مشہور امریکی تھنک ٹینک ’’پیو
(PEW)
ریسرچ سنٹر‘‘ 1990ء میں بنا۔ معروف صحافی اینڈریو کہوٹ اس کا پہلا ڈائریکٹر تھا۔ اس نے پیشہ ورانہ لحاظ سے اسے شہرت کے آسمان پر پہنچا دیا۔ اس کے کئے گئے عالمی سروے پوری دنیا کا احاطہ کرتے اور پالیسی سازوں کے لیے رہنمائی کا کام دیتے ہیں۔ سات میدانوں میں اس ادارے کے سروے اور تحقیقاتی رپورٹیں دنیا میں مقبول ہو چکی ہیں:
1 : امریکی سیاست اور پالیسی
2 : صحافت‘ میڈیا
3 : انٹرنیٹ‘ سائنس اور ٹیکنالوجی
4 : مذہب اور عوامی زندگی
5 : لاطینی امریکہ کے رجحانات
6 : عالمی رجحانات اور رویّے
7 : سماجی اور وہ رجحانات جو آبادی سے متعلق ہیں۔
PEW
کے تازہ ترین سروے کے مطابق 78 فیصد پاکستانی اپنے ملک میں قرآنی تعلیمات کا نفاذ چاہتے ہیں۔ صرف دو فیصد کا خیال ہے کہ قوانین اسلامی نہیں ہونے چاہئیں۔ 78 فیصد اور دو فیصد کے درمیان جو تعداد ہے وہ بھی حامی تو اسلامی تعلیمات کے اطلاق کی ہے مگر رویّہ نرم رکھتی ہے۔ یوں سمجھیے کہ 98 فیصد ملک میں اسلامی تعلیمات یعنی اسلامی نظام کے حامی اور دو فیصد مخالف ہیں!
دوسری طرف مغرب ہی کے ایک ادارے گوگل نے جنوری 2015ء میں سروے کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ انٹرنیٹ پر فحش مناظر کی ویب سائٹس ڈھونڈنے اور دیکھنے میں پاکستان سرفہرست ہے یعنی اس کا پہلا نمبر ہے۔
اب یہ دونوں سروے یہیں چھوڑ دیجیے اور پاکستانی بازار کی سمت آئیے۔ ایک نہیں‘ لاتعداد مطالعے‘ بے شمار سروے اور ہمارے آپ کے روزمرہ کے مشاہدے اس امر پر متفق ہیں کہ ادویات‘ دودھ‘ آٹے‘ گھی اور دیگر اشیائے خور ونوش میں ملاوٹ بھیانک سطح پر ہے اور مسلسل جاری ہے! پھل سبزیاں اور بوتلوں میں بند پانی (نام نہاد منرل واٹر) کا بھی یہی حال ہے۔ دودھ میں یوریا ملایا جا رہا ہے جس سے گردے تباہ ہو رہے ہیں۔ کاسٹک سوڈا استعمال کیا جا رہا ہے جو ہائی بلڈ پریشر اور دل کے مریضوں کے لیے زہر قاتل ہے۔ کھانے پینے کی دیگر اشیاء میں بال صفا پائوڈر‘ سرف‘ بلیچنگ پائوڈر‘ نمک اور سکّہ
(LEAD)
ملائے جا رہے ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت کے مطابق ایک کلو گرام خالص دودھ میں 39 کلو گرام ایسا دودھ ملایا جا رہا ہے جو یوریا‘ بلیچنگ پائوڈر اور دیگر کیمیائی اجزاء سے بنا ہے۔ پینے کے پانی میں جو بند بوتلوں میں فروخت ہو رہا ہے‘ 35 فیصد ملاوٹ ہے۔ بیکریاں اور مٹھائی کی دکانوں میں مضر صحت کیمیائی رنگ کا استعمال بے دریغ ہے۔ کریم میں جیلاٹن ملائی جاتی ہے۔ پسی ہوئی مرچوں میں اینٹوں کا برادہ‘ ہلدی میں رنگین چاک‘ تربوز میں انجکشن کے ذریعے رنگ‘ اور کالی مرچوں میں پپیتے کے بیج ملائے جانے کا چلن عام ہے۔ ملاوٹ کے اس کھیل سے جو بیماریاں پھیل رہی ہیں ان میں خون کی کمی‘ فالج‘ اسہال‘ گردوں کی خرابی‘ جگر کے امراض‘ عورتوں کا بانجھ پن اور کینسر سرفہرست ہیں۔ لاکھوں بچے اس ملاوٹ کے سبب پیدائشی مریض بن رہے ہیں۔
اب تھانے کچہری کا رُخ کیجیے۔ دل پر ہاتھ رکھ کر اور قیامت برپا کرنے والے پروردگار کی قسم کھا کر بتائیے کہ سفارش یا رشوت کے بغیر کیا کسی کچہری میں زمین یا جائیداد کا انتقال کرایا جا سکتا ہے؟ بچہ بھی جانتا ہے کہ کچہری اور تھانے میں رشوت اور سفارش کے بغیر داخل ہونا حماقت ہے۔ 2013ء کی ’’فریڈم ان ورلڈ رپورٹ‘‘ بتاتی ہے کہ پاکستان میں عدالتیں کرپشن میں نمایاں مقام حاصل کر رہی ہیں۔ 2013ء میں کیا گیا سروے بتاتا ہے کہ 45 فیصد پاکستانی گھرانوں نے عدالتوں کو کرپٹ قرار دیا۔ دیگر اداروں کا حال بھی ڈھکا چھپا نہیں!
