اب آگے رُخ یہ کون سا کرتی ہے اختیار
حیدر ؔ یہ منحصر ہے مِری داستان پر
فروری 2020 سے جنوری 2022 تک میں اپنی زندگی کی سنگین ترین بیماریوں سے گزرچکا ہوں۔۔۔جنوری 2022میں بیماریوں سے نجات کی تصدیق کے بعد اب صحت کی بحالی کا مرحلہ درپیش تھا۔علاج کرنے والے سارے ڈاکٹروں کی توجہ،دعا کرنے والے سارے عزیزواقارب اور احباب کی محبت کے باعث میری دیکھ بھال ہو رہی تھی اور صحت بھی بحال ہو رہی تھی۔بہت سارے ادبی خواتین و حضرات کے ساتھ رابطے بھی مجھے متحرک رکھنے کا باعث تھے۔اسی دوران اوپر تلے تین خوشگوار واقعات پیش آتے گئے۔ جوانی میں بھی ایک دو محبتیں نصیب ہوئی تھیں لیکن بس دھیرے دھیرے اگر بتی کی طرح جلنے (جلانے) والی محبتیں۔۔۔لیکن اب ستر سال کی عمر اور کینسر کے تین زوردار حملوں اور دیگر خوفناک بیماریوں سے اٹھنے کے بعد میں تین طوفانی محبتوں سے گزر رہا ہوں۔جن سے بظاہر گزر آیا ہوں ان سے بھی ابھی گزر رہا ہوں۔میں ان کا کچھ ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن ان کے ذکر سے پہلے ایک اہم بات واضح کرنا چاہتا ہوں۔بیماریوں کے دوران ایک زبردست قسم کا روحانی تجربہ میری زندگی میں رونما ہوا تھا۔اس کا سارا حال میں اپنی کتاب ’’بیماری یا روحانی تجربہ‘‘ میں لکھ چکا ہوں۔میرے جاننے والے بعض عزیزواقارب کے لئے یہ اچنبھے کی بات ہے کہ میں ایک طرف روحانیت کی باتیں کر تا ہوں اور دوسری طرف ستر سال کی عمر کے بعد نئے معاشقوں کے قصے بیان کرنے لگا ہوں۔روحانیت کے بارے میں میرے تصورات میری متفرق تحریروں میں موجود ہیں۔میری کتاب’’بیماری یا روحانی تجربہ‘‘میں انہیں کافی حد تک یک جا کر دیا گیا ہے۔یہاں بھی ہلکی سی وضاحت کردوںکہ میرے نزدیک روحانیت، مذاہب اور عقائد کی پابند نہیں۔یہ محض ایمانی نہیں بلکہ انسانی معاملہ ہے۔اس کا کسی نام نہاد تقدس اور پاکیزگی سے بھی کچھ زیادہ تعلق نہیں ہے۔ایک انسانی روح جب اپنے خدا (روحِ اعظم)کی جستجو کرتی ہے تو یہ اس انسان کی روحانیت ہے۔وہ جو بلہے شاہ نے کہا تھا’’ نہ میں پاکاں وچ پلیت آں‘‘تو اس میں مذہبی اور معاشرتی پاکیزگی اور ناپاکی کو مدِ نظر رکھا تھا۔ دنیا میں لطافت اور کثافت ایک ہی جگہ پر موجود ہیں۔اسے مزید واضح کرنا ہو تو کہہ سکتے ہیں کہ قدرت نے لذت اور غلاظت کو ایک جگہ رکھا ہوا ہے۔ٹوائلٹ میں جا کر ہم ہر روز اس تلخ حقیقت کا تجربہ کرتے رہتے ہیں لیکن اس کا ادراک کم لوگوں کو ہے۔بیماری کے دوران کے اپنے بہت سارے حساس تجربے میں نے اپنی کتاب میں بیان کرنے سے گریز کیا تھا اور صرف بعض بچوں کو ان سے آگاہ کیا تھا،ایسے ناقابلِ بیان تجربات ،مکاشفات کا ذکر کتاب میں کردیا تھا۔اب ان میں سے ایک ناقابلِ بیان مکاشفہ جھجکتے ہوئے یہاں احتیاط کے ساتھ بیان کر دیتا ہوں۔
