تہذیب کی الجھن اور جدید ریاست کی سرحدیں
میں عمرانیات کی طالب علم ہوں یونیورسٹی کے شروعاتی دنوں کی کلاسز ہو رہی تھیں جہاں ہمیں بنیادی اصطلاحات سے متعارف کیا جا رہا تھا سماجی ادارہ کیا ہوتا ہے تہذیب کیا ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ یہی پڑھایا جا رہا تھا تو اس دوران میں نے ایک معصومانہ سوال اٹھایا کہ ”اگر مذہب ایک سماجی ادارہ ہے تو ہمارے سماج میں اسے ایک تہذیب کے طور پر کیوں لیا جا رہا ہے“ میں نے یہ سوال کرنا تھا اور میری استاد نے بس مسکراتے ہوئے کلاس سے نکل جانا تھا۔ خیر پاکستانی تعلیمی نظام پر پھر کبھی بات ہوگی۔ اس معصومانہ سوال کا ایک سادہ سا جواب یہ ہے کہ ہمارے معاشرے نے کسی مذہب کو تہذیب کےطور پر نہیں اپنایا بلکہ ہم نے کچھ مسلمان ممالک کی تہذیب کو اپنایا ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے تہذیب کی تعریف بیان کرنا چاہوں گی جو سبط حسن کی ایک کتاب سے نکالی گئی ہے کسی معاشرے کی بامقصد تخلیقات اور سماجی اقدار کے نظام کو تہذیب کہتے ہیں۔ تہذیب معاشرے کی طرز زندگی اور طرز فکر و احساس کا جوہر ہوتی ہے چنانچہ زبان، آلات و اوزار پیداوار کے طریقے اور سماجی رشتے، رہن سہن، علم و ادب، رسوم و روایات عشق و محبت کے سلوک وغیرہ تہذیب کے مختلف مظاہر ہیں۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہم اپنی تہذیب چھوڑ کر دوسرے ممالک کے پیچھے کیوں لگ گئے۔ مبارک علی اپنی ایک کتاب میں لکھتے ہیں ”مسلمان جو ہندوستان میں اقلیت کی صورت میں تھے خود کو فوجی طاقت اور حکومت کے باوجود غیر محفوظ سمجھتے تھے۔ خود اعتمادی کی کمی نے ان میں ہندو اکثریت کا خوف غیر شعوری طور پر پیدا کیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے خود کو ذہنی طور پر مکمل ہندوستانی نہیں سمجھا اور خود کو وسط ایشیا کی تہذیب و ثقافت سے منسلک رکھا۔ ہماری شاعری اور ادب غیر ملکی اثرات کا حامل رہا۔ ہر مصیبت کے وقت ہماری نگاہیں وسط ایشیا کی طرف تھیں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے خود کو کبھی مکمل ہندوستانی نہیں بنایا ہم نے اپنی جڑیں ہندوستان سے باہر رکھیں اپنے پڑوسی پر اعتماد نہیں کیا اور دور کے لوگوں پر بھروسہ کیا جو قریب تھے ان سے نفرت کی اور جو دور تھے ان سے تعلقات استوار کرنے کی ناکام کوشش کی۔ “
اور جیسے جیسے ارتقا کا سفر طے کرتے گئے تہذیب بھی ہمارے لیے پیچیدہ ہوتی گئی اور ہم الجھ کر رہ گئے اور اسی الجھن میں ہم نے مذہب کو تہذیب بنا ڈالا اور اس کو اخلاقیات کے بکسے میں بند کر دیا اور پھر وہ دن بھی آیا کہ ہم نے مذہب کے نام پر ایک الگ ملک کا مطالبہ کیا۔ مجھے یہ بات بہت عجیب معلوم ہوتی ہے جب کوئی کہتا ہے کہ ہم ہندوستان کی ثقافت کو کیوں اپنا رہے ہیں۔ ریاست ایک جغرافیائی یا سیاسی حقیقت ہوتی ہے اور قوم اور اسی کے واسطے سے قومی تہذیب ایک سماجی حقیقت ہے اس لیے ضروری نہیں ہے کہ ریاست اور قوم کی سرحد بھی ایک ہو۔ ریاست کی حدود بڑھتی گھٹتی رہتی ہیں جیسے پاکستان کی سرحدیں آج وہ نہیں جو قیام پاکستان کے وقت تھیں۔ ایک ریاست کی تہذیب تو ایک ہو سکتی ہے لیکن مذہب بہت مشکل سے ایک ہو گا اور مذہب کو بنیاد بنا کر یہ کہنا کہ ہماری تہذیب ہندوستان سے مختلف ہے بہت بھونڈی بات ہوگی، ہم ہندوستان کا حصہ بن کر رہے ہیں پھر ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ہمارا رہن سہن ان سے یکسر مختلف ہو اور عرب سے ملتا جلتا ہو؟
ہم پنج ہزار سال سے معاشی سماجی طور پر ایک ہی قوم ہوکر ایک ہی تہذیب کا حصہ رہے ہیں کیسے محض ستر سال نئی شناخت کی وجہ سے اس تاریخ کو رد کر دیا جائے اور محمد بن قاسم سے جوڑی جائے۔ یہ سائنسی دور ہے سوال تو اٹھائے جائے گے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