چینی کھانے چین جا کر دیکھے اور کھائے‘ بلکہ کھانے کی کوشش کی تو معلوم ہوا ہمارے ہاں جو چینی کھانوں کا غلغلہ ہے‘ اس کا چینی کھانوں سے کوئی خاص تعلق نہیں۔ یہ چینی کھانوں کی مسخ شدہ شکل ہے۔ چین میں چاول‘ ضیافت کا غالب حصہ ہوتے ہی نہیں۔ کئی ڈشوں کے بعد پیالوں میں نیم سخت سے چاول دکھائی دیتے ہیں۔ اسی طرح وہاں سوپ سے کھانے کا آغاز نہیں کیا جاتا۔ ہمارے ہاں انگریزی لنچ یا ڈنر کا آغاز سوپ سے ہوتا تھا۔ یہی روایت چینی کھانے میں بھی پڑ گئی۔
ہر شے‘ درآمد کر کے‘ اس کا حلیہ بگاڑنے کی ایک اور مثال چینی نوڈل یا اطالوی سپے گتی کی بھی ہے۔ اگر چینی یا اطالوی اپنے نوڈل یا سپے گتی کا حشر دیکھیں جو گوشت مصالحے اور مرچیں ڈال کر کیا جاتا ہے تو کانوں کو ہاتھ لگائیں۔ پلائو میں مرچوں کے انبار ڈال کر اسے بریانی کی شکل دے دی گئی اور اب وہ نہاری اور حلیم کی صف میں بیٹھی نظر آتی ہے۔ ایک زمانے میں نکٹائی کے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھا گیا۔ سنا ہے چھیاسی ناولوں کے مصنف ایم اسلم شلوار قمیض پر کوٹ اور نکٹائی پہنتے تھے!
شکل مسخ کرنے کی یہ روایت برقرار رکھتے ہوئے جو سلوک یہاں جمہوریت کے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے‘ اس پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ برونائی‘ مراکش اور مشرق وسطیٰ کی خاندانی بادشاہتیں جمہوریت کے پاکستانی ماڈل سے کئی درجے بہتر ہیں کہ کم از کم انہیں جمہوریت کا نام دے کر منافقت کو سلام تو نہیں کیا جاتا! جس جمہوریت کے چرچے صبح شام ہو رہے ہیں اور جس جمہوریت کو بچانے کے نام پر عوام کے حقوق کی بات کرنے والوں کا منہ بند کردیا جاتا ہے‘ اس پر غور کرنے کی فرصت ہی کسی کو نہیں۔ اٹھارہ‘ انیس کروڑ عوام کو اس جمہوریت کے نام پر ڈھور ڈنگر بنا دیا گیا ہے۔ بھیڑوں کا یہ ریوڑ ممیانے کے سوا کچھ نہیں کر رہا‘ نہ کچھ کر سکتا ہے۔ اس جمہوریت کا نظارہ پشاور سے دیکھنا شروع کیجیے۔ ساری جمہوریت دادا‘ والد‘ پھر ماں اور ماموں کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ صوبے کا چیف منسٹر بھی رشتہ دار ہوتا ہے اور اگر کراچی میں آباد پختونوں کی قیادت کا مسئلہ ہو تو وہاں بھی یہ ’’ذمہ داری‘‘ اپنے بھانجے بھتیجے ہی کے سپرد کی جاتی ہے۔ پھر سینیٹ میں بھی اُسے ہی لایا جاتا ہے!
ڈیرہ اسماعیل خان کی جمہوریت بھی‘ جس نے مذہب کی عبا اوڑھ رکھی ہے‘ اپنے بھائیوں ہی کا طواف کر رہی ہے۔
جمہوریت کی تازہ ترین جھلک ملاحظہ فرمایئے:
’’پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو کراچی ایئرپورٹ سے بلاول ہائوس پہنچانے کے لیے مخصوص ہیلی کاپٹر کا انجن سٹارٹ نہ ہو سکا۔ سول ایوی ایشن کے ذرائع کے مطابق بلاول پیر کی صبح خصوصی پرواز پر دبئی سے کراچی پہنچے۔ انہیں ٹرمینل ون سے بلاول ہائوس پہنچانے کے لیے ہیلی کاپٹر کا انتظام کیا گیا تھا۔ وہ ہیلی کاپٹر میں بیٹھے تو اس کا انجن سٹارٹ نہ ہو سکا۔ وہ اپنی ہمشیرہ کے ہمراہ پانچ منٹ تک ہیلی کاپٹر میں بیٹھے رہے۔ بعدازاں انہوں نے زمینی راستے سے جانے کا فیصلہ کیا اور تیار کھڑی بلٹ پروف گاڑی میں بیٹھ کر سڑک کے راستے سخت سکیورٹی میں قافلے کے ساتھ روانہ ہوئے۔ سکیورٹی کے پیش نظر ایک ہی طرح کے دو قافلے وقفے وقفے سے ایئرپورٹ سے روانہ ہوئے۔ بعدازاں ہیلی کاپٹر بھی سٹارٹ ہو گیا اور چکر لگاتا ہوا بلاول ہائوس تک آیا‘‘۔
جس ملک میں سینکڑوں ہزاروں لوگ آئے دن مکھیوں مچھروں کی طرح مر رہے ہیں‘ وہاں ایک ’’جمہوری‘‘ پارٹی کا یہ طرزِ عمل ہے۔ نوجوان کی واحد اہلیت یہ ہے کہ وہ فلاں کا فرزند اور فلاں کا نواسہ ہے۔ چھ ماہ ملک سے باہر رہا۔ اس سے پہلے یہاں تھا تو اپنی الگ کابینہ تھی۔ چِٹے سروں والے سیاست دان سامنے دست بستہ کھڑے رہتے تھے۔ ایک صاحب نے اکیسویں ترمیم کے حق میں ووٹ دیا تو ندامت کے آنسو بہائے۔ دانشوروں کا جماعت میں اس کے علاوہ بھی کوئی قحط نہیں۔ پوری دنیا کو جو کرپشن نظر آتی ہے‘ ان دانش وروں کو‘ جمہوریت کے ان دل دادگان کو کہیں نہیں دکھائی دیتی۔ آنکھوں میں خاندانی غلامی کا موتیا اترا ہوا ہے ؎
