ٹیلی ڈرامہ اور مکالمہ
ڈرامہ فلم کی طرح ویژول آرٹ کی صنف میں آتا ہے یعنی وہ صنف جسے دیکھا جاتا ہے ۔ آپ اسے ایسا بصری فن بھی کہہ سکتے ہیں جس میں ،،کچھ کرکے دکھایا جاتا ہے،، اور لاطینی زبان میں ڈرامہ ،،کچھ کرکے دکھانے، کو ہی کہتے بھی ہیں ۔ چونکہ ڈرامے یا فلم میں بہت سی جزئیات کرداروں کے عمل، رد عمل اور حرکات سے واضح کی جاتی ہیں تو مکالمے کی اہمیت کم رہ جاتی ہے لیکن اب ایسا بھی نہیں کہ سبھی کچھ مکالمات کے بغیر ہی واضح بھی کیا جائے ۔ ایک سکرپٹ کی تحریر کے دوران، ایک اچھا سکرپٹ رائٹر خود اندازہ کر لیتا ہے کہ اسے کہاں مکالمے کی ضرورت ہے؟ بلا سبب مکالمہ لکھنا سکرپٹ کے حُسن کو گہنا سکتا ہے اور اچھا بھلا ٹیلی سکرپٹ ایک ریڈیو سکرپٹ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ اس کے لئے آپ اپنا ایک چھوٹا سا امتحان خود بھی لے سکتے ہیں ۔ اپنے
لکھے ہوئے سکرپٹ کو بلند آواز سے دو صورتوں میں پڑھیں اور برابر کے کمرے میں ایک دوست کو متعین کردیں کہ وہ یہ سکرپٹ سنتا رہے ۔ آپ ڈائیلاگ یا مکالمے بولیں اور مثلا وہاں تک آ جائیں جہاں ایک کردار دوسرے کردار کو کوئی چیز دیتا ہے ۔ آپ بلند آواز سے یہ بھی کہیں:
،،اسلم یہ گھڑی مجھے دو،، ۔ پھر اپنے دوست سے پوچھیں کہ اس نے کیا سنا ۔ ظاہر ہے اس نے یہی سنا کہ ایک کردار نے دوسرے کو گھڑی دی تو وہ یہی بتلائے گا ۔ آپ اس امتحان میں فیل ہو گئے! اب اسی
صورتحال کو یوں لیتے ہیں ۔
،،اسلم۔ ،،یہ،، مجھے دو،،۔
اپنے ساتھی سے پوچھیں کہ ڈرامے کے اس سین میں کیا ہوا؟ اگر وہ کہے کہ اُسے علم نہیں ہو سکا کہ ایک کردار نے دوسرے کو کیا،،چیز،، دی تو آپ کامیاب ٹھہرے ۔ جب آپ بصری طور پر اپنے دیکھنے والے کو ایک چیز دکھا رہے ہیں تو اس کا تذکرہ کرنے کی یوں ضرورت نہیں کہ آپ کا ڈرامہ دیکھنے والا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے کہ الف نے بے کو کیا چیز دی؟ اسے کہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
ہم اکثر ڈراموں میں دیکھتے ہیں جہاں کردار ڈنکے کی چوٹ کوئی چیز دوسرے کو دیتے ہوئے اس کا نام لے رہے ہوتے ہیں ۔ یہ بالکل غلط ہے ۔ اب آئیے مکالموں کی طرف ۔ اس سلسلے میں ایک کلیہ تو یہ اچھی طرح سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ معاشرہ مختلف طبقات پر مشتمل ہوتا ہے اور ہر طبقے کی اپنی زبان ہوتی ہے ۔ (ہم زبان کی بنیادی اہمیت کے انکار کے بغیر یہ بات کہہ رہے ہیں ۔ مثلا پاکستان کی زبان اردو ہے لیکن پیشوں اور تعلیمی لحاظ سے ہر زبان اپنے خانوں میں بٹی ہوئی ہوتی ہے) تانگے یا رکشہ والا علیحدہ زبان بولتا، علیحدہ لہجہ اختیار کرتا اور علیحدہ تاثرات کا اظہار کرتا ہے۔ چنانچہ آپ ریڑھی پرآلو چھولے بیچنے والے کے منہ میں پروفیسر کی زبان نہیں ڈال سکتے۔ ابھی اگلے روز ہم ایک ڈرامہ دیکھ رہے تھے جس میں ایک جاہل اور ان گھڑ سی خاتون سے مصنف نے لفظ ،،قد غن،، کہلوایا تھا جو سرا سر غلط ہے کیونکہ اس طبقے کی عورت ایسے الفاظ نہیں بولتی اور اگر بولتی ہے تو ڈرامہ دیکھنے والا حیرت میں مبتلا ہو جاتا اور اس فن کا طالب علم ہکا بکا رہ جاتا ہے ۔ جہاں بغیر مکالمے کے کام چلتا ہو، وہاں مکالمہ ٹھونسنے کی بالکل بھی کوشش نہ کریں ۔ یہ کام ریڈیو والوں پر چھوڑ دیں جہاں ہر بات مکالمے سے واضح کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ چلیں، اسے ایک مثال سے سمجھتے ہیں ۔ فرض کیجئے دروازے پر دستک ہوتی ہے ۔ الف دروازہ کھولتا ہے ۔ دروازے پر بے کھڑا ہے جس نے سر پر گھڑا اٹھا رکھا ہے ۔ پہلے تو آپ الف کے چہرے کے تاثرات سے کام لیں گے اور پھر فقط اتنا کہلوا کر بات واضح کر دیں گے ۔
