ہمارے تھل کے دیہاتوں میں جب آندھی چلتی ہے تو اپنے ساتھ منوں ریت اور گرد و غبار لے آتی ہے، روزِ روشن آن کی آن میں گہرے سرخ اندھیرے میں بدل جاتا ہے راہ گیر بھاگ بھاگ کر پناہ تلاش کرتے ہیں. گھروں میں بھی نفسا نفسی کا عالم ہوتا ہے کوئی تندور کا منہ ڈھانپنے کے لیے دوڑتا ہے تو کوئی چارپائیاں اٹھا کر اندر رکھنے لگتا ہے برتن گرتے پڑتے شور مچاتے ادھر اُدھر لڑھکنے لگتے ہیں، تار پر ڈالے ہوئے کپڑے اُڑ اُڑ کر ساتھ والے گھروں میں جا پڑتے ہیں جنہیں پھر تلاش کرنا ایک الگ شغل ہوتا ہے. ہر کوئی اپنا سر ڈھانپنے اور کمروں کے دروازے اور روشن دان بند کرنے لگتا ہے. اگر ایسا نا کریں تو آندھی ختم ہونے تک کمرے ریت سے اٹ چکے ہوتے ہیں جسے نکالنے کیلئے خاصی محنت درکار ہوتی ہے۔ بولنے کی ہمت کسی میں نہیں ہوتی کیونکہ ادھر منہ کھلا نہیں اور ادھر ریت کا ریلا منہ میں گُھسا نہیں.
لوگ آندھی کو بہت برا سمجھتے ہیں لیکن مجھے آندھی بہت پسند ہے مجھے یوں لوگوں کو آندھی میں بھاگم بھاگ کرتے دیکھنا اچھا لگتا ہے۔ گرد و غبار سے اٹی ہوئی شکلیں اور لوگوں کا ایک دوسرے کو دیکھ کر مذاق اڑانا اچھا لگتا ہے۔ کچھ وقت کیلئے چہرے پر چھائی اداسیاں اور حیاتی کے دکھ درد دھول مٹی میں کہیں کھو جاتے ہیں. کچھ وقت کیلئے مٹی کا بنا انسان اپنی اصل کے ساتھ گُھل مل جاتا ہے. مجھے آندھی اس لیے بھی پسند ہے کہ آندھی میں علاقے کا چودھری بھی اسی طرح اپنی پگڑی کو سمبھالنے کے جتن کرتا ہے جیسے ایک عام آدمی، آندھی کچھ وقت کیلئے ہی سہی محمود و ایاز کو ایک ہی صف میں لا کھڑا کرتی ہے. لیکن آندھی کا برا پہلو یہ ہے کہ اگر زور سے چلے تو درخت اور کھمبے اُکھڑ کر سڑکوں پر گرے پڑے ہوتے ہیں، ریت کے ٹِیلے سڑکوں پر چڑھ جاتے ہیں اور حکومتی مشینری ہفتوں ہفتوں تک سڑکیں صاف نہیں کرتی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“