تیسری دنیا کو اپنوں نے ، غیروں نے اور جعلی دانشوروں نے جتنا لُوٹا اور مسلسل لُوٹ رہے ہیں، مجھے تو اب رب تعالی کہ قہر کا ڈر ہے ۔ شام ، لیبیا ، عراق اور افغانستان کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ پاکستان کہا جاتا ہے کہ فوج کی وجہ سے بچا ہوا ہے جب کہ میرے زاتی خیال میں جو عزاب پاکستان پر طاری ہے وہ بھی کم زلالت نہیں ۲۲ کروڑ اللہ کے بندوں پر ۔ میں پچھلے ہفتہ ہی ایک انٹرنیشنل سروے کا تزکرہ کیا جس کے مطابق کوئ ۸۰ فیصد پاکستانی یومیہ ۵ ڈالر کم پر رہ رہے ہیں ۔
امریکہ شروع سے ہی پاکستان کا اتحادی رہا ہے اور مختلف اداروں اور پروگراموں کہ زریعے لاکھوں ڈالر امداد دی ۔ اس کہ علاوہ اربوں ، کھربوں کہ ڈیولپمنٹ فنڈ ان ستر سال میں خرچ ہوئے ، اور کوئ پچھلے ۳۰ سال سے کھربوں روپیہ نان پرافٹ این جی اوز کہ زریعہ لگایا گیا نتیجہ صفر ۔ یہ سارا پیسہ کہاں گیا ؟ ایک تو اس میں سے بمشکل ۳۰ فیصد یہ پیسہ لگا اور وہ بھی زیادہ تر چندہ یا خیرات کی صورت میں جو صرف ڈنگ ٹپاؤ سے زیادہ کچھ نہیں تھا ، مچھلی دی گئ مچھلی پکڑنا نہیں سکھایا گیا ۔ زیادہ تر لٹیروں کی جیبوں اور تشہیر میں ۔
شہباز شریف جسے کل گرفتار کیا گیا وہ اس سارے گند کا بے تاج بادشاہ ٹھہرا ۔ نواز شریف اور زرداری نے تو سرعام پیسہ کھایا جب کہ شہباز نے حبیب جالب اور جرمن فلاسفروں کہ شعر اور قول سنا سنا کر پیسہ کھایا ۔ کوئ دو سال ان کہ ساتھ کام کر کہ مجھے اس گندگی اور بدمعاشی کا قریب سے دیکھنے کا موقع ۔ اگر پچھلے دس سالہ شہباز دور کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ لگے گا کہ یہ سارا کام ایک باقاعدہ پلاننگ سے ہوا ۔ اس سارے تعفن کا فلاسفر کنگ one and only ڈاکٹر امجد ثاقب تھا ۔ شیر کا بچہ مشرف کہ جاتے ہی ایسا پورے نظام میں داخل ہوا کہ آج پنجاب کو تباہی کہ دہانے پہنچا کر ورلڈ بینک کا صدر بننے کہ خواب دیکھ رہا ہے تاکہ اور تیسری دنیا کہ ممالک بھی اس گند سے فیض یاب ہوں ۔ وہ تو ٹرمپ اور خرابی صحت آڑے آ رہی ہے ۔
ڈاکٹر امجد ثاقب جیسے اشخاص نے جتنا پاکستان کو نقصان پہنچایا اتنا زرداری جیسے سیاسی گماشتوں نے نہیں ۔ زرداری نے کھلے عام جیب کاٹی جب کہ امجد ثاقب نے سوئے ہوئے مزدور کی جیب کاٹی ۔ آج ۲۲ کروڑ بھکاری ہو گئے ۔ امجد ثاقب کی والدہ کی میت جنازے کہ انتظار میں تھی اور امجد ثاقب ایک ملٹری لٹیرے خالد مقبول جو اس وقت گورنر تھا اس کہ پاس اخوت کہ لیے پیسہ اکٹھا کرنے کی تقریب میں مصروف تھا ۔ اور بیہودگی کی انتہا دیکھیں کہ اس کو بھی اپنی فیور میں کیش کروایا کہ جناب غریب عوام کی اتنی فکر ہے کہ والدہ کہ جنازہ کی پرواہ نہیں ۔ کمال کی بے غیرتی ، بے شرمی اور ڈھٹائ ہے ۔ جناب اگر غریب کے لیے کچھ اتنا ہی کرنے کا شوق ہے پھر اختر حمید بنو جو روز اپنی ایک ٹوٹی ہوئ کرسی پر ۸۰ سال کی عمر میں بھی ان غریبوں میں پایا جاتا تھا ۔ آپ تو خدمت خلق کہ لیے رسے تڑوا کر ڈاکٹر بنے تھے ، تو پھر سی ایس ایس کیوں کیا ؟ موصوف کہ والد صاحب فرماتے تھے کہ تم نے ڈپٹی کمشنر بننا ہے جو مجھے لوکل گورنمنٹ سروس میں دباتے رہے وہ بدلہ لینا ہے ، صرف تھانیداری اور کمپلیکس دور کرنے کہ لیے ۔
جب ڈپٹی کمشنر بننا مشرف دور میں بند ہوا تو نوکری چھوڑ دی۔ ایک اس سے بھی زیادہ زبردست کمائ اور شہرت والا دھندہ پکڑ لیا ، جعلی خدمت خلق ۔ کڑوروں روپیہ اب تک چھوٹے قرضوں کی مد میں غرق کر دیا یہ کہ کر کے سو فیصد رقم واپس ہوتی ہے اور غریب اب امیر کہ شانہ بشانہ کھڑا ہو گا ۔ کوئ آڈٹ نہیں کوئ تھرڈ پارٹی چیکس نہیں گھر بیٹھے ہی ایک دن مسجد یا گرجا میں بیٹھے اور پیسہ بانٹ دیا ، مولوی اور پادری کو بھی مات دے گئے ۔ ان کو بھی کہا کہ ہم تیرے بھی باپ ہیں اب بتا ۔
ایک دفعہ نیشنل تائوان یونیورسٹی کہ گریجوایٹز کی ایک ٹیم مائییکرو فائننس سسٹم کی اسٹڈی کہ لیے ۲۰۱۰ میں پاکستان آئ تو مجھے ان سے ملنے کا اتفاق ہوا ۔ ان نوجوان لڑکوں نے اس سے پہلے بنگلہ دیش اور انڈیا کا دورہ کیا ۔ یہاں انہوں نے روشنے جو کشف کی ہیڈ ہے اور اخوت کہ لوگوں سے ملاقات کی ۔ ان کہ مطابق اس سے غربت اور زیادہ تشویش ناک ہو رہی ہے ۔ کسی نے اس چھوٹے قرض سے فرج لیا ، کسی نے چھوٹا موٹا جہیز بنایا کوئ بیماری پر پیسہ لگایا، کسی کی بھی غربت ختم نہیں ہوئ ۔ اسی رپورٹ میں جو آج بھی تائوان کی اس یونیورسٹی میں ہو گی انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر یونس سمیت یہ سارے استحصالی ہیں ، دھوکہ باز ہیں ، چاہتے ہی نہیں کہ غریب اپنے پاؤں پر کھڑا ہو۔ انہوں نے کہا جب تائوان چین سے الگ ہوا اور ترقی کی تو وہ اس ماڈل کہ زریعے نہیں ہوئ ۔ آج تائوان کہ پاسپورٹ پر ۱۵۰ ملکوں میں صرف اینٹری ہے چین کہ پریشر کہ باوجود ۔
شہباز شریف ، امجد ثاقب اور بابؤں کا گٹھ جوڑ بہت خوفناک تھا ۔ سیاست دان کسی بھی نسل کا ہو چاہتا ہی نہیں کہ غربت ختم ہو ۔ ان کو منشا ، امور مجید ، جہانگیر ترین اور علیم خان کہ cartels وارا کھاتے ہیں ۔ لہٰزا انہوں نے امجد ثاقب جیسے لوگ ڈھونڈے کہ غریب کو کیسے میٹھی گولی دے کر ٹرک کی بتی کہ پیچھے لگانا ہے ۔ امجد ہر روز صبح اٹھتا تو ایک نیا دھندہ بتاتا تھا غریبوں کو لُوٹنے کا ۔ کہتا تھا رات مجھے خواب میں ماؤزے تنگ آیا تھا اور یہ کہا ۔ سستی روٹی سے شروع ہوا اور چل سو چل ، دانش سکول ، ایجوکیشن انڈومنٹ فنڈ، اور نئے نئے ٹرسٹ اور کمپنیاں ۔ یہ کمپنی والا معاملہ بھی سلمی بٹ کے ساتھ مل کر امجد ثاقب نے شروع کیا اور غالبا پہلی کمپنی پنجاب کا اینڈومنٹ فنڈ ہی تھا ۔
