پہلی جنگِ عظیم کو ختم ہوئے کچھ سال ہو چلے تھے۔ ہانگ کانگ کے انتہائی جنوبی گوشے میں جیل تعمیر ہو چکی تھی۔ زیادہ تر قیدی سمگلنگ کے مجرم ہوتے تھے۔ ہتھکڑیاں اُس زمانے میں لوہے کی نہیں‘ لکڑی کی ہوتی تھیں۔ انگریز سرکار چینی قیدیوں پر چینی گارڈ مامور کرنے میں متامل تھی۔ چینی شاید خوئے غلامی میں ہندوستانیوں جیسے پختہ نہیں تھے۔ ہو سکتا ہے چینی گارڈ رکھے گئے اور انہوں نے چینی قیدیوں سے بہت زیادہ رعایت برتی! بہرطور فیصلہ یہ ہوا کہ جیل کی حفاظت کے لیے ہندوستان سے گارڈ منگوائے جائیں۔ درآمد شدہ گارڈز کا گروہ سکھوں اور مسلمانوں پر مشتمل تھا۔ جہاں آج سٹینلے جیل کی عمارت ہے اور اس کے افسروں اور سٹاف کے خوبصورت رہائشی فلک بوس اپارٹمنٹ ہیں‘ وہاں اس زمانے میں جنگل تھا اور ایک کچی پکی عمارت جیل کی تھی۔
مسلمان گارڈ زیادہ تر چکوال‘ گجرات اور جہلم کے علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ اپنی اپنی نماز‘ جہاں موقع ملتا‘ الگ الگ پڑھ لیتے۔ ایک دن انہوں نے باہمی مشورے کے بعد جیل سپرنٹنڈنٹ کو درخواست گزاری کہ نماز باجماعت کے لیے مناسب قطعۂ اراضی مختص کیا جائے۔ سپرنٹنڈنٹ نے درخواست اوپر بھیج دی۔ ہانگ کانگ کی ہائی کمانڈ نے درخواست منظور کر لی۔ یہاں سے اُس مسجد کی کہانی شروع ہوتی ہے جو آج جزیرے کے اس حصے میں خوبصورتی اور تقدس کی علامت ہے۔ اس میں گراں بہا دیدہ زیب قالینیں بچھی ہیں۔ کلامِ پاک کی تلاوت ہوتی ہے اور پورے ہانگ کانگ سے لوگ اسے دیکھنے آتے ہیں۔
قطعۂ زمین الاٹ ہوا۔ پردیسی پہریداروں نے نماز باجماعت ادا کرنا شروع کی۔ بارش اور طوفان میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔ ایک بار پھر حکامِ بالا کو درخواست دی گئی کہ چھت کھڑی کرنے کی اجازت دی جائے۔ مقامی حاکموں نے ہائی کمانڈ سے پوچھا۔ کہا گیا کہ اجازت ہے لیکن ڈھانچہ عارضی ہو گا ، کمرہ کچا اور چھت بانس کی ہو گی۔
کچھ عرصہ اور گزرا۔ اب مسلمانوں نے ایک اور عرض گزاری کی کہ ہمیں ایک باقاعدہ مسجد کی تعمیر کرنے دیجیے، اخراجات ہم خود اٹھائیں گے۔ یہ اجازت مل گئی۔ اس زمانے میں ایک گارڈ کی کل تنخواہ تین ڈالر تھی۔ اس میں سے ایک ڈالر سب نے مسجد کی تعمیر کے لیے وقف کر دیا۔ کچھ حصہ محکمے نے بھی ڈالا۔ جو ساتھی تعطیلات گزارنے ہندوستان گئے ہوئے تھے‘ انہیں تعمیر کے لیے نقشہ لانے کا کہا گیا۔ ایک صاحب واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں بادشاہی مسجد لاہور کا نقشہ تھا۔ کچھ گارڈ راج اور مستری کا تجربہ رکھتے تھے۔ تعمیر شروع ہو گئی۔ ڈیوٹی شفٹوں میں ہوتی تھی۔ ڈیوٹی ختم کرنے پر مسلمان گارڈ آرام نہیں کرتے تھے‘ مسجد کی تعمیر کرتے تھے۔ پنجاب رجمنٹ اور راجپوت رجمنٹ کے عساکر کے لیے جو صاحب راشن سپلائی کرتے تھے ان کا نام عباس آرقلی تھی۔ ان کے بھائی عمر آرقلی وکیل تھے۔ دونوں بھائیوں نے بڑھ چڑھ کر مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا۔ ہانگ کانگ کے مسلمان میں جو زبانی روایات چلی آ رہی ہیں‘ ان کی رُو سے پنجاب رجمنٹ کے
چودھری رحمت علی نے اپنا کردار ادا کیا۔ ایک اور صاحب چودھری غلام محمد تھے۔ میجر عزیز بھٹی شہید کے والد ماسٹر عبداللہ بھٹی بھی اس وقت ہانگ کانگ میں تھے۔ وہ بھی اس جدوجہد میں شریک تھے (یاد رہے کہ میجر عزیز بھٹی شہید کی ولادت ہانگ کانگ ہی میں ہوئی تھی) چیف گارڈ کا نام سردار علی تھا۔ بہرطور تیسرے عشرے (غالباً 1936ء) میں مسجد کی تعمیر مکمل ہو گئی۔ اہل و عیال کی پرورش کرنے والوں نے گویا ایک عرضی جنت کے لیے بھی ڈال دی۔
