سر افتخار سکول میں اپنی نرمی اور شیریں گفتار کی وجہ سے بہت مشہور تھے۔ سکول کے تمام بچوں کی خواہش رہتی تھی کہ سر افتخار ان کا اردو کا پیریڈ لیں۔ ان کی مقبولیت کی وجہ ان کے پڑھانے کا دلکش اندازتھا۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ وہ بچوں کو بہت ہی سبق آموزقصے سنایا کرتے اور انہیں بڑی اچھی اچھی باتیں بتایا کرتے تھے۔ اور یہ بات تو سکول کے تمام اساتذہ جانتے تھے کہ وہ بچوں کو پڑھاتے نہیں تھے بلکہ ان کی تربیت کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی بدولت بہت سارے آوارہ لڑکے آوارگی کے تباہ کن راستوں سے فرار ہو کر زندگی کی بامقصد اور پررونق شاہراہ پر لوٹ آئے تھے۔ اپنی انہی خصوصیات کی وجہ سے وہ ہر عمر کے بچوں کے ہردلعزیز استاد تصور کئے جاتے تھے۔
آج صبح ہی صبح ان کی کلاس میں اودھم مچا ہوا تھا۔ تمام لڑکوں نے کلاس کے ٹھنگنے قد کے لڑکے نعمان کو گھیر رکھا تھا۔ ہر کوئی اسے ’’چور‘‘ کہہ کر پکار رہا تھا اور نعمان بیچارے کے چہرے پر ایک رنگ آ رہا تھااور دوسرا جا رہا تھا۔اس سے پہلے کہ لڑکے اسے مزید ستاتے، اچانک سر افتخار کلاس میں داخل ہوئے اور لڑکوں کا جم گھٹا یوں چھٹا جیسے سورج کے نکلنے پر بادل چھٹ جاتے ہیں۔
’’ کیوں اتنا شور مچا رکھا ہے بچو؟‘‘ سر افتخار نے تمام بچوں کو بیٹھ جانے کا اشارہ کرتے ہوئے پیار سے پوچھا، جو ان کی تعظیم میں اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔
’’سر! آج صبح ہی صبح نعیم کی چوری ہو گئی ہے۔‘‘ مانیٹر فاخر نے اٹھ کر جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’کیا؟ نعیم کی چوری ہو گئی؟‘‘ سر افتخار نے ناقابلِ یقین لہجے میں کہا،وہ کرسی پر بیٹھتے بیٹھتے رک گئے تھے۔’
’یس سر! نعیم اسمبلی کے بعد کلاس میں آیا تو پتہ چلا کہ اس کی جیومیٹری غائب ہے۔ تلاشی لینے پر وہ جیومیٹری نعمان کے بستے سے نکلی۔‘‘فاخر نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔ فاخر کی بات سن کر سر افتخار نعمان کو دیکھنے لگے، جو سر جھکائے ہوئے تھا۔ اپنی کلاس میں چوری ہونے پر سر افتخار کو بہت رنج ہوا تھا۔ ’’یہ میں کیا سن رہا ہوں نعمان؟‘‘ سر افتخار نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے نعمان سے پوچھا۔ ان کے لہجے میں تاسف کے ساتھ ساتھ حیرت بھی عیاں تھی۔
’’ سر ! میں نے نعیم کی جیومیٹری نہیں اٹھائی؟‘‘ نعمان نے قدرے بجھے لہجے میں جواب دیا۔
’’تو پھر نعیم کی جیومیٹری تمہارے بستے میں کیسے گھس گئی؟‘‘سر افتخار نے تجسس سے پوچھا۔
’’ پتہ نہیں سر! مجھے نہیں معلوم کہ نعیم کی جیومیٹری میرے بیگ میں کیسے آ گئی؟‘‘ نعمان نے اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا۔ سر افتخار نے محسوس کیا کہ نعمان کے لہجے سے سچائی کی خوشبوواضح طور پرآ رہی تھی۔ ’
’ نعیم! کیاتم نے نعمان کو جیومیٹری اٹھاتے دیکھا تھا؟‘‘سر افتخار نے نعیم سے پوچھا۔
’’ نہیں سر! میں نے نعمان کو چوری کرتے نہیں دیکھا ، مگر جیومیٹری اس کے بیگ سے تھوڑی سی باہر رہی تھی۔‘‘ نعیم نے اٹھ کر ادب سے جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ کسی لڑکے نے شرا رت کی ہو۔‘‘ سر افتخار نے کہا۔تمام لڑکے چپ بیٹھے تھے۔
