"خدا معاف کر دیتا ہے، انسان معاف کر سکتا ہے، فطرت کبھی معاف نہیں کرتی"
۔شان کیرول، ایکولوجسٹ
اکیسویں صدی کو ایکولوجی کی صدی کہا جا سکتا ہے، کیونکہ ماحول اس کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ ماحول کے مسائل کسی ایک ملک کا نہیں کیونکہ زمین ہم سب کی ہے اور سرحدوں میں فرق نہیں رکھتی۔ یہ مسائل ہیں کیا؟
جنگلی زندگی کے رہنے کی جگہوں کا خاتمہ
جنگل، مرجان، دلدلوں اور سمندروں میں رہنے والی زندگی ختم ہو رہی ہے۔ انسان اس وقت دنیا کے جنگلوں کا نصف حصہ ختم کر چکا ہے اور یہ کمی جاری ہے۔ اس سے بھی اہم سمندر کے مرجان ہیں۔ مصنوعی اگائے درخت قدیم جنگلات کے مقابل ہیں ہی نہیں۔ کاغذ سے لے کر فرنیچر تک، عمارتی لکڑی سے اپنے آلات تک ہمارا انحصار ان جنگلوں پر ہے۔ ہماری خوراک، موسم، بارش کے پیٹرن، زمین کے کٹاؤ سے بچنے کے لئے ہم جنگلوں پر منحصر ہیں۔
جنگلی خوراک
سمندری مچھلیاں ان میں سب سے اہم ہیں۔ دنیا کی غریب ترین آبادی کا انحصار ان پر ہے۔ ان کو مسئلہ نہ صرف آلودگی سے ہے بلکہ ایکواکلچر سے بھی۔ مصنوعی طور پر پیدا کی گئی مچھلیاں بھی نکل کر ان سے ملاپ کر لیتی ہیں جس سے ان کے زندہ رہنے کے امکانات میں نمایاں کمی آ جاتی ہے۔
جنگلی حیات اور حیاتیاتی تنوع ختم ہونا
انواع کے مٹنے کی رفتار تیز ہے۔ "پرواہ کیوں کی جائے؟" یہ سوال کئی بار سننے کو ملتا ہے۔ اگر کوئی گھونگھا یا کیچوا یا چھوٹا مینڈک ختم بھی ہو گیا تو کیا؟ ان میں سے ہر ایک ہمارے لئے مفت کئی طرح کے کام کر رہا ہے۔ کئی ایسے جن کو ابھی ٹھیک سے جانتے بھی نہیں۔ کیچووں سے مٹی کی گوڈی، بیکٹیریا جو نائیٹروجن فکس کرتے ہیں۔ کیڑے جو پولینیشن کر رہے ہیں۔ پرندے اور ممالیہ جو بیج بکھیر رہے ہیں۔ یہ سب اگر ہمیں خود کرنا ہو تو بہت ہی مشکل اور مہنگا ہے۔ سولومون آئی لینڈ پر بہت مہنگا درخت ہمیں بیج سے اگانا نہں آتا۔ یہ کام وہاں پر چمگادڑیں کر دیتی ہیں جو ختم ہو رہی ہیں۔ زہریلے مادوں اور فاضل چیزوں کو واپس زندگی کے چکر میں لانے والے قسم قسم کے پودے اور جاندار۔ زندگی کے اس گنجلک جال میں ہم سب اس کا حصہ ہیں۔
مٹی
زراعت کے لئے ننگی کی گئی زمین سے زرخیز مٹی بہہ جاتی ہے۔ پانی اور ہوا کے ذریعے۔ زرخیز مٹی کی ٹاپ سوائل زیادہ گہری نہیں۔ اس کی ٹھیک حفاظت نہ کرنے سے اس کی نیوٹرنٹ ویلیو کم ہو رہی ہے اور شورہ زدہ زمین میں اضافہ ہو رہا ہے۔ زمین کی ٹھیک مینجمنٹ نہ کرنے کا مطلب گرتی ہوئی زرعی پیداوار کی صورت میں نکلتا ہے۔
توانائی
تیل، گیس اور کوئلہ۔ ایک بار استعمال ہونے کے بعد واپس نہیں آتا۔ جہاں توانائی کی مانگ بڑھ رہی ہے، وہاں ان کے ذخائر میں کمی ہو رہی ہے۔ ان کے متبادل اس قابل ابھی نہیں کہ پوری دنیا کو پاور کر سکیں۔ روشنی ہو، موسم کا مقابلہ، ٹرانسپورٹ ہو، صنعت یا زراعت، سب کچھ توانائی مانگتا ہے۔
پانی
دریا اور جھیلوں کے پانی کو زراعت، گھریلو استعمال اور صنعت میں استعمال کیا جاتا ہے۔ زمین کا پانی کا سائیکل جس رفتار سے ان کو واپس بھرتا ہے، اس وقت ان کا استعمال اس سے زیادہ ہے اور استعمال کی رفتار بھی بڑھ رہی ہے۔
سورج
سورج کی روشنی کو لامحدود سمجھا جاتا ہے لیکن ایسا ہے نہیں۔ ہماری زندگی کا انحصار سورج کی روشنی سے پودوں کے کامیابی سے توانائی کشید کر لینے پر ہے۔ پودے ہر جگہ نہیں اگ سکتے۔ سورج کی روشنی سے پودے جتنا اور جس جگہ اگ سکتے ہیں، یہ زمین کی فوٹوسنتھیٹک سیلنگ ہے۔ پورے ایکوسسٹم کا انحصار ان پر ہے اور ہم خود بھی اس ایکوسسٹم کا ہی حصہ ہیں۔
