افغانستان کا عام انسان، مائیں اور بیٹیاں بے بسی اور اذیت کی جس انتہا پر ہیں وہاں وہ یقینا" کسی نہ کسی کو تو اشک آلود بد دعا دیتی ہی ہوں گی۔ پچھلی چار سے زیادہ دہائیوں میں یہ نگر بار بار اجڑا۔ اور اب پھر وحشیوں کی گرفت میں ہے۔ ان وحشیوں میں کون کون شامل ہے اور ان کے مائی باپ کون ہیں، سب جانتے ہیں۔ کیا امریکہ بیس سال پہلے اسی دن کے لیے یہاں آیا تھا کہ اپنا اسلحہ اپنی اولاد کے بچوں کے حوالے کرکے ایک بار پھر عام انسانوں کو اذیت کی بھٹی میں جھونک دے۔
بڑے اذہان بڑے معاملات پر غور کر رہے ہیں۔ غور کر رہے ہیں کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ غور کر رہے ہیں کہ اس بار بڑے ہاتھیوں میں ایک نیا ہاتھی بھی موجود ہے۔ چینی ہاتھی۔ شاید حالات کوئی الگ رخ اختیار کریں۔ بھارت نے جو اتنی انوسٹمنٹ افغانستان میں کی ہے، وہ اس کہانی میں کون سا نیا چیپٹر لکھے گا۔ روس بھی اب نئی توانائیوں سے لیس ہے۔ ادھر ایران کے اپنے مفادات ہیں۔ پاکستان کا اگلا قدم کیا ہو گا۔ شطرنج کی بساط پر نئی بازی کھیلے جانے کی تیاریاں ہیں۔ لیکن وقت کے اس لمحے میں افغانستان کے عوام کی اکثریت جس بے یقینی اور اذیت کا شکار ہے اس کے مجرم یا مجرموں کو کوئی نہیں پکڑے گا۔ نہ ہی کوئی ایسا پیمانہ ہے جو اس بےچارگی کی انتہا کا تعین کر سکے۔ ایک بس بد دعا رہ جاتی ہے۔
اور میں اسی بددعا سے ڈر رہی ہوں۔ اس سے پہلے اس بد دعا نے ستر ہزار پاکستانیوں کی جانیں لی تھیں۔ گردنیں کٹی تھیں۔ جسموں کے چیتھڑے اڑے تھے، کھوپڑیوں کے فٹ بال بنے تھے۔ اس بار یہ جو وحشت کی جیت پر خوشیان منا رہے ہیں جانے آنے والے کل کو عذابوں کا کون سا طوفان سرحد پار سے یہاں تک پہنچے گا۔ افغان جنگ سے ڈالر کمانے والوں کی اولادیں تو مغربی ملکوں میں عیش کر رہی ہیں، عام عوام اور عورتوں اور بیٹیوں کے لیے جانے تباہی کی اور کتنی آزمائشیں ابھی باقی ہیں۔
یاد رہے پڑوسی کے گھر کی ابتلا صرف اسی تک نہیں رہتی۔