مین ہٹن پراجیکٹ کامیاب ہو چکا تھا۔ ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے جانے والے ایٹم بم سے بنا مشروم کلاؤڈ اور دسیوں ہزار لوگوں کی اموات اس کی کامیابی کا عملی ثبوت تھیں۔ یہ کامیابی محنت سے حاصل کی گئی تھی۔
ایٹم بم بنانا بڑی محنت اور بڑا سرمایہ مانگتا ہے۔ اوک رِج پر بنائے گئے سنٹر کو تعمیر کرنے پر آج کی کرنسی کے حساب سے پونے سات ارب ڈالر کی لاگت آئی تھی اور اس میں استعمال ہونے والی بجلی کی کھپت ایک بڑے شہر سے تین گنا زیادہ تھی۔ باقی پورے ملک میں بجلی بند ہو سکتی تھی۔ یہاں پر نہیں۔
یورینیم اور پلوٹونیم کی افزودگی بہت محنت مانگتی ہے۔ یہ بلیک بورڈ پر کیا جانے والا کام نہیں۔ کمر توڑ دینے والی مشقت ہے۔
فوج روایتی طریقوں سے اس سے کہیں زیادہ موت پھیلا چکی تھی۔ ٹوکیو میں کی جانے والی فائربومبنگ سے صرف چھ گھنٹے میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد لقمہ اجل بن گئے تھے، جو تاریخ میں کسی بھی حملے میں ہونے والا سب سے بھاری جانی نقصان ہے لیکن موت بکھیرتا تابکاری کا بادل ایک الگ ہی دہشت رکھتا ہے۔ جس چیز نے سائنسدانوں کو اس میں زیادہ پریشان کیا، وہ اس بم کے بعد ہونے والی تابکاری کے اثرات تھے جو سب کے لئے غیرمتوقع تھے۔
یہ تابکاری اس پراجیکٹ میں کام کرنے والے لوگوں نے بھی دیکھ لی۔ ان واقعات میں جو 1945 اور 1946 میں چھپائے گئے تھے۔
نوجوان ہیری ڈاغلن ایم آئی ٹی سے پڑھے تھے اور 1944 میں اس پراجیکٹ کا حصہ بنے تھے اور پلوٹونیم کے سفئیر پر کام کر رہے تھے۔ ساڑھے تین انچ قطر کے سفئیر ویسے تھے جیسے ناگاساکی پر گرائے گئے بم کے۔ ان کے پاس جو سفئیر تھا، اس کا نام روفس تھا۔ اگر جاپان ہتھیار نہ ڈالتا تو اس نے جاپان پر بھیجے گئے اگلے بم کی کور کا حصہ ہونا تھا۔ جاپان پر پھینکنے کے لئے پلان کئے گئے بارہ مزید بموں میں سے پہلا۔
جنگ ختم ہو گئی تھی۔ جاپان اور جرمنی شکست تسلیم کر چکے تھے۔ لیکن لاس الموس میں کام کرنے والوں کا کام کم نہیں ہوا تھا۔ امریکی حکومت نے سینکڑوں ملین ڈالر اس پراجیکٹ پر صرف کئے تھے۔
جنگ ختم ہوئے ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا۔ ڈاغلن اگلے تجربوں میں مصروف تھے جن کو "اژدھے کی دم چھیڑنا" کہا جاتا تھا۔ ایک ٹیسٹ مکمل ہوا تھا لیکن بے صبرے ڈاغلن کچھ اور بھی اسی روز ٹیسٹ کرنے کے خواہشمند تھے۔ وہ رات نو بجے واپس اومیگا بلڈنگ میں پہنچے۔