،،یہ ۔ یہ کیا ہے،،
یاد رکھیں کہ آپ کا ناظر تمام صورت حال کا شاہد بھی ہے چنانچہ مکالمہ بازی کا شوق آپ یہ کہہ کر بھی پورا کر سکتے ہیں کہ:
،،یہ تم نے سر پہ گھڑا کیوں اُٹھا رکھا ہے؟،،
دیکھا آپ نے دونوں میں کتنا فرق ہے ۔ ،،یہ تم نے سر پہ گھڑا کیوں اُٹھا رکھا ہے،، والے جملے کا سارا تاثر الف کے چہرے پر پیدا ہونے والے تاثرات سے پورا ہو گیا تھا تو صرف یہ لکھنا کافی ہوتا کہ ،،یہ۔یہ کیا ہے؟،،۔ یاد رکھیں تاثرات سے پیدا ہونے والی شدت کی جگہ لمبے سے لمبا مکالمہ کبھی نہیں لے سکتا تو بصری آرٹ ہونے کی وجہ سے آپ زیادہ سے زیادہ تاثرات سے کھیلیں اور مکالموں کو وہیں استعمال کریں جہاں ان کی اشد ضرورت ہو۔ یہاں ایک دلچسپ بات اور بھی عرض کرنا ضروری ہے ۔ ہمارا یہ ایشائی خطہ زیادہ باتیں کرنے والے افرادکی وجہ سے مشہور ہے جبکہ مغرب میں ،،ٹو دی پوائنٹ،، بات کی جاتی ہے تو اسی لئے اس کا اثر ہمارے ڈراموں اور فلموں میں بھی ملتا ہے ۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا ۔ اب ایک مثال اور لیتے ہیں ۔ ایک ماں پردیس سے آنے والے باپ کو بتاتی کہ اس کے بیٹے نے کسی ایسی جگہ شادی کر لی ہے جہاں والدین کسی قیمت پر نہیں چاہتے تھے ۔ اسے دو طرح سے لکھا جا سکتا ہے ۔
،،دیکھو۔آخر وہی ہوا ناجس کا مجھے اور تمہیں ڈرتھا ۔ اسلم نے ان کمینوں میں شادی کر لی ۔ میں تو کہتی ہوں ہمیں ایسی اولاد کو فورا عاق کر دینا چاہئے ۔ دو دن میں صاحب زادے کے دماغ ٹھکانے آ جائیں گے،،۔وغیرہ۔
دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے ۔
،،اسلم نے وہیں شادی کرلی جہاں ہم نہیں چاہتے تھے،،۔
دیکھا آپ نے؟ بات کی ترسیل بھی ہو گئی اور مکالمہ بھی مختصر ہو گیا۔ یہاں کردار نے ،،مجھے اور تمہیں،، کو ،،ہم،، سے تبدیل کر دیا اور دیکھنے والا سمجھ گیا کہ ماں باپ دونوں اس شادی کے خلاف تھے ۔ یہ محض ایک مثال تھی ۔ سکرپٹ لکھتے وقت ایک رائٹر کو مکالمے کی بنت ایسے کرنا چاہئے کہ کم الفاظ کے استعمال سے زیادہ واقعات دیکھنے والے تک پہنچ سکیں۔ سکرپٹ کو ،،کرپس،، کرنے کے لئے یہ سب بہت ضروری ہوتا ہے۔اُوپر کے پہلے مکالمے میں خاتوں کردار نے ایک بیکار کتھاسنائی ہے۔ ایک ایسی کتھا جسے ڈرامے کی زبان میں verbosity کہا جاتا ہے ۔ آج کل چلنے والے وہ سیریلز جو بہ آسانی تیرہ قسطوں میں ختم کئے جا سکتے ہیں، اسی verbosity کا سہارا لے کر تیس یا اس سے زیادہ تک پہنچا دئیے جاتے ہیں ۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کردار بکواس کرتے رہتے ہیں اورکہانی وہیں کھڑی رہتی ہے۔ آخر میں یاد رکھنے کی چند باتیں:
مکالمہ مختصر لکھیں
اختصار کی کمی تاثرات سے پوری کریں
مکالمے کی زبان کردار کے پس منظر کے مطابق لکھیں
پہلے سے گزرے کسی واقعہ کی ترسیل کم و بیش انہی الفاظ میں کرنے سے گریز کریں
آسان ترین اور روزمرہ کی زبان لکھیں اور اپنی افلاطونی بگھارنے کی ہرگز کوشش نہ کریں
مجھے تم سے محبت ہے، مجھے پیار ہو گیا ہے جیسے گھٹیا اور بازاری جملوں سے اجتناب کریں اور اس اظہار کے لئے تاثرات سے کام لیں جو زیادہ طاقتور ذریعہ ہو تے ہیں ۔
آخری بات ۔ مکالمہ جتنا مختصراور جامع ہوگا، لفاظی کی گنجلک سے پاک ہوگا، اس کی ترسیل دیکھنے والوں میں اسی قدر سہولت سے ہوگی اور آپ ایک کامیاب سکرپٹ رائٹر ٹھہریں گے 🙂
https://www.facebook.com/Iqbaplaywright/posts/10210845719278300
“