ہر شہری ڈیڑھ لاکھ کا مقروض ہے، گردشی قرضے ہیں کہ بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں اور ڈیم بنانے کے پیسے نہیں ہیں، مگر فوج کے سائز اور دفاعی بجٹ میں کمی کرنے کا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں، البتہ پہلے سے مقروض بلڈی سولینز پر بجلی گیس کے بلوں کا مزید بوجھ ضرور ڈالنے کا سوچا جا سکتا ہے۔ اس مختصر سی بات میں در اصل پاکستان کی بہتر سالہ تاریخ چھپی۔ سب روزِ روشن کیطرح عیاں ہے کہ کون ہے جو ہماری روایتی جمہوری قیادتوں کے لیے جمہور سے زیادہ عزیز ہے۔ ہر آنے والی حکومت کے پاس ایک ہی جواز ہوتا ہے کہ پچھلی حکومت لوٹ کر لے گئی، خزانہ خالی تھا لہذا قیمتوں میں اضافہ نا گزیر تھا۔یعنی مجال ہے کبھی کسی جمہوری حکومت کو یہ بارہا دوہرایا جانے والہ جملہ دوہراتے شرم محسوس ہوئی ہو۔ اسد عمر گزشتہ پانچ برس یہی کہہ کر نواز حکومت کو کرپٹ اور نا اہل ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ بجلی گیس مہنگی کر کے عوام پر بوجھ ڈالنے کی بجائے حکومت لائن لاسز کیوں کنٹرول نہیں کرتی؟ گیس بجلی کی چوری کیوں نہیں روکتی؟ اور حکومت ملتے ہی سب سے پہلا کام یہ کیا کہ بجلی گیس کی قیمتوں میں اضافے کا منصوبہ پیش کر دیا۔ اس پر تحریکِ انصاف کی یوتھ جو قطعی طور پر شعوری فکری دیوالیہ پن کا شکار ہے، اسکی طرف سے قیادت کی اس نا اہلی کے دفاع میں جو دلیل سامنے آتی ہے وہ یہ کہ’’لوگ چولھےجلتے چھوڑ دیتے تھے اس لیے حکومت نے گیس مہنگی کی‘‘۔قربان جائیے اس ضائع نسل پر کہ ہم جیالوں متوالوں کے غلامانہ رویوں سے تنگ تھے مگریہ انکے بھی باپ نکلے۔
جب دو ہزار تیرہ کے بعد نواز لیگ آئی تو یہی کہا گیا کہ پیپلز پارٹی لوٹ کر کھا گئی ،گردشی قرضوں کا پہاڑ ہمارے لیے چھوڑ گئی۔ اس پہاڑ کو ختم کرنے کے لیے بے دریغ خسارے کی سرمایہ کاری کی گئی(نوٹ چھاپے گئے) نتیجے میں افراط زر قابو سے باہر ہوا اور اشیائے خوردو نوش کی قیمتیں آسمان پر پہنچ گئیں۔ ٹماٹر جیسی عام سبزی بھی ایک سو بیس ایک اسی تک جانے لگی۔ جب جب میڈیا پر تھوڑا شور مچتا تو انڈیا سے آلو ٹماٹر پیاز درامد کر کے قیمتیں کم کی جاتیں۔ تمام وقت سرمایہ دار کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاھی میں رہا۔اب کیا ہوا؟ ذہین ترین وزیر خزانہ نے بجلی گیس کے بلوں میں اضافہ کر دیا اور یہ نہیں سوچا کہ یہ بنیادی ترین سہولیات ہیں،ان کی قیمتوں میں اضافے سے غریب اور متوسط طبقات براہ راست متاثر ہونگے۔ اور اب مزیدکیا ہونے جا رہا ہے؟ اب لگتا ہے کہ جہانگیر ترین جیسے لوگ گھی سوئمنگ پولز میں ڈُبکیاں لگائیں گے۔ اور عوام ہمیشہ کی طرح چھتر مارنے والی نفری میں اضافے کامطالبہ کرتے نظر آئے گی۔
