تعارف و تبصرہ ۔۔۔ باصر سلطان کاظمی
صباحت عاصم واسطی کا شعری مجموعہ: تیرا احسان غزل ہے
عاصم میرا دوست بھی ہے اور پسندیدہ شاعر بھی۔ہم نے اکٹھے ان گنت محفلیں سجائیں اور سفر کیے۔اس کی شخصیت اور شاعری پر بات کرنے لگوں تو بات کبھی ختم نہ ہو۔میں اس کے تازہ شعر ی مجموعے، ’تیرا احسان غزل ہے‘ کی تقریبِ اجراپر اسے مبارک باد پیش کرتا ہو اور اپنے کچھ تاثرات۔
دیباچہ عاصم نے خود لکھا ہے۔ اس میں کچھ باتیں ایسی ہیں جو پہلے مجموعے میں ہوتی ہیں۔اس کی وجہ،بقول اس کے،یہ ہے کہ اس نے اپنی پہلی دو کاوشیں ’’ بغیر کسی تاویل کے قارئین کے سامنے رکھ دی تھیں۔‘‘عاصم کا یہ دعوی درست ہے کہ اسے’’رب نے لفظ کو غنائی توازن میں ڈھالنے کا فن عطا کیا ہے۔‘‘یہ فن سیکھنے کے مواقع اسے گھر ہی میں میسر آگئے۔لیکن مواقع تو سب کو مِلتے ہیں،گھر میں یا باہر،انہیں ضائع کر دینا یاان سے فائدہ اٹھانا انسان کے اپنے اختیار میں ہے۔ چراغ تلے اندھیرا ہوتا ہے اور بڑے درختوں کے نیچے بڑے درخت نہیں اُگتے لیکن انسان،تقدیر کے پابند جمادات اور نباتات سے مختلف چیز ہے۔یہ اپنی دنیا آ پ پیدا کرنے پر قادر ہے،قادرِ مطلق کے عنا یت کردہ اختیار کے نتیجے میں۔جتنا بڑاا متحان اتنا بڑا انعام۔بلند پہاڑ کی چوٹی تک پہنچنے کی کوشش میں ناکامی بھی ہو تو آدمی کافی بلندی تک پہنچ چکا ہوتا ہے جبکہ چھوٹی سی پہاڑی پر سو بار کامیابی سے پہنچنا بھی زیادہ دور تک دیکھنے کے قابل نہیں کرتا۔عاصم راستے کی دشواریوں کو اپنی خوش قسمتی جانتا ہے:
ہر عشق کا اعجاز نہیں ضربِ مسلسل
ہر شخص کے رستے میں ہمالہ نہیں ہوتا
راہ کو پُر خار دیکھ کر غالب کا جی بھی خوش ہوا تھا۔ایک اچھا استاد شفیق دوست ہونے کے ساتھ ساتھ ایک قوی حریف کا کردار بھی ادا کرتا ہے۔اسے معلوم ہوتا ہے کہ اکھاڑے میں اس کے شاگرد کی مدد کے لئے کوئی نہیں آئے گا۔وہ اپنے پاس بلاتا بھی ہے مجھے عاصمرکاوٹیں بھی مری رہگذر میں رکھتا ہے۔کولرج نے کہا تھا کہ شاعری بہترین الفاظ کی بہترین ترتیب کا نام ہے۔بہترین سے اس کی مراد موزوں ترین تھی۔شاعری کی روایت کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ تمام’ بہترین ‘الفاظ تو اساتذہ استعمال کر چکے ہیں اور ان الفاظ کی مختلف ترتیبوں سے ظہور میں آنے والے مضامین بھی وہ برت چکے۔آج کا شاعر بڑی مشکل میں ہے۔اس کی حالت اس شخص کی سی ہے جس پر کچھ ایجاد کرنے کا بھوت سوارتھالیکن وہ عاجز آکر کہتا تھا کہ آخر وہ کیا ایجاد کرے، سب کچھ تو ایجاد ہو چکا تھا۔ایسی صورت میں وہی اساتذہ جو بظاہر ہمارا راستہ روکے کھڑے ہوتے ہیں ہمارے رہنمائی کرتے ہیں۔ولی دکنی تسلی دیتے ہیں:
راہِ مضمونِ تازہ بند نہیں
تاقیامت کھُلا ہے بابِ سخن