انہوں نے چودہ پاؤنڈ کا سفئیر اپنے کریڈل میں داخل کر دیا گیا۔ پلوٹونیم تابکار بھی ہے اور زہریلا بھی۔ آرسینک جتنا زہریلا۔ اس کے اوپر نِکل کا خول تھا۔ ریڈیوایکٹیویٹی سے یہ گرم ہو جاتا تھا۔
پلوٹونیم کا انڈا اپنی جگہ پر رکھ کر اس کے گرد 52 ریفلیکٹرز کا گھونسلا بنانا شروع کیا۔ اس کی پانچویں تہہ بننے کے بعد ایک آخری اینٹ اس کے اوپر رکھی۔ ڈیٹکٹر کو چیک کیا۔ اس کی آواز ٹھیک تھی۔ پیچھے ہٹے۔ اس دوران ان کی رکھی آخری اینٹ گر گئی۔ ٹھیک اس جگہ پر جہاں اس کو نہیں گرنا چاہیے تھا۔ نیوٹرون کے نکلنے کا واحد راستہ بلاک ہو گیا تھا۔ سفئیر خطرناک حالت میں داخل ہو رہا تھا۔ اژدھے نے آنکھ کھول لی تھی۔ ڈیٹکٹر کڑکڑا رہا تھا۔ سفئیر کے گرد نیلی روشنی بن گئی تھی۔
ڈاغلن نے جلدی سے ہاتھوں سے اس گھونسلے کو گرایا۔ روشنی بند ہو گئی۔ ڈیٹکٹر خاموش ہو گیا۔ اژدھے نے آنکھ بند کر لی۔
ڈاغلن کے ہاتھ پر بس ایک سنسناتا ہوا احساس تھا اور ساتھ ایک سکون کی کیفیت۔ تابکاری تکلیف نہیں دیتی۔ ڈاغلن نے اپنے آپ کو مار لیا تھا اور بچنے کی امید نہیں تھی۔ وہ اس بات کو جانتے تھے۔
وہ ہسپتال چلے گئے۔ اگلے چند ہفتوں میں ان کا دایاں بازو پھول گیا۔ جلد سرخ ہوئی اور بازو سے چہرے تک کی جلد اتر گئی۔ الٹیوں کے دورے، گرتے بال۔ ہچکیاں اور تشنج کی کیفیت۔ ان کی خوش نصیبی رہی کہ جلد کومے میں چلے گئے۔ اس واقعے کے پچیس روز بعد چل بسے۔ ان کی والدہ اور بہن کو حکومت نے دس ہزار ڈالر کا چیک لکھ دیا۔ پریس کو جھوٹی کہانی بتائی گئی۔ ملٹری نے اس واقعے کو چھپا لیا۔
ہسپتال میں ان کے بستر کے قریب ایک اور سائنسدان لوئی سلوٹن موجود تھے۔ وہ سائنسدان جنہوں نے پہلے ٹیسٹ کے لئے ایٹم بم جوڑا تھا۔ ڈاغلن کے موت نے سلوٹن کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ان کا کانٹریکٹ ختم ہونے میں ایک سال رہتا تھا۔ انہوں نے طے کر لیا کہ وہ اس سے زیادہ نہیں ٹھہریں گے۔
روفس سے تجربے کرنے والوں کی ٹیم میں سلوٹن بھی تھے۔ مئی کی ایک دوپہر سلوٹن نے ایک مظاہرہ کرنے کے لئے سیٹ اپ کرنا تھا۔ وہ اس سے پہلے چالیس بار یہ کام کر چکے تھے۔ بیریلیم کے کرے کو جوڑتے وقت ان کے ہاتھ سے سکریو ڈرائیور پھسل گیا اور پلوٹونیم کے اوپر جا گرا۔ کمرے میں موجود آٹھوں افراد کو حرارت کی لہر محسوس ہوئی اور ساتھ نیلا ہیولا دکھائی دینا شروع ہوا۔ نائیٹروجن آؤنائز ہونے لگی تھی۔
