پاکستان دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں کی سرزمین بھی ہے اور ہزاروں برس پرانی اورتاریخی آثار و باقیات کاامین بھی۔موئن جو دڑو، ٹیکسلا، ہڑپہ سے دنیاآشنا ہےلیکن رحیم یار خان میں واقع پتن منارہ مورخین کی نظر میں دریائے ہاکڑہ کی زندہ اور درخشندہ نشانی ضرور ہے،اور دریائے ہاکڑہ کے بہاءو کےوقت اہم تجارتی مرکز بھی رہا۔ایسا ہی ایک پتن منارہ راجستھان میں بھی تھا اور دونوں طرف پتن مناروں پر روشنیوں کاایسا اہتمام کیاگیاتھاکہ رات کے وقت بھی تجارت کیلئے آنے جانے والے بحری جہاز اپنا سفربآسانی کرتے نظرآتے تھے۔دریائے ہاکڑہ تو خداجانے کہاں چلاگیالیکن ہاکڑہ تہذیب کے قدیم آثار اب بھی روہی چولستان میں دیکھے جاسکتے ہیں ۔ایک یہ نئی تحقیق بھی حال ہی میں سامنے آئی ہے کہ موئن جو دڑو، ہڑپہ اور ٹیکسلا سے کہیں زیادہ قدیم یہ ہاکڑہ تہذیب ہے، جس کے آثا ر پتن منارہ کے قرب و جوار میں بآسانی دریافت کئے جاسکتے ہیں ۔لیکن اس کیلئے ٹھوس بنیادوں پر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔محض اعلانات سےمنزل تک رسائی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ہمارا المیہ تویہ ہے کہ ہزاروں سال قدیم روہی چولستان کی تاریخ پر بھی بہت کم کام ہواہے۔اور دکھ کی بات یہ بھی ہے کہ اس کوتاہی کاہمیں کوئی احساس تک نہیں ہے۔خوش آئند بات یہ ہے کہ روہی کے معروف شاعر، ادیب اوردانشور سیدعارف معین بلے نے اجتماعی کوتاہیوں کےازالے کیلئے ایک ضخیم کتاب ۔روہی کے خدو خال۔ مرتب کی ہے۔اس سے پہلے روہی چولستان پر کوئی تحقیقی کام نہیں ہوااورجوہواہے، وہ اس پائے کانہیں ہے۔روہی کے خدوخال ایک ایسی کتاب ہے جو اس دھرتی کے سپوت ہی نے ترتیب دی ہے۔ لیکن یہ بات آپ کیلئے حیران کن ہو سکتی ہےکیونکہ آپ تو جانتے ہیں کہ سیدعارف معین بلے عظیم روحانی بزرگ خواجہ ء خواجگاں ،سلطان الہند حضرت معین الدین چشتی سنجری اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے خاندان کے سپوت ہیں۔اگر یہ سچ ہے تو یہ روہی چولستان کے فرزند کیسے ہوسکتے ہیں؟ جی ہاں ، میں یہی بتانا چاہتاہوں کہ ان دونوں سچائیوں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ اس لئے کہ خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ قریباً آٹھ سو سال پہلے ہجرت کرکے متحدہ ہندوستان کے شہراجمیر ہی میں آکر بسے تھے اوراجمیر شریف کہیں اور نہیں راجستھان ہی میں ہے۔اورروہی چولستان اور راجستھان میں کوئی فرق نہیں ہے۔بٹوارے کے بعد یہ خطہ دوٹکڑوں میں بٹ گیا تھا۔ ایک کو لوگ روہی چولستان اوردوسرے حصے کو راجستھان کہتے ہیں۔یہ بات یوں بھی کہی جاسکتی ہے کہ خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ چولستانی بھی ہیں اور راجستھانی بھی اوران کے خاندان کے سپوت سید عارف معین بلے بھی روہیلے ہیں ۔ چولستانی ہیں اور راجستھانی بھی۔