نجم حسین سید پنجابی زبان کے مانے ہوئے ادیب ہیں۔ پنجابی ادب کی تنقید پر ان کی مشہور کتابRECURRENT PATTERNS IN PANJABI POETRY.بیرون ملک کئی یونیورسٹیوں میں شامل نصاب ہے۔ 27 کتابوں کے مصنف نجم حسین سید سول سروس میں تھے۔ کئی اونچے مناصب پر فائز رہے۔ سرکاری گاڑی استعمال نہیں کرتے تھے اور دفتر آنے جانے کے لیے ویگن یا بس سے سفر کرتے تھے۔ پنجاب یونیورسٹی میں پنجابی ادب کا شعبہ 1971ء میں آغاز ہوا۔ اس وقت علامہ علائو الدین صدیقی وائس چانسلر تھے۔ 1973ء میں نجم حسین سید صاحب کو بطور صدر شعبہ لایا گیا۔ وہ سول سروس کا تزک و احتشام چھوڑ کر تین سال یونیورسٹی میں رہے اور شعبے کی بنیادیں مضبوط کیں۔ شاہ صاحب چونکہ خارج از وزن شاعری نہیں کرتے اور جینوئن شاعر اور ڈرامہ نگار ہیں اس لیے الیکٹرانک میڈیا پر چھائے ہوئے ’’بلند قامت‘‘ ارباب اختیار کو ان کا علم ہی نہیں! نجم صاحب کے لکھے ہوئے ایک ڈرامے میں ایک منظر یوں ہے کہ گائوں کی ایک عورت کو ظالم جاگیردار تھانے بھجوا دیتا ہے تاکہ اس کا دماغ درست کیا جا سکے۔ تھانے میں وہ پریشان حال ننگے سر بیٹھی ہے کہ ایک مولانا صاحب کا گزر ہوتا ہے، اسے برہنہ سر دیکھ کر حضرت کی مذہبی غیرت جوش میں آ جاتی ہے، وہ اسے خوب لعن طعن کرتے ہیں اور تلقین فرماتے ہیں کہ سر سے دوپٹہ نہ اتارا کرے۔
یہ منظر یاد آنے کی وجہ یہ ہوئی کہ مرغیوں کی فیڈ (خوراک) میں مرے ہوئے کتے، گدھے اور دوسرے مردہ جانور ڈالنے کا ان دنوں پریس میں ذکر ہے اور خوب ہنگامہ ہے۔ بتایا گیا ہے کہ لاہور اور قصور کے نواح میں یہ کام زور و شور سے ہو رہا ہے۔ مردہ جانور اکٹھے کرکے ان کی کھال اتاری جاتی ہے۔ دمیں کاٹ دی جاتی ہیں۔ چربی الگ جمع کرکے تیل بنایا جاتا ہے۔ آخری مرحلے میں گوشت، ہڈیاں، سینگ اور دیگر اجزا بڑے بڑے کڑاہوں میں ڈال کر تیز آگ پر ’’پکائے‘‘ جاتے ہیں۔ بلند درجۂ حرارت کی وجہ سے سب کچھ پگھل جاتا ہے اور ایک چٹنی نما مواد بن جاتا ہے۔ یہ مواد فیڈ تیار کرنے والوں کو بھیج دیا جاتا ہے جو اسے فیڈ کے دوسرے اجزا میں ملا دیتے ہیں۔ چربی سے بنا ہوا تیل‘ صابن بنانے والی فیکٹریوں میں بھی بھیجا جاتا ہے اور خبر کے بقول لاہور کے نواحی علاقوں میں سموسے، پکوڑے اور آلو کے چپس تلنے والے بھی اس تیل کو استعمال کرتے ہیں۔ مردہ جانوروں کے حصول میں ضلعی حکومت کے اہلکاروں کی خدمات سے بھی فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔
ہم اس مکروہ دھندے کے قطعاً حامی نہیں۔ ہمارا اعتراض صرف یہ ہے کہ اس قبیل کے دھندے کرنے والے لوگ ایک بہت بڑی علامتی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ آخر پریس ان کے پیچھے ٹین کیوں باندھ رہا ہے؟ملک میں جو صورت حال ہے اس کے پیش نظر مرے ہوئے کتوں اور گدھوں کو مرغیوں کی فیڈ میں ملانے پر اعتراض بالکل ایسا ہی ہے جیسا تھانے میں جوتے کھانے والی عورت کو اس بات پر کوسنا کہ وہ سر سے ننگی ہے۔ اگر کوئی آسمان پر جا کر وہاں سے دیکھے تو اسے معلوم ہو کہ اس ملک کے اوپر لاکھوں مردہ کتوں اور گدھوں کی بدروحوں کا سایہ ہے۔ کون ہے جو بڑے کڑاہ میں چٹنی جیسا مواد تیار نہیں کر رہا۔ فرق صرف یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے دکاندار اور کاروباری لوگ جو کچھ کر رہے ہیں صرف وہی ظاہری آنکھوں کو نظر آ رہا
ہے۔ معزز طبقات بھی یہی کچھ کر رہے ہیں۔ چربی سے تیل الگ بنا رہے ہیں، دمیں الگ اکٹھی کر رہے ہیں اور گوشت سینگ اور ہڈیاں الگ پکا رہے ہیں۔ لیکن اسے دیکھنے کے لیے ظاہری بینائی کے علاوہ بھی کچھ درکار ہے اور پھر مروت یا خوف کی وجہ سے دیکھ پانے والے ہونٹوں کو سی بھی لیتے ہیں!
وزیراعظم نے، جن کے بارے میں کچھ لوگوں کو خوش فہمی لاحق ہو رہی تھی کہ اپنے پیشرو سے بہتر ہیں، اپنے داماد کو پے در پے ترقیاں دینے دلوانے کے بعد آخری ایکٹ کے طور پر واشنگٹن ورلڈ بینک میں فائز کر دیا ہے جو کبھی بلند و بالا منصب خالی ہوتا ہے، خواہ وفاقی محتسب کا ہو، فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین کا ہو، ایشیائی بنک کے ڈائریکٹر کا ہو، تعینات وہی ہوتا ہے جو ایوان صدر یا وزیراعظم کے دفتر میں پہلے سے بیٹھا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان عالی شان محلات میں کوئی عام بیوروکریٹ تو پوسٹ نہیں ہوتا وہی ہوتا ہے جس کا گھوڑا مراسم کی بازی گاہ میں تیز دوڑ سکتا ہے۔ یہ تو مرکز کی صرف ایک ہلکی سی جھلک ہے۔ جو کچھ صوبوں میں ہو رہا ہے، فزوں تر ہے۔ وہاں تو کھال اتارے بغیر ہی کڑاہ بھرے جا رہے ہیں۔ سندھ میں یہی نہیں معلوم ہونے دیا جا رہا کہ احکام کا اصل منبع کہاں ہے اور کون ہے۔ کراچی شہر میں قتل عام ہے اور سنا ہے کہ وہاں گورنر، وزیراعلیٰ اور ایک صوبائی کابینہ بھی ہے۔ پنجاب کی اسمبلی میں ہنگامہ اس بات پر ہوا کہ وزیراعلیٰ کو لاہور کا میئر کیوں کہا گیا۔ مقتدر جماعت کو اعتراض یقینا میئر کے لفظ پر ہوگا۔ اگر پیپلزپارٹی والے وزیراعلیٰ کو لاہور کا وزیراعلیٰ کہتے تو فساد نہ ہوتا۔ فراست کا ایک اور ثبوت دیکھیے کہ صوبائی اسمبلی میں ایم ایم اے کا نمائندہ کالا باغ ڈیم کی جلد تعمیر کے لیے قرارداد پیش کرنا چاہتا تھا۔ جس ملک میں آبادی کی اکثریت کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں وہاں گزشتہ ایک سال کے دوران ایک کروڑ روپے کا پینے کا پانی ان عمائدین اور امرا کے لیے درآمد کیا گیا جو بڑے بڑے کڑاہوں کے آگے بیٹھے ہیں۔ نیب نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا ہے کہ صرف چار پٹواریوں ہی کی کرپشن ایک ارب روپے کی بن رہی ہے۔
