کیمرونین افسانہ
( فرانسیسی سے )
انتقامی دُرہ ( Le fouet de la vengeance )
(The Avenging Whip)
میکس لوب ( Max Lobe )
اردو قالب ؛ قیصر نذیر خاور ، لاہور ، پاکستان
موسم اتنا گرم ہے کہ میں ٹِک کر کوئی کام نہیں کر سکتا ۔ میں سارا دن ٹی وی کے سامنے ایک سبزی کی مانند پڑا وہ سارے ’ شو‘ دیکھ رہا ہوں جو بے روزگاری کے موضوع پر ہیں ، گو میرے پاس ایک حقیقی ملازمت ہے اور جب میں ٹی وی نہیں دیکھتاتو اپنی آنکھیں ۔۔۔ خیر، میں سوتا ہوں ، کھاتا ہوں ۔ میں مزید سوتا ہوں اور مزید کھاتا ہوں ۔ دوسرے لفظوں میں ، میں یہ سب کام جی بھر کے کرتا ہوں۔
آج صبح جب میں نے اپنا لیٹر بکس کھولا تو مجھے احساس ہوا کہ میں ایک بہت بڑی غلطی کر رہا تھا ۔ اُن بِلوں نے جو یہاں ہماری زندگیوں پر راج کرتے ہیں مجھے دھم سے زمین پر لا پھینکا ۔ یہ سچ ہے کہ میں کافی دیر اپنے کام پر نہیں گیا لیکن میں کافی کچھ بچا چکا ہوں ، میری کام مجھے اچھے پیسے دلاتا ہے ۔ لیکن میری ماں اکثر کہا کرتی ہے ؛ ” پیسہ کچھ نہیں ہوتا ! یہ ہاتھ کی میل ہے ، یہ آتا ہے اور چلا جاتا ہے ۔“ ، اسی لئے بندہ کچھ نہ کچھ بچا کے رکھتا ہے ۔ میں ، چنانچہ ، اس صبح ، کئی ہفتوں تک اِدھر اُدھر وقت ضائع کرنے کے بعد فیصلہ کرتا ہوں کہ میں کام پر واپس جاﺅں ۔
میں اس شام ایک ’ موئکل ‘ سے مل رہا ہوں ۔ ہم نے اپنی ملاقات ’ گئیر کورناوِن ‘ کے سامنے طے کر رکھی ہے ۔ اس نے کہا تھا کہ وہ آئے گا اور مجھے وہاں سٹیشن سے اٹھا لے گا ۔
میں ، چنانچہ ، تھوڑی دیر ’ جوگنگ‘ کرتا ہوں تاکہ اپنے آپ کو بہتر حالت میں لے آﺅں ، کیونکہ میرے پیشے میں بندے کا بہتر حالت میں نظر آنا اہم ہے ۔ ۔ ۔ ویسے تو اچھی حالت میں نظر آنا اور بھی بہت سے پیشوں میں اہم ہے ۔ ہاں یہ درست ہے ، جاذب نظر ہوتا اہم ہوتا ہے ۔ یہ بھی درست ہے کہ وہ ، آپ کو رکھتے وقت یہ نہیں کہتے کہ آپ کو اس لئے نہیں رکھا گیا کہ آپ بھدے ہو یا یہ کہ آپ کی توند نکلی ہوئی ہے اور آپ فربہ ہو ۔ لیکن کامیابی کا انحصارصرف جاذب نظر ہونے پر ہی نہیں ہوتا ۔ آپ کے پاس اپنے کانوں کے درمیان بھی کچھ ہونا چاہیے ۔ اور میں ، میرے پاس ایسا کچھ نہیں ہے ۔ یا یوں کہہ لیں اتنا نہیں ہے کہ کافی ہو ۔ پیچھے ، اپنے وطن ، بینتو ، میں ، میں نے وہ تعلیم مکمل کی تھی جسے یہاں ’ لازمی‘ سکول کے برابر سمجھا جاتا ہے ۔ پھر میں زندگی کے اتارچڑھاﺅ کے دور سے گزرتا ، اتفاقاً ، یہاں پہنچ گیا ۔