وہ سب کچھ جو میں زندگی بھرکھاتا پیتا رہا،وہ ساری دوائیں جو مجھے دی جاتی رہیں۔۔۔سب کا اسٹاک میرے دائیں جانب دھرا تھا اور یہ ایک بڑے ٹیلے جتنا تھا۔جبکہ وہ سب کچھ جو میرے بدن میں سے خارج ہوتا رہااس کا ڈھیر میری بائیں جانب تھااور یہ بھی ایک ٹیلے جتنا تھا۔میں ان دو بڑے ٹیلوں کے درمیان اپنے قد پانچ فٹ آٹھ انچ سائز میں کھڑا تھا۔اپنے ہی اندر کے تعفن سے میرا دماغ پھٹا جا رہا تھا۔تب میں بہت گھبرایا، یہ میری ہی نہیں ہر انسان کی کل حیات کی حقیقت تھی۔بندہ کیا اور اس کی اوقات کیا،یہاں اس کی ساری روحانیت واضح ہو جاتی ہے۔مجھ پر مایوسی کا غلبہ ہونے لگا تو جھٹکا دینے کے بعد پھر مجھے تسلی دی گئی ۔
ہم نے چوپایوں کے گوبر اور خون کے درمیان میں سے دودھ کی دھاریں نکال دی ہیں۔
تو ایسے ہی ہم انسانوں کے لئے ہماری کلیت میں ہر طرح کے گند کے باوجود خدا نے اسی کے بیچ میں سے ہی روحانیت کے دودھ کی دھاریں نکال دی ہیں۔یہ دودھ کی دھاریں خدا کی سچی جستجو کرنے والے ہر انسان کو نصیب ہو سکتی ہیں۔
اب میں سال 2022 کے نو دس مہینوں میں ہونے والی طوفانی محبتوں کا کچھ حال بیان کر دیتا ہوں۔میری صحت کی بحالی میں ان محبتوں کابھی بہت عمل دخل ہے۔ ہمارے معاشرے میں خواتین کے بارے میں کوئی بھی غلط بات بڑی آسانی سے کہہ دی جاتی ہے۔یہ رویہ مناسب نہیں ہے۔میرا اس معاملے میں ہمیشہ سے ایک اصول رہا ہے ، جب کسی کے بارے میں بتایا جائے کہ فلاں عورت، بُری عورت ہے تو میرا جواب ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ جب تک کوئی میرے ساتھ برائی نہ کرے میں اسے برا نہیں سمجھتا۔اور جو میرے ساتھ برائی کر لے اس کی عزت کو قائم رکھنااور پردہ پوشی کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔اچھی عورتوں کے بارے میں تو اور بھی زیادہ سمجھتا ہوں کہ ان کی عزت کاپاس اور احترام کیا جائے۔سو میں جن خواتین کا ذکر کروں گا،ان کے نام اور مقام کو ادل بدل کر بیان کروں گا۔میری نثری تحریروں میں ایک صنف میں دوسری یا دوسری اور تیسری صنف کا عمل دخل ایک عرصہ سے جاری ہے۔حقیقت میں کبھی نام چھپانے کے لئے کہانی بنانی پڑ جاتی ہے اور کبھی کہانی میں سچائی بھر جاتی ہے۔سو آپ کو جہاں محسوس ہو کہ یہ فرضی بات ہے تو وہاں یقین کر لیجئے گا کہ ایسا واقعی ہو ا ہے اور جہاں آپ کو بات بالکل سچی محسوس ہو وہاں کہانی کی گنجائش بھی ہو سکتی ہے۔