’’اگر واقعی یہ کسی کی شرارت ہے تو انتہائی بھونڈی اور فضول قسم کی شرارت ہے۔نعمان غریب ضرور ہے مگر مجھے یقین ہے کہ وہ ایسا بد ترین فعل نہیں کر سکتا۔یقینًا اس کے ساتھ یہ کسی نے مذاق کیا ہے۔ اور جس کسی نے بھی اس کے ساتھ یہ حرکت کی ہے شاید وہ اس بات سے بے خبر ہے کہ اس کی ایسی گھٹیا حرکت سے نعمان کی زندگی بھی تباہ ہو سکتی ہے۔ ‘‘ سر افتخار نے پوری کلاس پر نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔
ان کی یہ بات سن کر تمام لڑکے دم بخود رہ گئے۔ حالانکہ تمام لڑکے جانتے تھے کہ سرافتخار چھوٹی چھوٹی باتوں سے بڑے بڑے نتائج نکالا کرتے تھے۔
’’ سر! اس سے نعمان کی زندگی کس طرح تباہ ہو سکتی ہے؟‘‘ کلاس کے سب سے باتونی لڑکے ریحان نے اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے تجسس سے پوچھا۔ وہ اساتذہ سے سوالات کرنے میں پورے سکول میں مشہور تھا اور سر افتخار کو ریحان کی یہ عادت بہت پسند تھی۔
’’ شاباش ریحان! بہت اچھا سوال کیا ہے تم نے۔مگر یہ بات تمہیں اتنی آسانی سے سمجھ میں نہیں آئے گی، یہ بات سمجھانے کے لئے میں تم لوگوں کو ایک واقعہ سنا تا ہوں۔مجھے امید ہے کہ واقعہ سن کر تم سب بچے میری بات کو اچھی طرح سے سمجھ سکو گے۔ ‘‘ سر افتخار نے ریحان کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ تمام بچے ہمہ تن گوش ہو گئے۔ وہ جانتے تھے کہ سر افتخار کے قصے بہت ہی مزیدار اور سبق آموز ہوتے تھے۔ سر افتخار تھوڑی دیر تک سر جھکائے خاموش رہے اور پھر گو یا ہوئے۔
’’ بچو! یہ آج سے بیس برس پہلے کی بات ہے۔ ایک شخص جس کا نام شمس تھا۔ اس نے شہر کے معروف تجارتی علاقے میںجنرل سٹور کھولا۔ اس کی دن رات کی محنت سے اس کا جنرل سٹور خوب چل نکلا۔اس کی دکان پر گاہکوں کا ہر وقت رش لگا رہتا اور وہ ہر وقت مصروف رہنے لگا۔چونکہ وہ اکیلا آدمی تھا، اس لئے اسے بہت مشکل پیش آتی تھی۔ اپنی مدد کیلئے اس نے ایک بارہ سالہ لڑکے کو اپنی دکان پر بطورِ ملاز م رکھ لیا۔لڑکا بہت محنتی ثابت ہوا،وہ ہر وقت کام میں جتا رہتا تھا۔ابھی اس لڑکے کو بمشکل ایک مہینہ ہی ہوا تھا کہ کسی نے شمس سے کہا کہ ملازمین دیکھ بھال کر رکھا کرو۔پہلے انہیں آزمائو، پھر ملازمت پر رکھو۔شمس نے اس لڑکے کو آزمانے کا فیصلہ کر لیا۔ایک روز اس نے اپنے گلے میں پیسے گن کر رکھے اور اس لڑکے کو بٹھا کر خود کہیں چلا گیا۔واپس آکر جب اس نے پیسے گنے تو اس میں سے سو روپے کم تھے۔تلاشی لینے پر پیسے اس لڑکے سے بر آمد ہو ئے۔ شمس کو اس پر شدید غصہ آیا اور اس نے اس لڑکے کو اتنی زور سے تھپڑ مارا کہ اس کی گال پھٹ گئی۔ وہ اس لڑکے پر بری طرح سے برس پڑا۔ لمحہ بھر میں آس پاس کے دکاندار جمع ہو گئے۔ لڑکا بری طرح سے سہم گیا تھا۔کوئی اس لڑکے کو بھگا دینے کی بات کر رہا تھا تو کوئی اسے پولیس کے حوالے کر دینے کے حق میں تھا۔اس سے پہلے کہ کوئی فیصلہ ہوتا ، اچانک مجمع چیر کر ایک شخص آگے بڑھا ۔ جس نے لمحہ بھر کے لئے اس خوفزدہ لڑکے کو دیکھا، اور پھر شمس سے پوچھا۔
’’ کیوں بھئی! کیا بات ہے؟کیا کیا ہے اس لڑکے نے جو آپ اسے پولیس کے حوالے کرنا چاہتے ہیں؟‘‘