رگوں میں دوڑتا پھرتا ہے عجز صدیوں کا
رعیت آج بھی اک بادشاہ مانگتی ہے
نوجوان نے پارٹی کا پارلیمانی اجلاس بھی طلب کر لیا ہے۔ پانی کے بحران سے متعلق جس اہم اجلاس کی صدارت نوجوان نے چھ ماہ بعد واپس آ کر فوراً کی‘ اس میں ایم ڈی واٹر بورڈ‘
اعلیٰ حکام اور وزیراعلیٰ کے علاوہ خود آصف زرداری بھی شریک تھے! کیا جمہوریت ہے اور کیا حکومت ہے! سرکاری منصب ہے نہ پارٹی نے چُنا ہے‘ مگر سب سرنگوں کھڑے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ خلجیوں‘ تغلقوں اور مغلوں کے درباروں کے باہر ہاتھی کھڑے ہوتے تھے اور شاہ اور شہزادوں کے سامنے بیٹھنے کی اجازت نہ تھی۔ اب باہر گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں اور اندر سب ایک میز کے گرد بیٹھے ہوتے ہیں۔ سامنے منرل واٹر کی بوتلیں پڑی ہوتی ہیں۔ دلوں میں ہیجان برپا ہوتا ہے کہ شہزادہ منصب سے برطرف نہ کردے۔ واحد آندھی جو ذہنوں میں چل رہی ہوتی ہے یہ ہوتی ہے کہ شاہی خاندان کی خوشنودی حاصل کس طرح ہو اور حاصل ہو جائے تو برقرار کیسے ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ملوں کا مالک بننے کے بعد حشر ذوالفقار مرزا جیسا ہو جائے!
اور پارٹی سے منتخب ہونا یا اسمبلیوں کے لیے منتخب ہونا کون سا مشکل کام ہے۔ جہاں خواتین نوجوان شہزادے کو دیکھ کر زار و قطار رونا شروع کردیں‘ جہاں فخر اس پر کیا جائے کہ ہم اتنی پشتوں سے فلاں کے وفادار ہیں‘ جہاں تعریف لیڈروں کی یوں کی جائے کہ انگریزی خوب بولتا ہے اور سوٹ اچھے پہنتا ہے‘ وہاں منتخب ہونا کون سا مشکل کام ہے!
پشاور اور کراچی سے ہو کر اب پنجاب کا منظر دیکھیے‘ دل پر ہاتھ رکھ کر بتایئے رانا صاحب کے علاوہ پنجاب کابینہ کے کسی رکن کا نام آپ کو معلوم ہے؟ ڈمی وزیروں کی فوج مراعات اور تنخواہیں وصول کیے جا رہی ہے مگر یہ کہنے کی ہمت ہے نہ جرأت کہ حضور! صوبے میں کچھ شہر اور بھی ہیں اور وہ بھی آپ کی بادشاہت ہی کا حصہ ہیں۔ ایک نوجوان جو وفاقی ایوان کا حصہ ہے‘ صوبے کے امور چلاتا ہے۔ کئی ہفتوں سے سارا صوبہ‘ بشمول وفاقی دارالحکومت میٹرو کی افتتاحی تقریب کے لیے باقی سارے کام ایک طرف رکھے ہوئے ہے۔ راولپنڈی کا ڈی سی او اپنے دفتر میں بیٹھ ہی نہیں سکتا۔ جہاں بھی ہو‘ بتایا یہی جاتا ہے کہ میٹرو کی تقریب کے لیے فلاں مقتدر ہستی نے طلب کیا ہوا ہے۔ افتتاحی تقریب ہے کہ منعقد ہی نہیں ہو رہی!
یہ سب کچھ جمہوریت ہے! اسی کا نام جمہوریت ہے۔ پوتے نے ایک تصویر کی طرف اشارہ کر کے دادی سے پوچھا‘ یہ خوبصورت نوجوان کون ہے؟ دادی کی آنکھوں میں چمک آئی‘ بیٹے‘ یہ تمہارے دادا جان ہیں! پوتا کنفیوزڈ ہو گیا ’’اگر دادا جان یہ ہیں تو پھر گنجے سر اور ابھری ہوئی توند والا وہ بدنما بابا کون ہے جو شام کو بریف کیس اٹھائے روز آ جاتا ہے!‘‘ اگر جمہوریت یہ ہے تو پھر وہ کون سا نظام ہے جس میں کلنٹن کٹہرے میں کھڑا ہو جاتا ہے‘ برطانوی وزیراعظم ٹرین میں کھڑے ہو کر سفر کرتا ہے اور اس کی طرف کوئی دیکھتا تک نہیں‘ ہالینڈ کا وزیراعظم سائیکل پر سوار ہو کر دفتر آتا ہے۔ سکینڈے نیویا کے ایک ملک کی ملکہ سبزی خریدنے کے لیے دکان کے سامنے قطار میں کھڑی ہے۔
شفیق الرحمن نے تو مزاح میں لکھا تھا ؎
تیرے سب خاندان پر عاشق
میرا سب خاندان ہے پیارے
لیکن ہم نے اپنی جمہوریت کی پوری تاریخ اس ایک شعر میں سمو دی ہے!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“