وزرا کی اکھاڑ پچھاڑ کے عجلتی فیصلے نے تحریک انصاف کی آٹھ ماہ کی حکومت کے زوال کے آغاز کا ایک بڑا اظہار کیا ہے۔ محنت کش عوام کے سامنے یہ بات مزید کھل کر سامنے آئی ہے کہ ابھی اور برے وقت آنے والے ہیں۔
یہ وزرا کی نااہلی نہیں جو ان تبدیلیوں کا باعث بنی جیسا کہ عمران خان حکومت اسے پیش کر رہی ہے۔ بلکہ مہنگائی اور نجکاری کے نیو لبرل ایجنڈے پر جس تیزی سے عمل درآمد کرانے کی ضرورت سامراجی ادارے اور حکمران طبقہ محسوس کر رہا تھا وہ رفتار پکڑنے میں ناکامی ہے۔
یہ تحریک انصاف پر اسٹیبلشمنٹ اور ابھرتے سرمایہ دارطبقات کے مزید کنٹرول کا اظہار ہے۔ آئی ایم ایف جیسے سامراجی مالیاتی اداروں کو خوش کرنے کے لئے یہ قدم اٹھایا گیا ہے جس کے بعد سرکاری اداروں کی نجکاری کو تیز تر کیا جائے گا۔
یہ عمل غیر منتخب افراد کو ’منتخب‘ لوگوں پر ترجیح دئیے جانے کی غمازی کرتا ہے اور معاشرے اور ریاست میں ملیٹرائزیشن کے بڑھتے ہوئے اثرات کو سامنے لاتا ہے۔ سب سے بڑھ کے یہ عمران خان کی قیادت کے دیوالیہ پن کو واضح کرتا ہے۔ یہ اس کی سیاسی و معاشی بڑھک بازی اور بڑے دعووں کی کھلی نفی ہے۔ ’’اچھا ہوا کہ ہمیں 2013ء میں اقتدار نہ ملا… اب ہماری بھرپور تیاری ہے‘‘ جیسے عمرانی دعووں کی دھجیاں بکھیرتی ’تبدیلی‘ سب کو نظر آ رہی ہے۔
اس قدم کے بعد تحریک انصاف اپنی ماضی کی سیاسی حکمت عملی کے برعکس دفاعی پوزیشن اختیار کرتی نظر آ رہی ہے۔ یہ قدم سیاسی شعبدہ بازی بھی نہ بن سکا اور اسے سوشل و کمرشل میڈیا پر جس قدر تنقید اور ٹھٹھے کا سامنا ہوا اس کی مثال تحریک انصاف کی 23 سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ ہر طرف تحریک انصاف کے رہنماؤں کے ماضی کے نامعقول فرمودات کو پیش کر کے انہیں تمسخر کانشانہ بنایا جا رہا ہے۔
حفیظ شیخ کو ’مشیر خزانہ‘ کا پرفریب عہدہ دے کر اسے درحقیقت مکمل وزیر خزانہ بنایا گیا ہے اور دہشت گردوں کی پشت پناہی کے سنگین الزامات کا سامنا کرنے والے انٹیلی جنس ادارے کے سابق سربراہ اعجاز شاہ کو وزارت داخلہ دے کے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی گئی ہے۔ انفارمیشن کے وفاقی وزیر فواد چوہدری کو ہٹا کر عام انتخابات میں شکست سے دوچار ہونے والی فردوس عاشق اعوان کی تعیناتی اس بات کا اظہار ہے کہ تحریک انصاف کے پاس کس قدر خراب مواد ہے جس پر اسے انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔
حفیظ شیخ کی تعیناتی سے پیپلز پارٹی کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ ان کے دور کے وزیر خزانہ کی واپسی کا مطلب ان کی معاشی پالیسیوں کو درست تسلیم کرنا ہے۔ لیکن جو بات پیپلز پارٹی نہیں کہہ رہی وہ یہ کہ حفیظ شیخ نہ اس وقت پیپلز پارٹی کی مرضی سے آۓ تھے اور نہ اب تحریک انصاف کی چوائس تھے۔ وہ اس وقت بھی نازل کیے گئے تھے اور اب بھی۔ حفیظ شیخ نےجو حشر پیپلز پارٹی حکومت کا کیا تھا وہی وہ اب اس حکومت کا کریں گے۔
حفیظ شیخ عالمی مالیاتی اداروں کےاپنے بندے ہیں، فوجی اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جاتے ہیں اور کسی کے سیاسی کنٹرول میں نہیں ہیں۔ وہ براہ راست انہی کو جوابدہ ہیں جو انہیں لے کر آۓ ہیں اور یہی ان کی خوبی ہے جس کی وجہ سے وہ بار بار ایسی حکومتوں کے دور میں واپس اہم عہدوں پر آ جاتے ہیں جو غیر جمہوری قوتوں کی مدد سے اقتدار میں آتی ہیں یا پھر براہ راست فوجی دور میں جیسا کہ وہ مشرف آمریت کے دور میں وزارت نجکاری پر فائز تھے۔
ہمارے اندازے کے مطابق حفیظ شیخ نے مشرف آمریت کے دور میں نج کاری کے عمل کے دوران ریاست کو کم از کم 23 ارب ڈالر کا گھاٹا ڈالا تھا۔ اسے اب ان کی خوبی قرار دیا جا رہا ہے۔ وہ ریاستی اداروں کی لوٹ سیل میں جو ہنر رکھتے ہیں اسے اب نج کاری کے نئے وزیر محمد میاں سومرو، جو گھاگ سرمایہ دار سیاست دان ہیں، کے ساتھ مل کر خوب آزمائیں گے۔محمد میاں سومرو مشرف آمریت کے دور میں 2003ء سے 2009ء تک چھ سال سینیٹ کے چیئرمین رہے۔وہ قائم مقام وزیر اعظم اور صدر بھی رہ چکے ہیں۔