شمس نے ایک نظر اس اجنبی شخص کو دیکھااو ر پھر ساری کہانی اسے کہہ سنائی۔
’’کسی کو پرکھنے کا کتنا بھونڈا طریقہ اختیار کیا ہے آپ نے۔‘‘اس شخص نے شمس کو گھورتے ہوئے قدرے ناگواری سے کہا۔ وہاں پر موجود لوگ اس کی بات سن کر چونک پڑے۔اس شخص نے اس لڑکے کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا، جس کا گال خون آلود ہو چکا تھا۔اس نے لڑکے کو دلاسہ دیا اور پھر شمس سے مخاطب ہوا، جو اسے بڑی عجیب نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
’’میرے بھائی! خفا مت ہونا۔ مگر آپ کی آزمائش کا طریقہ انتہائی غیر مناسب اور بے موقع ہے۔ آپ کو چاہئے تھا کہ پہلے آپ اس لڑکے کی تربیت کرتے۔اسے چوری کے خطرناک اثرات سے آگاہ کرتے، اسے بتاتے کہ سماجی، اخلاقی اور مذہبی طور پر چوری کتنا گھنائوناجرم ہے اور اس کے کتنے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔اس کے باوجودبھی اگر یہ چوری کا مرتکب ہوتا تو پھر آپ کو ان حالات کا جائزہ لینا چاہئے تھا ، جس کی بدولت اس نے یہ برا کام کیا۔مگر افسوس کہ جس طرح کا رویہ آپ نے اس لڑکے کے ساتھ اپنایا ہے، وہ اس بیچارے کو تباہی کے راستوں پر لے جا سکتا ہے۔یہ تو معصوم ہے۔ ابھی اس کا ذہن کورا کاغذ ہے جو اس پر تحریر کرو گے، وہ ساری زندگی رہے گا۔غور سے دیکھو اس کے معصوم چہر ے کو، کیا یہ آپ کو چور نظر آتا ہے؟آپ اس کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھیں گے تو آپ کو اس میں ایک اچھا انسان چھپا نظر آئے گا۔اسے پولیس کے حوالے کردینے سے کیا ہو گا؟کیا یہ چوری سے باز آ جائے گا؟ ہر گز نہیں۔ اگر اس لڑکے نے انتقاماً چوری کو اپنا پیشہ بنا لیا تو کون اس کا ذمہ دار ہو گا؟مجھے افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ آپ اپنے منفی رویے سے ایک چور پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔آپ کا یہ فعل بہت ہی افسوس ناک ہے۔‘‘اس شخص نے گویا پوری تقریرکر ڈالی۔ہر کوئی اسے دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔جس کی باتیں واقعی بہت خوبصورت تھیں۔ شمس دکاندار اس شخص کی باتیں سن کر خاموشی سے سر جھکائے کھڑا تھا۔
’’چلو بیٹا! یہاں سے چلو۔ تمہاری عمر کام کرنے کی نہیں، پڑھنے کی ہے۔‘‘ اس شخص نے لڑکے کو ساتھ لیا اور مجمع سے باہر نکل آیا۔
بعد میں اس لڑکے کو پتہ چلا کہ وہ شخص بچوں کی کسی تنظیم کا سربراہ تھااور ان کی تنظیم محنت مزدوری کرنے والے بچوں کی لکھائی پڑھائی کا بندوبست کرتی تھی۔اس شخص نے جب اس لڑکے کے حالات کا پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ بہت ہونہار لڑکا ہے۔ باپ کے فوت ہو جانے کی وجہ سے وہ لڑکا حال ہی میں آٹھویں کلاس کو ادھورا چھوڑ کر محنت مزدوری کرنے لگا تھا۔اس کی ایک ماں تھی، جو ہر وقت بیمار رہتی تھی۔اس لڑکے کی چوری کرنے کی وجہ بھی اس کی ماں کی بیماری ہی تھی۔ اس بھلے شخص نے اس لڑکے کے تعلیمی اخراجات اپنے ذمہ لے کر اسے اچھی تعلیم دلوائی۔اس لڑکے نے بھی خوب محنت کی اور یوں وہ لڑکا معاشر ے میں ایک عزت دار مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔‘‘ سر افتخار ایک لمحے کیلئے رکے۔تمام بچے بت بنے انہیں دیکھ رہے تھے۔وہ ان کی حالت سے محظوظ ہوتے ہوئے دوبارہ ان سے مخاطب ہوئے۔