سلوٹن نے فورا اس کرے کو اپنے ہاتھ سے دور کر دیا۔ ایک سیکنڈ کے بعد ان کو ہاتھ سنسناتا محسوس ہوا اور چند سیکنڈ بعد منہ میں دھاتی ذائقہ۔ اس کے بعد ویسا ہی سکون جو اس سے پہلے ڈاغلن نے محسوس کیا تھا۔ انہوں نے ایک قدم پیچھے لیا اور کہا،"چلوِ، میرا کام تو ہو گیا۔" وہ اپنے انجام سے واقف تھے۔
سٹولن کی موت کی وجہ بھی وہی کور تھی۔ ان کو بھی ہسپتال میں ڈاغلن والا بستر ملا۔ ان کی تابکاری کا لیول ڈاغلن سے بھی زیادہ تھا۔ ان کی موت نو روز بعد آئی۔
ان نوجوان اور تجربہ کار سائنسدانوں کی موت نے نیوکلئیر فزکس کی دنیا کو ہلا دیا اور بحث چھیڑ دی۔ کئی نیوکلئیر سائنسٹسٹ پہلے ہی جاپان میں ان ہتھیاروں کے اثرات دیکھ کر ان کے خلاف ہو چکے تھے۔ اپنے ساتھیوں کی موت دیکھ کر ان جذبات میں اضافہ ہو گیا۔ لیکن سرد جنگ کی حقیقت کا سامنا تھا۔ یہ پروگرام نہیں رک سکتا تھا۔
پلوٹونیم کی کور جس نے ان دو نوجوان سائنسدانوں کی جان لی تھی، ڈیمن کور کہلائی۔ دوسرے واقعے کے چند روز بعد جولائی 1946 میں اس کو ایک بی 29 بمبار طیارے پر لوڈ کیا گیا۔ یہ تیسرا ایٹم بم آپریشن کراس روڈز کا حصہ تھا۔ یہ آج کے حساب سے سوا ارب ڈالر کا تجربہ تھا۔ اس ایٹم بم کو بکنی جزائر میں گرایا گیا۔ پانی سے 520 فیٹ اوپر اس کا دھماکہ جہاز سے گرا کر پھوڑا گیا تیسرا ایٹم بم تھا۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور ایٹم بم پھینکا گیا۔ ان سے نکلتی دس ہزار میل فی گھنٹہ کی شاک ویوز نے پانچ بحری جہازوں کو موقع پر ہی غرق کر دیا۔ ناگاساکی کی طرح پلوٹونیم کی کور بحرِاوقیانوس میں بھی اپنا کام کامیابی سے کر چکی تھی۔
عسکری سائنس کی ضرورت ختم ہو جانے کے بعد اوک رج نیشنل لیبارٹری کو یو ٹی بیٹل کے حوالے کر دیا گیا۔ یہاں پر ہونے والی تحقیق اب انرجی، نیوٹرون سائنس، کمپیوٹیشنل اور سٹرکچرل بائیولوجی، جینومکس، بائیو انفارمیٹکس، سیکوریٹی، میٹیرئیل سائنس، ہائی پرفارمنس کمپیوٹنگ پر ہوتی ہے۔ دنیا کے طاقتور ترین کمپیوٹر یہاں پر ہیں۔ چار ہزار سے زیادہ سائنسدان یہاں پر کام کرتے ہیں اور یہاں پر ہونے والی ریسرچ کا سالانہ بجٹ ڈیڑھ ارب ڈالر ہے۔
پلوٹونیم کی افزودگی کے لئے ایک انتہائی اہم سنگِ میل یہاں پر جنوری 2019 میں حاصل کیا گیا ہے جو ناسا کے خلائی پروگرام کے 2025 کے ٹارگٹ کو پورا کرنے میں مدد کرے گا۔
ساتھ لگی تصویر میں دونوں سائنسدان نظر آ رہے ہیں جو اس کور کا شکار ہوئے۔ سیاہ چشمے میں سلوٹن ہیں جبکہ پس منظر میں داغلن۔