ہائے ہم کیا سے کیا ہو گئے!!
امیر خسرو نے اپنی ایک غزل میں اپنے محبوب کو ٹھٹھہ کے پھولوں سے تشبیہ دی ہے۔حیدرآباد دکن کے ایک دانشورکا کہنا ہے :’’ننگر ٹھٹھہ ہیرے جیسا خوبصورت شہر ہے۔ اس میں دھان کی سبز فصلیں ہیں۔ اس میں کشادہ باغ، ہرن، اور خوبصورت جنگل ہیں‘‘۔ٹھٹھہ کے باغات مشہور تھے، جن میں طرح طرح کے پھل ہوتے تھے، خاص طور پر کھجور اور انار اپنے رنگ اور شیرینی کی وجہ مشہور تھے۔ ’’تاریخِ طاہری‘‘ کے مصنف میر طاہر محمد تحریر کرتے ہیں ’’ٹھٹھہ کی بنیاد کسی اچھی ساعت میں پڑی تھی۔
اس شہر میں چار ہزار سے زائد خاندان کپڑے بننے والے ’کوریوں‘ کے تھے‘‘۔ تھیوناٹ یہاں 1667ء میں آیا تھا۔ وہ لکھتا ہے ’’یہ صوبے کا مشہور شہر ہے، سارے ہندوستان کے اکثر بیوپاری، یہاں بننے والی مختلف اشیاء خریدتے ہیں۔ یہ ملک کی مارکیٹ ہے، یہ شہر تین میل لمبائی اور ڈیڑھ میل چوڑائی میں پھیلا ہوا ہے۔ یہ شہر مذہبیات، علم لغت اور علم سیاست کے لیے مشہور ہے۔ شہر میں چار سو سے بھی زائد مدرسے ہیں اور یہ ایک عظیم شہر ہے‘‘۔ ’’آئینِ اکبری‘‘ کے مطابق ’’ٹھٹھہ ایک آباد بندرگاہ ہے، جہاں چھوٹی بڑی ہزاروں کشتیاں کھڑی رہتی ہیں‘‘۔
اگر ذرا غور سے دیکھا جائے تو ٹھٹھہ کی تاریخ بھول بھلیوں کی طرح ہے، ایسی بھول بھلیاں جہاں ہر موڑ پر ایک حیرت کھڑی ہے۔ کبھی مسکراتی تو کبھی رلاتی، لیکن پھر بھی یہاں دیکھنے، سننے اور سوچنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ سیاست کی خونی چالبازیاں، حاکموں کا ہر وقت جنگی جنون میں رہنا، انا کی تسکین کے لیے ہوتی ہوئی جنگیں اور ان کے بدلے میں ہزاروں بے گور و کفن انسانوں کی لاشیں،مگر ایسا بھی نہیں تھا کہ سارا کچھ یہ ہی تھا، نہیں! یہاں کالج تھے، مصنف تھے، شاعر تھے، موسیقار اور سنگ تراش تھے، جن کے علم و تخلیقات، لفظوں کی رنگینی اور شیرینی، تراش و خراش اور مثبت کارناموں نے ٹھٹھہ کو ’ننگر‘ (بڑا، وسیع، شاہوکار، تونگر) کا اعزاز دے کر ’’ننگر ٹھٹھہ‘‘ بنا دیا۔
خوبصورت اور لازوال، صدیوں کے سینوں پر حکومت کرنے کے لیے ایک ایسا شہر جہاں عالم، اکابراور علم کے پیاسے کھینچے چلے آتے۔ اب حقیقت یہ ہے کہ ٹھٹھہ کی یہ ساری خوبصورتیاں اور عظمتیں اب فقط تاریخ کے صفحات پر حروفوں کی شکل میں رہ گئی ہیں۔ اب تیز دھوپ میں باغات کی ٹھنڈی چھاؤں کے سائے، چشموں کے ٹھنڈے پانی کی شیرینی، پھلوں کے ذائقے، پھولوں کے رنگ، مدارس میں معلموں کے لیکچر، کپڑے بننے والی کھڈیوں کا ردھم اب فقط تاریخ کی تحریروں میں ہی پڑھا جا سکتا ہے، اور اگر چاہیں تو، ماضی بنے ہوئے ان پلوں کو اپنے ذہن و دل کے آسمان پر، تخلیق کے برش سے تصویروں میں ڈھال کر کچھ پلوں کے لیے خوش ہو لیں۔
موجودہ ٹھٹھہ گذرے ہوئے زمانے کے بالکل برعکس ہے۔ ٹوٹے راستے، ذہن کا سکون چھیننے والا گاڑیوں کا شور اور دھواں، گنجان، دماغ چکرا دینے والی گلیاں اور بازار، مدارس ہیں کہ کب کے ویرانی اور بے قدری کی دھوپ سہہ سہہ کر گر چکے ہیں۔ لمبی جستجو کے بعد بھی آپ کو، کپڑے بننے کی کھڈی کے آثار مشکل سے ہی ملیں گے۔ٹھٹھہ کے اس کمال اور زوال کے بیچ والے عرصے کی کہانی سننے اور پڑھنے تعلق رکھتی ہے، تفصیل سے نہ سہی مختصر ہی سہی، لیکن اس میں سوچنے اور سمجھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ 600 سال تک اپنے اوج کو برقرار رکھنے والے ٹھٹھہ کی پرتگالیوں سے پہلی اور خونی ملاقات 1555ء میں ہوئی۔