تب میں نے کافی دیر اور سنجیدگی سے غور کیا کہ میرے پاس تو کوئی تعلیم یا ہنر وغیرہ تو ہے نہیں ، ایسے میں ، میں کیا کر سکتا تھا ۔ میں نوٹ کمانا چاہتا تھا ، نوٹ اور وہ بھی بڑے والے ؛ اور جلدی سے ، تیزی سے ! میں کسی طور بھی سخت جاں نہیں بننا چاہتا تھا اور کوئی ایسی نوکری ، کسی کلب میں ’ باﺅنسر ‘ * جیسی، بھی نہیں چاہتا تھا ۔ ایمانداری کی بات ہے ، مجھے یہ وقت کا ضیاع لگتا تھا اور نہ ہی ، میں صفائی وغیرہ جیسے کاموں میں اپنے چوتڑ گھِسانے کا قائل تھا ۔ صفائی کا کام ویسے بھی بوڑھی عورتوں کا ہوتا ہے ! اور میرے جیسا بندہ جوچھ فٹ چار انچ لمبا اور دو سو بیس پاﺅنڈ وزن رکھنے والا ہو، جھاڑ پونچھ کرتا اچھا لگتا ؟ ۔ ۔ ۔ نہیں صاحب بہت شکریہ ، میں باز آیا اس طرح کے کاموں سے ۔
میں نے حساب لگایا تو میرے سامنے تین ہی راستے کھلے تھے ؛
1 ۔ بنک لوٹنے والا بن جاﺅں ۔ ۔ ۔ یہ سوئیٹسزر لینڈ ہے اور یہاں بنکوں کی کمی نہیں ۔
2 ۔ منشیات فروش بن جاﺅں ۔ ۔ ۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس سے بھی اچھی زندگی گزاری جا سکتی ہے ، بیشک بندہ چھوٹی چھوٹی پُڑیاں ہی کیوں نہ بیچے ۔
3 ۔ اپنا جسم بیچوں ۔ ۔ ۔ اور لگتا ہے کہ ’ نیامبی‘ * نے مجھے اس کے لئے سارے لوازمات سے نوازرکھا ہے ۔
ان تین راستوں میں سے پہلے دو پُر خطر لگتے ہیں ۔ جس دن بندہ پکڑا جائے تو جیسے کہ بینتو کے گاﺅں میری غریب دادی کہا کرتی تھی ؛
” تم ساری زندگی جیل میں سڑو گے ۔“
اور میں ساری زندگی جیل میں سڑنا نہیں چاہتا تھا چنانچہ مجھے تیسری راہ ہی زیادہ بھائی ۔ یہ صحت مندانہ تھی اور سچ پوچھیں تو ’ نیامبی‘ بھی مجھے اس حوالے سے کچھ نہیں کہہ سکتا تھا ۔
میں ، رات کے آٹھ بجے ، شانتاور پُرسکون’ گئیر کورناوِن‘ کے سامنے پہنچ جاتا ہوں ۔ میں نے ایک ایسے کاروباری بندے جیسے کپڑے زیب تن کر رکھے ہیں جو اپنے موئکل سے ملاقات کرنے جا رہا ہو ؛ مجھ پر بو ٹائی اورڈنر سوٹ بہت پھبتا ہے ۔ بلکہ ایسا لگتا ہے جیسے اسے میرے جسم پر ہی سیا اور اِستری کیا گیا ہو ۔ میرے بائیں ہاتھ میں درمیانے سائز کالا چرمی بیگ ہے جبکہ دوسرے ہاتھ میں سگریٹ ۔ میں اپنے موئکل کا منتظر ہوں ۔ وہ کچھ دیر سے آیا ہے۔ وہ بس تین یا پانچ منٹ کی دیری سے پہنچا ہے ۔