نپولین نے کہا تھا: Roads are the same for every one۔سفر شرط ہے۔صدیوں سے شطرنج کے انہی چونسٹھ خانوں پر انہی بتیس مہروں سے وہی کھیل جاری ہے لیکن کوئی سی دو بازیاں بھی آپس میں نہیں ملتیں۔لغت میں تھوڑا بہت اضافہ ہوتے رہنے کے باوجودالفاظ کا بڑا ذخیرہ جوں کا توںموجود رہتا ہے۔عاصم واسطی نے کم استعمال شدہ الفاظ بھی بہت استعمال کئے ہیں لیکن بہت زیادہ استعمال کئے گئے الفاظ کو نئی ترتیبیں دے کر نئے مضامین بھی پیدا کئے ہیں یا یوں کہئیے کہ نئے مضامین نے اظہار پانے کے لئے پرانے الفاظ کو نئے نظام میں ترتیب دیا ہے:
ٓٓآج بھی دشت میں ہیں اہلِ وفا آبلہ پا
عشق مجنوں کے قبیلے پہ گراں آج بھی ہے
حمدیہ اور نعتیہ اشعار لاکھوں کی تعداد میں کہے گئے ہیں اور ان میں کیسا کیسا اچھا شعر مل جاتا ہے۔اب عاصم کے یہ اشعار دیکھئے:
بڑا طویل ہے یہ عرصہء قلیل مرا
ازل سے تا بہ ابد ااختصار اُس کا ہے
ہوا آواز سے خوشبو اُڑا لینے کو آتی ہے
کہیں جب نام لیتی ہے عقیدت سے زباں اُن کا
دعا اور عبادت عاصم کے خاص موضوعات ہیں۔ وہ دعا قبول ہونےکے عمل کو بخوبی سمجھتا ہے۔اقبال نے کہا تھا:
تری دعا سے قضا تو بدل نہیں سکتی
مگر ہے اِس سے یہ ممکن کہ تو بدل جائے
تری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری
مری دعا ہے تری آرزو بدل جائے
عاصم کہتا ہے:
مری خواہش میں شایدکوئی پہلو ہے خرابی کا
قبول اب کے نہیں ہو گی دعا محسوس ہوتا ہے
اقبال ہی کا ایک اور شعر ہے:
جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
اور غالب کا شعر :
طاعت میں تا رہے نہ مے وانگبیں کی لاگ
دوزخ میں ڈال د و کوئی لے کر بہشت کو
اب عاصم :
جزا کی حرص کچھ ایسی مری سرشت میں ہے
زمین پر ہے جبیں اور دل بہشت میں ہے
اِس مجموعے سے چند اور اشعار سنیں جو مجھے خاص طور سے پسند آئے:
سست رفتار نہیں ہم کسی صورت عاصم
یار نکلے ہیں کسی اور سبب سے آگے
بخشاہے عجب عشق نے یہ حسنِ سماعت
دل نے تری آواز سنی کان سے پہلے
یہ رستہ عام ہو جائے گا عاصم
اِدھر سے میں گزرنے لگ گیا ہوں
اُس کی عادت ہے بات کرنے کی
وہ کرے گا اِدھر اُدھر باتیں
شہر کے لوگ اب الزام تمہیں دیتے ہیں
خودبرے بن گئے عاصم اُسے اچھا کرتے
میں انہماک میں یہ کس مقام تک پہنچا
تجھے ہی بھول گیا تجھ کو یاد کرتے ہوئے
خدا کرے کہ ہمیشہ مجھے گمان رہے
کہ میرے پاس ضرورت سے زر زیادہ ہے
اِس شہرمیں اب دل نہیں لگتا مرا عاصم
تیار ہوں اک دوسری ہجرت کے لئے میں
اور عاصم واقعی دوسری ہجرت کر گیا۔ویسے مجھے خیال آرہا ہے کہ اب عاصم جس خطُے میں جا بساہے وہاں اس کا آخرالذکر مصرعہ شایدکچھ ایسے مقبول ہو:تیار ہوں اب دوسری شادی کے لئے میں۔ مجھے پتہ ہے کہ عاصم اچھی نظم بھی کہہ سکتا ہے لیکن یہ مجموعہ صرف غزلوں پر مشتمل ہے۔خیر، نظمیں آئندہ سہی۔
جولائی 2010 ء۔غیر مطبوعہ
ابوظہبی اور فیصل آباد میں کتاب کی تقاریبِ اجرا میں پڑھا گیا