ٹیلی پیتھی ۔ کیاہے؟؟
۔
ایک حیرت انگیز آنکھوں دیکھی روداد۔ ٹیلی پیتھی سے متعلق بہت کم لوگ جانتے ہیی۔ ٹیلی پیتھی ۔ھپناٹائزم ۔ ہتھ یوگا۔ وغیرہ کی بعض ورزشیی تقریباً ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔خاص کر ارتکاز توجہ تو سب میں یکساہے۔ مقصد کسی انسان کا زہن تسخیر کرکے اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنا۔
اس کیلے ایک مشق کی جاتی ہے۔جسے ارتکاز توجہ کہتے ہیی۔ سمپل یوں سمجھیی کہ ایک دوار پر ایک نقطہ لگادیی۔ایک وقت پرسکون ۔اس کیلے مخصوص کردیی۔اور تمام خیالات کو مجتمع کرکے اس نقطے کو دیکھتے رھئے۔کہ خیال بھٹکنے نہ پائے۔شروعات میی مشکل پیش آئیگی۔لیکن آھستہ آھستہ آپ اپنے منتشر خیالات کو یکجا کرنے میی کامیاب ہوجائینگے۔میی نے ایک زمانے میی اس پر بہت محنت کی۔لیکن بوجہ میی یہ مشق ٹھیک سے نہ کرسکا۔
۔
سن 2002 میں حنیف بلوچ سے ملاقات ہوگئ۔ وہ ٹیلی پیتھی کا بہت بڑا ماھر تھا۔اس نے ھمارے سامنے بہت عجیب کارنامے دکھائے۔ تو میی نے اس سے ایک سوال کیا۔کہ پیر شمس الدین عظیمی سے کسی نے سوال کیا کہ اھرام مصر کا کیا قصہ ھے۔؟؟؟
کہ جو پتھر جڑ میی ھے۔ وہی سائز بیچ اور سر پر ھے۔ اور اندازاً ایک پتھر پندرہ بائے پندرہ فٹ ہے ۔
۔
تو پیر شمس الدین عظیمی نے جواب میی کہا کہ۔ دراصل اس زمانے کے لوگوں کے پاس ایک ایسا علم تھا۔کہ جسکی زریعے سے انہوں نے ان پتھروں کو ہلکہ کردیاتھا۔ یہ سن کر حنیف بلوچ ھنس کر کہنے لگا۔ بابا کوئی اور علم ولم نہیی تھا۔بس یہی ٹیلی پیتھی کا ہی علم تھا۔ چلو میی تمھیی ایک شاٹ دکھاتا ھوں۔
۔
اگلے دن حنیف بلوچ نے حسب وعدہ ھمیی اپنے بیٹھک میی بلایا اور 80 کلو وزن کے یار محمد کو ٹیلی پیتھی کے زریعے ٹرانس میی لاکر بےھوش کردیا۔ اور ھمیی کہا کہ اسے چار بندے ملکر اٹھاوو۔لیکن ھم سے اٹھایا نہیی گیا۔
اسکے بعد حنیف بلوچ نے یار محمد سے کشش ثقل نکالنے کا عمل شروع کردیا۔ جس پر لکھنا میرے لیے مشکل ہے۔ بالاخر 80 کلو کا یار محمد کشش ثقل کے عمل سے گزرکر ایک کلو کا رہ گیا۔ اور ھم چار آدمیوں نے اسے دو مرتبہ انگلیوں پر اٹھایا۔
۔
پھر مجھ سے کہنے لگا یہ ہےوہ پراسرار علم۔ جو آپ کے شمس الدین عظیمی سے مخفی تھا۔
اس کے بعد حنیف بلوچ نے یار محمد کو دوبارہ ٹرانس میی لیکر اسے ھوش میی لایا۔
میی نے یہ بارہا پڑھاتھا کہ خلا میی کشش ثقل نہی ھوتی اور انسان روئی کے گالوں کی طرح اڑتاہے۔
لیکن میرے زہن وگمان میی بھی نہیی تھا کہ ایک عام سا بلوچ بھائی اس فن کا اتنا بڑا ماھر ھوسکتاہے؟
اس بات کو آج 15 سال ھوگئے ھیی۔آج مجھے خیال ہوا کہ اس بابت بھی کچھ لکھنا چاھئے۔
حنیف بھائی تو اب اس دنیا میی نہیی رہیی۔وہ 2004 میی ہی ایک حادثے میی جابحق ھوگئے تھے۔
لیکن ان کے اس عظیم فنکاری کے چند گواہ ابھی بھی موجود ھیی۔
۔
فیسبکی فرینڈز میی عدن احمد اور شاھد خان سالار دیر۔jui اس بات کے گواہ ہیی۔ کراچی والوں میی ماموں شاہ حسین بھی ھیی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