(Last Updated On: )
تمہاری پہلی چیخ مانو میری زندگی کی تجدید تھی۔ تمہارا سارا پہلا پل مجھے یاد ہے۔ وہ تمہارا پہلا دانت ہو ،پہلا قدم یا اسکول کا پہلا دن، سب ابھی بھی میری یادداشت میں جھلملاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اولاد بھی کیا چیز بنائی ہے۔ اولاد تو انسان کو اپنا آپ ہی بھلا دیتی ہے۔ اولاد وہ محور ہے جس پر ماں باپ کی دنیا گھومتی ہے۔ ساری خوشیوں اور امیدوں کا منبع اولاد ہی تو ہوتی ہے۔
اسکول میں داخلے کے بعد تم بہت ذوق و شوق سے اسکول جایا کرتےتھے۔ مجھے تمہیں اسکول کے لیے صبح سویرے اٹھانے اور اسکول بھیجنے میں کبھی دِقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا ۔ کتنی عجیب بات ہے کہ تمہارے سارے تعلیمی سفر میں مجھے کبھی بھی تمہیں پڑھنے کی تاکید نہیں کرنی پڑی بلکہ مجھے تو تمہیں سونے کے لئے کہنا پڑتا تھا، پڑھنے سے روکنا پڑتا تھا۔
جب تم آٹھویں جماعت میں آئے تھے تو تمھیں کرکٹ کا جنون ہوگیا تھا مگر پڑھائی ہمیشہ کی طرح تمہاری اولین ترجیح تھی۔ شروع میں جب کبھی تم میچ ہار جاتے تو میری گود میں منہ چھپا کر لیٹ جاتے تھے، پھر میں نے تمہیں ہار کو وقار سے جھیلنا سکھایا تھا۔ تمہیں بتایا کہ زندگی سارے رنگوں سے عبارت ہے اور اس کی خوبصورتی سے محظوظ ہونے کے لیے سب جذبوں سے آشنائی ضروری ہے۔ زندگی کا جام تو گویا کوک ٹیل ہے جس کی رنگینی و تلخی، جیت اور ہار ہی میں تو مضمر۔
تم صرف ایک بار پڑھائی میں کمزور پڑے تھے۔ تمہارے مارکس تب گرے تھے جب محلے میں بیگ صاحب نئے نئے کرائے دار کے طور پر آئے تھے۔ اس وقت تم سکینڈ ائیر میں تھے اور تمھارے مارکس گرنے کی وجہ بلا شبہ حسین تھی مگر ٹائمنگ بہت سنگین تھی۔ تم نے پہلی بار اپنی ترجیحات بدلیں تھیں ، گو وہ عرصہ بہت مختصر رہا مگر اس محبت کا اثر دیرپا تھا کہ
کم عمری میں جذبے خالص اور شدید ہوتے ہیں۔ یقین مانو منو تب بھی میرا دل دکھا تھا، مگر میری جان ہر چیز اپنے وقت پر ہی اچھی لگتی ہے۔ میرے سمجھانے پر تم مان گئے تھے اور تمھاری سعادت مندی نے میرے دل کو ملول کر دیا تھا، مگر تمہارا وہ سال بہت قیمتی تھا۔ تم نے پڑھائی پر توجہ تو پوری طرح مرکوز رکھی مگر تم بدل گئے تھے ۔ میرا منوچہر وہ ہنستا کھلکھلاتا شرارتی منو نہیں رہا، تم اوپری ہنسی ہنستے تھے۔ اس واقعے کے عرصے بعد تک میں نے تمہاری خالص ہنسی نہیں سنی تھی۔ منو تمہاری شادی سے پہلے میں نے بیگ صاحب کو ڈھُونڈنے کی بہت کوشش کی تھی اور قسمت دیکھو، وہ لوگ مل بھی گئے مگر تاخیر ہوچکی تھی کہ رحمہ اب شادی شدہ تھی۔ تمہارے دل کا داغ میرے بھی دل کا زخم بنا تھا بیٹا۔ شاید اسی کو قسمت کہتے ہیں۔ اس قصے کے بعد تم نے پڑھائی تو نہیں مگر اپنی دوسری محبت کرکٹ اور طبلہ سب چھوڑ دیا تھا۔
