نظر کمزور ہوگئی ہے۔ قریب کی نظر بھی اور دور کی نظر بھی۔ سو، کڑے وقت میں قریب کے رشتے دار آس پاس نظر آتے ہیں نہ دُور کے۔ بس ایک خلائے بے کراں ہے کہ ہر سُو نظر آتا ہے۔ ’کراں‘ کہتے ہیں کنارے کو، حد کو اور انتہا کو۔ ’بحرِ بے کراں‘ اور ’بے کراں آسمان‘ کی تراکیب اکثر پڑھنے اور سننے میں آتی رہتی ہیں۔ ’خلائے بے کراں‘ کو بھی انھیں میں سے ایک جانیے۔ لگے ہاتھوں ایک بات اور جان لیجے۔ لاکھ سمجھانے پر بھی کوئی بات کسی کی سمجھ میں نہ آئے تو اُس کی ’سمجھ موٹی‘ کہی جاتی ہے۔ قریب سے نظارہ کرنے پر بھی کسی کو کچھ نظر نہ آئے تواُس کی ’نظر موٹی‘ کہلاتی ہے۔ پس اے صاحبو! ’نظروں کا مٹاپا ہمیں دیتا ہے منادی‘ کہ بڑھاپا آن پہنچا۔ اِس عمر میں اکثر کی نظر کم زور ہوجاتی ہے۔ لیکن نظر کی ایسی شدید کمزوری کے باوجود، بقولِ حفیظؔ:
یہ عجب مرحلۂ عمر ہے یارب کہ مجھے
ہر بُری بات، بُری بات نظر آتی ہے
سب سے بُری بات یہ نظر آتی ہے کہ بُرے بھلے کی تمیز نظر نہیں آتی۔ عجب ’بے تمیز‘ لوگ ہیں۔ جو بُرا کرے ہے اُسے بھلا کہے ہیں، جو بھلا کرے ہے اُسے بُرا کہے ہیں، اور جو بُرے بھلے کی تمیزکرائے اُسے بُرا بھلا کہے ہیں۔
اسلام آباد سے اُبھرتے ہوئے ایک ممتاز شاعر نے [فرض کرلیجے کہ اُن کا نام ممتاز مسافرؔ ہے] یہ سوال بھیجا ہے کہ ’’اقبالؔ کے اس شعر میں ’بتدریج‘ کا کیا مطلب ہے؟‘‘
تھا جو ’ناخوب‘ بتدریج وہی ’خوب‘ ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
صاحب! ’بتدریج‘ (بہ تدریج) کا مطلب ہے درجہ بدرجہ (یا درجہ بہ درجہ) جسے انگریزی میں ‘Gradually’کہا جاتا ہے۔ پہلے ایک درجہ، پھر دوسرا درجہ، پھر تیسرا درجہ کرکرکے بڑھنا یا گھٹنا۔ درجے کو انگریزی میں ‘Grade’کہتے ہیں۔ ’فرسٹ گریڈ، سیکنڈ گریڈ، تھرڈ گریڈ‘ وغیرہ اردو میں بھی بولا جانے لگا ہے۔ شدید بخار میں حرارت درجہ بدرجہ یعنی ’بتدریج‘ بڑھتی یا گھٹتی ہے۔ اطبا ہدایت کرتے ہیں کہ ہر گھنٹے بعد ’حرارت پیما‘ سے درجۂ حرارت لے کر لکھتے رہیے۔ ’بتدریج‘ کا مفہوم ہے دھیرے دھیرے، رفتہ رفتہ، آہستہ آہستہ، تھوڑا تھوڑا۔
محولہ بالا شعر اقبالؔ کے ایک قطعے کا آخری شعر ہے۔ قطعے کا عنوان ہے ’تن بہ تقدیر‘۔ یہ قطعہ ’ضربِ کلیم‘ میں شامل ہے۔’تن بہ تقدیر‘ کا مطلب ہے اپنے تن یا جسم کو فقط قسمت کے سپرد کرکے بیٹھ رہنا، خود کچھ نہ کرنا۔ اقبالؔ نے مسلمانوں کو ’ترکِ دنیا‘ کی تعلیم دینے والوں پر طنز کیا ہے۔ جن مردانِ خدا کے ارادوں میں خدا کی تقدیر پوشیدہ ہوا کرتی تھی آج اُنھیں کو ’تن بہ تقدیر‘ بناکر بے عمل بٹھا دیا گیا ہے۔ اِس شعر میں اقبالؔ بتاتے ہیں کہ جب کوئی قوم محکوم اور غلام بن جاتی ہے تو اُس کا اچھائی اور برائی کا معیار بھی بدل جاتا ہے۔ وہ اچھائی کو بُرائی اور بُرائی کو اچھائی سمجھنے لگتی ہے۔ قوم کی قوم بے ضمیر ہوجاتی ہے۔ غیروں کی غلامی میں مبتلا ہوکر یہی حالت ہم پاکستانیوں کی بھی ہوگئی ہے۔
’بتدریج‘ کا لفظ آج ہتھے چڑھ گیا ہے تو کیوں نا حسبِ عادت ہم اس کے مدارِج کا بھی جائزہ لیتے چلیں۔ مدارج ’مدرج‘ یا ’مدرجہ‘ کی جمع ہے۔ مدرج کا مطلب ہے درجہ، رُتبہ یا منصب۔ بنیادی لفظ ’دَرَجَ‘ ہے، جوعربی سے آیا ہے۔ اس کا لغوی مطلب ہے چلنا یا سیڑھیاں چڑھنا، اوپر تلے منزلیں بنانا، لپیٹنا، تہ کرنا، زینہ بنانا اورترقی کرنا۔ عربی میں اُس کاغذ کو بھی ’درج‘ کہا جاتا ہے جس پر لکھا جائے۔ شاید اسی وجہ سے اردو میں’درج‘ کے مستعمل معنوں میں لکھنا، لکھ کر رکھنا اور کسی فہرست میں داخل کرنا شامل ہے۔ فہرست میں لکھنے کو ’درج کرنا‘ یا ’اِندراج‘ کہتے ہیں۔ درج شدہ مواد ’مُندَرِج‘ یا ’مُندَرِجہ‘ہے۔ سب جانتے ہیں کہ کسی چیز کے نیچے کے حصے کو ’ذیل‘کہا جاتا ہے۔ جس سرکاری عہدے دار کے نیچے یا ماتحت چند گاؤں اور قصبے ہوا کرتے تھے اُسے ’ذیل دار‘ کا نام دیا گیا۔ جو فہرست یا جو باتیں کسی فقرے یا کسی عنوان کے نیچے درج کی جائیں اُنھیں آج بھی ’مُندَرِجہ ذیل‘ لکھتے ہیں۔ بھارت کے ایک پچھلے راشٹرپتی کا شبھ نام ’ذیل سنگھ‘ تھا۔ ہمارے مشہور مزاحیہ کالم نگار نصراللہ خاں مرحوم اپنے کالموں میں گیانی ذیل سنگھ کو [اندرا گاندھی کے] ’مندرجہ ذیل سنگھ‘ لکھا کرتے تھے۔
’درجہ‘ سیڑھی کو بھی کہتے ہیں اور سیڑھی کے پائے کو بھی۔ علمِ ہندسہ میں دائرے کے جو تین سو ساٹھ اجزا کیے گئے ہیں اُن میں کا ہر جزو ’درجہ‘ کہلاتا ہے۔ زاویوں کی پیمائش اِنھیں درجوں سے ہوتی ہے۔ پینتالیس درجے کا زاویہ، ساٹھ درجے کا زاویہ یا نوّے درجے کا زاویہ۔ جو لوگ ایک سو اسّی درجے کے زاویے سے پلٹا کھا جائیں، اُن کے متعلق آج کل کہا جاتا ہے کہ اُنھوں نے ’یوٹرن‘ لے لیا۔ سیاست میں اس قسم کا پلٹنا، جھپٹنا اور جھپٹ کر پلٹنا عام بات ہے۔ یہ جمہوریت کو گرما گرم رکھنے کا ایک بہانہ ہے۔ اسے ’جمہوریت کا حُسن‘ بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن یہی حسین کام حریف کربیٹھیں تو ناخوب، اور خود ہم کریں یا ہمارے حلیف کریں تو نہ صرف خوب، بلکہ بہت خوب۔ اسی طرح ہوتے ہوتے، تھا جو ناخوب، بتدریج ’’بہت خوب‘‘ ہوا۔ اُردو میں ’درجہ‘ کا لفظ کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ مرتبے اور رُتبے کے معنوں میں، عہدے اور منصب کے معنوں میں اور تعلیمی اداروں میں جماعت اور زُمرے کے معنوں میں۔ درجہ کی جمع درجات ہے۔ ’درجۂ حرارت‘ کا ذکر اوپر آچکا ہے، جس سے بخار یا ’تَپ‘ کی پیمائش کی جاتی ہے اور مرض کی حالت یا کیفیت کا تعین ہوتا ہے۔صباؔ کہتے ہیں:
تَپِ اُلفت میں صباؔ ہے یہ تمھارا درجہ
دق کے آثار ہیں، بیمار نظر آتے ہو
عزت کے معنوں میں بھی ’درجہ‘ کا لفظ بولتے ہیں۔ جیسے: ’’اللہ نے آپ کو بڑا درجہ دیا ہے‘‘۔ ’درجہ ملنا‘ بلند مرتبہ حاصل ہونے کے معنوں میں بولا جاتا ہے، مثلاً: ’’مولانا فضلِ حق خیرآبادی کو شہادت کا درجہ ملا‘‘۔ اکثر یہ دُعا بھی سننے کو ملتی ہے کہ ’’اللہ مرحوم کے درجات بلند فرمائے‘‘۔ ’کس حد تک‘ اور ’کس قدر‘ کے لیے اُردو میں ’کس درجہ‘ کی ترکیب بھی مستعمل ہے۔ اقبالؔ حیران ہیں کہ
خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
’درجہ بدرجہ‘ کا مطلب ہے قدر، قیمت، صلاحیت، مقام اور مرتبے کے مطابق۔ اسی کو ’تدریج‘ کہتے ہیں۔ ’تدریج‘ انصاف سے کی جاتی ہے۔ منصفانہ ترقی بھی تدریجاً ہوتی ہے۔ گردنیں پھلانگ کر نہیں۔
’د‘ پر پیش کے ساتھ بھی ایک لفظ ہے’دُرج‘۔ مطلب ہے صندوقچہ، ڈبا، یا جواہرات رکھنے کی ڈبیا۔اس لفظ کے استعمال کی مثال بھی اقبالؔ کے ایک شعر سے لانی پڑے گی۔ اسلام نے عورت کو شَرَف کی جن بلندیوں پر فائز کیا ہے اُس کا ذکر کرتے ہوئے اقبالؔ کہتے ہیں:
شَرَف میں بڑھ کے ثریا سے مُشتِ خاک اس کی
کہ ہر شَرَف ہے اسی دُرج کا دُرِ مکنوں
’دُر‘ کہتے ہیں موتی کو، اور ’مکنوں‘ کا مطلب ہے چھپا ہوا، پوشیدہ۔ مسلم معاشروں کے جن گھرانوں میں اسلامی تعلیمات پر عمل ہورہا ہے، وہاں تو عورت آج بھی فضیلت و فوقیت کے بلند درجے پر ملکہ بن کر مسند نشیں ہے۔ مگر مغربی معاشرت نے عورت کو اس اوجِ ثریا سے اُتار کر پرائے مردوں کی مصاحبی میں لا کھڑا کیا ہے۔ بلکہ بیشتر تو اُسے ہر قسم کی خدمت گزاری کے لیے ’ہر کسی کی خادمہ‘ کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ ہمیں تو یہ بات بھی بُری بات نظر آتی ہے۔ مگر کیا کیجیے۔ تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا۔
سوہنی دھرتی کے لاوارث شہید ارضِ وطن کے عسکری یتیموں کا نوحہ
بہت سال پہلے کا ذکر ہے ۔ لاہور سے سیالکوٹ آیا مانی چھاوٗنی کے شمال مشرقی گیٹ کے پار لال...