کیمیکلز
صنعتوں سے ہم ہوا، مٹی، سمندر، جھیل اور دریاؤں کو آلودہ کر رہے ہیں۔ یہ واپس ہمارے جسم میں ہی شامل ہوتے ہیں۔ ان کے اثرات ہماری بائیولوجی پر ہیں۔ پارے جیسی چیزیں انتہائی کم مقدار میں بھی نقصاندہ ہیں۔
نئی انواع
ایکوسسٹم آپس میں زنجیر کی طرح کام کرتا ہے۔ کسی جگہ پر نئی نوع کا اضافہ کسی پورے ایکوسسٹم کی تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ آسٹریلیا میں خرگوش اور لومڑیاں، مونٹانا میں زراعت کے لئے لائی گئی نیپ ویڈ اور لیفی سپرج۔ پانیوں میں زیبرا مسل اور ہیاسنتھ، مویشیوں پر پائے جانے والے کیڑے، یہ سب بڑے ایکوسسٹم گرا سکتے ہیں اور کئی مقامات پر ایسا کر چکے ہیں۔
ہوا
انسانی ایکٹیویٹی بھاری مقدار میں ہوا کو آلودہ کر رہی ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین میں ہوتا تیزرفتار اضافہ اس کی مثال ہیں۔ اس سے دنیا کے درجہ حرارت میں ہونے والا اضافہ خود بڑا چیلنج ہے۔ ہوا میں معلق ذرات جو ہمارے سانسوں کے ذریعے جسم کا حصہ بن رہے ہیں، وہ کئی طرح کے ہیں۔
آبادی
عالمی آبادی بڑھی رہی ہے۔ خاص طور پر غریب ممالک میں۔ ان کو سپورٹ کرنے کا مطلب تمام مسائل میں ہونے والے اضافے کی تیزرفتار ہے۔ یہ مسئلہ وہاں پر زیادہ سنگین ہے جہاں کی زمین اپنی موجودہ آبادی کو سپورٹ کرنے میں پہلے ہی سٹریس کا شکار ہے۔
آلودگی فی کس میں اضافہ
بہتر ہوتے معیارِ زندگی کا مطلب یہ ہے کہ ہر کسی کا زمین پر فٹ پرنٹ بھی بڑھ رہا ہے۔ کل آلودگی کا مطلب آبادی کو فی کس آلودگی سے ضرب دینا ہے۔
کیا ان مسائل کا حل آسان ہے؟
نہیں
کیا یہ لازم ہے کہ ہم ان کو حل کر سکیں گے؟
نہیں
کیا ان مسائل کا حل ناممکن ہے؟
نہیں
دنیا ایک دوسرے سے انٹرکنکٹڈ ہے۔ مسائل کسی ایک جگہ تک محدود نہیں۔ یہ ایک ملک کا مسئلہ نہیں تمام دنیا کا ہے۔ لیکن یہ مسائل کچھ ممالک میں دوسروں کے مقابلے میں کافی زیادہ شدید ہیں۔ ان میں سرِفہرست ممالک یہ ہیں: افغانستان، ہیٹی، صومالیہ، سولومون جزائر، روانڈا، پاکستان، برونڈی، فلپائن، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، عراق اور منگولیا۔
ماحولیاتی مسائل کا شکار ممالک سیاسی مسائل کا بھی زیادہ شکار ہیں۔ یہ محض اتفاق نہیں۔
جب ہم دوسرے ممالک کو دیکھتے ہیں اور تاریخ کو، تو جو تصویر ملتی ہے، وہ صرف مایوسی کی نہیں، امید کی بھی ہے۔ ہم جب مسائل واقعی حل کرنا چاہیں تو کر بھی سکتے ہیں۔ تاریخ اور دنیا سے جو دوسرا سبق ملتا ہے، وہ یہ کہ ایسا کرنے کی ذمہ داری کسی حکومت، کسی ادارے، کسی کاروبار کی نہیں۔ ہم سب کی مل کر ہے۔ اس کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ تیسرا یہ کہ بلند معیارِ زندگی، خوشگوار زندگی اور معاشی ترقی جس کو برقرار رکھا جا سکے، ماحول کو نظرانداز کر کے ممکن ہی نہیں۔ ماحول کی خرابی سے گرنے والا معیارِ زندگی معاشروں کو غیرمستحکم کر دیتا ہے۔ احتجاج، انقلاب، شکوے، حکومتیں الٹا سکتے ہیں، خانہ جنگی کروا سکتے ہیں، جنگیں کروا سکتے ہیں، پورے معاشرے الٹا سکتے ہیں۔ ماحول کی حفاظت ان کے ذریعے نہں ہوتی۔ اس کے لئے مسلسل محنت اور کوشش کرنا پڑتی ہے۔ کیونکہ فطرت کبھی معاف نہیں کرتی۔
ان بارہ مسائل کے علاوہ ایک اور مسئلہ ہے جو ان سب سے زیادہ بڑا ہے اور جس کو حل کرنا ان سب سے زیادہ اہم ہے۔
وہ تیرہواں مسئلہ یہ سوچ ہے کہ شاید کوئی ایک آدھ مسئلہ ہے جو کہ اگر حل ہو گیا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔
یہ اس کتاب سے
Collapse by Jared Diamond