ثاقب نثار پر جس وجہ سے مجھے شدید غصہ ہے وہ اسی بات پر ہے سارے ایکشن سطحی طور پر لیے جا رہے ہیں ۔ کمپنیوں کا معاملہ صرف سی ای اوز کی تنخواہوں تک ہی محدود کر دیا ، یہ نہیں پوچھا کہ یہ کس ارسطو کا مشورہ تھا کہ سرکار بھی کمپنیاں بنائے ؟۔ ہسپتالوں کا تو دورہ کر رہے ہیں ، یہ نہیں پوچھ رہے کہ ہیلتھ ریگولیٹری باڈی کیا کر رہی ہے ؟ عامر رضا خان میرے استاد بھی رہے اور ان چند اداروں کہ بورڈ میں بھی ، مجھے انہی دنوں ایک دفعہ ملے میں نے کہا کہ آپ تو سر سمجھدار ہیں آپ امجد کہ پیچھے لگ کر یہ کیا کر رہے ہیں ؟ وہ بھی چالیس سال کی عمر میں ہی جج بن گئے ہاورڈ کی ڈگری اور جسٹس انوارالحق سے رشتہ داری کی وجہ کہ زور پر ، ضیاالحق نے فارغ کر دیا اور اب ہمیشہ limelight میں رہنے کا شوق چین سے نہیں بیٹھنے دیتا ۔ ڈان لیکس میں باوجود تنقید کہ انکوائری کمیٹی کہ سربراہ بنے رہے اور وہاں بھی لد ہی کی ۔
تو جناب امجد ثاقب پاکستان کہ غربت ختم کرنے کہ دس ممبر بورڈ میں بھی آ گئے ، ان سب ممبروں نے راشد باجوہ سمیت اپنی غربت ختم کر لی غریب کی تو کیا کرنی تھی ۔ پنجاب یونیورسٹی سنڈیکیٹ کہ بھی ممبر بن گئے ۲۰۱۱ میں اور ڈاکٹر مجاہد کامران کی تمام گند کرنے میں برابر کہ مجرم جس میں چیف منسٹر ہاؤس لڑکیاں بھیجنا ۔ سب سیاہ سفید میں مجاہدانہ حمایت کی ۔ لہٰزا اس طرح تعلیم، صحت اور خدمت خلق کہ شعبے کا موصوف نے بیڑہ غرق کر دیا اور آج بقول کلاسرا صاحب پتلی گلی سے نکل گئے اور مزید لُوٹ مار کی تلاش ۔
آپ میری اس تنقید سے قطعا یہ نہ سمجھیں کہ مجھے کوئ زاتی آنا ہے یا میں کسی عہدہ کا شوقین ہوں ۔ مجھے پچھلے ایک مہینے سے کچھ دوستوں نے کہا کہ اپنا CV بھیجیں ہم آپ کو نئ حکومت میں لگواتے ہیں ، میں نے شکریہ کہ کر معزرت کر لی ۔ جب تک ماحول ایسا نہیں بنایا جاتا ، میرے جیسے لوگ باہر سے کبھی واپس نہیں آئیں گے ۔ جب آپ نے خاور مانیکا کی بیٹی کو سات لاکھ پر مشیر برائے خواتین رکھنا ہے اور جہانزیب خان جو جیل میں ہونا چاہیے تھا شہباز کو فرانسیسی کھانے کھلانے کے لیے وہ ایف بی آر کا چیرمین رہے ، ہم نے کیا کرنا اس احمقوں اور لٹیروں کی حکومت میں ۔ البتہ میرا یہاں امریکہ میں ایک تھنک ٹینک بنانے کا ارادہ ہے جو کہ خصوصا تیسری دنیا کہ مسائیل کہ حل کہ بارے میں سوچ و چار کرے اور کوئ ٹھوس سفارشات ان حکومتوں کو پیش کرے ۔ مجھے ب فضل تعالی امریکہ کی مستقل رہائش جسے گرین کارڈ کہتے ہیں مل گیا ہے ۔ میں امریکی حکومت کا اس ضمن میں بہت شکر گزار ہوں ۔
اپنا بہت خیال رکھیں ۔ مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔ اللہ نگہبان
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...