میری بھیانک یاد تمہارا پہلا سگریٹ ہے، جو تم چھت پر ٹنکی کے پیچھے چھپ کر اختر کے ساتھ پی رہے تھے اور میرا زناٹے دار تھپڑ جس نے میرا ہاتھ جھنجھنا اور تمہارا گال سوجا دیا تھا۔ بعد میں میں نے اپنا ہاتھ بھی بٹے سے کچلا تھا اور تم میرے ہاتھ پر پٹی باندھتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر روئے تھے۔ تمہارے پاپا ہم دونوں کا کتنا مذاق اڑاتے تھے مگر ہم دونوں واقعی ایک دوسرے کے عاشق تھے۔ مائیں تو خیر ساری ہی اولادوں کی عاشق ہوتی ہیں مگر میں وہ خوش قسمت ماں ہوں جس کا بیٹا بھی اپنی ماں کے لئے جیتا ہے۔
تم نے اپنی شادی کا فیصلہ بھی کلی طور پر مجھ پر چھوڑ دیا تھا۔ اور میرا معیار تھی رحمہ۔ میری خواہش تھی کہ رحمہ تو نہیں مل سکی پر اس سے ملتی جلتی ضرور ہو۔ مجھے خوشی ہے کہ امتل ایک اچھا انتخاب ثابت ہوئی۔ وہ تمہاری بہترین شریک حیات ہے۔ شادی کے بعد تمہارے چہرے کی چمک اور لہجے کی کھنک نے میرے دل کو شاد کیا اور وہ برسوں پرانا ملال جاتا رہا۔
پھر میرے شہر دلبرا پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ وہ پر آشوب زمانہ بھی آیا جب والدین اپنی متاع حیات کو، اپنے بڑھاپے کے شجر سایہ دار کو زبردستی جلا وطن کر رہے تھے۔ اپنے بچوں کی زندگی کی بقا کے لیے اپنی زندگیوں کو اپنے سے دور کر رہے تھے۔ شہر سے لوگ اغوا برائے تاوان کی مد میں اٹھائے جا رہے تھے اور لا قانونیت کا دور دورہ تھا۔ اس درویش شہر کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ شہر کراچی خود اپنے جوانوں کو اپنے سے دور کر رہا تھا۔ انہیں دنوں تم لوگوں کو بھی بہت بھاری دل سے ہم دونوں نے امریکہ رخصت کیا تھا۔
تم اب بہت مصروف رہتے ہو۔ یہ دوری میرے
لئے سوہان روح ہے مگر میں اپنی ممتا کو تمہارے پیروں کی زنجیر نہیں کرنا چاہتی اور تمھاری
پرواز میں حائل نہیں ہونا چاہتی۔ تم اب امریکہ میں اپنے دونوں بچوں کے ساتھ سکون اور بےخوفی کے ساتھ رس بس چکے ہو۔ گو ہم دونوں کے درمیان اب سات سمندر حائل ہیں مگر اب بھی ہم لہجے سے ایک دوسرے کے دل کو کھوج لیتے ہیں اور ایک دوسرے کا بھید بوجھ لیتے ہیں۔ میری جان آج رات تم سے بات کر کے میرا دل کیوں بوجھل ہے؟ میرے منو کے لہجے میں معمول کی کھنک کیوں نہیں تھی؟ میں نے پوچھا تھا
