تحریک لبیک اور الیکشن 2018۔۔۔
فیض آباد میں تحریک لبیک پاکستان کا دھڑنا اپنے تمام مقاصد کے ساتھ ختم ہو گیا ،لیکن لاہور میں اب بھی دھڑنا پورے زور و شور سے جاری ہے۔ فیض آباد دھڑنے میں ایک وفاقی وزیر قانون کی قربانی دی گئی،اب لاہور میں جو دھڑنا ہورہا ہے ،یہ بھی اپنے تمام مقاصد کے ساتھ ختم ہو گا ،ساتھ ساتھ یہ دھڑنا پنجاب کے صوبائی وزیر قانون رانا ثنااللہ کے سیاسی کیرئیر کا بھی خاتمہ کرے گا ۔لاہور میں تحریک لبیک پاکستان کے جلالی گروپ نے دھڑنا دیا ہوا ہے۔محترم اشرف جلالی صاحب رانا ثنااللہ کا استعفی مانگ رہے ہیں ،جی ہاں ،وہی رانا ثنااللہ جو اپنے آپ کو فیصل آباد اور پنجاب کا طاقتور شخص سمجھتے ہیں ۔اس دھڑنے پر بھی سب کو چپ لگی ہوئی ہے ،شریف فیملی تو شاید اس وجہ سے خاموش ہے کہ قطری شہزادے آئے ہوئے ہیں ،پنجاب حکومت کی خاموشی پراسرار ہے۔لاہور دھڑنے والے کہہ رہے ہیں کہ رانا صاحب مستعفی ہوں،سیالوی صاحب فرمارہے ہیں کہ رانا ان کے پاس آئے ،دوبارہ کلمہ پڑھے اور مسلمان ہو ۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ رانا جی کتنی بڑی مشکل میں اٹکے پڑے ہیں ۔وہ اس مشکل سے کیسے نکل سکتے ہیں ،اس کا جواب تو شہبازشریف کے پاس نہیں،فوج کے پاس اس کا جواب ہے ،لیکن رانا جی کے فوجیوں کے ساتھ تعلقات کچھ اچھے نہیں ہیں ۔فوج تو اب لاہور دھڑنے والوں کو اٹھانے والی نہیں ہے۔کیونکہ سوشل میڈیا اور میڈیا میں اس بات پر شدید تنقید ہورہی ہے کہ فیض آباد دھڑنے میں فوج کو ثالثی کرنے کی کیا ضرورت تھی؟کیوں فوج دھڑنے میں فریق بنی؟اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی صاحب نے فوج کے کردار پر بہت سارے سوالات بھی اٹھا دیئے ہیں ۔عمران خان صاحب کی بھی اہم وضاحت سامنے آگئی ہے ،جس میں محترم نے فرمایا ہے کہ فوج نے فیض آباد بحران خوش اسلوبی سے نمٹایا ہے۔عمران خان کا کہنا تھا کہ فوج یہ بحران حل نہ کرتی تو ملک میں ایک بہت بڑا انتشار پیدا ہوسکتا تھا کیونکہ یہ عقیدے کا معاملہ تھا ،ہم پر بھی کارکنوں کی جانب سے دھڑنے میں شامل ہونے کا دباو تھا ۔عمران خان کا کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ میں جو ترمیم کرنے کی کوشش کی گئی تھی اس سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ یہ ترمیم کسی بیرونی طاقت کو خوش کرنے کے لئے کی گئی تھی۔ان کا اشارہ شاید امریکہ اور یورپی یونین کی طرف تھا ۔خادم حسین رضوی کے عمران خان کے بارے میں خیالات واضح ہیں ،وہ انہیں ہمیشہ اپنے ویڈیو بیانات میں گالیاں دیتے ہیں ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ فیض آباد دھڑنے سے سب فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں ۔فیض آباد دھڑنا تو نام نہاد صلح صفائی سے اٹھ گیا ،فوج کے کردار پر بھی سوالات اٹھ گئے ،اب لاہور دھڑنے میں سنا ہے فوج نے غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا ہے ،یعنی فوج نے کہہ دیا ہے لاہور دھڑنے والوں کو اٹھا سکتے ہو تو اٹھا لو ۔اب ہم درمیان میں نہیں آئیں گے ۔یہ تمام گفتگو صرفایک تمہید تھی ،اب آیئے فیض آباد اور لاہور دھڑنے کی روشنی میں الیکشن دو ہزار اٹھارہ پر بات کرتے ہیں ۔