ایک بڑے باپ کی زمین دار بیٹی،عمر پچاس سے کچھ اوپر،پاکستان میں انہیں ’’حیاتِ مبارکہ حیدر‘‘ پڑھنے کا موقعہ ملا۔کتاب میں میرا اتہ پتہ درج تھا۔پہلے رابطہ میں کتاب کی تعریف کی اور اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ آج کے دور میں ایسے شوہر بھی ہیں جو بیوی کی وفات کے بعد اس پر ایسی کتاب لکھ دیں۔بات کچھ آگے بڑھی تو ہم واٹس ایپ پر آگئے۔پہلے دن ہم نے ہلکے ہلکے وقفہ کے ساتھ جو میسجنگ اور کال پر بات کی اس کا دورانیہ آٹھ گھنٹے پر محیط تھا۔پتہ نہیں ہم کیا کیا باتیں کرتے رہے۔دوسرے دن رات کو فون کال شروع ہوئی تو ساری رات گزر گئی۔جرمنی میں فجر کا وقت ہوا تو میں نے انہیں توجہ دلائی ۔تب انہوں نے کہا میں نے تو آپ کے ساتھ گفتگو میں ہی فجر پڑھ لی تھی۔میں نے نماز پڑھنے کے بعد واٹس ایپ دیکھا اور پھر ہم دونوں جگجیت سنگھ کی گائی ہوئی غزل سن رہے تھے۔
یار کو میں نے ،مجھے یار نے سونے نہ دیا
انہوں نے مجھ سے میرا قد پوچھا اور اپنا قد بتایا۔میرے پسندیدہ کھانوں کا پوچھا۔میں نے طویل فہرست کے ساتھ بتایا کہ عام طور پر آلو گوشت اور چنے کی یا کوئی بھی دوسری دال پسند ہے۔اگلے دن دونوں ڈشیں تیار تھیں۔پلیٹ میں سجا کر مجھے تصویریں بھیجی گئیں۔اچھی لگیں۔یہ پاکستان کی بہت بڑی فیملی ہے اور محترمہ اپنے خاندان کی شہزادی ہیں۔
مجھے یاد آیا کہ میرے ایک عزیز اپنے کالج کے زمانے میں اس فیملی کے بچوں کوٹیوشن پڑھایا کرتے تھے۔تب سننے میں آیا تھا کہ اس خاندان کے بعض نوجوانوں نے میرے مذکورہ عزیز کو مارا تھا۔ان سے میرا رابطہ تھا۔میں نے بے تکلفی سے انہیں فون کر دیا اور صاف صاف لفظوں میں پوچھا کہ آپ کے ساتھ کچھ ہوا تھا؟ ہوا تھا تو کیا ہوا تھا؟۔۔۔انہوں نے ایک دردناک قہقہہ لگایا اور کہنے لگے کس عمر میں کیا یاد دلا دیا۔پھر انہوں نے بتایا کہ حقیقت میں تو بات کچھ نہیں تھی لیکن اسی خاندان کے دوسرے لوفر قسم کے نوجوانوں کو غصہ تھا
کہ کزن ہماری ہے اور ٹیوشن یہ پڑھا رہا ہے۔میں بھی ان لوفروں کو جانتا ہوں وہ خود پڑھائی میں بہت نکمے تھے۔بہر حال عزیز نے بتایا کہ شدید تشدد میں ہڈیاں توڑ نے کی کوشش کی گئی تھی لیکن چونکہ تب جوان تھے، ہفتہ عشرہ ہسپتال میں داخل رہے اور بہتر ہو گئے۔علاج معالجے پر خرچہ کافی ہو گیا۔بعد میں بالکل ٹھیک ہو گئے۔
وہ عزیزاپنا حال بتا کر پوچھنے لگے اب بتاؤتمہیں یہ پوچھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟۔۔
میں نے صاف بتا دیا اسی خاندان کی ایک شہزادی کے ساتھ کچھ کچھ ہو گیا ہے۔