میرے سامنے رنگدار شیشوں والی ایک ایسی مرسیڈیز آ کر رکتی ہے جس کی چھت ضرورت پڑنے پر ہٹائی بھی جا سکتی ہے ۔ مسافر والی طرف کی کھڑکی کا شیشہ نیچے گرتا ہے اور میں اپنے موئکل کو دیکھتا ہوں ۔ وہ پچاس کے پیٹے کا ایک پُرکشش آدمی ہے ۔ اس کے بال سرمئی ہیں اور اس کی شیو بڑھی ہوئی ہے ۔ اس کی قمیض اتنی ہی نیلی ہے جتنا کہ گرمیوں میں آسمان ہوتا ہے ۔ میں گاڑی میں بیٹھ جاتا ہوں ۔ میں اس کی گھڑی سے متاثر ہوتا ہوں ، متاثر ۔ ۔ ۔ ہاں متاثر ، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ میں نے آج تک اپنے کسی موئکل کو اتنی مہنگی گھڑی پہنے نہیں دیکھا ۔ میں اپنی سوچ کو دبا دیتا ہوں ۔ بندہ یہاں کام کرنے آیا ہے اور روزی روٹی کمانے کے لئے ، باقی سب کی پرواہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
” تم ٹھیک ہو؟ “ ، بندہ پوچھتا ہے ۔
” جی ۔ “
” تم ، یہ سب کب سے کر رہے ہو ؟ “
” ہمیشہ سے ۔“ ، میں آرام سے جواب دیتا ہوں ۔
وہ گاڑی چلاتا رہتا ہے اور پھر نہیں بولتا ۔ میرے جیسے کاروباروں میں لوگ زیادہ باتیں نہیں کرتے ۔ وہ بس کام کرتے ہیں ۔
اس کا گھر بہت بڑا ہے ۔ وہ بہت بڑا آدمی لگتا ہے ؛ جنیوا کے بڑے اور با اثر آدمیوں میں سے ایک ۔
ہم اس کی لاﺅنج میں جا بیٹھتے ہیں ۔ وہ کونے میں بنی ’بار ‘ کے پاس جاتا ہے اور مجھے وہسکی کی ایک بوتل دکھاتا ہے ۔ میں سر ہلاتا ہوں ۔ وہ مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھتا ہے ۔
” میرے لئے یہ رمضان کا مہینہ ہے ۔“ ، میں کہتا ہوں ۔
” کیا تم مسلم ہو ؟ “۔ ۔ ۔ ” کیا تم واقعی مسلم ہو؟ ! “
” ہاں “ ، میں جھوٹ بولتا ہوں اور کہتا ہوں ، ” میں نہ تو سگریٹ پیتا ہوں اور نہ ہی شراب ۔“
” تم عجیب اور مضحکہ خیز قسم کے مسلم ہو ۔“
میں چُپ رہتا ہوں ۔
”اورنج جوس؟ پانی ؟“
” پانی ، پلیز “
” یہ لو ، پانی ۔ اس گرمی میں ۔ ۔ ۔ “
وہ وہسکی کے گلاس میں اپنے لب ڈبو دیتا ہے اور اپنے سگار کا دھواں چھوڑتا ہے ۔ وہ مجھے گھورتا ہے ۔ لگتا ہے کہ وہ میری جاذب نظری کے سحر میں گرفتار ہو گیا ہے ۔ میں ایک پیشہ ور ہوں اور اس طرح کی باتیں بھانپنے کے لئے میرے پاس ایک ریڈار ہے ۔ میں چاروں طرف دیکھتا ہوں ۔ یہ جگہ عیش و عشرت کی گود کی مانند ہے لیکن میں مرعوب نہیں ہوتا ۔ میں اپنے کام کے سلسلے میں اس لحاظ سے خوش قسمت ہوں کہ میں صرف موٹی اور فربہ یورپی بِلیوں اور بِلوں کا ہی شکار کرتا ہوں ۔
میں اپنا کالا چرمی بیگ اٹھاتا ہوں جس میں میرے سارے ہتھیار ہیں ۔
” میں کپڑے کہاں بدل سکتا ہوں ؟ “
” وہاں ۔ ۔ ۔ وہاں تمہارے بائیں طرف ایک بیڈ روم ہے ۔ “
” اورغسل خانہ ؟ “
” وہیں اندر ہی ہے ۔“
میں اس بیڈ روم کی طرف بڑھتا ہوں جہاں میں نے اپنے ڈنر سوٹ کو کالے وینائل کے ’ جمپ سوٹ ‘ میں بدلنا ہے ۔ مجھے اس موئکل کے لئے خود کو ایک چھوٹی نیکر پہنانی ہے تاکہ وہ میری ، ایک اصلی بینتو ، کی رانیں دیکھ کر ششدر رہ جائے ۔
