نہیں، یہ عنوان کسی دوسرے درجے کی ڈراوٗنی فلم یا پھر کسی میوزک بینڈ کا نہیں، یہ جینیاتی تحقیق کے ایتھکس کی ایک کہانی ہے۔ ARVD دل کے پٹھوں کی ایک بیماری ہے جس کا شکار افراد بیس سے چالیس سال کی عمر کے درمیان دل بند ہونے سے فوت ہو جاتے ہیں۔ یہ ان کمیونیٹیز میں ہے جہاں پر نسل در نسل خاندان میں شادی کرنے کا رواج ہو۔
ٹیکساس کے ویمپائر بیلر کالج آف میڈیسن کے محققین کے گروپ کو دیا گیا نام ہے۔ ان کے چرائے گئے خون نے ہماری نوع کے لئے اہم ترین سوالات کو جنم دیا۔
اگر آپ مجھے اپنا خون رضاکارانہ طور پر دیتے ہیں اور میں اس کی مدد سے بیماری تلاش کر کے علاج ڈھونڈ لیتا ہوں تو کیا اس علاج پر آپکا بھی کوئی حق ہے؟ اگر مجھے پتہ لگ جاتا ہے کہ آپ کی صحت کو کوئی خطرہ ہے، کیا آپ کو خطرے سے آگاہ کرنا میرا فرض ہے؟ کیا میں اس انفارمیشن کو آپ کو بیچ سکتا ہوں؟ اگر میں آپ کے ڈی این اے کی کسی منفرد چیز سے کوئی اہم دریافت کر لیتا ہوں، کیا وہ صرف میرا پیٹنٹ ہو گا؟ میں نے اس کو دریافت کیا تھا لیکن وہ ڈی این اے تو آپ کا تھا۔
کینیڈا میں نیوفاوٗنڈلینڈ کے سرد اور دیہی علاقے میں صدیوں سے الگ تھلگ رہنے والے گروپ ہیں۔ تین سو سال پہلے انگلینڈ، ویلز، آئرلینڈ سے آنے والے لوگ جہاں پر اس تنہائی کی وجہ سے نسل در نسل خاندان میں شادیاں ہوتی رہیں اور ARVD کی بیماری زیادہ پائی جاتی ہے۔ نوے کی دہائی کے آخر میں جب اس بیماری پر تحقیق کرنے کیلئے ٹیکساس کی اس یونیورسٹی نے تحقیق کرنا تھی تو ان لوگوں کے سیمپل اس تحقیق کیلئے اہم تھے۔ بیلر یونیورسٹی سے محقیقین کا ایک گروپ یہاں پر گرینڈ فالز کے علاقے کے قریب پہنچا۔ یہ اس جین کی تلاش میں تھے۔ چند دن میں یہاں کے لوگوں سے سیمپل اکٹھے کئے۔ چند کاغذات پر دستخط لئے۔ یہاں کے مچھیرے، شکاری اور سٹور چلانے والے لوگ بڑے اچھے لوگ ہیں۔ یونیورسٹی سے آنے والے لوگوں کی مدد کرنے کیلئے انہوں نے اپنے خون کے سیمپل ان کو دے دئے۔ بیلر یونیورسٹی میں تحقیق کرنے والوں نے ان کو استعمال کر کے اس بیماری کی جین دریافت کر لی۔ کیا اس پر نیوفاوٗنڈلینڈرز کا حق تھا کہ اس ریسرچرز کا؟ جن لوگوں کے خون سے یہ معلوم ہوا تھا کہ وہ اس خرابی کا شکار ہیں، کیا ان کو بتانا یونیورسٹی کی ذمہ داری تھی؟ یونیورسٹی کے مطابق اگر یہ تحقیق کی ہی نہ جاتی تو اس کا علاج بھی دریافت نہ ہو سکتا۔ کمرشل بنیادوں پر اس علاج کو عام کرنے کا مطلب یہ کہ نیوفاوٗنڈلینڈ میں رہنے والوں کے پاس اب موقع تھا کہ علاج خرید سکیں۔ (کچھ لوگ پچھلے جملے میں“خرید” پر فوکس کریں گے اور کچھ لوگ “موقع” پر)۔ یونیورسٹی نے ان لوگوں کو کچھ بھی بتانے سے انکار کیا۔
یہاں پر ایک اور فرق ٹیکساس اور نیوفاوٗنڈلینڈ کے کلچر کا تھا۔ کینیڈا میں علاج بنیادی حق تصور ہوتا ہے۔ کینیڈا کے سسٹم کا عادی ہو جانے والوں کیلئے یہ تصور مشکل تھا کہ ان کا ڈی این اے اب ان کا نہیں رہا تھا۔ اس کو اکٹھا کرنے والے اب یہ علاج ان کو بیچنے لگے تھے۔
یہ تنازعہ میڈیا پر بڑی دیر تک چلتا رہا اور اس سے کئی اور اہم مباحث نے جنم لیا۔ میری جینیٹکس پر کس کا حق ہے؟ جینیات میں ہم اس وقت ایک بڑے مختلف اور نئے دور کے آغاز میں ہیں۔ بائیوٹیک نئی خلائی دوڑ ہے۔ جس طرح انفارمیشن کے دور نے نے ہمارے ڈیتا کو منافع کمانے کا ذریعہ بنا دیا ہے، جینیاتی دور ہماری جینز کے ساتھ ایسا کر سکتا ہے۔ بیلر یونیورسٹی کی لیباریٹری سے شروع ہونے والی بحث اس سے کہیں گہری ہے جس کی دونوں اطراف میں اچھے دلائل ہیں۔ انفارمیشن پیسہ ہے اور ڈین این اے کسی کی ذاتی انفارمیشن۔ اگر میرے ڈی این اے میں وہ راز چھپا ہے جو ہنٹکٹن بیماری کو ختم کر دے تو اس سے کروڑوں ڈالر کمائے جا سکیں گے۔ جو بھی کمپنی ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائے، وہ منافع کما سکتی ہے۔ اگر ایسا نہ کرنے دیا جائے تو اس بیماری کا علاج ہی نہیں ملے گا۔ اس راز پر میرا کتنا حق ہے؟ کیا میں اپنا ڈی این اے کھلی مارکیٹ میں فروخت کر سکتا ہوں؟ اس کی بولی لگا سکتا ہوں؟ اپنی بیماری کو کاروبار بنا سکتا ہوں؟ اس تحقیق میں ڈی این اے خام مال ہے۔
ڈیزائنر جینیات کی اکنامکس کیا ہوں گی؟ اگر میری آنکھوں کا گہرا نیلا ہے جو دوسروں کو اپنے بچے کیلئے چاہیے یا ایسے بال جو آجکل کا فیشن ہیں؟ اور کھلاڑی یا دوسری سیلیبریٹی کیا اپنا ڈی این اے مارکیٹ میں زیادہ بولی لگانے والوں کو بیچ سکیں گے؟ کسی مشہور اداکار یا پھر کسی ماڈل کے چہرے کے فیچر لینے کیلئے کون کس قدر خرچ کرنے کو تیار ہو گا؟ کسی جینیاتی ڈس آرڈر کو لے کر پیدا ہونے والا اپنی اس بدقسمتی کو خوش قسمتی میں بدل سکے گا؟ یا پھر حکومت “بڑی بھلائی” کے لئے ڈی این اے کو شئیر کرنے پر مجبور کرے گی؟ ان سوالوں کے جواب ہر کلچر میں ایک نہیں ہوں گے۔
ٹیکساس کے ویمپائرز سے شروع ہونے والے سوال بائیولوجی، قانون اور ایتھکس کے ہیں۔