وہ عزیز کہنے لگے حیدرقریشی! میں تب جوان تھا اس لئے سارا تشدد سہہ گیا۔تم ستر سال کے ہو گئے ہو،اتنی بڑی بیماری سے ابھی اٹھے ہو،ہلکا سا جھٹکا بھی نہیں سہہ سکو گے ۔ اس لئے احتیاط کرو۔
تب میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ ویسے جرمنی میں مفت علاج معالجہ کی سہولت تو ہے۔۔بہرحال یہ بات ہنسی مذاق میں ختم ہو گئی۔
میں نے اس شہزادی کو یہ قصہ سنایا تو بہت ہنسیں اور متعلقہ خواتین کے بارے میں کچھ اچھی معلومات بھی فراہم کر دی۔ اپنی زندگی میںانہیں کچھ مسائل کا سامنا تھا،ہم نے ان مسائل کو بھی ڈسکس کیا۔اپنی زمینوں او ر پراپرٹی کے سلسلہ میں بھی کچھ پریشان تھیں۔تاہم مجھے ملنے کے لئے جرمنی آنا چاہ رہی تھیں۔ہم نے شادی کے امکان پر بھی بات کی۔ نکاح میں ہلکی سی اڑچن ہو سکتی تھی۔کہنے لگیں میں جرمنی میں پہنچ گئی تو نکاح ہو نہ ہو شادی کر لینی ہے۔لیکن پھر ان کے خاندان کے مسائل میں شدت آگئی اور وہ ان میں الجھ کر رہ گئیں۔میں ان کے بارے میں متفکر ہوں اور دعا ہے کہ وہ جلد اپنے مسائل حل کر سکیںتاکہ پھر نکاح ہو نہ ہو شادی تو ہو جائے۔
دوسری محبت بڑی شوخ اور چنچل تھی۔میں نے ایک دو واٹس ایپ گروپس میں اپنا ایک واقعہ شئیر کیاتھا۔اپنی اہلیہ کی وفات کے بعد تدفین کے وقت میں نے ان کے ساتھ اپنی قبر کا پلاٹ بھی بک کرا لیا تھا۔جب کتبہ لکھنے کا وقت آیا تومیں نے اہلیہ کے ساتھ اپنے کتبے کی عبارت بھی بنا لی۔صرف اپنی تاریخ وفات کی جگہ خالی رکھی۔ تدفین کرنے والی فرم کا مالک ترک تھا۔اس نے مجھے دیکھا تو کہا کہ آپ کی صحت کافی بہتر ہے۔بے شک ابھی صدمے کا اثر ہے لیکن کچھ عرصہ کے بعد آپ کے لئے کوئی بہتر رشتہ بھی آسکتا ہے، اس لئے ابھی اپنا کتبہ نہ لکھوائیں۔تب میں نے کہا کہ رشتہ آنے کی فکر نہ کریں،کوئی رشتہ آگیا تو میری بائیں طرف والی قبر کا پلاٹ بھی خالی پڑا ہے۔کام آجائے گا،آپ کتبہ لکھوائیں۔
اُس شوخ حسینہ نے بھی کہیں یہ بات پڑھ لی۔میں نے اپنا واٹس ایپ دیکھا تو کسی نئے اکاؤنٹ سے میسج تھا،
’’میں آپ کی قبر کے پلاٹ کے بائیں جانب والی قبر میں دفن ہونا چاہتی ہوں۔‘‘
اس شوخ کے ڈی پی پر جو تصویر تھی وہ ان کے سرسبزخطے کی خوبصورتی کی نمائندگی کر رہی تھی۔ایک طرف ہوشربا میسج دوسری طرف آنکھوں کو خیرہ کردینے والی خوبصورتی۔۔۔شادیٔ مرگ کا دھڑکا لگ گیا۔بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا۔پھر ان کے ساتھ طویل گپ شپ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ان میں شوخی بھی ہے اور معصومیت بھی ۔آرٹ کی بعض جہات بھی ان کی شخصیت کا حصہ ہیں۔