میں جب بیڈ روم سے واپس آتا ہوں تومیرے جوتوں کی آواز سن کر وہ اچھل پڑتا ہے اور اس کے منہ سے ہلکی سی سیٹی نکلتی ہے ۔ واائو ۔ ۔ ۔
میں اپنے پتھیارمیز پر پھیلا دیتا ہوں ؛ یہ تین طرح کے لَٹوں والے چرمی دُرے ، دو پٹے ، رسی ، ہتھکڑیاں ، منہ بند کرنے کے لئے گیند اور ایک ایسا گیند جس کے ساتھ لگام لگی ہوئی ہے اور ’ ڈلدوز‘ * ہیں ۔ میں ، چند ہی منٹوں میں اپنے موئکل کو ایک اور ہی دنیا میں لے جاتا ہوں ؛ میں بتیاں بجھا دیتا ہوں اور لال و کالی موم بتیاں جلاتا ہوں ۔ میں اس کے کپڑے اتارتا ہوں ، اس کے ہاتھوں کو مڑور کر کمر پر رکھتا ہوں اور انہیں ہتھکڑی لگاتا ہوں اور پھر اس کی کلائیوں پر کس کے رسی باندھتا ہوں ۔ میں اس کے منہ میں لگام اور گلے میں پٹا ڈالتا ہوں ۔
اب وہ میرے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھا ہے اور اس کا چہرہ چقندر کی طرح لال ہے ۔ میں آہستہ آہستہ اپنی وینائل کی نیکر کی زپ کھولتا ہوں اور اسے ’ نیامبی‘ کا دیا تحفہ دکھاتا ہوں جو خاصارعب دار ہے ۔ بندے کی آنکھیں حیرت سے پھٹ جاتی ہیں ۔ میں ہنستا ہوں ، پہلے نرمی سے اور پھر اس بُرے آدمی کی طرح جیسے کارٹون فلموں میں ہوتے ہیں ۔ میں اپنا ہاتھ میز پر رکھتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ کونسا دُرہ برتوں ۔ پھر میں ’ ہَپ ، ہَپ ‘ کی آواز لگاتے ہوئے فیصلہ کرتا ہوں کہ وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے اور سب سے سخت والا دُرہ اٹھاتا ہوں اور اپنے موئکل کے پیچھے جا کھڑا ہوتا ہوں ۔ میں کوڑے کو زمین پر مارتا ہوں اور وہ لرزجاتا ہے ۔ لگتا ہے وہ ڈر گیا ہے ۔” اوئے ، گندے بچے ! “ میں اونچی آواز میں ہنستا ہوں ۔ میں اپنا جوتا اس کی کمر پر رکھ کر اسے فرش کی طرف مزید نیچے جھکنے کے لئے دباﺅ ڈالتاہوں ۔ وہ ایسا ہی کرتا ہے ۔ وہ اسی کے لئے تو مجھے پیسے دے رہا ہے کہ میری اطاعت کرے ۔’ ٹھیک ہے تو اب کھیل شروع کرتے ہیں ۔ مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے ۔ وقت ہی تو پیسہ ہے ‘ ، میں خود سے دل میں کہتا ہوں ۔
میں اس کی کمر پر زور سے کوڑا مارتا ہوں ۔ اوئی ! اسے یہ اچھا لگتا ہے وہ چیخنا چاہتا ہے لیکن وہ چیخ نہیں پاتا اور گھگیا کر رہ جاتا ہے ۔ میں لگام کھینچتا ہوں اور اس کے سر کو ذرا اوپر کرتا ہوں ۔ ” نہیں ، ایسے نہیں “ ، میں اسے لات کے دباﺅ سے اور نیچے جھکا دیتا ہوں ۔ ’ یہ ٹھیک ہے ، یہ اچھی پوزیشن ہے ، بلکہ عمدہ پوزیشن ہے ۔ یوں اسے اپنی سفید چمڑی پر میرے کوڑے کا ڈنگ زیادہ ڈسے گا ۔ ‘ ، تڑاخ ، ایک اور تڑاخ اور پھر تڑاخ ! اس کی سفید چمڑی لال ہو جاتی ہے اور اس میں خون ابھر آتا ہے ۔ مجھے یہ اچھا لگتا ہے ۔ میں ہنستا ہوں ۔ ایک اور تڑاخ اور میرے اندر دور کہیں میری روح مجھ سے باتیں کرنے لگتی ہے ۔ ایک اور تڑاخ ! ’ یہ میرے آباﺅاجداد کے لئے ، جو صدیوں غلام رہے‘ ، ایک اور تڑاخ ! جو پہلے سے بھی زیادہ بھاری ہے ! ’ یہ میرے بزرگوں کے لئے ، جو بینتو کے جنگلوں میں نوآبادیاتی نظام کے تلے پِستے رہے ۔‘ ، ایک اور تڑاخ ! ’ ہاں ! یہ تمہاری ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لئے جو آتی ہیں اور بینتو پر چھا جاتی ہیں ۔ اور تڑاخ ! اور سخت تڑاخ ! ’ چلو یہ اس قرضے کے لئے جو ہم کبھی بھی نہ چکا پائیں گے ۔‘ ، میں اس پر اپنا انتقامی کوڑا بار بار مارتا ہوں ۔ میرا موئکل ڈھہ جاتا ہے ۔ خلاص ہو جاتا ہے ۔ اذیت نے اسے سکون دیا ہے ۔ لیکن میرا انتقام اور سخت ہوتا جاتا ہے ۔ ہاں میرا انتقام جو میری رگ رگ میں موجود ہے ۔ ایک اور تڑاخ ، طاقت بھرے کوڑے کی تڑاخ ؛ ’ یہ اس کے لئے تم جو سرحدیں بند کرتے ہو کہ ہم تمہارے ملک ، تم گوروں کے ملک میں نہ آ سکیں ۔‘
میرا موئکل کروٹ کے بل گر جاتا ہے ۔ اب وہ اپنی پشت پر پڑا ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ اب اسے درد ہو رہی ہے ۔ اور یہ درد شدید ہے ۔ وہ اسے برداشت نہیں کر پا رہا ۔’ لیکن ، بچے، نہیں ! اس وقت ، میں یہاں حاکم ہوں ۔ میں ہی وہ ہوں جو یہاں تمہیں بتائے گا کہ کیا کرنا ہے ، سمجھ آئی ؟ '، ' اسی کے لئے تو تم نے مجھے پیسے دینے ہیں ۔اس لئے مجھے اپنا کام کرنے دو ۔‘، میں اس کے گلے میں پڑے پٹے کو زوردار وحشت سے جھٹکا دیتا ہوں ۔ میں اسے ، اس کی پوزیشن میں دوبارہ بٹھاتا ہوں اور اسے ایک آخری کوڑا مارتا ہوں اور یہ آخری تڑاخ سچ میں سب سے سخت ہے ۔ یہ ۔ ۔ ۔ ’ یہ اس نسلی امتیاز کے لئے ہے جو ہم اس ملک میں جھیلتے ہیں۔ ‘ ، اوہ میں تو سچ مُچ اتتقام میں الجھ گیا ہوں ۔ میں اس کے منہ میں دی لگام کو نرمی سے الگ کرتا ہوں اور اس کے منہ پر دو زوردار تھپڑ لگاتا ہوں ۔ میں تناﺅ میں آ چکا ہوں اور اب میں نے اس سے وہ فعل کرنا ہے جو قوم لوط کا خاصا تھا ، وہ چاہے جتنا مرضی چِلائے اور شور مچائے ۔ ’ یہ اسی کے حق میں برا ہو گا ، اگر جنیوا کی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے اس کے ہمسائے پولیس کو بلائیں گے ۔ مجھے اس بات کی بھی پرواہ نہیں ہے ، کیونکہ میں تو اپنا کام سرانجام دے رہا ہوں ۔‘