” کیا ہوا ہے؟”
تم نے ٹال دیا کہ ” کچھ نہیں امی بس موسم بدل رہا ہے نا اس کا اثر ہے”۔
میں نے تمہارا دل رکھنے کو مان لیا مگر مجھے پتہ ہے کہ تمہاری امتل سے لڑائی ہوئی ہے۔ کیوں ہوئی ہے، یہ میں نہیں جانتی۔ بچوں کی خیریت اور معمول کی ادھر ادھر کی بات چیت کے بعد میں نے کہا منو امتل دونوں بچوں کی دیکھ بھال، ان کی پڑھائی اور گھر داری میں بہت
مصروف رہتی ہے اور اب خیر سے تیسرے کی بھی آمد آمد ہے۔ اس کا خیال رکھا کرو بیٹا۔ منو تم تو ڈاکٹر ہو بہت اچھی طرح سے جانتے ہو کہ اس وقت ہارمونل چینج اور تھکن کے باعث عورت چڑچڑی ہو جاتی ہے۔ امتل اچھے سبھاؤ کی لڑکی ہے، میں جانتی ہوں کہ تم میں بھی بہت برداشت ہے۔ تم بھڑکے ہو تو ضرور کوئی
خاص بات ہو گی۔ میری جان حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں کو آبگینے سے تشبیہ دی ہے۔ آبگینے سمجھتے ہو نا ؟ نازک ترین شہ ، تو بیٹا نازک چیزیں تو بہترین نگہداشت بھی مانگتی ہیں۔ میری جان بہترین مرد وہ ہے جس سے اس کے اہل خوش ہوں ۔ باظرف مرد ہی عورتوں کی عزت کرتے ہیں ورنہ تھرڈلے مرد تو عورتوں کو پیر کی جوتی ہی گردانتے ہیں۔ تم نے کبھی سوچا منو کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو پسلی ہی سے کیوں پیدا کیا؟ کیونکہ عورت کا مقام دل ہے ۔ وہ دل کی مکین ہے اور وہیں سجتی ہے۔ تم لنچ بریک میں بیٹھ کر ٹھنڈے دل سے غور کرنا۔
یقیناً بات اتنی گمبھیر نہیں ہوگی۔ شاید تمہارا دن ہسپتال میں اچھا نہیں گزرا ہوگا یا تم ٹریفک جام میں پھنس گئے ہو گے۔ ادھر گھر میں بچوں نے امتل کو بھی زچ کر دیا ہو گا بس ہو گئی گرما گرمی تم دونوں میں ۔ شام میں وآپسی پر اس کے لیے پھولوں کا گلدستہ لے لینا یا باہر کھانا کھانے چلے جانا۔ میری جان زندگی صرف اور صرف ایک بار ہے۔ اسے خفگی کے نظر مت کرو بلکہ زندگی سے خوشیاں کشید کرو۔
امی آپ کیسے جان لیتیں ہیں؟
اس لیے میری جان کہ تم میرے دل میں رہتے ہو۔
چلو اب فون رکھو اور فوراً کینٹین جا کر ناشتہ کرو۔ پتہ نہیں تم مرد لوگ اپنا غصہ ناشتے کھانے پر کیوں نکالتے ہو۔ اب میں فون رکھتی ہوں عشاء کی اذان ہو گئی ہے۔ نماز کے بعد مجھے دوا بھی کھانی ہے۔ ورنہ تمہارے پاپا سر پر سوار رہیں گے کہ دوا کھائی کہ نہیں؟ پھر بلڈ پریشر بھی چیک کرینگے۔ اب بھلا بتاؤ سوتے وقت
بلڈ پریشر چیک کرنے کی کیا تک ہے؟
اپنا خیال رکھنا۔ لو یو میرے بچے۔