یہ بھی دیکھنے میں شہزادی لگتی ہیں۔میرے ساتھ جنم جنم کے ساتھ کا کچھ بتاتی ہیں۔کبھی ماں،کبھی بیٹی،کبھی محبوبہ،کبھی کچھ کبھی کچھ۔۔۔کہتی ہیںعمروں کا فرق تیس برسوں کے لگ بھگ ہی رہتا ہے۔اب پتہ نہیں یہ انڈین فلموں کا اثر ہے، جوشوا کی تعلیم کا اثر ہے یا واقعی انہیں ایسا ہی لگ رہا ہے۔ان کے یقین کو دیکھتے ہوئے اب تو مجھے بھی کچھ کچھ یقین ہونے لگاہے۔آخر کیا ماجرا ہے کہ جوانی میں تو بمشکل ایک دو محبتیں حصے میں آئیں بلکہ ان میں حصہ ڈالا،اور کھجل خوار ہی ہوتے رہے اور اب ستر سال کی عمر میں ساری جوانی کا ریکارڈ ہی ٹوٹ پھوٹ گیا۔تو شاید کچھ ہے۔اس موضوع پر الگ سے کچھ لکھنے کا ارادہ ہے۔
سرسبز خطے کی شہزادی کے ایک دو کام تھے،میں نے اپنے طور پر مشورہ دیا اور دو تین لوگوں سے ان کا رابطہ کرادیا۔پھر ایک دن میں نے کہا میں بھی کیسا بے وقوف ہوں کہ خود آپ کو جوان لوگوں سے متعارف کرا رہا ہوں جو میرے لئے کھلا خطرہ ہیں۔
ہنس کر کہنے لگیں اگر وہ آپ کے ہم عمر ہوتے تو آپ کے لئے خطرہ بن سکتے تھے۔جوانوں سے میرے معاملے میں کبھی خطرہ نہیں محسوس کریں،بے فکر رہیں۔
ایک بار کہنے لگیں میں بہت اداس ہوں۔میں دور بیٹھ کر کیا کر سکتا تھا۔تسلی کے دو بول، بول دئیے۔لیکن وہ پھر اداسی کا ذکربار بارکرنے لگیں۔
آخر میں نے کہا ’’اتنی دور بیٹھ کر آپ کی اداسی کیسے دور کروں؟ کہیں تو آپ کے شوہر سے آپ کا رشتہ مانگ لوں؟‘‘
تب وہ سچ مچ میں آنسوؤں کے ساتھ ہنس رہی تھیں۔
شوخ اور چنچل حسینہ کے ساتھ معاملہ ابھی چل رہا تھا کہ ایک اور حسین و جمیل،امیروکبیر،اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون رابطے میں آ گئیں۔یہ رابطہ ان کی مذکورہ خوبیوں کے باعث نہیں بلکہ ایک تصویر کی وجہ سے ہوا،ایک ایسی تصویر جوکہیں تھی ہی نہیں لیکن پھر بھی کہیںتھی۔یہ ایک الگ داستان ہے،انہوں نے اجازت دی تو پھر کبھی بیان کر دوں گا۔صورت سے کسی عظیم سلطنت کی ملکہ لگتی ہیں۔ان کے بقول انہوں نے مجھے ساری روحوں کے ایسے اجتماع یا میلے میں دیکھا تھاجو دنیا کے وجود میں آنے سے پہلے کہیں ہوا تھا۔ دیکھا تھا اور پہچانا تھا۔لیکن پھرمیں اس میلے میں گم ہو گیا۔
لیجئے فلموں میں ’’قُم‘‘کے میلے میں گم ہونے والوں کی طرح میں بھی کسی ہزاروں،لاکھوں برسوں پہلے کے میلے کا کھویا ہوا بچہ ثابت ہوا۔
ویسے ان کی شخصیت میں بھی اور تحریروں میں بھی ایک عجیب قسم کا صوفیوں، سادھوؤں ،فقیروں،ملنگوں والا اسرار ہے۔ ان کی شخصیت میں ایک عجیب سا بہاؤ اور ٹھہراؤ ہے۔ اضطراب اور سکون ہے ،ایک ہی وقت میں ملکہ بھی ہیں اور فقیرنی اور ملنگنی بھی۔ایک طرف ان کے حسن میںرعب،دبدبہ اور تمکنت ہے تو دوسری طرف فقیرانہ شان اور ملنگوںوالی بے نیازی اور یہ سب مل کر ان کی شخصیت کو مزید پُر کشش اورپراسرار بنادیتا ہے۔اپنا ایک شعر یاد آگیا۔