انہوں نے روہی کے خد و خال کےزیرعنوان بڑی خوبصورت کتاب مرتب کی ہے۔ یہ کتاب کیوں مدون کی؟ اس کاجوب تو آپ کو سیدعارف معین بلے کے دیباچے یاپیش لفظ ہی میں مل سکتا ہے، جسے انہوں نے آپس کی بات کاعنوان دیاہے اور روہی کے خدوخال کے ابتدائی صفحات کی زینت بھی بنایاہے۔یہاں آپس کی بات آپ کے سامنے لانے سے پہلے یہ بتانا غیر ضروری معلوم نہیں ہوتاکہ اس کتاب روہی کے خدوخال کاانتساب بھی مولف نے اپنے والد ِ بزرگوار صاحب ِ طرز شاعر، ادیب، دانشور اور اسکالر سید فخرالدین بلے کے نام یہ لکھ کرکیاہے کہ مجھے روہی کی محبت بھی ان سے ورثے میں ملی۔اب آپ ملاحظہ فرمائیے،آپس کی بات جو سیدعارف معین بلے نےاپنی کتاب روہی کے خدوخال میں کی ہے
[ادارہ]
تحقیقی کتاب۔ روہی کے خدوخال میں۔ آپس کی بات۔
دیباچہ نگار: سیدعارف معین بلے
روہی ریت کا سمندر ہے اور سمندر میں ہاکڑہ تہذیب کے قدیم آثار، ہماری گم گشتہ ثقافت کے اَن گنت شاہکار، تاریخ کے اہم نقش ونگار اور مختلف ادوار کے کہنہ مینار ڈوب کر ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئے ہیں۔ ہم اپنی عظیم تہذیب اور قدیم ثقافت کے گرں قدر اثاثے سے محروم ہیں ۔ یہ ایک المیہ ہے اور دوسرابڑا المیہ یہ ہے کہ ہم نے ریت کے سمندر روہی میں غواصی کر کے اس سرمایے کا سراغ لگانے کی کوشش ہی نہیں کی ۔سمندر میں تلاش کرنے سے ٹائی ٹینک کا ملبہ اور عالم ِہست وبود میں ڈھونڈنے سے خدا مل سکتا ہے تو روہی کی عظمت ِ رفتہ اور شوکت ِ گُم گشتہ کا حصول بھی ناممکنات میں سے نہیں ۔ ریت کی طرح ہماری مٹھی سے قیمتی اثاثہ نکلتا رہا اور ہم خاموشی کے ساتھ یہ تماشادیکھتے رہے ۔اپنی بے عملی کو قناعت پسندی ،کوتاہی کو سادگی ،مجرمانہ غفلت کو معصومیت اور محرومیوں کو ثقافت کا نام دے کر مختلف ادوار کے حکمرانوں کو مطعون اور سیاستدانوں کو ملعون کرنے سے ہم وقتی طور پر خود کو بری الذمہ تو قرار دے سکتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کرنے سے تاریخی،تہذیبی،سماجی اور ثقافتی اعتبار سے جو خسارہ ہم نے اٹھایا ہے اس کی کوئی تلافی ممکن ہے؟
جو اجتماعی جرم ہم سے سرزد ہوئے ہیں، ان کی کوئی معافی ممکن ہے ؟
یہ سوالات اہم بھی ہیں اور غور طلب بھی۔
تاریخ کسی بھی قوم یا ملک کی ہو،عروج وزوال کی داستانوں سے بھری پڑی ہے ۔ایک دور تھا کہ برطانوی دائرہ ءسلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا اور اب یہ حال ہے کہ کئی کئی روز وہاں سورج طلوع نہیں ہوتا ۔روہی کسی دور میں سرسبزوشاداب تھی، اور اب میلوں تک ریت کے ٹیلوں کے سِوا کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔ جنوبی ایشیا میں زرعی پیداوار کی ابتداء بھی اسی خطے سے ہوئی لیکن اب یہ عالم ہے کہ روہی میں بھوک اُگتی ہے اور پیاس بہتی ہے۔ کربلا کے بعد کسی خطے نے پیاس کے حوالے سے کوئی نام کمایا ہے تو وہ روہی ہے ۔