عشاء کی نماز کے بعد میں نے امتل کو فون کیا اور وہاں بھی آواز کے بھاری پن کے استفسار پر وہی موسم کے بدلنے کی کہانی تھی۔ مجھے ہنسی آئی کہ یہ بچے ہم بوڑھوں کو کیا نادان سمجھتے ہیں؟ بھئی یہ بال دھوپ میں سفید تھوڑی کیے ہیں۔ میں نے امتل سے تو کچھ نہیں پوچھا کہ ساس کی مصری کی ڈلی بھی کڑوی کیسیلی ہی لگتی ہے۔ خیر خیریت کے بعد کہا کہ بیٹا مجھ پر ایک احسان کرو گی؟ (اب بھلا ایسے میٹھے داؤ سے کون نہ گھائل ہو گا) ۔ بیچاری فوراً بولی “جی امی حکم کیجئے”
میں نے کہا بیٹیا آج مجھے منو بہت یاد آ رہا ہے اور میرا بڑا دل چاہ رہا ہے کہ اس کو اس کا پسندیدہ کھانا کھلاؤں۔ پلیز تم کو تکلیف تو گی میری بچی مگر میری یہ خواہش پوری کر دو۔ آج منو کے لیے پلاؤ، کوفتے اور بیگن کا بھرتا بنا دو۔ اللہ تم کو شاد رکھے بیٹی۔
اس جزباتی تقریر کے بعد بیچاری بیٹی کے لیے
ساس نے کوئی دوسرا آپشن چھوڑا ہی کب تھا؟ غریب کو ہاں کرتے ہی بنی۔ ویسے بھی امتل سمجھ دار لڑکی ہے۔ اوچ نیچ کہاں نہیں ہوتی۔ جھگڑے کا یہ ہے کہ جلد از جلد ختم ہو جائے تو بہتر تاکہ شیطان کو کوئی اور پینترا کھیلنے کا موقع ہی نہ ملے۔
میری زندگی کی سب سے پر مسرت گھڑی جب
میری گڑیا ، میری گیتی اس دنیا میں آئی تھی۔ یہ پہلی چیخ اولاد کا واحد وہ “رونا” ہے جس پر ہر ماں ہنستی ہے۔ گیتی میری تتلی تھی، میری گوریا تھی جو آنگن میں چہکتی اور پھدکتی پھرتی۔ اس نے میری زندگی کو نئ جہت دی تھی اور مجھے جنت کی ہمسری عطا کی تھی۔ گیتی کب پاؤں پاؤں چلی اور کب اسکول کا بستہ اٹھایا پتہ ہی نہیں چلا کہ وقت بہت تیز چلا تھا۔ پر نہیں! کبھی کبھی وقت بھاری بھی ہو جاتا ہے
جو گزارتے نہیں گزرتا۔ پل، پل نہیں رہتے بلکہ صدیاں بن جاتی ہیں۔ وقت کے کوہ گراں کو کاٹتے کاٹتے بازو شل اور دم لبوں پرآ جاتا ہے۔ میری زندگی بھی اس آشوب سے گزری ہے پر اللہ تعالیٰ کا حسن انتظام ایسا ہے کہ کوئی رت کوئی موسم بھی مستقل نہیں رہتا، اگر درد کی لو چلتی ہے تو اس بےنیاز کے صدقے رحمت کی گھنگھور گھٹا بھی ضرور برستی ہے۔ صرف ایک تغیر ہی تو ہے جس کو ثبات ہے۔ باقی رہے نام اللہ کا۔
گیتی سمجھدار بچی تھی، ماں کے محدود وسائل اور لامحدود مسائل سے آشنا۔ کبھی کوئی فرمائش یا مطالبہ نہیں کیا۔ اس کی بے زبانی اور صابر رویہ میرے دل کو زخماتا تو تھا پر میرے پاس کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا کہ سنگل پیرنٹ کی اپنی مجبوریاں، حدود اور کٹھنائیاں ہوتی ہیں۔ گیتی نے بہت جلد گھر کے کام کاج میں میرا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا اور کم عمری ہی سے وہ میرے شانے بشانے تھی۔ اپنے ناتواں