جہنم نما کڑاہوں میں چربی سے تیل بنانے والے معززین جمہوریت کے لیے اس قدر مخلص ہیں کہ سیاست کرتے ہوئے سر چٹے اور کمریں کمان ہو گئی ہیں، لیکن کم سن شہزادوں کے آگے کبھی قیام کی حالت میں ہیں تو کبھی رکوع کر رہے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری مزار قائد پر حاضری کے بعد مہمانوں کی کتاب میں تاثرات درج کر رہے ہیں اور بڑے بڑے نامی گرامی حضرات پیچھے کھڑے سعادت مندی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ نون میں چوہدری نثار، خواجہ آصف اور سعد رفیق جیسے سینئر ارکان موجود ہیں اور حکومت پنجاب میں بھی کچھ وزیر ضرور ہوں گے لیکن کوئی کامرس کالج ہے یا کسی کرکٹ گرائونڈ کا افتتاح ہے یا کسی ہسپتال کا سنگ بنیاد ہے، سارے کے سارے ’’فرائض‘‘ حمزہ شہباز شریف ہی نے انجام دینے ہیں! کچھ لوگ میاں نواز شریف صاحب کی سالگرہ کا کیک کاٹتے ہوئے باقاعدہ تصویر بنوا رہے ہیں! کیا مضحکہ خیز مناظر ہیں!
ایک بہت بڑی مذہبی جماعت میں (جو سیاست سے اتنی ہی الگ تھلگ ہے جتنی حقوق العباد سے) بھاری اکثریت تاجروں کی ہے۔ یہ تاجر معمولی نہیں، بڑے بڑے ہیں۔ ماشاء اللہ متشرع ہیں۔ دین کے راستے میں محنت کرتے ہیں۔ دن میں کئی کئی تسبیحات پڑھتے ہیں۔ اس کے باوجود ملک میں ملاوٹ اور ٹیکس چوری عروج پر ہے۔ معصوم بچوں کے دودھ سے لے کر جاں بلب مریضوں کے منہ میں جانے والی ادویات تک سب کچھ جعلی ہے۔ ماپ تول کم ہے۔ منافع خوری زیادہ ہے اور یہ سب کچھ تاجر کر رہے ہیں۔ مبلغ حضرات کا سارا زور مشہور فنکاروں‘ کھلاڑیوں‘ مغنیوں اور اداکاروں پر ہے۔ حُب جاہ بھی کیا کیا صورتیں اختیار کرتی ہے! ؎
سادگی سے تم نہ سمجھے ترک دنیا کا سبب
ورنہ وہ درویش پردے میں تھے دنیا دار بھی!
ایک زمانہ تھا کہ محمود اور ایاز ایک صف میں کھڑے ہوتے تھے اب عوام کی صفیں الگ ہیں اور خواص کے لیے دین کے بندوبست الگ ہیں!
رہے ملک کے وزراء، تو اگر معلوم ہو جائے کہ انہوں نے پانچ سال میں بھرتیوں، تعیناتیوں، تبادلوں اور ترقیوں کے لیے کتنی سفارشیں کی ہیں تو صرف انہی اعداد و شمار سے کڑا ہوں کے کڑاہ بھر جائیں۔ تعجب ہے ہمارے پریس کو صرف وہ مردہ کتے اور وہ مردہ گدھے نظر آتے ہیں جنہیں مرغیوں کی فیڈ بنانے والے چھوٹے چھوٹے لوگ چیرتے پھاڑتے ہیں!
http://columns.izharulhaq.net/2012_12_01_archive.html
“