مرزا نوشہ نے کہا تھا کہ ہوتا ہے شب وروز تماشہ میرے آگے ۔یوں تو مرزا غالب کی شاعری کی دنیا معترف ہے مگر ہم معترف ہونے کے ساتھ ساتھ مرعوب اس لیے بھی تھے کہ مرزا غالب کو دیدہ بینا عطا ہوئی تھی جو اپنے سامنے ہونے والے شب و روز کے تماشوں کو دیکھ سکتی تھی۔مگر بھلا ہو بلاول بھٹو زرداری کا کہ ان کے بقول سلیکٹرز نے موجودہ ٹیم سلیکٹ کی ہے تو ان سلیکٹرز کی بدولت گزشتہ تین سال سے ہونے والے شب وروز تماشہ کے سبب ہم نے بھی اب غالب سے مرعوب ہونا چھوڑ دیا۔اب تو وہ سرکس لگی ہے کہ میں کیا پورا ملک ہی محو تماشہ ہے ۔
تماشے کی ابتدا فردوس عاشق اعوان کے اس تھپڑ سے ہوئی جو ایک ٹاک شو کے دوران انہوں نے پی پی کے ایم این اے عبدالقادر مندوخیل کو پڑا۔تبدیلی کے بعد بننے والے ملک میں ایک عورت اورایک مرد باہم دست وگریباں تھے۔فردوس عاشق اعوان ک تھپڑ بنیادی طورپر اس تبدیلی کے چہرے پر پڑا جس تبدیلی کو کپتان نے بڑے فخرکے ساتھ قوم کےسامنے پیش کیا تھا۔یاد رہے ملکی سیاست میں یہ تھپڑ آخری نہیں ہے بلکہ ابتدا ہے اور خداجانے یہ سلسلہ کہاں جاکررکے۔جو بھی ہو اسلام آباد کے ڈی چوک سے شروع ہونے والا یہ طوفان بدتمیزی اس وقت پوری آب وتاب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔
ابھی اس تھپڑ کی گونج ختم نہیں ہوئی تھی کہ قومی اسمبلی جیسا مقدس اور محترم ادارہ اکھاڑے میں تبدیل ہوگیا۔بجٹ پیش کیا گیا اور اس کے بعد بجٹ پر بحث شروع ہونی تھی کہ اپوزیشن لیڈر کی تقریر کے دوران حکومتی اراکین کا احتجاج سامنے آیا۔اگر یہ احتجاج جمہوری روایات کے تحت ہوتا تو اس پر کسی کو اعتراض نا ہوتا مگر جو تماشہ اسمبلی کے اندر لگایا گیا اور جس طرح ایکدوسرے کو ماں بہن کی گالیاں دی گئیں اور بجٹ کی کاپیوں کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے ایک دوسرے پر اچھالا گیا اس کی مثال نہیں ملتی۔
قومی اسمبلی کے ہال میں گلی محلے کے لچے لفنگوں کی طرح لڑتے ہوئے اراکین اسمبلی کی ویڈیوز جب وائرل ہوئیں تو پوری قوم کےسر شرم سے جھک گئے ۔یہ ہمارے نمائندے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کی تنخواہوں ، سفری اخراجات اور دیگر مراعات کی خاطر اس غریب قوم جس کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں سے بے رحمی کےساتھ ٹیکس وصول کیئے جاتے ہیں۔سوال تو بنتا ہے کہ کیا قوم کے پیسے پر ان جیسوں کو پالا جاتا ہے ۔کیا یہ لوگ ہماری نمائندگی کے قابل ہیں ۔کیا یہ اس قابل تھے کہ ان کو اس ایوان کے لیے منتخب کرایا گیا۔
