(1) ۔ اسلام کے ابتدائی دور میں شام وعراق، فلسطین سے عیسائی حکومتیں ختم ہو گئیں۔
دفاعی لحاظ سے مضبوط شہر قسطنطنیہ بھی فتح کر لیا گیا۔ تقریباً آدھے سے زیادہ یورپ ترکوں کے زیر نگیں آ چکا تھا۔
نور الدین زنگی اور سلطان صلاح الدیں ایوبی نے صلیبی جنگوں (Crusades) میں متحدہ یورپ کی افواج کو شکستیں دیں۔ بیت المقدس سو سال تک عیسائیوں کے قبضہ میں رہا ۔ بالآخر سلطان صلاح الدیں ایوبی نے صلیبیوں کو شکست دے کر، بیت المقدس کو آزاد کروا لیا گیا۔ صلیبی جنگوں میں پے در پے اپنی شکستوں کو یورپیئن اقوام کبھی بھی بھول نہیں سکیں۔
(2) ۔ انفرادی یا تنظیمی دعوتی اور تعلیمی کاوشوں سے چند افراد کی اصطلاح و تربیت اور تعلیم ہو جاتی ہے۔ لیکن قوم کی اصلاح و تربیت اور تعلیم، قوم کے سیاسی نظام میں ہوتی ہے۔ جب کسی قوم کا سیاسی نظام ٹوٹ جاتا ہے ۔
قوم سیاسی نظام قائم نہ کرسکے تو چند سالوں میں قوم کریکٹرلیس (characterless) ہوجاتی ہے۔ بلکہ قوم قومی تہذیبی روایات کھوکر اپنی قومی شناخت بھی کھودیتی ہے۔
چالاک قوم انگریز نے مسلمانوں سے لڑ کر نہیں ، بلکہ اپنے وسیع خفیہ نیٹ ورک سے مسلمانوں کو آپس میں لڑوا کر مسلمانوں کے سیاسی نظام کو توڑا۔ لارنس آف عربیہ کے ذریعے عربوں میں عرب عصبیت کو ابھارا۔ ترکوں اور عربوں کو آپس میں لڑوا کر مسلمانوں کو تقسیم کر دیا ۔
صدیوں متحد رہنے والی عرب دنیا، چھوٹی چھوٹی بے حیثیت ریاستوں میں بٹ کر رہ گئی ہے
خاندان سعود نے کبھی بھی خلافت عثمانیہ کو قبول نہیں کیا تھا بلکہ وہ مسلسل ترک خلافت کے خلاف میدان جنگ میں محاذ آراء رہے۔
حسین بن علی خلافت عثمانیہ کی طرف سے مکہ مکرمہ کے گورنر ، شریف مکہ کہلاتا تھا۔ برطانیہ نے ان دونوں کے ساتھ ۱۹۱۸ء میں برطانیہ نے معاہدے کئے۔
سعود خاندان سےوعدہ کیا کہ برطانیہ ان کی حکومت و اقتدار کا تحفظ کرے گا اورا س بات کی ضمانت دے گا کہ اس علاقہ کی حکومت سعود کے خاندان میں ہی رہے گی۔
شریف مکہ حسین بن علی کو لالچ دیا کہ اگر وہ خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے، ترک افواج کو حجاز مقدس سے نکال دے تو اسے امیر المومنین کی حیثیت سے تسلیم کر لیا جائے گا اور عرب کی بادشاہت اسے سونپی جائے گی۔
چنانچہ خلافت عثمانیہ کے خاتمہ میں دونوں نے اپنا اپنا کردار ادا کیا۔ جب عرب دنیا خلافت عثمانیہ کے دائرہ سے نکل گئی تو خاندان سعود کو زیادہ بااعتماد سمجھتے ہوئے انہیں نجد اور دیگر علاقوں کے ساتھ ساتھ حجاز مقدس کا علاقہ بھی دے دیا گیا جس کے نتیجہ میں سعودی مملکت قائم ہوئی۔
شریف مکہ حسین بن علی کے ایک بیٹے کو اردن کا بادشاہ بنا دیا گیا۔
(2). 1917 میں فرانسیسی جنرل بنی شام کو فتح کرتے ہوئے جب صلاح الدین ایوبی کی قبر پرپہنچا۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل نے سلطان صلاح الدین ایوبی کی قبر کو ٹھوکر مار کر کہا کہ کہا صلیبی مجاہد تیری قبر پر پہنچ چکے۔کرسیچئن اقوام سات صدیوں کےبعد بھی، صلیبی جنگوں میں اپنی شکستوں کو فراموش نہیں کرسکیں ۔
(3) ۔ ریاست میسور کے حکمران حیدر علی اور سلطان محمد فتح علی ٹیپو نے پچاس سال تک انگریزوں کو روکے رکھا.
