23 ویں روزے ماں جی خالق حقیقی سے جاملیں۔۔۔اناللہ واناالیہ راجعون! کالم لکھنے اور خصوصاً مزاح لکھنے کی ہمت نہیں تھی ، عید بھی محرم کی طرح گذری۔۔۔اس لیے یہ جو پندرہ بیس دن کا وقفہ آیا اس کے لیے میری معذرت قبول کیجئے!
ہمارے گھر پر ماں جی کی حکمرانی رہی، جو فیصلہ انہوں نے کیا ، اسے کوئی تبدیل نہیں کروا سکا ،تاہم ان کے فیصلے ہر دفعہ بہترین ثابت ہوئے۔ ابا جی ہمارے دوستوں کی طرح تھے لہذا انہوں نے بھی کبھی کسی فیصلے سے اختلاف نہیں کیا۔ میٹرک تک مجھے یہ نعمت حاصل رہی کہ میں ماں جی کے ساتھ سویا کرتا تھا۔میں نے زندگی میں بہت سی دعائیں لی ہیں لیکن پتا نہیں کیوں ایسا لگتاہے خالص دعا وہی تھی جو ماں جی دیا کرتی تھیں۔وفات سے پانچ روز قبل جب وہ لاہور میں تھیں تو ان کی زبان بند ہوگئی تھی تاہم گردو پیش سے باخبر تھیں۔ اس عالم میں بھی ان سے میں نے دعا کی جو درخواست کی ا نہوں نے ہاتھ میرے ہاتھ پر رکھ کر آمین کا احساس دلایا۔لاہور میں جب وہ میرے پاس ہوتی تھیں تو میں اپنے گھرمیں لگے گلاب کے پودے سے ایک پھول توڑ کر روزانہ ان کو پیش کیا کرتا تھا، ماں جی کو گلاب کی خوشبو بہت پسند تھی لہذاوہ بڑی خوش ہوتیں اور شام تک یہ پھول ان کے ہاتھ میں دبا رہتا۔ ماں جی بینائی سے محروم تھیں،پندرہ سال سے ریڑھ کی ہڈی کے مہرے کی وجہ سے چلنے پھرنے سے بھی معذور تھیں ۔۔۔بس ٹوٹی پھوٹی آواز میں گفتگو کرلیا کرتی تھیں۔ اس کے باوجود جب تک ابا جی زندہ رہے، ماں جی کی آن بان بھی قائم رہی۔ دو سال پہلے جب ابا جی کی وفات ہوئی تو ماں جی بھی اسی دن ختم ہوگئی تھیں، بس کسی نہ کسی طرح دوسال تک خود کو زندہ رکھا اور پھر خود بھی ابا جی کی قبر کے ساتھ ہی جاسوئیں۔پتا نہیں یہ حقیقت ہے یا نہیں لیکن میں نے اکثر نوٹ کیا ہے کہ بڑھاپے میں جوڑ ی ٹوٹ جائے تو دوسرا فریق بھی دِنوں میں ختم ہوجاتاہے۔
رمضان کی طاق رات میں ماں جی کا انتقال ہوا تو دلاسہ دینے والوں کی اکثریت نے کہا کہ اتنی مقدس تاریخ قسمت والوں کو ہی نصیب ہوتی ہے۔پتا نہیں کیوں یہ جملہ سن کر مجھے ایک جھرجھری سی آئی اور میں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ وجہ صرف یہ تھی کہ میرے بہت سے دوستوں کی ماؤں کا انتقال رمضان میں نہیں ہوا، تو کیا وہ نیک نہیں تھیں؟ ۔۔۔مائیں تو بخشی بخشائی ہوتی ہیں، انہیں کسی مقدس تاریخ پر سانسیں بند کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔یہ ایک ایسی ہستی ہے جو مرتو سکتی ہے جدا نہیں ہوسکتی۔ماں کے دل سے نکلنے والی دعاؤں کی تاثیر اتنی کچی نہیں ہوتی کہ وفات کے بعد ایکسپائر ہوجائیں۔یہ زندگی بھر ساتھ چلتی ہیں، جن لوگوں کو ان کی ماؤں نے دل سے دعائیں دی ہوئی ہیں وہ آج بھی بڑی سے بڑی مشکل کا مقابلہ باآسانی کررہے ہیں۔میری ماں کی بھی ایک ماں تھی، وہ بھی نہیں رہیں، میں نے بھی نہیں رہنا، ہم میں سے کسی نے بھی نہیں رہنا۔۔۔اگلے پچاس سال میں ہم میں سے آدھے سے زیادہ لوگ اسی طرح قبروں میں لیٹے ہوں گے لیکن بہرحال اگر ہم زندہ ہیں اور ہماری مائیں مرچکی ہیں تو یہ دکھ ہمیں اپنے مرنے تک ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔
ماں جی اپنے ماضی میں زندہ تھیں، انہیں دنیا کے آگے نکل جانے کی کوئی خبر نہیں تھی،ان کے لیے آج بھی پانچ روپے کی بڑی اہمیت تھی۔میں نے ان کے تکیے کے نیچے پڑے پرس میں دس روپے کے بہت سے نوٹ رکھے ہوئے تھے جنہیں وہ پانچ روپے کے نوٹ سمجھتی تھیں، انہیں یہ تسلیم کرانا بڑا مشکل تھا کہ پانچ روپے کا نوٹ ختم ہوکر سکے میں ڈھل چکا ہے۔ وہ میرے بیٹوں کو پاس بلا کر انہیں ایک ایک نوٹ پکڑاتیں تو میرا بیٹا ثمریز ساری بات سمجھ کر پوری خوشی سے کہتا’’دادو! آج تو میں اِن پیسوں سے پیزا کھاؤں گا‘‘۔ یہ سنتے ہی ماں جی کے چہرے پر دنیا جہان کی مسکراہٹ رقص کرنے لگتی، انہیں اچھا لگتا تھا کہ ان سے پیسے مانگے جائیں اور وہ اپنے ہاتھ سے بچوں کو پیسے دیں۔ میں تو خود دفتر جانے سے پہلے ان سے پانچ روپے جیب خرچ مانگتا تھا اور ماں جی بڑے اہتمام سے اپنے تکیے کے نیچے سے دس روپے کے دو نوٹ نکال کرمیرے ہاتھ میں پکڑاتیں اور نصیحت کرتے ہوئے کہتیں’’سنبھال کر رکھنا، زمانہ بڑا خراب ہے‘‘۔۔۔!!! جیسے ہی انہیں پتا چلتا کہ اب میں دفتر جانے کے لیے روانہ ہورہا ہوں تو ان کی دعاؤں کا سلسلہ باآواز بلند شروع ہوجاتا،میری گاڑی گیراج سے باہر بھی آجاتی تو مجھے وہاں تک ان کی دعاؤں کی آواز سنائی دے رہی ہوتی تھی۔
ابا جی کی وفات کے بعد وہ بہت خوفزدہ رہنے لگی تھیں، انہیں لگتا تھا کہ وہ اکیلی ہیں اور گھر میں کوئی نہیں۔ میں انہیں ٹی وی پر تلاوت لگا دیا کرتا تھا اور یہ ان کے لیے سب سے بڑا حوصلہ ہوتا تھا‘ بڑی مشکل سے اِدھر اُدھر ہاتھ مار کر چادر تلاش کرتیں ، سر پر لیتیں اور نہایت توجہ سے تلاوت اور ترجمہ سنتی رہتیں ۔۔۔ایسے میں اگر کوئی ان سے گفتگو کی کوشش بھی کرتا تھا تو اشارے سے منع کردیتی تھیں۔ساری زندگی اٹل فیصلوں پر قائم رہنے والی ماں جی جب بستر سے لگیں تو انہیں شدت سے یہ احساس ہونے لگا کہ کیا وہ اب بھی فیصلہ سازی کے عمل میں شریک ہیں؟ یہ احساس ہم سب انہیں بار بار دلاتے رہتے تھے۔ مثلاً گھر میں کیا کھانا بننا چاہیے، اس حوالے سے ماں جی سے مشورہ کرلیا جاتا تھا،میرا بیٹا ثمریز اکثر ان کے پاؤں دباتے ہوئے انہیں اپنے لیول کی ڈسکشن میں شریک کرتے ہوئے پوچھا کرتا تھا کہ ’’دادو! آپ کو پتا ہے اب ٹو جی بی کی سپیڈ والا وائی وائی بھی آرہا ہے‘‘ ۔۔۔اور دادو کچھ نہ سمجھنے کے باوجود خوش ہوکر کہہ دیتی تھیں’’اللہ خیرخیریت سے لائے‘‘۔
مائیں اس لیے بھی اچھی لگتی ہیں کہ وہ سادہ ہوتی ہیں،یہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش ہوجاتی ہیں، انہیں کھانے کی ہوس نہیں ہوتی، انہیں بجلی کے بل سے زیادہ اپنے درود شریف کی فکر ہوتی ہے، انہیں لگتاہے کہ ان کی اولاد کی عمر15 سال پر رُکی ہوئی ہے۔کام کی زیادتی کی وجہ سے جب کبھی مجھے سردرد ہوتی تھی تو ماں جی اسے اس طرح لیتی تھیں گویا میں کسی خوفناک بیماری میں مبتلا ہوگیا ہوں۔ ماں جی کے دل سے ملتان کبھی نہیں نکل سکا، جس دن ملتان سے لاہور آتی تھیں اسی دن ان کی فرمائش شروع ہوجاتی تھی کہ ملتان کب لے کر جانا ہے۔لاہور میں جب ڈاکٹرز نے ان کی حالت کو تشویشناک قرار دیا تو ہمارا فیصلہ تھا کہ انہیں ملتان لے چلتے ہیں، شائد اپنے شہر میں ہونے کا احساس انہیں پھر سے زندہ کردے۔ یہ تجویز میں نے ان کے کان میں بتائی تو ان کے کانپتے ہونٹوں پر بے اختیار خوشی کا رنگ پھیل گیا۔۔۔اور پھر ہم انہیں ملتان لے آئے، یہاں ایک دن تو وہ ٹھیک رہیں، اگلے دن طبیعت اچانک پھر سے خراب ہوگئی جس پر انہیں نشتر ہسپتال کے آئی سی یو میں داخل کرانا پڑا۔۔۔بس پھر وہ پانچ دن تک ہسپتال میں ہی رہیں اوریہیں سے رخت سفر باندھ لیا۔نشتر کالونی ملتان کے قبرستان میں اب دو قبریں ہیں۔۔۔اباجی اور ماں جی دونوں ساتھ ساتھ دفن ہیں۔۔۔گورکن بتا رہا تھا کہ دونوں قبروں کے ساتھ بھی کچھ جگہ موجود ہے۔۔۔پتا نہیں کیوں اس کی یہ بات سن کر مجھے سکون کا احساس ہوا، ہوسکتا ہے مجھے ایک بار پھر ماں کی قربت نصیب ہوجائے!
یہ تحریر اس لِنک سے لی گئی ہے۔