’’عزیز بچو!جس طرح وہ دکاندار اپنے غلط رویے کی وجہ سے اس لڑکے کا مستقبل تباہ کرنے کے درپے تھا۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ بالکل اسی طرح تم سب بھی مل کر نعمان کا مستقبل تاریک کرنا چاہ رہے ہیں۔اگر نعمان کو سمجھانے کی بجائے چور چورکہہ کر پکارو گے تو سچ مچ معاشرے میں ایک چور پیدا ہو جائے گا۔ ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا بچو!مخلص دوست وہ ہوتا ہے جو اپنے دوست میں پائی جانے والی خامیاں اور برائیاں ختم کرنے میں اس کی مدد کرے، نہ کہ اس پر طنزیہ جملے کسے۔ مجھے امید ہے کہ آپ سب میری بات کو سمجھنے کی پوری کوشش کریں گے۔‘‘سر افتخار نے طائرانہ نگاہ دوڑاتے ہوئے مسکر ا کر کہا
’’سر جی! میں نعمان سے معافی مانگتا ہوں کہ میں نے ہی نعیم کی جیومیٹری اٹھا کر نعمان کے بیگ میں رکھی تھی۔‘‘ اچانک ساجد کی آواز ابھری۔سارے لڑکے چونک کر گردنیں موڑے حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگے ، جو کلاس میں سب سے آخر میں بیٹھتا تھا۔اور اس وقت ندامت سے سر جھکائے کھڑا تھا۔
’’لیکن ساجد بیٹا! ایسی عجیب حرکت کیوں کی تم نے؟‘‘سر افتخار نے تجسس سے پوچھا۔
’’سرجی! میں نے تو صرف مذاق کیا تھا۔‘‘ ساجد نے بجھے لہجے میں جوابدیا، جیسے وہ اپنے کئے پر پشیمان ہو۔
’’ نہیں بیٹا! مذاق کا یہ طریقہ بہت ہی خطرناک ہے۔ ہمیشہ صاف ستھرا اور تعمیری قسم کا مذاق کرنا چاہئے۔ جس میں کچھ سیکھنے کا موقع ملے، نہ کہ کسی کی عزت تار تار کر دی جائے۔‘‘ سر افتخار نے ساجد کو پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’ سوری سر! میں اپنے کئے پر شرمندہ ہوں۔‘‘ ساجد نے مردہ لہجے میں کہا۔
’’یہ بھی اچھی بات ہے کہ تم نے اپنی غلطی تسلیم کر لی۔ امید ہے کہ نعمان بھی تمہیں معاف کردے گا۔کیوں نعمان؟‘‘
سر افتخار نے نعمان کی طرف دیکھتے ہوئے اس سے پوچھا
’’یس سر‘‘ نعمان نے مختصر جواب دیا۔
’’ پیارے بچو!آج آپ سب میرے ساتھ وعدہ کریں کہ آئندہ آپ لوگ ایسی کوئی حرکت نہیں کریں گے، جو کسی کو ذلیل کر کے رکھ دے۔‘‘ سر افتخار نے سب پر نگاہ دوڑاتے ہوئے کہا۔سب لڑکوں نے یک زبان ہو کر وعدہ کیا۔
اس سے پہلے کہ سرافتخار مزید کچھ کہتے اچانک گھنٹی بج اٹھی۔ سر افتخار مسکراتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ مگر جاتے جاتے وہ اچانک رک گئے اور لڑکوں کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہنے لگے ’’ہا ں بچو! ایک بات تو میں نے آپ لوگوںکو بتائی ہی نہیں۔ آپ اکثر مجھ سے پوچھا کرتے ہیں نا کہ سر آپ کی گال پر یہ زخم کا نشان کیسا ہے؟ تو آج میں آپ کو بتاتا ہوں یہ اس تھپڑ کا نشان ہے جو شمس دکاندار نے اس لڑکے کو رسید کیا تھا۔‘‘ سر افتخار نے مسکراتے ہوئے کہا اور کمرے سے یہ دیکھے بغیر نکل گئے کہ تمام لڑکوں کے منہ حیرت سے کھلے رہ گئے تھے۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
https://www.facebook.com/groups/nairawayat/permalink/1818929298338052/
“