یہ دنیا کا شاید واحد خطہ ہے ،جہاں بارش کے پانی پر انسانوں اور جانوروں کی زندگی کا انحصار ہے ۔ ابرِ رحمت ٹوٹ کر برس جائے تو ٹوبھے بھر جاتے ہیں ۔ انسان اور جانور اس اکیسویں صدی میں بھی ایک گھاٹ پر پانی پیتے نظر آتے ہیں ۔ یہ روہی کا امتیاز اور قوم کے حکمت سازوں کا اعجاز ہے کہ ان حوالوں سے اصلاح احوال کے لیے سوچا تک نہ گیا ۔ اس لیے ٹوبھے خشک ہوتے ہی انسانوں اور جانوروں کی نقل مکانی شروع ہو جاتی ہے اور وقت سے پہلے روہیلوں کی شام ” طلوع” ہوجاتی ہے ۔ بارش کی امید میں خانہ بدوش رختِ سفر اور عزم ِسفر باندھ لینے کے باوجود توقف کرتے ہیں۔ وہ ذہنی طور پر روہی کو خیرباد کہنے کو تیار نہیں ہوتے اور اس طرح وہ خود نڈھال اور ان کے مال مویشی بے حال ہو جاتے ہیں۔قحط سالی موت کی پیامبر ثابت ہوتی ہے اور پھر دشت ِ بیکراں میں جانوروں کے ڈھانچے جا بجا بکھرے نظر آتے ہیں ۔موت کے سائے روہیلوں کے سروں پر منڈلاتے ہیں۔قیامت سے پہلے قیامت کے دلدوز مناظر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ کہانی قریباً ہر سال دہرائی جاتی ہے۔گرمیاں شروع ہوتے ہی قحط اور موت کی سرگرمیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ یہ قیامت ہر سال آتی ہے لیکن مستقل بنیادوں پر اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے کوئی حکمت عملی تشکیل نہیں دی گئی۔وعدے بہت سے ہیں،دعووں کی بھی کمی نہیں لیکن اس سال بھی یہی کچھ ہوگا،ان اندیشوں اور دھڑکوں کو بھی کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ خدشات محض اس لئے ہیں کہ ہم نے پانی نہیں،اپنے دریا تک بیچ دیئے ہیں۔گزرے وقتوں کے حکمرانوں کی بداعمالیوں ہی کا نتیجہ ہوگا کہ دریائے ہاکڑہ ہم سے روٹھ گیا۔ان حالات میں بھی اگر ہم نے اپنےدریا بیچتے وقت آنے والے کل کا خیال نہیں کیا۔
اور حکمرانوں کے ان بھیناک فیصلوں پر قوم نے ان سے کوئی سوال نہیں کیا
تو آج اگر روہی میں بھوک اُگ رہی ہے اور پیاس کے سمندر بہہ رہے ہیں تو افسوس کیسا؟ اور ماتم کس بات کا؟ جو بویا تھا،وہی کاٹنا ہے ۔ پیاس کے بوٹے لگائے ہیں اور بھوک کے بیج بوئے ہیں تو روہی سے بھوک کی کونپلیں اور پیاس کے چشمے پھوٹنے پر پشیمانی کیسی؟
اورکوئی پریشانی کیسی؟
بھارت کی روہی میں سبزہ لہلہارہاہےاور پاکستان کی روہی میں جہاں عرب کے باشندوں نے ریت کے ٹیلوں کو گل وگلزار بنادیاہے تو کیا ہمارےحکمران ان سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھ سکتے؟ ۔
