عین ان دنوں جب ہر شخص کی زبان پر یہ سوال ہے کہ کیا تبدیلی دھرنوں سے اور دھرنوں جیسے طریقوں سے آئے گی … یا… پارلیمنٹ کے ذریعے آئے گی، عین ان دنوں قدرت نے نشانی دکھلا دی۔ دودھ کا دودھ ، پانی کا پانی ہوگیا۔ دھرنوں سے تبدیلی آئے یا نہ آئے ، دوپہر کے دمکتے سورج کی طرح یہ بات واضح ہوگئی کہ رول آف لا موجودہ پارلیمنٹ کے بس کی بات نہیں۔
جنوبی پنجاب کے ایک شہر میں سلمیٰ نے ، جو بیوہ تھی خود کشی کرلی کیوں کہ بجلی کا بل اس کی استطاعت سے باہر ہوگیا تھا۔ اس ملک میں جہاں پارلیمنٹ آئین اور جمہوریت کی حفاظت کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی ہے‘ سلمیٰ کی خبر کچھ خاص اہمیت نہیں رکھتی۔ ہر مہینے ، ہر ہفتے ، ہر روز ، نہ جانے کتنی سلمائیں خودکشی کرلیتی ہیں۔ خودکشی نہ کریں تو انہیں مار دینے کے اور بہت طریقے ہیں ۔ پنچائتیں ہیں، جرگے ہیں، غیرت ہے، گلیوں میں برہنہ پھرائے جانے کا کلچر ہے۔ لیکن اس دفعہ جب سلمیٰ نے خودکشی کی ہے تو ساتھ کچھ اور بھی ہوا ہے۔
حکومت پاکستان کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے وزیراعظم سے سرکاری گاڑی فراہم کرنے کی استدعا کی۔ قانون کی رو سے اس عہدیدار کا استحقاق اٹھارہ سو سی سی گاڑی کا تھا۔ ایک عام کھاتا پیتا شہری جو گاڑی خریدتا ہے اور استعمال کرتا ہے ، وہ ایک ہزار سی سی کی ہوتی ہے یا تیرہ سو سی سی کی۔ کچھ لوگ اٹھارہ سو سی سی کی گاڑی بھی رکھتے ہیں لیکن ان کی تعداد کم ہے۔ اٹھارہ سو سی سی کی گاڑی سٹیٹس کا اور شان و شوکت کا مظہر بھی ہے۔ یہ کوئی معمولی یا عام سواری نہیں۔ اٹھائیس تیس لاکھ میں آتی ہے۔ اس کے تیل پانی کا خرچ بھی کم نہیں !
عہدیدار نے وزیراعظم کو براہ راست لکھا کہ اسے 2400سی سی کی گاڑی کی منظوری دی جائے ۔ یہ درخواست متعلقہ وزارت کی وساطت سے جانی چاہیے تھی۔ وزیراعظم کے دفتر کو چاہیے تھا کہ درخواست واپس کرتا اور متعلقہ وزارت کی رائے طلب کرتا۔ ایسا نہیں ہوا۔ مصروف وزیراعظم نے ایک دو دن کے اندر ہی منظوری دے دی۔ چوبیس سو سی سی کی مرسڈیز بینز گاڑی کی مبینہ قیمت ایک کروڑ تیس لاکھ روپے ہے۔
بظاہر یہ ایک عام سرکاری معاملہ ہے۔ ہمارا ذہنی رویہ وہی ہے جو رعایا کا ہوتا ہے۔ احمد رضا قصوری کے والد قتل ہوئے تھے تو بہت سے لوگ کہتے تھے … آخر بادشاہ لوگوں کو مرواتے ہی ہیں۔ ایسا کون سا انوکھا کام ہوا ہے۔ اس معاملے میں بھی بہت سے لوگ بالخصوص پارلیمنٹ کے ارکان‘ وزرائے کرام اور حکومتی پارٹی کے فیض یافتگان یہی کہیں گے کہ وزیراعظم کو اختیار ہے۔ جو چاہیں کریں۔ اربوں کھربوں کے بجٹ میں کروڑ ڈیڑھ کروڑ کی حیثیت ہی کیا ہے!
