تخلیق سے متعلق بعض لوگ اس قسم کے سوالات پوچھتے رہتے ہیں کہ فنکار ایک میکانکی چابی تو ہے نہیں کہ وہ کسی کے اشارے کے مطابق چلے گا یا پہلے سے وضع کئے گئے اصولوں پر چل کر اپنے فن کا مظاہرہ کرتا رہے ۔اس طرح تو روایت شکن نابغوں کا جہاں میں پیدا ہونے کا سلسلہ ہی رک جائے گا اور کوئی نئی روایت قائم کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔۔۔ ۔بقول انکے یا پھر ہم نقد گروں کی مرضی کے مطابق متعین اصولوں اور پہلے سے ہی وضع کی گئی حدود کے اندر رہ کر بھی تو کوئی بڑا کام نہیں سر انجام دے سکتے۔۔ اور مزید یہ کہ ہم فن کو فنکار کی ذات سے الگ نہیں کرتے۔یا پھر یہ کہ ناقد حضرات تو نئی اختراع کو ماننے کے لئے تیار ہی نہیں۔۔وہ تو مکتبی بچوں کی طرح رٹے رٹائے فارمیلوں اور گھسی پٹے پیمانوں سے تخلیق کئے گئے فن کی جانچ کرنا شروع کردیتے ہیں دیکھا یہ گیا ہے کہ عوام بھی انہی کی رایے کو ترجیح دیتے ہیں نقد گر جو کہ اکثر قدامت پسند لوگ ہوتے ہیں انکے دو انچ ×دو انچ کی کھوپڑی کوئی نئی راویت گھس ہی نہیں سکتی ویسے بھی تو یہ لوگ نئی روایتوں اور ان دیکھی راہوں کے پارکھ کیونکر اور کیسے ہو سکتے ہیں۔ قدامت پرست یا ماضی پرست نقد گر نوجوان نسل کے نئے فنکاروں کی حوصلہ افزائی کی بجائے انکی کاوشوں کو ناکام قرار دے دیتا ہے۔۔وہ نئے وادیوں کے سیر کے بجائے ماضی کی گھسی پٹی راہوں پر چلنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اگر کوئی اس کی روش کے خلاف چلے تو وہ بقول شخصے "ایک نادان بچے کی طرح اپنے ہاتھ میں آئے ہوئے چاقو کو اپنی خود تعمیر کردہ عظمتوں کے دفاع کے لئے بے دریغ استعمال کرتا ہے"
ان تمام سوالات کا جوابات یہ ہیں :
فن کار کو اپنی ذات کے اظہار یعنی تشہیر کے لئے استعمال کرنا یا اپنی بے ڈھب قسم کی نمائش کرنے کی اجازت نہیں اس طرح تو فن اسکی ذاتی پسند و ناپسند اور اظہا ر خیال کا پلندا بن جائے گا۔۔جبکہ ہمیں ورثہ میں ملے ہوئے اصولوں کی بنیاد پر فن میں اپنا حصہ ڈالنا ہے ۔۔ روایتی اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے ادب میں اضافی کام ہی کسی فنکار کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔۔اکثر لوگ روایتی فن کی قائم کردہ اصولوں اور پہلے سے قائم کئے معیار تک پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ بیٹھتے ہیں ۔۔ اور گرانقدر اضافہ کرنا تو دور کی بات رہی۔۔۔ کلاسیکل ناقدین کے علاوہ مفکرین یہی کہتے ہیں
استغراق کے ذریعہ فنکار کا اسکے اپنے فن میں گم ہونا اس کی اپنی ذات کا اظہار بمعنی انفرادیت قائم کرنا منتہا و غایت ہے یہی وجہہ ہے کہ ہم پرانے اصولوں کے اندر رہ کر نئی تجربے کرتے ہیں۔۔ تاکہ ادبی ورثے سے بھی جڑے رہیں اور نئی راہوں کے در بھی بند نہ ہو جائیں ۔۔ کلاسییکی روایت کو کھیل کود کے اصولوں محمول کر کے سمجھا جاسکتا ہے کھیلوں کے اصول متعین ہیں لیکن ان کے اندر رہ کر ہم نئے ریکارڈ بناسکتے ہیں اسی طرح کلاسیکیت ادب کے دروازے بند نہیں کرتی بلکہ انکو ایک نظم و ضبط کے ساتھ فروغ دیتی ہےلیکن یاد رہے کہ کوئی راتوں رات میرزا غالب اور سعادت حسن منٹو بننا چاہے تو حقیقت میں ایسا ممکن نہیں
بقول سرمد
عمرے باید کہ یار آید بکنار
ایں دولتے سرمد ہمہ کس راندہند
تخلیے کے علاوہ استغراق و انہماک کی سخت ضرورت اگر کوئی اپنے فن میں اسقدر ڈوب جائے کہ اسکی ذات کی سرحیں اسکے فن کی انتہا سے مل کر امر ہو جائیں اس کی یہ اختراعیں یا تجربے موزوں سمجھے جانے لگیں ۔ نئی روایتیں اسی طرح قائم ہوتی رہی ہی اس کے برخلاف اکثر لوگوں کے تجربے ناکام ہوجاتے ہیں اور پھر سر منڈاتے ہی اولے پڑے کے مترادف ان پر لکھے گئے انتقادی مضامین ان کو مزید تباہی اورفراموشی کے غار میں دھکیل دیتے ہیں ۔۔۔ یہی وجہہ ہوتی ہے کہ عموما کلاسیکل رائٹرز کو فن کو سراہا جاتا ہے۔ کیونکہ انکے فن میں اظہار ذات کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔۔بلکہ فن ہی فن ہوتا ہے۔۔۔ نقد گر حضرات بھی جی کھول کر اپنے مضامین کی پچکاری چلا تے ہیں اور فنکاروں کی واجبی شہرت کی گاڑی کے ٹائروں میں ہوا بھرکے آگے چلنے میں مدد کرتے ہیں ۔۔۔۔۔
https://web.facebook.com/groups/1690875667845800/permalink/1722354731364560/
“