وہ آدھ گھنٹے تک مرتے ہوئے جانور کی طرح کراہتا رہتا ہے ۔ میں اس پر کئی بار تھوکتا ہوں ۔ وہ اسے چاٹتا ہے ۔ وہ میرا پسینہ بھی چاٹ لیتا ہے ۔ میں اسے ایک بار پھر زور سے کوڑے مارتا ہوں ۔ وہ اس سے حِظ اٹھاتا ہے ۔ اور مجھے بھی اسے مارکر مزہ آتا ہے ۔
ایک لمبی نشست کے بعد میں سکون سے غسل کرتا ہوں ۔ میں اپنا ڈنر سوٹ دوبارہ اسی باوقار انداز میں چڑھاتا ہوں ، جیسے یہ پہلے ، میرے جسم پر تھا اور جب میں غسل خانے سے باہر آتا ہوں تو اسے تھکا ماندہ لیٹا پاتا ہوں ۔ میں اسے دیکھ کر مسکراتا ہوں ۔
” تم دیوتا ہو “ ، وہ کہتا ہے ۔
” شکریہ“ ، میں منہ ہی منہ میں بُڑبڑاتا ہوں ۔ وہ ایک لفافہ مجھے دیتا ہے ؛
” یہ تمہارے لئے ہے ۔“
میں لفافے میں دیکھتا ہوں ۔ اس میں ہزار ہزار سوئس فرانک کے پندرہ نوٹ ہیں ۔ یہ میرے لئے حیرت کی بات ہے ۔ اس نے مجھے پانچ ہزار فالتو دئیے ہیں ۔ میں اب بینتو میں اپنے گھر والوں کو زیادہ پیسے بھیج سکوں گا ۔ میں بہت خوش ہوں ۔
میں، ایک اچھے پیشہ ور کی طرح ، یہ سوچ کر کہ کہیں اس سے پہلا والا گم نہ ہو گیا ہو اسے اپنا بزنس کارڈ دوبارہ دیتا ہوں ۔ ۔ ۔
” جلد ہی دوبارہ ملتے ہیں “ ، میں دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے کہتا ہوں ۔
” ہاں ۔ باہر ٹیکسی تمہاری منتظر ہے ۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میکس لوب (Max Lobe) 13 ، جنوری 1986 ء کو’ ڈوﺅلا ‘، کیمرون میں پیدا ہوا ۔ 2004ء میں وہ سوئسزرلینڈ میں گیا اور وہاں ابلاغیات اور صحافت میں تعلیم حاصل کی ۔ پھر اس نے ’ لوسین‘ کے انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ایڈ منسٹریشن سے ڈگری حاصل کی ۔ وہ جنیوا میں رہتا ہے ۔
اب تک اس کی پانچ کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔ ان میں ایک ناول ' 39 ، Rue de Berne ' بھی ہے ۔ یہ ناول جنیوا کے ’ ریڈ لائٹ ایریا ‘ کے ماحول پر لکھا گیا ہے جہاں اس کے کردار کیمرون سے ہی تعلق رکھتے ہیں ۔ جنسی غلامی اور ہم جنس پرستی پر لکھا اس کا یہ ناول اور کئی افسانے مختلف انعام حاصل کر چکے ہیں ۔ اس کے کام میں مختلف سماجی و ثقافتی تھیمز کا ایسا پھیلاﺅ ملتا ہے کہ آپ اسے پڑھے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ غیر قانونی ہجرت ، روایتی معاشروں میں جنسی اقدار اور نوآبادیاتی نظام کے بعد ، آزاد ہوئے علاقوں پر اس کے مُضمرات اُس کے کام میں اہم موضوعات ہیں ۔
یہ افسانہ مُصنف کی اجازت سے ترجمہ کیا گیا ہے ۔