ماضی اور میڈیا کی بات کروں تو پیپلز پارٹی کی حکومت کو تو میڈیا سے زیرو سپورٹ حاصل تھی ۔مگر نواز لیگ کیپاس جیو تھا لیکن، اب؟ اب تمام حوالدار اینکرز اور میڈیا ہاؤسز اس وقت تک خاموش رہیں گےجب تک پنڈی سے حکم نہیں آ جائے گا۔ ایک سکرپٹ ہے جو بہتر سال سے دوہرایا جا رہا ہے اور پاکستانی عوام دولے شاہ کے چوہوں کیطرح اسی کا شکار ہوتی چلی آ رہی ہے۔ کسی نے سوال نہیں اٹھایا کہ جناب آپ اٹھارہ کروڑ عوام کو مشکل میں ڈالنے کی بجائے پینتیس لاکھ پینشنرز والے بوجھ پر غور کریں، دفاعی بجٹ پر غور کریں۔ جدید دنیا میں ایٹمی ریاستوں میں جنگیں فوج کی تعداد سے نہیں لڑی جاتیں۔اگر آپ سولینز پر بوجھ ڈالنے کیساتھ کچھ قربانی ان سے بھی مانگ لیں تو کوئی قیامت نہیں آئے گی۔ آخر کو حب الوطنی کے سرٹفکیٹ بھی تو سب سے زیادہ وہیں سے جاری ہوتے ہیں۔ ایک گھسا پٹہ جملہ بھی آدھے حوالدار آدھے جمہوریت پسندوں سے ہمیشہ ہی سننے کو ملتا رہا کہ’’اگر قیادت ایماندار ہو تو کسی جرنیل کی مجال نہیں کہ اسکی بات نہ مانے‘‘۔ لو جی سپریم کورٹ کی تصدیق شدہ صادق و امین قیادت ہم پر مسلط ہو گئی، اب انھیں کہیں کہ کوئی ایک مردوں والا فیصلہ کر کے دکھا دیں؟ بڑا شور مچاتے تھے شاہ خرچیوں پر گورنر ہاؤس ، وزیر اعظم ہاؤس کا پارک بنا دیں گے ، یونیورسٹی بنا دیں گے۔او بھائی یہ کوئی کام نہیں مرد کے بچے ہو تو جا کر جرنلوں کے لیے بنائے گئے شاہانہ گولف کورسسز ختم کرو۔ تمام شہروں میں بلا تفریق تما م پرائم لوکیشنز فوج کیپاس ہیں۔ چھاؤنیاں شہروں کی وسط میں آ چکنے کے باوجود جوں کی توں موجود ہیں،قبضہ گروپوں اورحضرت ڈی ایچ اے سرکار نے دیہات کوہاؤسنگ سوسائٹیز میں تبدیل کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ہمت ہے تو شہروں سے فوجی چھاؤنیاں نکالو دیکھو کتنی مہنگی زمین فروخت ہوتی ہے وہ؟ کہتے ہیں پچاس لاکھ گھر بنائیں گے۔ حجور پچااس لاکھ گھر کہاں بنائیں گے؟ کس بڑےشہر میں اتنی سرکاری زمین بچی ہے؟اورزرعی زمینوں کو ہاؤسنگ سوسائٹیز میں تبدیل کرنے کے بعد کھائیں گے کیا؟ او بھائی خدا کا خوف کرو اور فلیٹ سسٹم کو عام کرو۔ باقی یہاں ایسا کوئی کال نہیں پڑا کہ پچاس لاکھ متوسط گھرانے جھگیوں میں رہ رہے ہوں۔ رہی بات جھگی والوں کی توانھیں اگر گھر مل بھی جائے گا تو وہ جھگیوں میں ہی رہنا ہی پسند کریں گے ۔انکا فلسفہ آپکی تہذیبوں سے آگے کا فلسفہ ہے۔