دکھائی شانِ فقر اپنی، تمہاری بادشاہی میں
فقیری عجز اپنے عہدِ سلطانی میں رکھا ہے
گپ شپ میں ہنسی مذاق بھی کر لیتی ہیں۔بیک وقت ماں جیسا برتاؤ بھی کرتی ہیں اور خود بچی بھی بن جاتی ہیں۔
ہم سب اپنے اپنے بچپن میں ایسا کرتے رہے ہیں کہ اپنے منہ کو اندر سے زور لگا کراپنے گال پھلا لیتے تھے،پھر اپنے دونوں گالوں پر انگلی یاہتھیلی کے دباؤ سے اسے پھوڑتے تھے۔ ویسے تومیں سرسبز خطے کی شوخ و چنچل سے بھی پوچھتا رہا ہوں کہ جب میں ستر سال کا بابا ہوں۔بیماریوں کی یلغار سے بمشکل بچ سکا ہوں تو آپ کو مجھ میں کیا دکھائی دیا ہے کہ محبت پر تل گئی ہیں؟۔۔۔جواب ملتا بس ہے تو ہے۔
یہی بات میں نے اب اپنی اس فقیرنی، ملنگنی سے پوچھی کہ میری کون سی بات آپ کو اچھی لگی کہ ہم اس مقام تک آ گئے ہیں؟
شریر بچوں جیسی مسکراہٹ ان کے چہرے پر کھیلنے لگی اور اردو میں پنجابی کا تڑکا لگاتے ہوئے کہنے لگیں:
’’مجھے آپ کی تِن گَلاں(تین باتیں) اچھی لگتی ہیں‘‘
پوچھا کون سی؟
کہنے لگیں پہلی گَل(بات) تو یہ ہے کہ آپ گلاں(باتیں) بہت اچھی کرتے ہیں۔آپ بولتے ہیں تو جی چاہتا ہے بولتے ہی رہیں اور میں بس آپ کو سنتی رہوں۔
میں نے کہا میری باتیں تو میرے بچے بھی نہیں سنتے،تھوڑا سا سنا اور پھر اِدھر اُدھر ہو گئے۔چلیں شکریہ کہ آپ کو میری باتیں اچھی لگتی ہیں۔اب باقی دو باتیں بھی بتا دیں۔
ان کے چہرے پر بچوں والی شریر مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی اور کہنے لگیں باقی دو گَلاں۔۔آپ کے چہرے کی دائیں بائیں کی دو گلاں(دوگال) ہیں۔
یا اللہ خیر۔۔۔میں نے کہا ،کیا میں خوشی سے بے ہوش ہو جاؤں؟
جواب میں ہنستے ہوئے اپنے دونوں گالوں کو پھلا کر انہیں پھوڑ دیااور پھر بار بار ایسا کرنے لگیں۔بالکل ننھے بچوں کی طرح شرارت ان کے چہرے پر پھیلی ہوئی تھی۔
میں نے کہا میری ماں نے مجھے لوری بہت سنائی تھی لیکن میرے گالوں کی تعریف تو ماں نے بھی نہیں کی تھی،کبھی گُپلو تک نہیں کہا۔ستر سال کے عرصہ میں ماں، باپ، بھائی بہنوں،بیوی ، بچوں ،قریبی عزیزوں،دوست احباب میں سے کسی کی بھی میرے گالوں پر نظر نہیں پڑی ۔ کسی نے بھی میرے گالوں کی تعریف نہیں کی۔
تیرے بالوں کی خیر اور تیرے گالوں کی خیرمیری فقیرنی، میری ملنگنی! آپ نے تو مجھے میری ستر سال کی زندگی کا سب سے شاندار کمپلیمنٹ دے دیا ہے۔اب تو میں خود آپ کا فقیر اور ملنگ ہو گیا۔
