قسط 1- ٹیلی ڈرامے میں PACE کی اہمیت:
کسی زمانے میں جب کہ ایک ہی چینل دستیاب تھااور دیکھنے والے اُسی پر اکتفا کرنے پر مجبور تھے تو انہیں کچھ ایسا کام بھی برداشت کرنا پڑتا تھا جسے وہ دیکھنا نہیں چاہتے تھے ۔ میری مراد ٹیلی ڈرامہ سے ہے ۔ لیکن اب ایسا ممکن نہیں اور ذرا سی ناپسندیدگی پر وہ چینل تبدیل کر دیتے ہیں ۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ بہت سی وجوہات میں سے ایک پر یہاں بات کی جا رہی ہے اور ٹیلی ڈرامہ لکھنے والے کئی دوست ان باکس میں اس حوالے سے سوالات پوچھتے رہتے ہیں ۔ اس عاجز نے کئی سال پہلے اس سلسلے میں ایک کتا ب کی ضخامت کے برابر ٹیلی ڈرامہ پر کچھ مضامین لکھے تھے اور انہیں متعلقہ فورم کے ڈاکس میں محفوظ کر دیا تھا لیکن افسوس وہ اب وہاں دستیاب نہیں ہیں ۔ ایک سوال جو اکثر پوچھا جاتا ہے وہ ڈرامے کے Pace یااُس میں پیش آنے والے واقعات کی رفتار کے تعلق سے ہوتا ہے۔ یاد رکھیں آپ جب بھی ٹی وی ڈرامہ لکھیں، اس بات کا بطور خاص خیال رکھیں کہ واقعات کی رفتار قدرتی طور پر مناسب ہو ۔ نہ اتنی تیز کہ لوگ پچھلے واقعات کا تعلق آنے والے واقعات سے نہ جوڑ سکیں اور نہ ہی اتنی سست کہ وہ جماہیاں لینے لگیں اور کسی دوسرے کام میں مشغول ہو جائیں ۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر آپ ایک ناکام سکرپٹ رائٹر ہیں ۔ ہم مثال کے طور پر ایک پچاس منٹ دورانیہ کا ٹیلی پلے لیتے ہیں ۔ یہاں سے کچھ ایسی تیکنیکی باتیں شروع ہوتی ہیں جن کا علم رائٹر یا پھر پروڈیوسر یا ہدایت کار ہو کو ہوتا ہے ۔ ان کا مجموعی تبصرہ دیکھنے والے کی طرف سے یہ آتا ہے کہ ،،بہت اچھا ڈرامہ تھا،، ۔ لیکن یہ ڈرامہ ،،اچھا،، کیسے بنا ۔ یہی اس پوسٹ میں آپ کو بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ آپ کا ناظر ایک ،،سین،، تین سے چار منٹ تک برداشت کر سکتا ہے اور اگر بیحد دلچسپ ہو تو پانچ سے چھے منٹ تک، اس سے زیادہ نہیں۔چنانچہ آپ کو اپنے سکرپٹ کے پچاس منٹ کے حوالے سے اس میں ہر پانچ چھے منٹ کے بعد ایک ،،واقعہ،، ڈالنا ضروری ہوتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ یہ واقعہ کہانی کو آگے بڑھانے میں بھرپور کردار ادا کرے ۔ اگر آپ نے ایک مرتبہ کی کہی ہوئی بات کو دوبارہ کہا تو وہیں سے آپ کے سکرپٹ کا بیڑہ غرق ہو جائے گا۔ پچاس منٹ کے سکرپٹ میں کم از کم چودہ اور زیادہ سے زیادہ سترہ سینز ہو سکتے ہیں اور کم از کم آٹھ ایسے واقعات جو کہانی کو آگے بڑھاتے بھی ہوں ۔ یاد رکھیں جتنا کہانی کا پیس تیز ہوگا، اتنی دلچسپی سے اسے دیکھا بھی جائے گا ۔ ہم نے ایسے سکرپٹس بھی دیکھے ہیں جن میں مصنف نے واقعات کی تکرار کی ہے۔ مثلا اگر آپ اپنے سکرپٹ میں ایک مرتبہ دکھا چکے ہیں کہ ایک آدمی بینک لوٹنے کا پروگرام بنا رہا ہے تو دوسری مرتبہ آپ اسے حوالے کے طور پر تو پیش کر سکتے ہیں لیکن دوبارہ وہی باتیں اور وہی منصوبہ سازی نہیں دکھا سکتے ۔ ایک تو اس سے کہانی کا پیس سست ہو جائے گا اور دوسرے بات کو دہرایا جائے گا جو دیکھنے والوں کے لئے کسی صورت قابل قبول نہیں ہوگا کیونکہ وہ یہ بات پہلے سے جانتے ہیں اور کچھ ،،نیا،، دیکھنے کے متمنی ہیں۔ اگر مجبوراً ایسا کرنا بھی پڑ جائے مثلا کوئی نیا آدمی اس پروگرام میں شامل ہوتا ہے تو شروع سے طوطا مینا کی کہانی ہرگز نہ سنائیں بلکہ سین وہیں سے شروع کریں جہاں سے کوئی نئی تجویز سامنے آ رہی ہو۔ کسی کو یہ جاننے کے بعد کہ آپ کا کردار بینک لوٹنا چاہتا ہے، گزشتہ تفاصیل میں کوئی دلچسپی نہیں ہوگی چنانچہ اس سے احتراز کریں ۔ اپنی کہانی کو جب آپ سینز میں بانٹ رہے ہو ں (یعنی ڈرامے کی زبان میں scene divisioning کر رہے ہوں) تو وہیں سے کہانی کو آگے بڑھانے میں مدد دینے والے واقعات کو ترتیب دیتے چلے جائیں ۔ چلتے چلتے ایک بات اور عرض کی جاتی ہے ۔ کوئی ایسا واقعہ جو دیکھنے والوں کے علم میں تو ہے لیکن کوئی کردار اس سے واقف نہ ہو، اسے بیان کرنے کے لئے Mute کرنے کا سہارا کبھی نہ لیں ۔یعنی دو کردار بندروں کی طرح فقط ہونٹ ہلا تے ہوئے مختلف تاثرات کا اظہار کر رہے ہوں اور ناظر کو یہ ،،سمجھانے،، کی کوشش کی جا رہی ہو کہ ان کے درمیان کیا گفتگو ہوئی ہوگی ؟یہ ایک انتہائی فرسودہ اور نا قابل قبول طریقہ ہے اور پیس کا دشمن بھی ۔ بہتر یہ ہے کہ آپ جاننے والے کردار سے نہ جاننے والے کردار کو محض یہ بتانے پر اکتفا کرکے سین کٹ کر دیں کہ ،،میں تمہیں ساری بات بتاتا ہوں یا بتاتی ہوں!،، ۔ یاد رکھیں آپ کے واقعات جتنی مناسب رفتار سے چلیں گے اور آپ چھوٹے سینز میں جتنی زیادہ سے زیادہ معلومات اپنے دیکھنے والے کو پہنچائیں گے، اتنا ہی آپ کا شمار ایک اچھے سکرپٹ رائٹر میں ہوگا ۔ (ایڈٹ) اس پوسٹ کے حوالے سے دوست ان باکس میں ،،سیریل،، لکھنے کا طریقہ کار دریافت کر رہے ہیں ۔ سیریل یکدم ہی نہیں لکھا جا سکتا ۔ آپ کی مشق پہلے انفرادی ڈراموں کی ہونی چاہئے، پھر سیریل کا سوچیں ۔ کبھی وقت ہوا تو ان شا اللہ سیریل کے حوالے سے بھی یہاں پوسٹ لگا ئی جائے گی لیکن وہ بعد کی بات ہے 🙂 قسط 2: ٹیلی ڈرامہ اور مکالمہ: ٹیلی ڈرامہ اور مکالمہ ڈرامہ فلم کی طرح ویژول آرٹ کی صنف میں آتا ہے یعنی وہ صنف جسے دیکھا جاتا ہے ۔ آپ اسے ایسا بصری فن بھی کہہ سکتے ہیں جس میں ،،کچھ کرکے دکھایا جاتا ہے،، اور لاطینی زبان میں ڈرامہ ،،کچھ کرکے دکھانے، کو ہی کہتے بھی ہیں ۔ چونکہ ڈرامے یا فلم میں بہت سی جزئیات کرداروں کے عمل، رد عمل اور حرکات سے واضح کی جاتی ہیں تو مکالمے کی اہمیت کم رہ جاتی ہے لیکن اب ایسا بھی نہیں کہ سبھی کچھ مکالمات کے بغیر ہی واضح بھی کیا جائے ۔ ایک سکرپٹ کی تحریر کے دوران، ایک اچھا سکرپٹ رائٹر خود اندازہ کر لیتا ہے کہ اسے کہاں مکالمے کی ضرورت ہے؟ بلا سبب مکالمہ لکھنا سکرپٹ کے حُسن کو گہنا سکتا ہے اور اچھا بھلا ٹیلی سکرپٹ ایک ریڈیو سکرپٹ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ اس کے لئے آپ اپنا ایک چھوٹا سا امتحان خود بھی لے سکتے ہیں ۔ اپنے لکھے ہوئے سکرپٹ کو بلند آواز سے دو صورتوں میں پڑھیں اور برابر کے کمرے میں ایک دوست کو متعین کردیں کہ وہ یہ سکرپٹ سنتا رہے ۔ آپ ڈائیلاگ یا مکالمے بولیں اور مثلا وہاں تک آ جائیں جہاں ایک کردار دوسرے کردار کو کوئی چیز دیتا ہے ۔ آپ بلند آواز سے یہ بھی کہیں:،،اسلم یہ گھڑی مجھے دو،، ۔ پھر اپنے دوست سے پوچھیں کہ اس نے کیا سنا ۔ ظاہر ہے اس نے یہی سنا کہ ایک کردار نے دوسرے کو گھڑی دی تو وہ یہی بتلائے گا ۔ آپ اس امتحان میں فیل ہو گئے! اب اسی صورتحال کو یوں لیتے ہیں ۔،،اسلم۔ ،،یہ،، مجھے دو،،۔اپنے ساتھی سے پوچھیں کہ ڈرامے کے اس سین میں کیا ہوا؟ اگر وہ کہے کہ اُسے علم نہیں ہو سکا کہ ایک کردار نے دوسرے کو کیا،،چیز،، دی تو آپ کامیاب ٹھہرے ۔ جب آپ بصری طور پر اپنے دیکھنے والے کو ایک چیز دکھا رہے ہیں تو اس کا تذکرہ کرنے کی یوں ضرورت نہیں کہ آپ کا ڈرامہ دیکھنے والا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے کہ الف نے بے کو کیا چیز دی؟ اسے کہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم اکثر ڈراموں میں دیکھتے ہیں جہاں کردار ڈنکے کی چوٹ کوئی چیز دوسرے کو دیتے ہوئے اس کا نام لے رہے ہوتے ہیں ۔ یہ بالکل غلط ہے ۔ اب آئیے مکالموں کی طرف ۔ اس سلسلے میں ایک کلیہ تو یہ اچھی طرح سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ معاشرہ مختلف طبقات پر مشتمل ہوتا ہے اور ہر طبقے کی اپنی زبان ہوتی ہے ۔ (ہم زبان کی بنیادی اہمیت کے انکار کے بغیر یہ بات کہہ رہے ہیں ۔ مثلا پاکستان کی زبان اردو ہے لیکن پیشوں اور تعلیمی لحاظ سے ہر زبان اپنے خانوں میں بٹی ہوئی ہوتی ہے) تانگے یا رکشہ والا علیحدہ زبان بولتا، علیحدہ لہجہ اختیار کرتا اور علیحدہ تاثرات کا اظہار کرتا ہے۔ چنانچہ آپ ریڑھی پرآلو چھولے بیچنے والے کے منہ میں پروفیسر کی زبان نہیں ڈال سکتے۔ ابھی اگلے روز ہم ایک ڈرامہ دیکھ رہے تھے جس میں ایک جاہل اور ان گھڑ سی خاتون سے مصنف نے لفظ ،،قد غن،، کہلوایا تھا جو سرا سر غلط ہے کیونکہ اس طبقے کی عورت ایسے الفاظ نہیں بولتی اور اگر بولتی ہے تو ڈرامہ دیکھنے والا حیرت میں مبتلا ہو جاتا اور اس فن کا طالب علم ہکا بکا رہ جاتا ہے ۔ جہاں بغیر مکالمے کے کام چلتا ہو، وہاں مکالمہ ٹھونسنے کی بالکل بھی کوشش نہ کریں ۔ یہ کام ریڈیو والوں پر چھوڑ دیں جہاں ہر بات مکالمے سے واضح کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ چلیں، اسے ایک مثال سے سمجھتے ہیں ۔ فرض کیجئے دروازے پر دستک ہوتی ہے ۔ الف دروازہ کھولتا ہے ۔ دروازے پر بے کھڑا ہے جس نے سر پر گھڑا اٹھا رکھا ہے ۔ پہلے تو آپ الف کے چہرے کے تاثرات سے کام لیں گے اور پھر فقط اتنا کہلوا کر بات واضح کر دیں گے ۔ ،،یہ ۔ یہ کیا ہے،، یاد رکھیں کہ آپ کا ناظر تمام صورت حال کا شاہد بھی ہے چنانچہ مکالمہ بازی کا شوق آپ یہ کہہ کر بھی پورا کر سکتے ہیں کہ: ،،یہ تم نے سر پہ گھڑا کیوں اُٹھا رکھا ہے؟،، دیکھا آپ نے دونوں میں کتنا فرق ہے ۔ ،،یہ تم نے سر پہ گھڑا کیوں اُٹھا رکھا ہے،، والے جملے کا سارا تاثر الف کے چہرے پر پیدا ہونے والے تاثرات سے پورا ہو گیا تھا تو صرف یہ لکھنا کافی ہوتا کہ ،،یہ۔یہ کیا ہے؟،،۔ یاد رکھیں تاثرات سے پیدا ہونے والی شدت کی جگہ لمبے سے لمبا مکالمہ کبھی نہیں لے سکتا تو بصری آرٹ ہونے کی وجہ سے آپ زیادہ سے زیادہ تاثرات سے کھیلیں اور مکالموں کو وہیں استعمال کریں جہاں ان کی اشد ضرورت ہو۔ یہاں ایک دلچسپ بات اور بھی عرض کرنا ضروری ہے ۔ ہمارا یہ ایشائی خطہ زیادہ باتیں کرنے والے افرادکی وجہ سے مشہور ہے جبکہ مغرب میں ،،ٹو دی پوائنٹ،، بات کی جاتی ہے تو اسی لئے اس کا اثر ہمارے ڈراموں اور فلموں میں بھی ملتا ہے ۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا ۔ اب ایک مثال اور لیتے ہیں ۔ ایک ماں پردیس سے آنے والے باپ کو بتاتی کہ اس کے بیٹے نے کسی ایسی جگہ شادی کر لی ہے جہاں والدین کسی قیمت پر نہیں چاہتے تھے ۔ اسے دو طرح سے لکھا جا سکتا ہے ۔ ،،دیکھو۔آخر وہی ہوا ناجس کا مجھے اور تمہیں ڈرتھا ۔ اسلم نے ان کمینوں میں شادی کر لی ۔ میں تو کہتی ہوں ہمیں ایسی اولاد کو فورا عاق کر دینا چاہئے ۔ دو دن میں صاحب زادے کے دماغ ٹھکانے آ جائیں گے،،۔وغیرہ۔دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے ۔،،اسلم نے وہیں شادی کرلی جہاں ہم نہیں چاہتے تھے،،۔دیکھا آپ نے؟ بات کی ترسیل بھی ہو گئی اور مکالمہ بھی مختصر ہو گیا۔ یہاں کردار نے ،،مجھے اور تمہیں،، کو ،،ہم،، سے تبدیل کر دیا اور دیکھنے والا سمجھ گیا کہ ماں باپ دونوں اس شادی کے خلاف تھے ۔ یہ محض ایک مثال تھی ۔ سکرپٹ لکھتے وقت ایک رائٹر کو مکالمے کی بنت ایسے کرنا چاہئے کہ کم الفاظ کے استعمال سے زیادہ واقعات دیکھنے والے تک پہنچ سکیں۔ سکرپٹ کو ،،کرپس،، کرنے کے لئے یہ سب بہت ضروری ہوتا ہے۔اُوپر کے پہلے مکالمے میں خاتوں کردار نے ایک بیکار کتھاسنائی ہے۔ ایک ایسی کتھا جسے ڈرامے کی زبان میں verbosity کہا جاتا ہے ۔ آج کل چلنے والے وہ سیریلز جو بہ آسانی تیرہ قسطوں میں ختم کئے جا سکتے ہیں، اسی verbosity کا سہارا لے کر تیس یا اس سے زیادہ تک پہنچا دئیے جاتے ہیں ۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کردار بکواس کرتے رہتے ہیں اورکہانی وہیں کھڑی رہتی ہے۔ آخر میں یاد رکھنے کی چند باتیں:مکالمہ مختصر لکھیں اختصار کی کمی تاثرات سے پوری کریں مکالمے کی زبان کردار کے پس منظر کے مطابق لکھیں پہلے سے گزرے کسی واقعہ کی ترسیل کم و بیش انہی الفاظ میں کرنے سے گریز کریں آسان ترین اور روزمرہ کی زبان لکھیں اور اپنی افلاطونی بگھارنے کی ہرگز کوشش نہ کریں مجھے تم سے محبت ہے، مجھے پیار ہو گیا ہے جیسے گھٹیا اور بازاری جملوں سے اجتناب کریں اور اس اظہار کے لئے تاثرات سے کام لیں جو زیادہ طاقتور ذریعہ ہو تے ہیں ۔آخری بات ۔ مکالمہ جتنا مختصراور جامع ہوگا، لفاظی کی گنجلک سے پاک ہوگا، اس کی ترسیل دیکھنے والوں میں اسی قدر سہولت سے ہوگی اور آپ ایک کامیاب سکرپٹ رائٹر ٹھہریں گے ۔ قسط 3 – ٹیلی پلے ۔ ون لائنر/ سٹوری لائن: ہمارے ہاں جب بھی کوئی رائٹر کسی پروڈکشن کمپنی یا چینل سے رابطہ کرتا اور بتاتا ہے کہ اس کے پاس انفرادی ڈرامے یا سیریل کی کہانی ہے تو وہاں سے فرمائش کی جاتی ہے کہ آپ اس کا ،،ون لائنر،، بھجوا دیں ۔ یہ فرمائش تیکنیکی طور پر بالکل غلط ہوتی ہے ۔ ون لائنر کا مطلب ون لائنر ہی ہوتا ہے یعنی ایک سطرمیں کہانی کا بنیادی خیال ۔ جب دوسرے سرے پر بیٹھا شخص آپ سے ون لائنر کی فرمائش کر رہا ہوتا تو درا صل اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آپ اسے ،،سٹوری لائن،، بھجوائیں ۔ یہاں یہ بتانا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ ایسی فرمائش کرنے والی خواتین و حضرات کی سمجھ میں اکثر اوقات ،،سٹوری لائن،، ہی نہیں آتی چہ جائیکہ وہ ،،ون لائنر،، پڑھ کر آپ کے آئیڈیا کو سمجھ سکیں ۔ فرق کیا ہے؟ ون لائنر کی مثال یوں دی جا سکتی ہے:ایک شخص نے پہلی اور دوسری بیوی سے چھپ کر تیسری شادی کر لی اور اس کی زندگی مسائل کا شکار ہو گئی ۔بات ایک سطر میں بیان ہو گئی ۔ اگر یہ سطر کسی کو دلچسپ لگتی ہے تو وہ آپ سے پوری کہانی کا تقاضہ کرے گا لیکن یہاں ایسے ماں کے لعل بہت کم ہیں جن کی سمجھ میں یک سطری بات آ سکے تو مصنف کو ان کی فرمائش پر،،ون لائنر،، کی جگہ سٹوری لائن ہی بھجوانا پڑتی ہے ۔ اس سٹوری لائن میں کیا ہونا چاہئے ۔ اصولا ایک سٹوری لائن کو دو سے پانچ صفحوں پر مشتمل ہونا چاہئے (جبکہ یہاں ہمیشہ اسے ایک ہی صفحے پر مشتمل ہونے پر اصرار کیا جاتا ہے) سٹوری لائن میں کہانی کے ضروری واقعات، کرداروں کا تعارف اور اگر ہو سکے تو آپ جسے زور دار سینز سمجھتے ہوں ان کو شامل ہونا چاہئے ۔ اس سے ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ آپ کی سٹوری لائن پڑھنے والے /والی کو آپ کے طرز تحریر کا بھی اندازہ ہو جائے گا اور اسے (جیسا کہ یہاں دستور ہے) آپ سے نمونے کی دو چار قسطیں نہیں مانگنا پڑیں گی ۔سٹوری لائن کسی بھی کہانی کی طرح تین حصوں پر مشتمل ہوتی ہے ۔ تعارف، درمیانی حصہ اور اختتام۔ آپ تجارتی پیمانے پر ایک کام کرنے جا رہے ہیں یعنی آپ کو اپنا سکرپٹ بیچنا ہے تو اب یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ اپنی سٹوری لائن کو زیادہ سے زیادہ قابل قبول بنانے کے لئے اس میں وہ حصے ضرور شامل کریں جن میں ،،ڈرامے،، کا عنصر زیادہ سے زیادہ پایا جاتا ہو کیونکہ آپ جو کچھ لکھنے کا ارادہ کررہے ہیں، وہ ایک ،،ڈرامہ،، ہے تو اگر یہ سٹوری لائن اس تاثر سے خالی ہوگی تو قابل قبول نہیں ہوگی چاہے اپنا اصل سکرپٹ آپ نے الفریڈ ہچکاک کی طرح ہی کیوں نہ لکھا ہو!یاد رکھنے کی ایک بات ۔ اپنی سٹوری لائن ہمیشہ زمانہ حال میں لکھیں یعنی احمد بینک سے نکلتا ہے ۔ اسے دو لڑکے لوٹ لیتے ہیں ۔ احمد پولیس سٹیشن جاتا ہے وغیرہ ۔ دوسری اہم بات اپنی سٹوری لائن میں Conflict یعنی کرداروں کے حوالے سے ٹکراؤ کی کیفیت کو خوب اچھی طرح نمایا ں کریں تاکہ آپ کی سٹوری لائن پڑھنے والا (اگر وہ آج کل کے بہت سے سکرپٹ ایڈیٹرز کی طرح محض شوقیہ فنکار نہیں ہے) فورا اپنے ذہن میں وہ ممکنہ واقعات یا سینز ترتیب دینے لگے جو ایسی سٹوری لائن پر لکھے ہوئے ڈرامے میں پیش آ سکتے ہیں اور اسے آپ کی کہانی پسند آ جائے ۔ اب کسی کہانی کا یہ Conflict یا ٹکراؤ کیا ہوتا ہے؟ کیا یہ محض انسانی کرداروں کے درمیان کش مکش ہوتی ہے یا اس میں دوسرے عناصر یعنی مٹی، پانی، آگ ہوا بھی شامل ہو سکتے ہیں؟ یہ ایک علیحدہ سے موضوع پر جس پر یہ عاجز پھر کبھی بات کرے گا ۔ ڈرامہ کے پنڈتوں نے ابتدائی طور پر 36 قسم کے Conflicts کی بات کی تھی جنہیں اب کم کرکے (یعنی بہت سوں کا ایک دوسرے میں مدغم کرکے) 9 پرلے آیا گیا ہے ۔ عورت اور مرد کے درمیان کش مکش، دو عورتوں یا دو مردوں کے درمیان کش مکش، ایک عورت اور دو مردوں کے درمیان کش مکش یا اس کا اُلٹ ،انسان کی سمندر یا پانی سے کش مکش، آگ سے کش مکش، طوفان اور انسان کی کش مکش وغیرہ ۔ عموماً انسانوں کے درمیان کش مکش یا ٹکراؤ یا Conflict ایک اچھی اور ایک بری طاقت کے درمیان دکھائی جاتی ہے اور یہ ٹکراؤ آپ انسانوں سے تعلق رکھنے والی ہر کہانی میں دیکھ سکتے ہیں ۔ مختصراً ہم کہہ سکتے ہیں کہ Conflict ہر ڈرامائی کہانی کا وہ ضروری عنصر ہے جس کے بغیر کسی کہانی میں ڈرامائی تاثر پیدا ہو ہی نہیں سکتا ۔یاد رکھنے کی ایک اور بات ۔ جتنا آپ کا Conflict شدید ہوگا، اتنا ہی آپ کا لکھا ہوا ڈرامہ یا فلم دلچسپی سے بھرپور ہوگی ۔ Conflict میں شامل کرداروں کا اصرار بھی بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔ یاد رکھیں کسی بھی ایک کردار کا کسی نکتہ نظر پر ،،بودا،، اصرار کہانی کو یک طرفہ بنا دے گا ۔ ہمیشہ وہ Conflict دکھانے کی کوشش کریں جو کسی بھی زمینی حقیقت سے جڑا ہوا ہوا۔اب ایک آخری بات ۔ اپنی کہانی میں جہاں آپ اُلجھن کا شکار ہوں اور کوئی انجام آپ کی سمجھ میں نہ آ رہا ہو، وہاں Chance سے اپنی کہانی کو منطقی انجام تک پہنچانے کی کوشش نہ کریں کیونکہ چانس اساطیری کہانیوں میں تو ممکن ہے جب حمام گرد باد میں پھنسے شہزادے کو زندگی کی کوئی اُمید نہیں رہتی اور تب اس پر عاشق سبز پری ساری رکاوٹیں عبور کرتی اُسے وہاں سے صاف بچا کے لے جاتی ہے۔ آپ موجودہ دور کے انسانوں کی کہانی لکھ رہے ہیں تومسائل کا حل موجودہ دور ہی میں تلاش کریں اور ایسا حل جو قابل قبول بھی ہو ۔ یہ بھی یاد رہے کہ بہت سی مشکلات میں پھنسے آدمی کی کروڑ روپے کی لاٹری نکلوا کر اُسے سب مشکلات سے نہ نکلوائیں۔یہ بھی نا قابل قبول ہے ۔ انجام حقیقت سے قریب ہونا بیحد ضروری ہے ۔اور اب سب سے آخری اور اہم ترین بات ۔ مسائل یا Issues پر لکھنے کی کوشش کریں ۔ شادی اور طلاق اور پھر شادی اورپھر طلاق کا موضوع بہت پرانا ہو چکا ۔ غریب ملکوں میں ہر گلی کے ہر گھر سے ایک نئی کہانی پھوٹتی ملتی ہے، ان کہانیوں کو استعمال کریں ۔ شادی سے کہیں بلند مقاصد زندگی میں ہمارے منتظر ہیں، ان کو کیسے حاصل کیا جائے، اس راستے میں حائل رکاوٹوں کو کیسے دور کیا جائے اور مقاصد حاصل کرنے کے بعد اپنی زندگی کو گزشتہ تلخیوں کی روشنی میں کیسے ترتیب دیا جائے ۔ یہ ہمارا روز کا مشاہدہ بھی ہے اور ہمارے گرد بہت سے لوگ ان سے گزرتے بھی رہتے ہیں ۔ انسان ،،اپنی کہانی،، بہت دلچسپی اور شوق سے دیکھتا ہے تو ایسی کہانیاں لکھنے کی کوشش کریں
“