فیض آباد دھڑنے کی روشنی میں دو ہزار اٹھارہ کا الیکشن کیسا ہوگا ؟پاکستان کے شہروں کراچی ،ملتان ،حیدر آباد ،ملتان وغیرہ میں بریلوی ووٹ بہت زیادہ ہے ۔انیس سو ستر کے انتخابات میں شاہ احمد نورانی کی سیاسی مذہبی جماعت جمعیت علمائے پاکستان نے ان شہروں سے سیٹیں جیتی تھی ۔بریلوی مکتب فکر کی سیاست کا ہمیشہ کچھ نہ کچھ کردار رہا ہے ،انیس سو ستترکے انتخابات میں بریلوی مکتب فکر پی این ائے کا اتحادی تھا ،یہ لوگ آئی جے آئی میں شامل نہ تھے ۔لیکن انیس سو اٹھاسی کے انتخابات میں شاہ احمد نورانی اور جے یو آئی ایف کا اتحاد تھا ۔اس کے بعد شاہ احمد نورانی دنیا سے رخصت ہوگئے ۔انیس سو نوے میں سنی تحریک کا ظہور کراچی سے ہوا،محمد سلیم قادری نے سنی تحریک کی بنیاد رکھی تھی ۔سنی تحریک نے ایم کیو ایم اور دیوبندی سیاست کو کراچی میں ٹف ٹائم دیا ۔انیس سو ننانوے میں سلیم قادری کو قتل کردیا گیا ۔اس وقت سنی تحریک کی طرف سے یہ کہا گیا تھا کہ سلیم قادری کے قتل کے پیچھے سپاہ صحابہ کا ہاتھ ہے ۔اس کے بعد دو ہزار چھ میں نشتر پارک میں ایک جلسہ ہورہا تھا ،ساری سنی تحریک کی قیادت اسٹیج پر تھی ،دھماکے سے ساری قیادت ہی اڑا دی گئی ۔اس کے بعد دو ہزار نو میں سنی تحریک کا قیام عمل میں لایا گیا جو اب تک چل رہی ہے ۔پاکستان میں بریلوی مکتب فکر کے چھوٹے چھوٹے گروپس ہیں ،جمعیت علمائے پاکستان بھی ہے جس کی قیادت شاہ احمد نورانی کے بیٹے انس نورانی کرتے ہیں ۔ان بریلوی گروپس کی انتخابی سیاست میں کبھی اہمیت نہیں رہی ،لیکن پچیس نومبر کے بعد جو نقشہ بنتا دیکھائی دے رہا ہے ،اس سے لگتا ہے کہ بریلوی ووٹ کی اہمیت دو ہزارہ اٹھارہ میں بہت زیادہ ہوسکتی ہے ۔جی ہاں خادم حسین رضوی کی انٹری کے بعد ،جنہیں اب امیر المجاہدین کا خطاب بھی بریلوی مکتب فکر والے لوگ دے چکے ہیں ۔اب پورے پاکستان میں جہاں جہاں بریلوی مکتب فکر کی اکثریت ہے وہاں وہاں خادم حسین رضوی کے پوسٹرز ہیں ،جن پر لکھا ہے کہ امیر المجاہدین خادم حسین رضوی کی جانب سے پورے پاکستان کو عید میلاد النبی مبارک ہو ۔اب اللہ خیر کرے ۔سب کو یاد ہوگا کہ لاہور اور پشاور میں ضمنی انتخابات ہوئے تھے جس میں خادم حسین رضوی کی تحریک لبیک پاکستان نے اچھے خاصے ووٹ لئے تھے ،لاہور میں غالبا سات ہزار سے زائد ووٹ تھے اور پشاور میں این اے فور میں نو ہزار ووٹ تحریک لبیک کو پڑے ،حالانکہ پشاور میں بریلوی ووٹ کچھ زیادہ نہیں ہے ۔پشاور اور لاہور کے ضمنی انتخابات میں تحریک لبیک نے جماعت اسلامی سے بھی بہت زیادہ ووٹ پڑے ۔جماعت اسلامی ایک قدیم جماعت ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سب سے منظم جماعت ،لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ جماعت آہستہ آہستہ اپنی موت آپ مررہی ہے ۔فیض آباد دھڑنے کے بعد جو سب سے بڑا کام ہوا ہے وہ یہ کہ بریلوی لیڈرشپ کراچی سے پنجاب شفٹ ہو گئی ہے۔اور یہی اس دھڑنے کا سب سے بڑا مقصد بھی ہوسکتا تھا ۔اب دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں پورے پاکستان میں ممتاز قادری کے پوسٹرز ہوں گے ،تحریک لبیک ہوگی اور خادم حسین رضوی کی تقاریر ہوں گی ۔