کندھوں پر اس نے میرا کافی بوجھ اٹھا لیا تھا۔ اس کا وجود نہ صرف کہ نعمت بلکہ میری شرح زندگی بھی ۔
گڑیا کی شادی رچاتے رچاتے جانے کب گیتی اتنی بڑی ہوئی کہ اس کا خود کا رشتہ آ گیا۔ گیتی ان دونوں انٹر کے امتحانات سے فارغ ہوئی تھی کہ میری پڑوسن کی جیٹھانی اپنے بیٹے کے لیے سوالی بن کر آئیں۔ میں حیران رہ گئی تھی مجھے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ میری گوریا اتنی بڑی ہو گئی ہے کہ اب بابل کا آنگن اس کے لیے تنگ پڑ گیا ہے اور وہ نئے جہانوں کی اڑان کے لئے تیار ہے۔ میں گریجویشن سے پہلے بچیوں کی شادی کے حق میں نہیں سو ان کو سہولت سے انکار کر دیا۔ میری پڑوسن نے بہت زور لگایا، مجھے زمانے کی روش اور سنگل پیرنٹ ہونے کے مضمرات سے نئے سرے سے آگاہی دی ، مگر میں بچیوں کی شادیاں تعلیم مکمل کیے بغیر کرنے کے حق میں نہیں ہوں۔ لڑکیوں کا باشعور ہونا اور برے وقتوں سے نبٹنے کے لیے ان کے ہاتھوں میں
تعلیم اور ہنر کا ٹول ہونا بہت ضروری ہے۔ گیتی ویسے بھی ذہین تھی اس نے انٹرمیڈیٹ بہت اچھے نمبروں سے پاس کیا اور انجینیرنگ یونیورسٹی میں میرٹ پر داخلہ حاصل کر لیا۔ وقت اپنی مخصوص رفتار سے گزرتا رہا اور میری گیتی نے اپنی انٹر شپ بھی کامیابی سے مکمل کر لی۔
اب زندگی کا سب سے مشکل فیصلہ درپیش تھا۔ پر انسان کی بساط ہی کیا ہے؟ تمام بقراطی اور چھان پھٹک کے باوجود آپ کسی کو ایک خاص حد تک ہی جان پاتے ہیں۔ گیتی کے لیے آنے والے رشتوں میں، اپنی محدود عقل ودانش کو بروئے کار لاتے ہوئے اور گیتی کی رضا کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے صائب ترین رشتہ منتخب کیا۔ شریف لوگ تھے اس لیے کوئی مطالبہ نہیں تھا۔ مجھے تو واقعی حیرانی ہے کہ لوگ جگر کا ٹکڑا بھی لیتے ہیں اور سونا روپیہ بھی؟ گزرتے وقت کے ساتھ میری گیتی ماں کے رتبے پر فائز ہوئی۔ بیٹے کی پیدائش کے بعد اس نے نوکری چھوڑ دی
تھی کہ ڈے کیر جانے سے عاصم کی صحت بہت خراب رہنے لگی تھی پھر جلدی دوسرے بچے کی بھی پیدائش ہو گئ۔ انہیں دنوں داماد کی آسٹریلین امیگریشن بھی ہو گئ اور میری نور نظر سات سمندر پار چلی گئی۔ اتنی دور جہاں صرف میرے خیالات کی اڑان ہی ممکن تھی، خاکی وجود کی رسائی نہیں۔