خیر گیس بجلی کی قیمتوں میں بڑھوتری کا خوف تو ممکن ہے کچھ دن اب ٹل ہی جائے کہ جو دھول، شور اور مزاح عمران خان کیطرف سے ڈیم فنڈ میں اوورسیز پاکستانیوں سے ہزار ڈالر جمع کروانے پر کے مطالبے پر مچا ہے اسکی تاریخ میں شاید ہی کوئی دوسری مثال موجود ہو۔تمام سوشل میڈیا گیس بجلی کی قیمتیں بھول کرڈیم وزیراعظم پاکستان کا مزاق بنا رہا ہے۔ اور مزاق کیوں نہ بنتا؟ آپ الیکشن سے پہلے دعوے کرتے تھے کہ ہمارے پاس ذہین اسد عمر ہے، قابل ترین معاشی ماہرین کی ٹیم ہے، ٹیم کے ایک ممبر کو تو آپ نے دوسرے دن ہی قادیانی ہونی کی بنیاد پر فارغ کر دیا (اور یہ بھی کیا زخم لگا ہے پاکستان کے سینے پر کہ جسکا داغ شاید کبھی نہ دھل سکے۔ اس سے زیادہ جگ ہنسائی کسی ریاست کی ہو نہیں سکتی جتنی عمران خان کے عاطف میاں کے یو ٹرن پر ہوئی، مکمل سنجیدگی سے کہتا ہوں کہ اس فیصلے کے بعد پاکستان کو اپنے نام سے جمہوریہ ختم کر دینا چاہیے) ہمارے پاس معاشی پالیسی ہے۔ بھائی صاحب کہاں گئی آپکی معاشی پالیسی؟ کیا پردیسیوں سے چندہ مانگنے کو معاشی پالیسی کہتے ہیں؟ آپکو ڈیم بنانا ہے آپ ہمالیہ سے سے اونچے دوست چین سے بات کرتے کہ جسکی دوستی کے قصیدے پڑھتے پڑھتے ہمارے حلق خشک ہو چکے ہیں،چین ترقی روس ایران کی مدد سے کوئی معاشی بلاک بنا کر یہ پیسہ پورا کرنے کی کوشش کرتے۔ اور اگر اپنے شہریوں یا اوورسیز پاکستانیوں ہی کی رقوم مطلوب تھیں (جسکی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی) تو بیرون ملک مقیم محنت کش پاکستانیوں سے ہزار ڈالر چندہ مانگنے کی بجائے آپ انھیں اس میں شئیر آفر کرتے ، یا پھر اسکے بدلے کوئی اور انسینٹو دیتے۔ اس سے بیرون ملک مقیم پاکستانی بزنس کمیونٹی بھی آپکی طرف متوجہ ہوتی اور پھر شاید ڈیم کی لاگت کا وہ پہاڑ ممکن ہو پاتا جوآپ محض چندے کی بنیاد پر سوچے بیٹھے ہیں۔
دو دن سے جو تماشہ سوشل میڈیا پر لگا دیکھا اور پڑھا اسکے بعد اچھی بات یہی لکھ سکتا ہوں کہ ’’ ڈیم بنے نہ بنے قوم نے ہس رج کے لیا اے، شکریہ عمران خان۔باقی دُکھ اور مایوسی کی ان گھڑیوں میں آپ لوگوں کے ہنسنے کے لیے برادر تنویر افضل کے دو طنز و مزاح سے بھرپور دو پنجابی جملے بھی پیش خدمت ہیں’’ڈیم وسیا نہیں تے چوکیدار پہلوں ہی آگئے‘‘ اور ’’ کیا بھلے وقت تھے جب اس قسم کا ڈیم فوٹو شاپ پر دو گھنٹے کی مار ہوا کرتا تھا‘‘۔ اسطرح کے طنز و مزاح سے بھرپور جملوں سے پاکستان کا سوشل میڈیا بھرا پڑا تھا ۔ سو عمران خان کے یوٹرن اور ریاست کے بنیادپرست ثابت ہونے پر جتنی بھی ڈپریشن تھی وہ سب بھول گئی اور پورے پاکستانی سوشل میڈیا کیطرح میں بھی بس یہی انجوائے کرتا رہا۔ البتہ اپنی سیف سائڈ کے لیے اتنا ضرور لکھ دیا کہ ’’ویسے جے اینھاں(تحریک انصاف نے) منگ پن کے ڈیم بنا لیا تے جیالیاں متوالیاں دا تے انھاں جینا حرام کر دینا اے!
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...