کسی بھی ملک و قوم کے تشخیص کا اصلی سر چشمہ انکی تہذیب و ثقافت ہوتی ہیں۔ جو کہ انسانی زندگی کا بنیادی اصول ہے۔
ایک معاشرہ اور ایک کے کلچر اور تہذیب کے اعلٰی مظاہر اس کے خصوصیات، طرز فکر نظام اخلاق علم و ادب، اسکا دینی نظریہ ، زبان ، رہن سہن ، رسم و رواج ، فن تعمیر روایات لباس اور طرز حیات میں نظر آتے ہیں ۔ یہ وہ بنیادی چیزیں ہیں جو ایک قوم کو بہادر، شجاع و غیور ، غیرت مند قابل فخر اورع خود مختار بنا دیتی ہے اور انکا فقدان قوم کو حقیر ، غلام اور بزدل بنا دیتا ہے۔ یہا ں تک کہ انکی شناخت تاریخ کے اوراق سے مٹ جاتا ہے۔ ثقافت کے دوسرے پہلو جو نہاں ہیں جو کہ ہماری تقدیرطے کرنے میں موثر ہوتے ہیں مثلاً سب زیادہ ہم اخلاقیات، معاشرے میں پسنے والے افراد کی ذاتی سماجی اور معاشی زندگی کا طریقہ ، عقائد ، روایتی تصورات اور قصے کہانیاں شامل ہیں۔ ثقافت کے اس پہلو سے ہماری امیدیں ، امنگیں اور خواب جڑے ہوئے ہیں۔ ثقافت کے اس پہلو میں ہمارے انداز فکر کا طریقہ ہے۔ یعنی دیکھنے ، سوچنے، اچھائی اور برائی کا خوبصورتی اور بدصورتی کا ، سلیقے اور بد سلیقگی کا معیار پرکھنے کا طریقہ یہ سب کلچر کا باطنی پہلو ہے۔ جس طرح ثقافت معاشرے کے ساخت ، جسم یا ڈھانچے میں روح اور جان کا درجہ رکھتی ہیں اسی طرح ثقافت کے باطنی پہلو ثقافت کے ظاہری پہلو میں روح کا درجہ رکھتے ہیں ۔ اور جب ثقافت کا ذہنی یا باطنی پہلو کمزور ہو جاتا ہے تو معاشرے کی پوری ساخت ڈھیلی پڑ جاتی ہے ۔ کہا جاتا ہے اگر کسی قوم پر غلبہ حاصل کرنا ہو انہیں غلام بنانا ہو ان کے مال و دولت پر قبضہ جمانا ہو تو سب سے موثر طریقہ ان کی سوچ و فکر یعنی روح پر غلبہ حاصل کرنے کا ہے اس کے ذریعے ان کے جان و مال ، عزت و آبرو،تہذیب و ثقافت یہاں تک کہ ان کے عقائد پر بھی غلبہ حاصل کر سکتے ہیں۔
ہم اہل مغرب کے رنگا رنگ دنیا میں کھو گئے ہیں۔ ہم نے خود ہی( Modernism )یعنی جدید یت کے نام پر ان کے ثقافت و تہذیب اپنا کر دنیا میں سرخرو ہو گے ، کامیاب ہو ں گے، مگر اس احساس سے یکسر عاری ہو چکے ہیں۔ آج ہم اپنے آباو اجداد پر فخر اس لیے کرتے ہیں کیو نکہ انہوں نے کسی بھی قیمت پر تہذیب و ثقافت کا سودا نہیں کیا۔ اس لیے وہ باوقار، قوی و توانا، عالم و دانشور اور عالمی سطح پر محترم ہیں۔ ہمیں تحقیق کرنے کی ضرورت ہے سوچ و فکر کی ضرورت ہے کیو نکہ جہا ں ہم اہل مغرب کی رنگا رنگی میں کھو گئے ہیں ۔ وہاں ہمیں اہل مشرق نے مذہب اور کلچر کے بحث میں الجھا دیا ہے۔ ثقافت اور دین کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ ہم نے دین اور مذہب کے نام پر جہالت میں اپنے تشخیص کو بگاڑ دیا ہے۔نوجوان نسل اس پہلو پر غور و غر ض کرنے کی ضرورت ہے اور آواز بلند کرنے کی جرات پیدا کرنی چاہیے۔ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے اس کو کسی مخصوص قوم یا کسی کے ساتھ مخصوص نہیں کیا جا سکتا۔ دین ہمارے معاشرے کا باطنی پہلو ہے اور دین ہمارے کلچر کے بہت سے اجزاء کو متعین نہیں کرتا۔ اس لیے مختلف اسلامی ممالک کی تہذیبیں یا کلچر ایک دوسرے سے نمایاں طور پر الگ الگ ہیں ۔ مثال کے طور پر ایرانی کلچر یا تہذیب وہ نہیں جو مصر کی تہذیب یا کلچر ہے۔ ثقافت اور تہذیب کے ان حصوں میں مذہب یا دین کا کوئی تعلق نہیں جن کا تعلق قو میت سے ہے۔ دین اسلام اس کو نا کوئی (Diversity )کی قدر کرتا ہے۔ اس لیے ہم کسی ایک ملک کی تہذیب یاثقافت کو اسلامی تہذیب یا ثقافت نہیں کہ سکتے۔
گلگت بلتستان ایک منفرد تہذیب و ثقافت کا حامل خطہ ہے وقت کے ساتھ ساتھ ہم اپنے ثقافتی تشخیص سے نکل کر اغیار میں گم ہوتے جارہے ہیں۔ وہ معاشرے ، قوم ، افراد یا گروہ گمنام ہو جاتے ہیں ۔ جو دوسری قوموں کی شناخت اور تہذیب کو اپنا کر ہستی اور بقاء کی کوشش کرتے ہیں۔ ثقافت تبا ہ کب ہوتی ہیں؟ جب کوئی گروہ، سسٹم ایک مخصوص طبقہ ، سیاسی ، ذاتی اور انفرادی مقاصد یا مفادات کیلئے کسی قوم کو اسیر بنائے ۔ اس کی ثقافتی بنیادوں کو نشانہ بنائے۔ ان کی ثقافت کو قدیم اور پرانا ظاہر کر کے ترمیم کے نام پر اپنی ثقافت ، نئی چیزیں اور افکار متعارف کروائے اور انہیں وقت کے ساتھ ساتھ مستحکم کرنے کی کوشش کرے جو کہ بد قسمتی سے ہمارے ساتھ ہو رہے ہیں اس کی ثقافتی یلغار کہتے ہیں۔ یہ بربادی اور زوال کی نشانی ہے۔ اگر ایسے موقعوں پر اہل علم ، دانشور اور نوجوان خاموش رہیں تو ان کے آنے والی نسل غلام اور بے نام رہ جاتی ہے ۔ گلگت بلتستا ن کی تہذیب و ثقافت سدابہار کی مانند ہیں۔ جس میں مختلف زبانیں ، باغ میں کوئل اوربلبل کی طرح سماعتوں کو راحت پہنچاتی ہیں جس میں مختلف مکتبہ فکر کے لوگ باغ کے مختلف گلابوں کی خو شبو ں کی طرح ماحول کو خوشگواراور عقل کیلئے باعث ِ راحت بناتے ہیں ۔ جس طرح ہمارے جذبات ہمیشہ سر سبز اور شاداب ، جوان اور ایک دوسرے کیلئے باعثِ تسکین ہوتے ہیں۔ ہماری ثقافت ہماری پہچان اور چہرہ ہے۔ اس جاندار اور باکمال تقافت ہی کی مرہون منت ہے ۔جس نے ہمارے آباو اجداد کو سر بلند اور باوقار بنا کر کامیابی اور کامرانی سے ہمکنار کیا۔ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے آباو اجداد کی طرح سطحی اختلافات سے نکل کر ثقافتی رنگ میں رنگ جائیں ۔ اپنے کھوئے ہوئے ثقافتی تشحیص کے حصوں کیلئے سر جوڑ ر بیٹھ جائیں اور ہماری بقا ءکا دارو مدار بھی اسی امر پر ہے کہ ہم اپنے تشخیص یعنی پہچان کا دوبارہ اثبات کریں ۔ اور بے گانہ تقافت کو اپنانے کی بجائے اپنی ثقافت کو وقت اور حالات کے مطابق عقلی بنیادوں پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر آج ہم اپنی ثقافت کی حفاظت نہیں کر سکتے اور اسے عقلی بنیادوں پر آگے نا بڑھا سکے تو گمنام ہو جائیں گے ۔ ہمیں اپنی ثقافت اور تہذیب کا پرچم ہمیشہ بلند رکھنا ہو گا۔ اللہ ہمیں اپنی تہذیب اور ثقافت کو قائم رکھنے کی توفیق عطا فرما آمین۔