ابتدائی دو تین مشکل سالوں کے بعد ان کے حالات بھی بہتر ہوتے چلے گئے۔ ان پانچ سالوں میں گیتی نے پاکستان کا صرف ایک ہی چکر لگایا، وہ بھی اپنی نند کی شادی پر۔ اس کا آدھا وقت تو بچوں کی بیماری کے باعث ڈاکٹروں اور ہسپتال کے نظر ہو گیا یا پھر شادی نبٹانے میں۔ میرے حصے میں تو اتنا قلیل وقت آیا کہ آنکھوں کی پیاس بھی نہ بجھی، جائیکہ کے دل کی بات ہوتی۔
کل جب فون پر بات ہوئی تو گیتی کی آواز بجھی ہوئی تھی اور سلسلہ تکلّم ٹوٹ ٹوٹ جاتا
تھا۔ کیا ہوا گیتی طبیعت ٹھیک ہے نا؟
جی امی! بس موسم بدل رہا ہے نا اس لیے طبیعت میں گرانی ہے۔
پھر ادھر ادھر کی مختصر باتوں کے بعد فون رکھ دیا کہ مصروفیت کب جان چھوڑتی ہے۔ دو بچوں کا ساتھ اور تیسرے کی آمد آمد۔ شکر کے سانس کی آمد جامد خودکار ہے ورنہ کام کے انبار تلے شاید اس کی بھی مہلت نہ ملتی۔
میں نے داماد کو فون کیا، وہ ما شاء اللہ حسب معمول ہشاش بشاش اور چونچال ملے۔ خیر خیریت کے بعد میں نے پوچھا گھر میں سب خیریت ہے؟ گیتی کہیں مصروف ہے کیا کہ اس نے فون نہیں اٹھایا؟
ہنستے ہوئے جواب دیا کہ منہ سر لپیٹے پڑیں ہونگی۔ میرا دل دھک سے رہ گیا۔
کیوں کیا ہوا؟
آنٹی !! آپ کی بیٹی بہت حساس ہے، آج کل بہت مصروفیت ہے اور ہسپتال سے اٹھتے اٹھتے مجھے
کافی دیر ہو جاتی ہے، پچھلے دو ویک اینڈ سے کچھ دوستوں کے ساتھ پروگرام بن گیا تھا۔ میری شامت کہ میں پرسوں شادی کی سالگرہ بھول گیا۔ بس یہی سب لیکر جھک جھک ہو گئی۔ آنٹی اٹھ سال ہو گئے ہیں شادی کو! اب کون ان خرافات میں پڑتا ہے۔
میں نے تحمل سے سب سنا۔
ہاں بیٹا تم تو ڈاکٹر ہو جانتے ہو کہ عورت جب ماں بن رہی ہوتی ہے تو بہت حساس ہو جاتی ہے۔ ان دنوں مزاج گھڑی گھڑی بدلتا ہے۔ تم سے زیادہ یہ بات اور کون سمجھ سکتا ہے۔ اس کا دو بچوں کا ساتھ ہے، گھر داری اور بچوں کی پرورش یہ کوئی آسان کام تو ہے نہیں۔ پھر مصروفیت اور یکسانیت انسان کو تھکا مارتی ہے۔ بیوی کا شوہر سے توجہ اور وقت کا مطالبہ فطری ہے بیٹا۔ رہ گئی بات شادی کی سالگرہ بھولنے کی تو میرے بچے یہ چھوٹی چھوٹی باتیں اور خوشیاں ہی تو زندگی کی رونق ہوتی ہیں۔ شادی کی سالگرہ تو تجدیدِ محبت کا دن ہے اور اسے تو بڑے پریم اور
لگن سے منانا چاہیے۔ بیٹا عورت صرف تھوڑی سی محبت اور توجہ سے سرشار ہو جاتی ہے۔ محض محبت کی بھوکی اور تجدید محبت اس کے لئے ٹونک کا کام کرتی ہے۔ آزما کر دیکھو۔ میرے بچے شریعت میں جھوٹ کی گنجائش بالکل نہیں ہے مگر زوجین کو آپس میں ایک دوسرے کی دل بستگی اور دل داری کے لیے بےضرر جھوٹ کی بھی اجازت ہے۔ سوچنا کبھی اس رعایت کی حکمت کے بارے میں ۔