بعض اہل ِ دانش معترض ہیں کہ روہی میں جہاں ترقی نظر آرہی ہے، وہاں فطری حسن مجروح ہوا ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا ترقی اور خوشحالی ضروری ہے یا فطری حسن کا تحفظ؟ فطری حسن کو برقرار رکھنے کا تقاضہ کیا ہے کہ خیر،خوشی اور خوشحالی کی راہیں مسدود کردی جائیں؟کیا ایسا کیا جاتا ہے تو خواجہ غلام فریدؒ کی دھرتی کبھی شاد اور آباد ہوسکے گی؟ فطری حسن کے تحفظ کے ساتھ بھی تو ترقی وخوشحالی کے دروَا کئے جاسکتے ہیں۔کیا فطری حسن محض آنکھوں کو ٹھنڈک بہم پہنچانے کیلئے ہوتا ہے؟ کیا محض شربتِ دیدار کی ضروریات اور معاشرتی حاجات پوری ہوسکتی ہیں؟ کیا جن اقوام کی تہذیبوں نے ارتقائی سفر طے کیا ہے؟ ان کے خطے کا فطری حسن گہنا گیا ہے؟ کیا فطری حسن کو برقرار رکھنے کی آڑ میں پسماندگی اور محرومی کو اپنا مقدر بنائے رکھنا دانشمندی ہے؟ یہ چند سوال ایسے ہیں،جن پر غور وفکر کی ضرورت ہے۔ خصوصاً روہی واسیوں کو ان حوالوں سے ضرور سوچنا چاہیے؟ محض منیر نیازی کا شعر پڑھ کر انہیں نظر انداز کردینا مناسب نہیں۔
ہم اپنی فردِ عمل کا حساب کیا دیتے؟
سوال سارے غلط تھے،جواب کیا دیتے؟
روہی کے ان گنت رنگ،ڈھنگ،انگ اور لاتعداد روپ سروپ ہیں۔روہی رنگ رنگیلڑی بھی ہے اور ڈائن بھی۔یہ جنت بھی ہے اور جہنم بھی۔ فطری حسن سے آراستہ بھی ہے اور معصومیت کے زیور سے پیراستہ بھی۔ گم گشتہ دریا کی گذرگاہ بھی ہےاور سادہ لوح روہیوں کی پناہ گاہ بھی۔مال مویشیوں کیلئے چرا گاہ بھی ہے اور غیر چولستانی “معززین” کی شکار گاہ بھی۔محض محرومیاں ہی اس کا مقدر نہیں۔پیاس ہی اس کی پہچان نہیں،بھوک ہی اس کا امتیاز نہیں۔بنیادی سہولیات اور ضروریاتِ زندگی کا فقدان ہی اس کی وجہ شہرت نہیں۔یہ تہذیبی رعنائیوں اور ثقافتی توانائیوں کی محورومرکز بھی ہےاور موئن جو دڑو،ہڑپہ اور ٹیکسلا سے کہیں قدیم آثار و باقیات کی امین بھی۔ ہرلحظہ نیا طُور،نئی برقِ تجلّی والا معاملہ ہے۔بلاشبہ ہزاروں برسوں پر محیط اور بہت سے ادوار پر بسیط تاریخ کو کسی ایک کتاب میں سمیٹا نہیں جاسکتا۔یہ احساس مجھے کتاب مرتب کرنے سے پہلے بھی تھا اور اب شدت کے ساتھ ہے۔زیرنظر کتاب میں روہی کے کچھ خدَوخال ضرور آئینہ ہوئے ہیں لیکن ابھی روہی کے ان گنت خدوخال اجاگر کرنے کیلئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ۔یہ میری نہیں ان اربابِ فکروفن اور اصحابِ علم وسخن کی اجتماعی کاوش ہے،جنہوں نے میری درخواست کو شرف ِ قبولیت بخشا اور بڑی تحقیق و تدقیق کے ساتھ روہی کے حوالے سے اپنا قلم اورمدفون یا معدوم حقائق کی دریافت کیلئے قدم اٹھایا۔میری خواہش ہی نہیں کوشش بھی رہی کہ چبےہوئے نوالےچبانے سے حتی الوسع گریز کیا جائے اور مجھے خوشی ہے کہ بیشتر ادب دوستوں نے میرا مان رکھا اور اس کتاب کیلئے اپنی تازہ اور غیر مطبوعہ کاوشوں سے نوازا۔چنانچہ ان تازہ اور رنگا رنگ پھولوں کو ایک گلدستے کی شکل دیکر آپ کی نذر کردیا گیا ہے۔اس کتاب میں جو حسن ہے،وہ دراصل ادیبوں،دانشوروں اور تخلیق کاروں کی توانائیوں کا مظہر اور ان کی فکری،تحقیقی اور تخلیقی کاوشوں کا ثمرہ ہے اور اس میں جتنی خرابیاں اور خامیاں ہیں، وہ میری لاعلمی اورکم مائیگی کی غماز اور میری کوتاہیوں کا پرتو ہیں۔ یہ میری ایک اور کوتاہی ہوگی،اگر میں ان تمام لکھاریوں کا شکریہ ادا نہ کروں،جنہوں نے روہی کے خدّوخال اجاگر کرنے میں میرا ہاتھ بٹا کر اس کتاب کو چار چاند لگادیئے۔بلاشبہ ڈاکٹر انوار احمد،ڈاکٹرنصراللہ خان ناصر،ڈاکٹرشاہد حسن رضوی،ڈاکٹر منصور احمد باجوہ، عبداللہ طارق سہیل، سید خلیل بخاری،محمداعظم خاکوانی،عبدالرب فاروقی،شاکر حسین شاکر،رضی الدین رضی،سید ضیاءالدین نعیم،مجاہد جتوئی،ظہور احمد دھریچہ،ڈاکٹرمختار عزمی،حمید الفت ملغانی،مظہر قلندرانی،پرویزصادق،حبیب الرحمان مڑل،امجد بخاری،محمد فرحان عامر،ایس صبا وحید، فاروق احمد سندھو، حکیم عبدالرحمان وصی، محسن حمید ڈار،رحیم طلب، رضا گیلانی،پروفیسر محسن بلوچ،پریتم داس بالاچ،رمیش جئے پال،مظہر سعید گوپانگ،حاجی عبداللہ جاوید،منان قدیر منان،سید محمد مستقیم نوشاہی،خالد محمود ذکی،شہباز نیر،عامر ندیم ایڈووکیٹ،مخدوم عاشق قریشی،کیپٹن {ر} عطاء محمد خاں،سید محمد قادر اور میاں اعجاز عامر سادہ اوراق میں روہی کے مختلف رنگ نہ بھرتے اور غیر مطبوعہ نگارشات کی فراہمی کا مطالبہ پورا نہ کرتے تو یہ کتاب ہی نہیں میرا خواب بھی ادھورا رہتا۔اس کرم فرمائی کیلئے میں ان کا متشگر ہوں۔میں رئیس نذیر احمد،سید خلیل بخاری،عبدالرب فاروقی،منان قدیرمنان اور فاروق شہزاد کا بھی تہہ دل سے شکرگذار ہوں ،جنہوں نے باریک بینی سے پروف ریڈنگ کا کام انجام تک پہنچایا۔خلیل الرحمان اور حافظ ندیم نے کمپوزنگ میں اپنے جوہر دکھائے۔ محمد سلیم نے طباعت کے حوالے سے قیمتی مشورے سے نوازا۔ سر ورق کی تصویر آصف شاہجہان نے تخلیق کی ۔ لطیف غوری نے بڑی محبت کے ساتھ کتاب کے عنوان کی خطاطی میں اپنا فن سمویا ۔ ایکشن ایڈ کے پروگرام کوآرڈینیٹر محسن حمید ڈار نے اس کتاب کی اشاعت کی ذمہ داری قبول کر کے میرے دیرینہ خواب کی تکمیل کا سامان بہم پہنچایا۔ بلا شبہ ان کا شکریہ ادا کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ ہی نہیں ہیں تاہم میں اپنے ” محسن” کی محبتوں کا مقروض اور ان کا دلی ممنون ہوں۔
مجھے کسی ستائش کی تمنا او رصلے کی پروا نہیں اور آپس کی بات یہ ہے کہ زیر ِنظر کتاب مرتب کر کے کوئی کارنامہ سرنجام نہیں دیا گیا ۔محض درِدل پر دستک دینے کی ایک کوشش ہے۔یا یوں کہیے کہ بس ٹھہرے ہوئے پانی میں ایک کنکر پھینکا ہے ۔تاکہ تھوڑی سے ہلچل مچے اور دائرے بن سکیں ۔ یہ سوچوں کے دائرے بھی ہو سکتے ہیں ،جب کوئی پتھر ٹھہرے ہوئے پانی میں پھینکا جائے گا تو یہ دائرے مزید وسعت پکڑیں گے ۔ یہ عمل جاری رہا تو تاریخ کے بہت سے معدوم نقوش اور مخفی گوشے ضرور اجاگر ہو سکیں گے،جن پر تاحال وقت کی کائی جمی ہوئی ہے ۔
سید عارف معین بلے۔
ریذیڈنٹ ایڈیٹر،روزنامہ ایکسپریس ، رحیم یارخان۔
[email protected]..
تحقیقی کتاب روہی کے خدوخال میں آپس کی بات
تحریر: سیدعارف معین بلے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...