ممتاز قادری کے نام پر ووٹ پڑیں گے ۔اس لئے ماہرین سیاست کا کہنا ہے کہ پنجاب میں تحریک لبیک سرپرائز دے سکتی ہے ۔کراچی میں تحریک لبیک دیوبندی مذہبی جماعتوں ،جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کو ٹف ٹائم دے گی اور پنجاب میں مسلم لیگ ن اور جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی وغیرہ کے لئے بہت بڑا چیلنج بن سکتی ہے ،اس کے علاوہ پنجاب میں بریلوی و دیوبندی کشمکش کا بھی آغاز ہوسکتا ہے ۔ادھر سے ary کو انٹرویو دیتے ہوئے سابق صدر اور آمر پرویز مشرف نے کہا ہے کہ وہ روشن خیال اور لبرل ضرور ہیں ،لیکن مذہبی جماعتوں کے خلاف نہیں ہیں ،کہتے ہیں کہ وہ لشکر طیبہ کے سب سے بڑے مداح ہیں ،کئی مرتبہ حافظ سعید صاحب سے ملے ہیں ،پرویز مشرف کے مطابق لشکر طیبہ بہت بڑی طاقت ہے ۔انہوں نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ دو ہزار اٹھ کے ممبئی حملوں میں لشکر طیبہ ملوث نہیں تھی ۔ان کے مطابق جس طرح حافظ سعید کی رہائی پر امریکہ نے احتجاج کیا ہے یہ پاکستان کے اقتدار اعلی کی توہین ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ یہ ہم جن کو چاہیں اندر رکھیں جن کو چاہیں باہر رکھیں ،یہ ہماری مرضی ہے ۔جمہوریت کے حوالے سے روشن خیال پرویز مشرف فرماتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہے ،پاکستانی جمہوریت میں چیک اینڈ بیلنس ایسا ہو کہ جس میں فوج کا کردار بھی ہونا چاہیئے ۔یہ کیا موقف ہے ،اس پر میں بھی سوچتا ہوں ،آپ بھی سوچیں ،اس موقف کو دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات کے نقشے میں سمجھنے کی کوشش کریں ۔فیض آباد دھڑنے کے بعد ہر کسی کا موقف آنا شروع ہوگیا ہے ۔اس لئے اس دھڑنے کی وجہ سے الیکشن دو ہزار اٹھارہ میں گہرے اثرات پڑ سکتے ہیں ۔لاہور کو مسلم لیگ ن کا گڑھ کہا جاتا ہے ،فیض آباد دھڑنے کے بعد کیا صورتحال بدل سکتی ہے ،اسی طرح باقی پنجاب بھی بھی فیض آباد کے جھٹکے دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں محسوس کئے جاسکتے ہیں ۔تحریک لبیک نے طاقت کی دھاک تو بٹھادی ،اب سوال یہ کہ کیا بریلوی ووٹ سیٹوں میں تبدیل ہوتا ہے یا نہیں ؟یہ بھی ممکن ہے کہ پنجاب اور کراچی میں تحریک لبیک پاکستان اور تحریک انصاف اتحادی کا روپ دھاڑ کر الیکشن میں ھصہ لیں ۔کیونکہ فیض آباد دھڑنے کا مقصد تو سیاسی تھا ۔بریلوی ووٹ روایتی طور پر انگریز دور سے ہے ،دیوبندی ووٹ کی بنیاد ضیا ٗ دوڑ میں پڑی ،اس کی جڑیں بھی زیادہ دور میں ڈالی گئین ،ایک بات تو واضح ہے بریلوی ووٹ پاکستان میں اکثریت ہیں ہے ،اوپر سے رضوی صاحب بھی ہیں ،کھوئی ہوئی اکثریت کہیں وآپس تو نہیں آنے والی ؟کہا جارہا ہے کہ کراچی کے کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں تحریک لبیک جیت سکتی ہے ۔اب تو تحریک لبیک اور خادم حسین رضوی اہم کھلاڑی اور اسٹیک ہولڈر بنا دیئے گئے ہیں ۔اس لئے دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات کو ماضی کے انتخابات کی طرح نہ سمجھا جائے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