برطانیہ کے شیف ہسٹن بلومنتھل اپنے اچھوتے خیالات کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔ ان کی ایک “ایجاد” ٹھنڈی گرم چاہے ہے۔ اس کو ایک پیالے کے درمیان ایک شیشہ لگا کر تیار کیا جاتا ہے۔ ایک طرف گرم چائے اور ایک طرف یخ بستہ چائے ڈال کر اس کو تیار کیا جاتا ہے۔ جب اس کو پیش کیا جاتا ہے تو درمیان کا شیشہ نکال لیا جاتا ہے۔ دونوں کے درجہ حرارت میں بہت زیادہ فرق ہونے کی وجہ سے ان کے گاڑھے پن میں زیادہ فرق ہوتا ہے۔ یہ شیشہ ہٹانے کے بعد یہ فوری طور پر ایک دوسرے سے نہیں ملتیں۔ بلومنتھل چائے پینے والا ایک ہی وقت میں گرم اور یخ بستہ چائے کا لطف اٹھاتا ہے۔ ایک طرف سے سرد اور ایک طرف سے گرم۔ کیا اس بارے میں بحث کا کوئی تُک بنتا ہے کہ چائے ٹھنڈی ہے یا گرم؟ یہ ایک ہی وقت میں دونوں ہے۔ متضاد باتیں بھی سچ ہو سکتی ہیں۔
یہ دنیا، سائنس اور خاص طور پر سوشل اور رویوں کی سائنس اس ٹھنڈی گرم چائے کی طرح ہے۔
ہم عام طور فرض کر لیتے ہیں کہ خوشی اور اداسی متضاد ہیں۔ ایک ہو تو دوسری نہیں ہو سکتی۔ جذبات پر ہونے والی نئی تحقیق بتاتی ہے کہ مثبت اور منفی کسی ایک لکیر کے دو الگ سرے نہیں ہیں۔ ایک ہی وقت میں بھی خوشی اور اداسی اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ ایک کالج سے فارغ التحصیل ہونے والے گریجویٹ کے کالج میں آخری روز کے جذبات ہوں یا کسی ایک خاص فلم کو دیکھ کر ہونے والے۔ یہ ایک ہی وقت میں خوشی اور اداسی کے ہو سکتے ہیں۔ ہمارے جذبات بھی ٹھنڈی گرم چائے کی طرح ہیں۔
اچھائی برائی بھی کچھ ایسے ہیں۔ جیسے چائے کی چسکی لیتے ہوئے دارومدار اس پر ہے کہ لی کہاں سے گئی ہے۔ کانٹیکسٹ کا معمولی فرق بڑا فرق ڈالتا ہے۔ اس پر ڈارلے اور بیٹسن کا مشہور تجربہ دیکھا جا سکتا ہے۔ وقت پر پہنچنے کا وعدہ نبھانا ہے یا راستے میں رُک کر کسی شخص کی مدد کرنا ہے۔ دونوں اچھی سمجھنے جانی والی اقدار جب مقابل ہوں تو کسی ایک کی قیمت پر دوسری کا فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ کسی نے درمیان میں مدد کر کے وعدہ خلافی کی یا اور کوئی درمیان والے کو نظر انداز کر کے وعدہ وفا کر گیا۔
جرمنی کے انجنئیر جان ریب جن کو نینکنگ کا بدھا کہا جاتا ہے، انہوں نے جاپانی قبضے کے دوران وحشیانہ سلوک سے لاکھوں چینیوں کی جانیں بچائیں۔ دوسری طرف یہ نازی پارٹی کے لیڈر بنے اور جرمن اقدامات کا بھرپور ساتھ دیا۔
اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ بتا سکتے ہیں کہ کوئی شخص یا اچھا ہوتا ہے یا بُرا تو آپ غلطی پر ہیں۔ آپ نے ابھی پوری چائے کا کپ تو محسوس ہی نہیں کیا۔ آپ کو ابھی دنیا کو سمجھنے کے سفر کا آغاز کرنا ہے۔ اگر آپ اپنی سوچ میں انتہاپسند نہیں اور اپنے ذہن میں اس خیال کو جگہ دینے کو تیار ہیں کہ متضاد بھی درست ہو سکتے ہیں اور بہت سی چیزوں میں آپ کو انتخاب نہیں کرنا، پھر آپ کو ایک ہی جگہ پر متضاد سچ نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔
جس طرح فزکس میں مادے اور ذرے کی یا بائیولوجی میں فطرت اور تربیت کی بحث کا جواب "دونوں" ہے، سوشل سائنس کے بہت سے جواب بھی ایسے ہی ہیں۔ بہت سی گرما گرم بحثیں بھی اسی طرح کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ انسان خودغرض ہے یا بے لوث؟ منطقی ہے یا جذباتی؟ معقول ہے یا نامعقول؟ آپ کو اس طرح کے سوالوں کے جواب میں سٹڈیز ملیں گی جو کسی ایک کیمپ کو سپورٹ کرتی ہوں گی۔ یخ بستہ یا گرم جیسے جوابات کی صورت میں۔ لیکن انسان ان میں سے تھوڑا تھوڑا سب کچھ ہے۔ ایک ہی شخص، ایک ہی وقت میں متضاد خاصیتیں دکھاتا ہوا۔ غیرمحتاط سمرمایہ کار جو بارش کے تھوڑے سے امکان کی وجہ سے چھتری لے کر باہر نکل رہا ہے۔ ظالم لیڈر جو کسی جانور کی تکلیف میں دیکھ کر آبدیدہ ہے۔ ہمدرد دوست جسے اپنے بچوں کا زیادہ خیال نہیں۔ مشکل کانٹیکسٹ میں فیصلہ کیسے لیتے ہیں؟ اس پر کی جانے والی ریسرچ یہ بتاتی ہے کہ لوگ بیک وقت ان چیزوں کے بارے میں بڑی گہرائی سے سوچ رہے ہوتے ہیں جو ان کے فوری مسئلے کے بارے میں ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ ہی وہ مکمل کچھ اور مسائل کو بالکل نظر انداز کر رہے ہوتے ہیں جو اسی سے تعلق رکھتے ہیں، اتنے ہی یا اس سے بھی زیادہ اہم ہیں لیکن ان کی فوری توجہ کے دائرے سے باہر ہیں۔
جس طرح ہم جانتے ہیں کہ تارٰیخ بھری پڑی ہے، ان ذہین لوگوں سے جنہوں نے انتہائی بے وقوفانہ غلطیاں کیں۔ ان اچھے لوگوں سے جنہوں نے بہت برے کام کئے۔ تو کیا ہم خود غرض ہیں یا بے لوث؟ عقل مند ہیں یا بے وقوف؟ اچھے ہیں یا برے؟ ٹھنڈی گرم چائے کی طرح، اس کا جواب ہمیشہ “دونوں” کی صرت میں نکلتا ہے۔ انحصار اس پر ہے کہ آپ چائے پی کہاں سے رہے ہیں۔