اس پر انہوں نے کہا کبھی میں آپ سے ناراض ہو جاؤں تو مجھے منانے کا آسان طریقہ یاد رکھیں،ویڈیو کال پر آ کر اپنے گال پر انگلی رکھ لیں۔میری ہر ناراضگی اسی وقت ختم ہو جائے گی۔لیکن شکر ہے کہ ابھی تک ان کی ناراضگی کی نوبت نہیں آئی۔لیکن ملکہ کی فقیری شان کا اندازہ ضرور ہو گیا۔
میں نے یہ ساری باتیں فرحت نواز کو بتائیں تو ہنسنے لگیں۔میں نے کہا تین تو ہو گئیں،لگتا ہے اسی ایک برس کے اندرچار کی تعداد پوری ہونے والی ہے۔
فرحت نے کہا چار بیویوں کی اجازت ہے چار گرل فرینڈز کی نہیں ہے۔
پھر کہنے لگیں آپ جس رفتار سے جا رہے ہیںمجھے لگتا ہے آپ 72 کا عدد یہیں سے پورا کرکے ساتھ لے جائیں گے۔
(سعودی عرب میں ایک نکاح مسیارMisyar ہوتا ہے۔اسے مکمل قانونی تحفظ حاصل ہے۔گوگل پر اس کی تفصیل اور حقیقت دیکھیں تو یہ شادی گرل فرینڈ والی ہی ہے۔لیکن یہ مسئلہ اس وقت میرا موضوع نہیںہے۔بس اشارا دے دیا ہے،باقی گوگل میں دیکھ لیں)
میں اس سارے معاملے کو ایک اور زاویے سے بھی دیکھتا ہوں۔مبارکہ سے میرا وعدہ تھا کہ اگر آپ پہلے فوت ہو گئیں تو میں بھی زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہوں گا۔آپ کے پیچھے پیچھے ہی چلا آؤں گا۔مبارکہ کی وفات 27.05.2019 کو ہوئی۔میں فروری 2020 میں گردوں کے کینسر میں مبتلا ہوا۔پھر کینسر جگر میں بھی پہنچ گیا۔اس کے بعد برین میں بھی۔۔۔کینسر کے تین زوردار حملے ہوئے لیکن اللہ نے بہت ہی خاص فضل و احسان فرمایا اورسارے حملوں کے باوجود بچا لیا۔ مبارکہ نے دیکھا کہ اس بندے نے کینسر کے تین حملوں کے باوجود اپنا وعدہ پورا نہیں کیا تو عالمِ بالا سے اس نے متبادل کاروائی کی۔سوچایہ بندہ کینسر کے زہر سے نہیں مرا تو گڑ کھلا کر مارو۔اوپر تلے تین حسینوں کو مجھ تک پہنچا دیا ۔اور پھر گمان کیا کہ اس کی کوئی محبت کامیاب ہو گئی اور اس نے شادی کر لی تو اسی کامیابی کے نتیجے میں فوراََ اگلے جہان میںمیرے پاس پہنچ جائے گا۔اور اگر تینوں اسے چھوڑ گئیں،کوئی ایک بھی ساتھ نہ رہی توبڑھاپے کے ان معاشقوں کی ناکامی کے صدمے سے ہی میرے پاس آجائے گا۔
ضروری نہیں کہ ایسا ہو لیکن ایسا ہو بھی تو سکتا ہے۔جیسے دو سال کے عرصہ میں کینسر کے تین حملے ہوئے تھے ویسے ایک ہی سال میں تین حسینوں کی ناقابلِ یقین محبت مل گئی ہے۔
اور میں شدید حیرانی کے ساتھ دل ہی دل میں اللہ میاں سے کہہ رہا ہوں ؎ مجھ میں کیا دیکھا کہ یہ لطف و کرم ہے بار بار
ابھی مزید دیکھتے ہیں کہ آگے کیا ہوتا ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...