حفیظ شیخ نے مشرف آمریت کے دور میں بطور وزیر نج کاری اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں 12 نومبر 2007ء کو بتایاتھا کہ انہوں نے 417 ارب روپے کی نجکاری کر کے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ یہ اُس وقت تقریباً 6.41 ارب ڈالر کے برابر بنتے تھے۔اُن کا کہنا تھا کہ نواز شریف اور بے نظیر کی سویلین حکومتوں نے 1991ء سے 1999ء تک صرف 57 ارب روپے کی نج کاری کی تھی جو اس وقت صرف 870 ملین ڈالر کے برابر تھی۔
حفیظ شیخ یہی واردات دہرانے کے لئے واپس آئے ہیں۔ اس وقت اس نے اونے پونے داموں پی ٹی سی ایل کو بیچا، حبیب اور یونائٹیڈ بینک سمیت دیگر کئی اداروں کو سرمایہ داروں کے حوالے کیا۔ کھاد فیکٹریاں اونے ہونے داموں فوجی اداروں سمیت دیگر سرمایہ دار گروہوں کے حوالے کیں۔ کراچی الیکٹرک کو بیچنے کا خمیازہ آج بھی کراچی کے عوام بھگت رہے ہیں۔ اسی دور میں پاکستان سٹیل کو بیچنے کی ناکام کوشش بھی کی گئی تھی۔
نئے وزرا سے تحریک انصاف اپنے عوام دشمن نیو لبرل ایجنڈے کو تیزی سے پورا کرنے کی کوشش کرے گی۔ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے میں عجلت ان کی تمام تر سخت شرائط کو بلا چوں چرا ماننے کے لئے حفیظ شیخ جیسے نیو لبرلسٹ کو لایا گیا ہے۔ نئے ٹیکسوں اور دیگر اقدامات سے عوام پر مہنگائی کا مزید بوجھ ڈالا جائے گا۔بجلی، گیس، تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ سب مہنگے ہوں گے۔
سرمایہ دار بحرانی ادوار میں بھی گھاٹے میں نہیں جاتے۔ اس نظام میں عوام ہی گھاٹوں کا شکار ہوتے ہیں۔ حفیظ شیخ اینڈ کمپنی کو اب عوام کو اس بحرانی دور میں مزید غریب کرنے کے نئے طریقے ڈھونڈنے کے لئے لایا گیا ہے۔ جو ادارے نہیں بکے ان کو بیچنے کی کوشش کی جائے گی۔ سٹیٹ لائف سر فہرست ہے۔
مگر تحریک انصاف جو سوچتی ہے وہ کر نہ سکے گی۔ یہ سب کرنے کے لئے جس جبر کی ضرورت ہے اس کے لئے اعجاز شاہ کو لایا گیا ہے۔ وہ ابھی سے سڑکوں پر احتجاج کو کچلنےکی بات کر رہا ہے۔ مگر تحریک انصاف کے خلاف ابھی زیادہ تر ردعمل سوشل میڈیا پر شروع ہوا ہے۔ سڑکوں پر نہیں۔ مگر شاید یہ وقت بھی اب آنے والا ہے۔تحریک انصاف کی سیاسی، معاشی اور سماجی جبر میں عجلتیں اسے ایک بڑی عوامی تحریک کا سامنا کرا سکتی ہیں۔ ایسا مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی وغیرہ کی قیادت کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے باوجود ہو گا۔
پبلک سیکٹر کے محنت کش سب سے پہلے زینہ جدوجہد پر قدم رکھیں گے۔ یوٹیلٹی سٹورز کے محنت کشوں نے اپنے ادارے کی نج کاری کے خلاف جو تاریخی دھرنا دیا وہ دوبارہ دہرایا جا سکتا ہے۔
سب کچھ حکمرانوں کی مرضی و منشا سے نہیں ہوتا۔ جو وہ سوچتے ہیں اور اس کے لئے جو حکمت عملی اختیار کرتے ہیں اکثر اوقات انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ دوسرے عوامل اس میں مداخلت کر دیتے ہیں۔
یہ بات طےہے کہ تحریک انصاف کے زوال کا آغاز ایک دھماکہ خیز انداز میں ان کے اپنے اقدامات سے ہوا ہے۔ ان کی اس دلیل کو کسی نے نہیں مانا کہ عمران خان کے وزرا بدعنوانی پر نہیں‘ نااہلی پر نکالے گئے ہیں۔ اہم یہ کہ عمران کی نام نہاد عقل مندانہ، جرات مندانہ، کسی کو خاطر میں نہ لانے والی قیادت بے نقاب ہوئی ہے۔ وہ شروع سے آمریت کے ساتھ مل کر کام کرنے کے عادی تھے۔ ان کے مشوروں پر چلتے تھے۔ انہیں ایک باضابطہ منصوبہ بندی سےلایا گیا تھا۔ وہ منتخب نہیں ہوئے تھے انہیں منتخب کرایا گیا تھا۔ یہ عمل اب بھی جاری ہے۔ ایسے سیاست دان آتے اور جاتے رہتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جو استعمال ہوتے ہیں۔
وزرا کی یہ تبدیلیاں عمران خان کے لئے کافی بھاری رہیں گی۔
“