سلطان ٹیپو نے 4 مئی 1799 شہادت پائی تو ڈیوک آف ولنگٹن نے کہا کہ آج سے ہندوستان ہمارا ہے۔ فتح کا جشن لندن میں بھی منایا گیا۔
1857 کی جنگ آزادی زیادہ تر مسلمانوں نے لڑی تھی ۔ انگریزوں نے مسلمانوں کا بے دردی سےقتل عام کیا ۔
جائدادیں چھین لی گئیں۔ کاروبار برباد ہو گئے اور سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند کر دیئے گئے۔ قوم کے غداروں اور گدی نشینوں کو بڑی بڑی جاگیریں عطا کی گئیں۔ انگریزوں نے وفادار جاگیر طبقہ اور گدی نشینوں کے ذریعے مسلمانوں کو تعلیمی اور معاشی لحاظ سے کمزور بنا کر معاشرہ کا انتہائی پس ماندہ طبقہ بنا دیا۔ مسلم جاگیر داروں اور گدی نشینوں نے اپنے علاقوں میں تعلیمی ادارے نہ بنائے اور نہ بننے دیئے۔ جاگیر طبقہ کا واحد کام کہ مسلمانوں کو دبا کر رکھنا تھا ۔
(4) . 1946 میں انتخاب کے بعد بھی ، کیبنٹ پلان کو قبول کرنا ظاہر کرتا ہے کہ جناح متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے حقوق کا صرف آئینی تحفظ چاہتے تھے۔ انگریزوں کی مسلمانوں سے دشمنی کی تاریخ تیرہ سو سال پرانی تھی۔ مسلمانوں کی ہندؤوں سے دشمنی کی کوئی تاریخ نہیں تھی۔ ہندو اور مسلمان ہندوستان میں ایک ہزار سے اکٹھے ساتھ ساتھ رہتے آئے تھے۔
( 5) . 1095 سے 1205 جاری رہنے والی صلیبی جنگوں (Crusades) کی وجہ سے دشمنی ، نفرت کی دشمنی میں بدل گئی۔
ہندوستان میں بھی انگریز نے ہندؤوں اور مسلمانوں کے مابین اختلافات کو خوب ہوا دی۔ دونوں میں دشمنوں جیسا ماحول بنا دیا۔
جب آخری وائسرائے سے نہرو کی ملاقات ہوئی تو وائسرائے نے کہا کہ ایسے لگتا ہے ہندوستان سول وار کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اگر سول وار ہوئی تو مسلمان ہندوؤں کا بہت قتل عام کریں گے۔ نہرو نے کہا کہ ایسے کبھی نہیں ہوگا اس لئے کہ مسلمانوں کی رجعت پسند قیادت نے مسلمانوں کو ناکارہ بنا دیا ہے اور ہندو تعلیم اور تنظیم بھی بہت ترقی کر چکے ہیں۔
(6) ۔ جناح صاحب نے مارچ 1947 میں وائسرائے سے ملاقات میں ، پنجاب ، سندھ بلوچستان، سرحد، بنگال اور آسام پر مشتمل پاکستان کا مطالبہ کیا۔ مسلم لیگ اور جناح صاحب کو یہ گمان بھی نہ تھا کہ پنجاب ، بنگال اور آسام کو تقسیم کر دیا جائے گا۔
انگریز کو خدشہ تھا کہ مسلمان متحدہ ہندوستان میں طاقت پکڑ سکتے ہیں۔ اصل میں انگریز مسلمانوں کو کنٹرول کرنا چاہتا تھا ۔ انگریز نے تقسیم ہند کا نہیں بلکہ مسلمانوں کی تقسیم کا خطرناک خفیہ منصوبہ بنایا ہوا تھا ۔