جنگ عظیم دوم کی افراتفری میں ہانگ کانگ پر جاپانیوں نے قبضہ کر لیا۔ بہت سے مسلمان تعاون نہ کرنے کے الزام میں‘ موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ مسجد کو گودام بنا دیا گیا۔ جاپانیوں کو شکست ہوئی تو انگریزوں نے دوبارہ اقتدار سنبھال لیا۔ لیکن اب ایک اور افتاد آ پڑی۔ پرتگالیوں کو بھی جیل کی حفاظت کے لیے بھرتی کرنا شروع کر دیا گیا۔ اس سے پہلے کہ جاپانیوں کے جانے کے بعد مسجد کا انتظام مسلمان سنبھالتے‘ پرتگالیوں نے مسجد پر قبضہ کر لیا اور اسے شراب خانہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ مسلمان ملازمین نے شدید احتجاج کیا، مرنے مارنے پر تل گئے۔ انگریز سرکار نے مسلمانوں
کے تیور دیکھے تو مسجد پرتگالیوں سے واپس لے لی اور مسلمان دوبارہ رکوع و سجود ادا کرنے لگے۔ اسّی اور نوّے کے عشروں میں مسجد کی دیکھ بھال کی سعادت بشیر محمد اور محمد شریف نامی دو پاکستانیوں کے حصے میں آئی۔ 1990ء میں ملک نثار احمد جیل کے افسر کے طور پر سٹینلے تعینات ہوئے۔ 1992ء میں محمد شریف کی ریٹائرمنٹ کے بعد نثار احمد نے مسجد کا چارج سنبھالا۔ وہ جو کہتے ہیں سر منڈاتے ہی اولے پڑے، نوجوان ملک نثار احمد نے مسجد کی نگرانی سنبھالی تو فلک بوس تعمیرات کا سلسلہ جزیرے کے اس گوشے تک پہنچ گیا تھا۔ سروے ہوئے‘ نقشے بنائے گئے اور اتھارٹی نے حکم صادر کیا کہ مسجد کو گرا دیا جائے اور یہ جگہ اس منصوبے میں ضم کر دی جائے جہاں بلند و بالا عمارتیں بننی ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلمان ملازمین کی تعداد سٹینلے میں حد درجہ کم ہو چکی تھی۔ حکام کو بھی معلوم تھا کہ اب مسلمان اتنی تعداد میں نہیں کہ دبائو ڈال سکیں۔ نثار احمد نے کمرِ ہمت باندھ لی۔ روانی سے چینی اور انگریزی بولنے والے نثار احمد نے پہلے تو مقامی حکام کو سمجھانے کی کوشش کی کہ بابری مسجدکے انہدام سے پہلے ہی عالمی سطح پر ارتعاش برپا ہے‘ ایک اور مسئلہ نہ کھڑا کیجیے‘ لیکن کام نہ بنا۔ اب نثار احمد نے اردگرد نظر دوڑائی۔ ہانگ کانگ کے مسلمانوں کے مجموعی امور اور مساجد کے حوالے سے ایک نیم سرکاری ادارہ بورڈ آف ٹرسٹیز کے نام سے کام کر رہا تھا۔ اس میں چینی‘ عرب اور دیگر قومیتوں کے مسلمان شامل تھے۔ نثار احمد نے
بورڈ سے رابطہ کیا اور درخواست کی کہ اگلے اجلاس میں مجھے ایک مسئلہ بیان کرنے کی اجازت دی جائے۔ نوجوان نثار احمد نے ریٹائرڈ شریف صاحب کو ساتھ لیا تاکہ ایسا نہ ہو کہ بورڈ کے ارکان ’’لڑکے‘‘ کی بات کو زیادہ اہمیت نہ دیں۔ اجلاس میں نثار احمد نے سٹینلے مسجد کا مقدمہ اس موثر‘ مدلّل اور دل سوز انداز میں پیش کیا کہ ارکان متاثر ہو گئے۔ اب نثار احمد نے انہیں سٹینلے میں مدعوکیا اور مسجد کی عمارت دکھا کر انہدام کے منصوبے کا پورا پس منظر اور پیش منظر دکھایا۔ بالآخر بورڈ آف ٹرسٹیز نے ہانگ کانگ کی حکومت سے اعلیٰ ترین سطح پر رابطہ کیا۔ اب جیل حکام کو احساس ہوا کہ معاملہ اتنا سہل نہیں؛ چنانچہ انہدام کا فیصلہ واپس لے لیا گیا۔
فتح جنگ ضلع اٹک کے گائوں جھنڈیال سے تعلق رکھنے والے نثار احمد نے اندازہ لگایا کہ موجودہ مسلمان ملازمین ریٹائر ہوئے تو مسجد کا معاملہ پھر نازک ہو جائے گا؛ چنانچہ انہوں نے سعی بسیار کے بعد مسجد کو تاریخی عمارت قرار دلوایا۔ یوں اب مسجد کو گرایا نہیں جا سکتا اور اس کی حفاظت آثارِ قدیمہ کے محکمے کے فرائض میں شامل ہو گئی ہے۔
نثار احمد نے کل وقتی امام کا بندوبست کیا۔ ان کی اہلیہ نے دامے درمے بھرپور ساتھ دیا۔ خواتین کے لیے وضو خانے تعمیر کرائے۔ ایک بچہ مسجد میں حفظِ قرآن مکمل کر چکا ہے، دوسرا کرنے والا ہے۔ کئی درجن بچے ناظرہ قرآن پاک پڑھ چکے ہیں۔ مسجد پورا دن کھلی رہتی ہے۔ پانچ وقت کی نماز باجماعت ادا کی جاتی ہے۔ جمعہ کے دن کی رونق دیدنی ہوتی ہے۔ باہر سے بادشاہی مسجد لاہور کا نقشہ پیش کرنے والی یہ خوبصورت عمارت ہندوستانی اور پاکستانی مسلمانوں کی تین نسلوں کی جدوجہد کا دلکش اور شیریں ثمر ہے۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“