اس کے دوررس نتائج ہولناک ہو سکتے ہیں۔
کمپنی کے مفید اثر سے ہمارے رواجوں میں اتفاق کا بےحد دخل ہو گیا ہے۔ دمشق کی شراب کے درجن بھر مٹکے خریدنے والے کو کوئی تعجب نہیں ہو گا اگر ان میں سے کسی میں کوئی تعویذ یا سانپ موجود ہو۔ معاہدے تحریر کرنے والے خوش نویس ہمیشہ اس میں کوئی نہ کوئی نادرست مفروضہ شامل کر دیتے ہیں۔ میں نے خود اس عجلت میں کیے ہوے ذکر میں کچھ نہ کچھ ردوبدل کر دیا ہے اور ایک قسم کا جلال یا کرختگی شامل کر دی ہے — شاید ایک پراسرار یک آہنگی بھی۔ ہمارے مورخوں نے، جو دنیا میں سب سے زیادہ دانشمند ہیں، اتفاق کی تصحیح کرنے کا ایک طریقہ وضع کیا ہے۔ اس طریقے کے افعال عام طور پر قابلِ اعتماد تصور کیے جاتے ہیں، اگرچہ فطری طور پر اس کی شہرت میں کچھ نہ کچھ عنصر فریب کاری کا بھی شامل ہے۔ بہرصورت، کمپنی کی تاریخ سے زیادہ افسانوں سے ملوث اور کوئی چیز نہیں ہے۔ کسی معبد سے برآمد ہونے والی ایک دستاویز کسی کل کی قرعہ اندازی کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہے اور صدیوں پہلے کی قرعہ اندازی کا بھی۔ کوئی کتاب ایسی نہیں جس کے ہر نسخے میں کچھ نہ کچھ فرق نہ ہو — کاتب حذف، تحریف اور تبدیل کرنے کا خفیہ طور پر حلف اٹھائے ہوے ہوتے ہیں۔ بالواسطہ جھوٹ کو بھی رواج دیا جاتا ہے۔
الوہی انکسار کے سبب کمپنی ہر قسم کی تشہیر سے گریز کرتی ہے۔ اس کے عملدار، جیسا کہ فطری بات ہے، خفیہ ہیں۔ اس کے مسلسل جاری ہوتے رہنے والے احکام دھوکے بازوں کے جاری کیے ہوے نقلی احکام کے سیلاب سے مختلف نہیں ہوتے۔ اور پھر کون ہے جو دھوکے باز ہونے کا خود دعویٰ کرے گا؟ مدہوشی میں لایعنی فیصلے صادر کرنے والا شرابی، یا کوئی خواب دیکھنے والا جو یکایک نیند سے چونک کر اپنے پہلو میں سوئی ہوئی عورت کا گلا گھونٹ کر اسے مار ڈالتا ہے، کیا یہ دونوں غالباً کمپنی کے کسی خفیہ فیصلے کو پورا نہیں کر رہے ہوتے؟ یہ خاموش کارگزاری، جو خدا کے کاموں کی ہم پلّہ ہے، ہر قسم کی قیاس آرائیوں کو جنم دیتی ہے۔ ان میں سے ایک قیاس بڑے مکروہ انداز میں یہ جتاتا ہے کہ کمپنی کی عمر چند صدیوں سے زیادہ نہیں، جبکہ ہماری زندگیوں کی یہ بےترتیبی موروثی ہے۔ دوسرے کہتے ہیں کہ کمپنی ابدی ہے اور دنیا کی آخری رات تک قائم رہے گی جب آخری خدا کائنات کو منہدم کردے گا۔ ایک اور قیاس یہ اعلان کرتا ہے کہ کمپنی ہر شے پر قادر ہے لیکن وہ اپنی قدرت صرف بہت چھوٹے معاملات میں استعمال کرتی ہے، مثلاً کسی پرندے کی چیخ، زنگ اور غبار کی تہوں یا فجر کی غنودگی میں۔ ایک اور خیال، چھپے ہوے بےعقیدہ لوگوں کی زبان میں، یہ ہے کہ ’’کمپنی کا وجود کبھی نہیں تھا، اور نہ کبھی ہو گا۔‘‘ اتنا ہی حقارت آمیز ایک اور قیاس یہ بھی ہے کہ کسی مشتبہ کارپوریشن کے ہونے کے اقرار یا انکار سے کچھ فرق نہیں پڑتا، کیونکہ بابل اتفاق کے ایک لامحدود کھیل کے سوا کچھ نہیں۔
(آج :پہلی کتاب ۱۹۸۱)
http://www.adbiduniya.com/2015/08/aaj-magazine-first-book-1981.html