جب لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے کانگریسی قیادت کی ملاقات ہوئی تو کانگریسی رہنماؤں نے تقسیم کو فوراً تسلیم کر لیا۔ انگریز نے ایک طرف ہندو قیادت کو باور کروایا کہ متحدہ ہندوستان کی بجائے پاکستان اور ہندوستان میں منقسم مسلمان ، ہندو قوم کے زیادہ مفاد میں ہے ۔ جبکہ حقیقت کچھ اور تھی۔ متحدہ ہندوستان تو دنیا میں عظیم طاقت کا ہوتا ، جو کہ یورپ کے مفاد میں نہیں تھا۔
(7). انگریز نے ہندوستان میں وہی کچھ کیا جو کہ عربوں اور ترکوں میں عصبیت کو ہوا دے کر عربوں اور ترکوں کو لڑوا کر، عربوں کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کر دیا۔
انگریز نے فلسطین میں یہودیوں کو خصوصی طور پر آباد کاری کے حقوق دیئے۔ اور یوں عربوں کو اسرائیل کے ذریعہ کنٹرول کرنے کا منصوبہ بنایا۔
مسلمان سمجھتے ہیں کہ یہود مسلمانوں کے بڑے دشمن ہیں۔ حالانکہ اسرائیل کی پشت پر یورپ ہے۔ یہودی جو کچھ کررہے ہیں۔ امریکہ و یورپ کی مدد سے کررہے ہیں۔ مسلمانوں کو ذہن نشین رہنا چاہیے کہ برطانیہ کو اندازہ ہو گیا تھا کہ مسلمانوں سے میدان جنگ میں جیت مشکل ہے۔ چالاک انگریز نے سازش سے قومی سیاسی نظام کو توڑا تو پھر مسلمانوں نے ہر جگہ شکست کھائی۔
برطانیہ نے یہود کو فلسطین میں آبادکاری کے حقوق دیئے اور یہودیوں کو آبادکاری میں یورپی ممالک بھرپور معاونت فراہم کرتے رہے ہیں۔
(8) ۔ جب سوویت یونین ٹوٹ گیاتو کہا گیا کہ تاریخ کا اختتام ہو گیا اور تہذیبوں کا ٹکراؤ ختم ہو گیا تو برطانوی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر نے کہا نہیں ابھی اسلام تہذیب باقی ہے۔
سیموئیل پی ہنٹنگ اپنی کتاب۔ میں لکھتے ہیں کہ مسلمان اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کی بنا پر مغرب کے لیے چیلنج پیدا کردیں گے۔
مغرب کا ٹکراؤ ممکنہ طور پر چین اور مسلم دنیا سے ہو سکتا ہے ۔ چین کی بڑھتی ہوئی معاشی اور فوجی طاقت سے مغرب کو خطرہ ہو گا ۔
صدد کلنٹن نے اپنے آخری صدارتی خطاب میں امریکنوں کو کہا کہ اگر سفید فام لوگوں کی شرح پیدائش کم رہی تو سفید فام 2040 میں اقلیت میں ہوں گے۔
امریکہ و یورپ بخوبی اندازہ ہے کہ اسلام تیزی سے پھیلتا ہوا مذہب ہے۔
(9) ۔ امریکہ نے جب افغانستان پر حملہ شروع کیا تو صدر بش نے اعلان کیا کہ کروسیڈ (Crusades)جنگ شروع ہوچکی ہے۔ گو کہ بعد میں کہے ہوئے الفاظ کی تردید کردی ۔
سلطان صلاح الدیں ایوبی نے تنہا پورے یورپ کے صلیبیوں کو شکست دی تھی۔
اب لگتا ہے کہ افغانیوں کے ہاتھوں امریکہ شکست کھائے گا۔ ان شاءاللہ۔
اللّٰہ تعالٰی کا دستور ہے کہ طاقت ور، سرکش اور ظالم قوموں کو کمزوروں کے ہاتھوں مرواتے ہیں پہلے برطانیہ ، پھر روس نے افغانستان میں شکستیں کھائیں ہیں ۔ اور اب امریکہ افغانستان میں شکست کھائے گا۔
ان شاءاللہ