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک نے بادشاہی نظام اپنانا ہے یا قانون کی حکومت کا نظام ؟ آسٹریلیا میں وزیر استعفیٰ دے دیتا ہے کیونکہ سرکاری لیٹر پیڈ پر خط لکھ کر کسی کی سفارش کر بیٹھا تھا۔ کیا یہ معمولی بات نہیں ؟ ڈنمارک میں ایک خاتون وزیر استعفیٰ دے دیتی ہے کیونکہ اس نے رات کو سائیکل چلاتے وقت لال بتی کراس کرلی تھی۔ کیا یہ معمولی غلطی نہیں ؟ ایک ریاست کے وزیراعلیٰ کو ایک بزنس مین شراب کی بوتل تحفے میں دیتا ہے۔ اس سے جواب طلبی ہوتی ہے۔ وہ کہتا ہے مجھے یاد نہیں! اس کی ٹیلی فون کال کا ریکارڈ اسے دکھایا جاتا ہے اور وہ کاغذ بھی جس پر اس نے تحفہ دینے والے کو ’’تھینک یو‘‘ لکھ کر بھیجا تھا، وہ مستعفی ہوجاتا ہے۔ کیا یہ بہت بڑا جرم تھا ؟ جن معاشروں میں قانون کی حکمرانی ہوتی ہے‘ وہاں غلطیاں گزوں اور میٹروں میں نہیں ماپی جاتیں۔ غلطی غلطی ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ اس غلطی کا محاسبہ کرتی ہے۔ وزیر گھر چلے جاتے ہیں، حکومتیں گر جاتی ہیں !
یہاں قانون کی حکمرانی کا تصور ہوتا تو وزیراعظم سب سے پہلے یہ معاملہ وزارت خزانہ کو بھیجتے ۔ وزارت خزانہ کابینہ ڈویژن کی رائے لیتی کہ عہدیدار کو کون سی گاڑی ملنی چاہیے ؟ اگر اٹھارہ سو سی سی کی گاڑی کا استحقاق ہے تو وزارت خزانہ اس کے حساب سے رقم واگزار کرے گی۔ پھر وزارت خزانہ یہ بھی بتاتی ہے کہ اس کے پاس رقم موجود بھی ہے یا نہیں ۔ اگر نئی گاڑیوں کی خرید پر پابندی عائد کی گئی ہے اور اسی حکومت نے عائد کی ہے تو پابندی کا احترام کیاجائے گا۔
مسلم لیگ نون کی حکومت کو کسی بھی زاویے سے جانچ لیں ، یہ ضیاء الحق کے عہد کی توسیع ہے۔ متعلقہ وزارتوں کو مکمل طور پر پس پشت ڈال کر آمرانہ فیصلے کرنا جنرل ضیاء الحق کا طرۂ امتیاز تھا۔ مرحوم ارشاد حقانی نے لکھا تھا کہ ترکی میں جنرل ضیاء الحق کا تعارف میزبان صدر نے کسی فنکار یا کھلاڑی سے کراتے وقت بتایا کہ علاج کے لیے وہ اس فنکار یا کھلاڑی کو امریکہ بھیجنا چاہتے ہیں لیکن ان کی (یعنی ترکی کی) وزارت خزانہ اجازت نہیں دے رہی۔ شہنشاہ معظم صدر پاکستان نے وہیں احکام صادر فرمائے کہ یہ اخراجات حکومت پاکستان برداشت کرے گی! موجودہ حکومت تین وجوہ کی بنا پر صدر ضیاء الحق کے دور آمریت کی توسیع ہے۔ اول : اس میں اداروں کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ چند افراد ہیں جو اداروں کے بجائے خود سارا کاروبار حکومت چلا رہے ہیں۔ وزیر خارجہ ہے ہی نہیں ۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا کردار محض ڈاکخانے کا ہے۔ کسی بیورو کریٹ کے سروس کیریئر کی پلاننگ نہیں ہوتی۔ چند ہفتے یا چند ماہ بعد افسر کو اکھاڑ پھینکا جاتا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب ایک درجن سے زیادہ وزارتیں خود سنبھالے بیٹھے ہیں۔ وزیراعظم سینیٹ جیسے بلند مرتبت ادارے کو جس قدر اہمیت دیتے ہیں وہ اس حقیقت سے واضح ہے کہ چودہ ماہ سینیٹ کا رخ ہی نہیں کیا۔ یہ سب کچھ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں ہوتا تھا۔دوم : مذہب کے حوالے سے بھی وہی رویہ ہے۔ ظاہر پر زور ہے اور اعمال کچھ اور صورت حال دکھاتے ہیں۔ سوم : وہی طبقات ، وہی گروہ اور صحافیوں کی وہی جماعت اس حکومت کی پشت پناہی کررہی ہے جو جنرل ضیاء الحق کے دائیں طرف موجود رہی !
وزیراعظم کی یہ ’’ فیاضی‘‘ بظاہر ایک عام سرکاری معاملہ لگتا ہے لیکن عقل والوں کے لیے اس میں نشانیاں موجود ہیں۔ اگر اسے ٹیسٹ کیس کے طور پر لیاجائے تو دیکھنا چاہیے کہ کیا پارلیمنٹ اس غیر قانونی منظوری کا نوٹس لیتی ہے یا نہیں ؟ نہیں لیتی ، تو دیگ کا ایک دانہ کافی ہے۔ اس پارلیمنٹ سے تبدیلی کی امید نہ رکھی جائے اور دوسرے طریقے جو ممکن ہوں اور مناسب ہوں ،آزمائے جائیں۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“