پرتگالیوں سے کیا گیا وعدہ مرزا عیسیٰ نے پورا نہیں کیا، بدلے میں سات سو سپاہیوں کے غصہ کا نشانہ بنا ٹھٹھہ۔ 8000 ہزار شہریوں کو قتل کردیا گیا، شہر کو آگ لگا دی گئی اور کروڑوں کی لوٹ مار کی گئی۔ یہ ساری کارروائی انہوں نے بڑے سکون سے کی اور ملکیت سے اپنے جہاز بھر کر ’’گوا‘‘ (ہندوستان) روانہ ہوگئے اور وقت کے حاکم ’’طغرل آباد‘‘ کے قلعے کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھ کر جلتے ہوئے شہر کے دھوئیں کو دیکھ رہے تھے۔1696ء میں ملک میں طاعون کی وباء پھیلی۔ فقط ٹھٹھہ اور اس کے قرب و جوار میں ہزاروں لوگ مرے۔ 1739 ء میں ’’نادرشاہ‘‘ جس کی فوج کی تعداد لاکھوں میں تھی، اس نے پندرہ دن تک ٹھٹھہ میں میاں نور محمد کی دعوت کھائی۔
اس وقت کے درباری مؤرخوں نے لکھا ’’پھر بھی اناج کی کمی نہیں ہوئی‘‘۔ وہ تاریخ جو محلوں کی چھاؤں میں بادشاہوں کو خوش کرنے اور درباروں کو قائم رکھنے کے لیے تحریر کی جاتی ہے، اس کے اپنے معیار ہوتے ہیں، ایسی تحریروں کا قلم، سیاہی، اور کاغذ غریبوں کی ہڈیوں، خون، اور چمڑی سے بنا ہوا ہوتا ہے۔ ٹھٹھہ کے وہ محلے اور گلیاں، وہ مساجد وہ مدارس جہاں مذہب اور فلسفوں پر بحث و مباحثے ہوتے تھے، جہاں شریعت و طریقت پر سینکڑوں کتابیں تحریر ہوئیں، وہاں اب ویرانی اور خاموشی کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ادب، تخلیق، اور زندگی کی مسکراہٹوں کے دیپ کب کے بجھ چکے۔ حال کی بے قدری پر ماتم کرتی ہوئی شہر کے بیچوں بیچ ایک مسجد، مسجد امیر خانی بھی ہے۔ ویران، خاموش، اور خستہ حال، یہ مسجد 1039ء میں میر ابوالبقاء نے تعمیر کروائی تھی۔
ان گلیوں سے گزر کر آپ تھوڑا آگے جنوب کی طرف جائیں گے تو جامع مسجد شاہجہانی ہے۔ ایرانی فن تعمیر کا ایک نادر نمونہ، اینٹوں اور رنگوں کے ملاپ کا ایک سحر انگیز مظہر، میناکاری کا ایسا ہنر جسے دیکھ کر روح کو تسکین سی آجائے، گنبدوں پر پچکاری اور رنگوں کی ایسی خوبصورتی جو صدیوں تک زندہ و جاوید رہے۔ ٹھٹھہ شہر کے ماضی کے متعلق اور بھی بہت ساری باتیں اور دکھ ہیں، جن پر کئی صفحات تحریر کیے جا سکتے ہیں، لیکن اس شہر ننگر ٹھٹھہ کا ایک اور اہم حصہ مکلی ہے، جس کے ذکر کے سوا ٹھٹھہ کا ذکر شاید مکمل نہ ہو۔ تو یہ مکلی ہے، ویران، خاموش اور پرسکون، لیکن اس خاموشی کے سینے میں نہ جانے کتنی داستانیں ہیں، جو دردوں کے دیپکوں کی طرح جلتی بجھتی رہتی ہیں۔
مکلی فقط مزاروں، مقبروں، مسجدوں، اور قبروں کا نام نہیں ۔ ان مزاروں کی بنیادوں اور سنگتراشی سے بنے ہوئے نقش و نگاروں میں ماضی کی تلخ و شیریں حقیقتیں پنہاں ہیں۔ ان تراشے ہوئے کنول کے پھولوں میں، مکلی کی ویران شاموں میں، ٹوٹے ہوئے مندروں کی آہوں میں اور ٹوٹے ہوئے مقبروں کے گنبدوں میں، ٹھٹھہ کے ان دنوں کا حسن چھپا ہوا ہے جب ٹھٹھہ خوبصورتی کا دوسرا نام تھا۔ مکلی کے آثاروں کے سینے میں سولہویں صدی کے آخری برسوں کی وہ صبح و شامیں ضرور نقش ہوں گی، جب ٹھٹھہ کی قسمت کے ستارے بدلنے لگے تھے۔ یہ اس کے زوال کے ابتدائی دن تھے۔ ٹھٹھہ عرش سے آکر فرش پر گرااور اس زوال کی کہانی کو مکمل ہونے میں ڈیڑھ سو برس کا عرصہ لگا۔ انیسویں صدی کے آخری نصف میں جب پاٹنجر یہاں آیا تھا تو ٹھٹھہ کے اچھے دن لد چکے تھے، وہ لکھتے ہیں ’’سارا شہر اُداس تھا، آبادی دو ہزار سے بھی کم رہ گئی تھی‘‘۔ ٭
Courtesy:
ابوبکر شیخ