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اگر 78 (یا 98 فیصد) لوگ اسلامی تعلیمات کا نفاذ چاہتے ہیں تو کیا یہ ساری بھیانک ملاوٹ‘ یہ رشوت‘ یہ فحش مناظر دیکھنے کا جنون‘ یہ سب کچھ کرنے کی ذمہ دار صرف دو فیصد آبادی ہے؟ کیا دودھ، ادویات اور اشیائے خور ونوش میں ملاوٹ کرنے والے‘ تھانوں کچہریوں‘ سی ڈی اے‘ کے ڈی اے‘ ایل ڈی اے‘ دیگر ترقیاتی اداروں میں رشوت لینے والے‘ ٹیکس چوری کرنے والے‘ بھتہ خور‘ اغواء کنندگان‘ کاریں اور موٹر سائیکلیں چرانے والے‘ عورتوں کے زیور ہتھیانے والے‘ منہدم ہونے والے پلازوں کے معمار اور مالک‘ اور دیگر حرام خور‘ کیا یہ سب لوگ آبادی کا صرف دو فیصد حصہ ہیں؟ کیونکہ اصولی طور پر‘ اسلامی تعلیمات کا نفاذ چاہنے والا تو ایسے جرائم کا ارتکاب نہیں کر سکتا!
بس یہ ہے وہ سوال جہاں آ کر نام نہاد اسلام پسند ڈنڈی مارتے ہیں! اس لیے کہ ان حضرات کے نزدیک اسلامی تعلیمات سے مراد صرف عورت کا پردہ‘ لباس کی تخصیص اور اسلامی نظام سے مراد ہاتھ کاٹنے اور سنگسار کرنے کی سزائوں کا نفاذ ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ بھیانک جرائم کرنے والے اور معاشرے کو تباہی کے کنارے پہنچانے والے دکاندار‘ تاجر‘ صنعتکار‘ راشی افسر اور اہلکار‘ کچہریوں اور تھانوں میں بیٹھے ہوئے لاکھوں حرام خور آبادی کا صرف دو فیصد ہوں؟
انکم ٹیکس کے ایک نوجوان افسر نے جو حافظ قرآن بھی ہے‘ چند دن پہلے بتایا کہ اس کے محکمے نے ایک بہت بڑی کاروباری کمپنی پر چھاپہ مارا۔ ٹیکس چوری ثابت ہو گئی۔ حساب کتاب کے رجسٹر دوہرے دوہرے تھے۔ یعنی اصل اور‘ دکھانے کے اور۔ کمپنی کے ڈائرکٹروں میں سے ایک صاحب کو ایف بی آر پوچھ گچھ کے لیے بلایا گیا۔ وضع قطع خالص متشرع تھی۔ حلیے سے امام مسجد لگتے تھے۔ جتنی دیر بیٹھے رہے‘ ورد وظیفہ کرتے رہے۔ عصر کی نماز ہوئی تو جیسے بجلی کا کرکٹ لگا اٹھے‘ کہنے لگے جماعت کی نماز نہ رہ جائے! پوچھا گیا کہ یہ جو جھوٹ کا جال پھیلا رکھا ہے‘ کیا اس کی بازپرس نہ ہو گی؟ ہونقوں کی طرح منہ کھولا اور کھلے کا کھلا رہ گیا۔
اسلامی تعلیمات اور اسلامی نظام کے نفاذ سے ان 78 یا 98 فیصد میں سے کثیر تعداد کی مراد صرف نماز‘ روزہ‘ عمرہ‘ قرآن خوانی‘ آیت کریمہ کا ختم اور پکی ہوئی دیگوں کی تقسیم ہیِ یا ظاہری وضع قطع اور فقط سزائوں کا نفاذ!
گہرائی کا فقدان ہے۔ سطحیت کا یہ عالم ہے کہ عینکوں پر صرف فحاشی کے شیشے نصب ہیں۔ سارا زور اس بات پر ہے کہ چہرہ نظر آئے یا چھپا ہوا ہو‘ نیل پالش لگانے سے نماز ہوتی ہے یا نہیں! دماغ فیشن شو اور اشتہارات پر اٹکا ہوا ہے! ان حضرات کو آج تک اس بات پر ماتم کرتے نہیں دیکھا گیا کہ متشرع اور حاجی نما تاجر جھوٹ عام بول رہے ہیں‘ وعدہ خلاف ہیں‘ باقی جرائم چھوڑ دیجیے‘ صرف ناجائز تجاوزات کی مد میں کروڑوں اربوں کی حرام خوری روزانہ کی جا رہی ہے اور نمازیں اور عمرے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں!
نجم حسین سیّد کا لکھا ہوا ڈرامہ یاد آ رہا ہے۔ غریب‘ بے قصور عورت کو تھانے بٹھا دیا گیا۔ پولیس والے اس پر ظلم ڈھا رہے ہیں۔ اذیت پہنچا رہے ہیں۔ مولوی صاحب کا گزر ہوتا ہے تو مظلوم عورت پر برس پڑتے ہیں کہ دوپٹہ سر سے ہٹا ہوا ہے!
اس لیے‘ اسی قبیل کے سروے پر جو حضرات بھنگڑا ڈال رہے ہیں یا تیرہ تالی بجا رہے ہیں‘ ان کی خدمت میں التماس ہے کہ اسلام کو اشتہارات اور دوپٹے سے آگے جانے کی اجازت بھی دیں۔ اس اٹھانوے فیصد میں ایسے خال خال ہی ہیں جو صبح کی نماز کے بعد مسجد سے نکلتے وقت اسلام کو اپنے ساتھ منڈی‘ دفتر‘ کارخانے‘ یا اسمبلی میں آنے کی اجازت دیں۔ اکثریت اسلام کو مسجد ہی میں چٹائی پر‘ یا محراب کے قریب‘ بیٹھا کر جاتی ہے اور پھر ظہر کے وقت آ کر گلے ملتی ہے!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“