کہتے ہیں کہ پستی کا سفر بہت تیزی سے طے ہوتا ہے ۔ابھی قوم اس تماشے میں مصروف تھی کہ مفتی عزیز الرحمن کا سیکس اسکینڈل سامنے آگیا۔اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد کون علما اور مفتیوں پر اعتبار کرئے گا۔ایک شخص کی بدفعلی کے سبب اس پورے دینی مدارس کے نظام پر سنجیدہ سوال کھڑے ہوگئے ہیں ۔سوشل میڈیا پر جتنی لعنت ملامت ہورہی ہے اس کو بیان کرنا مشکل ہے ۔ایک ایسا وقت چل رہا ہے جس میں ہم اپنا سب کچھ کھو رہے ہیں یا کھو چکے ہیں ۔ کچھ بھی تو باقی نہیں بچا تہی دامن ہوکر محو تماشہ ہیں ۔ایک ایسا تماشہ جس سے نا ہماری پیاس بجھنی ہے اور نا ہی بھوکا پیٹ بھرنا ہے۔
عوام کے مسائل کو حل کرنے والے پارلیمان کے پاس عوام کے مسائل کے حل کے لیے سوچنے اور قانون سازی کرنے کے لیے وقت ہی نہیں ہے ۔رانجھا رانجھا کردے میں آپے رانجھا ہوئی کی طرح چور چور کے نعرے لگانے والے گندم ، چینی ، ادویات ، پٹرول ، پنڈی رنگ روڈ میں کرپشن کے الزامات کا سامنا کررہے ہیں ۔پشاور بی آر ٹی پر سٹے آرڈر اور مالم جبہ کیس پر خاموش رہنے والوں نے ایک مدت تک اس ملک میں کرپشن کے خلاف ہونے والی جدوجہد کو منوں مٹی تلے دفن کردیا ہے ۔ اب کون احتساب کا نعرہ لگائے اور کون اس پر یقین کرئے گا۔
چلو احتساب نا سہی عوام کی حالت زار بہتر بنانے اور کروڑوں نوکریوں اور لاکھوں گھروں کی تعمیر کا اعلان کرنے والی تبدیلی سرکار نے جس طرح راتوں رات معیشت کی بہتری کا دعویٰ کیا ہے وہ بھی تو کسی تماشے سے کم نہیں ہے ۔سوچیں کیا آپ کو کچھ دن پہلے پیش ہونے والا بجٹ یاد ہے۔اس سارے تماشے میں کیسے یاد ہوگا کہ بجٹ میں کیا سنہرے خواب دکھائے گئے ہیں۔جب تماشہ ختم ہوگا تو نیا مالیاتی سال شروع ہوچکا ہوگا اور اس میں پٹرول کی قیمت بڑھانے کا فیصلہ ہوچکا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مہنگائی کا ایک نیا طوفان آنے والا ہے۔خاطر جمع رکھیں نئے مالی سال میں تبدیلی سرکار ریکارڈ قرضے لینے جارہی ہے
راتوں رات جی ڈی پی کی بہتری کی اطلاع دینے والوں سے کوئی پوچھے تو سہی کہ اگر سب کچھ ٹھیک ہے تو تجارٹی خسارہ کیوں بڑھ رہا ہے ، بیرونی سرمایہ کار اس بہتر معیشت کے باجود سرمایہ کاری کیوں نہیں کررہے اور قرضوں میں کیوں اضافہ ہورہا ہے۔کچھ تو ہے جو غلط ہے اور وہ غلط یہ ہے کہ قوم سے جھوٹ بولا جارہا ہے ۔بالکل اسی طرح کا جھوٹ جو اس سے قبل ایک کروڑ نوکریوں ، پچاس لاکھ گھر ، وزیراعظم ہاوس کو یونیورسٹی بنانے ، 12 ارب روپے کی روزانہ کی کرپشن اور 100 دنوں میں سرائیکی صوبہ بنانے کا جھوٹ بولا گیا تھا۔پہلے جھوٹ اس لیے چل گئے تھے کہ اقتدار نہیں ملاتھا یہ جھوٹ اس لیے نہیں چل پاے گا کہ لوگوں کے جیب اور پیٹ خالی ہیں۔حرف آخر یہ کہ حکومت اپنی کارکردگی بہتر بنائے اور عوام کو وعدوں کے مطابق ڈیلیور کرئے اگر نہیں کیا تو یہ تماشے اپنی جگہ پر رہے آئندہ عام انتخابات میں جو تماشہ عوام نے ان کے ساتھ کرنا ہے یہ بھی یاد رکھیں گے ویسے لگتا ہے ضمنی انتخابات سے بھی حکومت نے کچھ نہیں سیکھا۔لہذا موجودہ سرکس کو بند کرکے عملی طورپر عوامی خدمت کی طرف توجہ دی جائے ۔