اپنا خیال رکھنا بیٹا اللہ حافظ۔
گیتی کی بجھی آواز میرے دل میں ٹوٹی انی کی طرح گڑی ہوئی تھی۔ میں نے گیتی کو ایک تفصیلی ای۔ میل لکھی۔
میری پیاری گیتی۔
میں تمھاری رخصتی سے پہلے چاہ کر بھی تمھیں یہ نہ بتا سکی تھی کہ بیٹی تم بہت قیمتی اور نایاب ہو۔ تم نے تنگی ترشی میں بڑے
رکھ رکھاؤ اور سبھاؤ سے وقت گزرا اور بیٹی کا رول نہایت عمدگی سے نبھایا۔ میری جان !! اب جس دور میں تمہاری زندگی داخل ہو رہی ہے اور جو کردار تمھیں اب ادا کرنا ہے وہ آسان نہیں، گویا جوتے میں موجود کنکر کے ساتھ شاہراہ حیات طے کرنی ہے۔ گھر بنانے کے لئے گارے اور مٹی کی ضرورت ہوتی ہے اور ازدواجی بونڈ کا گارا بنانے کے لیے اپنی”عزت نفس” کی خاک میں اپنی “میں” کے چورے کو ملا کر اپنے “ادھورے خوابوں” کے آنسوؤں سے گوندھنا پڑتا ہے۔ ازدواجی زندگی مشکل سفر ہے ، جو صبر اور مستقل مزاجی کا متقاضی بھی۔ زندگی کسی کے لیے بھی آسان نہیں ہوتی بہت کچھ بھوگنا اور جھیلنا پڑتا ہے، مگر میری جان !! سچویشن کی assessment کرنی پڑتی ہے۔ واقعات کو تولنا پڑتا ہے اور اپنے نفع اور نقصان کے توازن کا دھیان رکھنا پڑتا ہے۔ کشادہ دلی اور ظرف کے ساتھ اپنی زندگی کا جائزہ لیتے ہوئے طے کرنا ہوتا ہے کہ عدم برداشت کی لکیر کہاں کھیچنی
ہے۔ کس مقام پر سمجھوتے کی چادر میں مزید پیوند نہیں لگ سکتے۔ سب کو صرف ایک ہی زندگی ملتی ہے اور یہ ہر انسان کا حق ہے کہ اپنے وسائل کے حساب سے ایک خوش باش زندگی گزارے۔ اپنے طور پر اپنی زندگی بھی جئے کہ ماؤں نے اولادوں کو آزاد جنا ہے۔ کسی کو یہ اختیار نہیں کہ کسی کو باندی یا غلام بنا لے۔ میں نے تمہیں رخصت کرتے ہوئے یہ نہیں کہا تھا کہ اب وہاں سے مر کر نکلنا۔
نہیں!!! ایسا نہیں ہے اور وہ اس لیے میری جان کہ تم سب زیادہ قیمتی ہو۔
پتہ ہے بیٹی جب انسان کسی سے ناراض ہوتا ہے تو اسکی ساری اچھائیاں اور خوبیاں یکسر فراموش کر دیتا ہے۔ غصے میں وہ اپنے ساتھی کی ساری دل داریاں اور محبتیں بھول جاتا ہے۔ یہ بہت غلط روش ہے میری جان۔ میرا مشورہ ہے کہ جب کبھی بھی ناراضگی ہو تو سب سے پہلے غسل کر لو اور پھر ڈٹ کر کھانا کھاؤ، اور اس کے بعد کسی پرسکون جگہ بیٹھ کر معاملے پر
ٹھنڈے دل اور غیر جانبداری سے غور کرو۔ اپنے آپ کو اس واقعے سے بالکل الگ کر کے، کیونکہ جب آپ بہت قریب سے دیکھتے ہیں تو وژن بگڑ جاتا ہے۔ سب سے اہم نکتہ کہ کبھی بھی پرانے جھگڑوں کو نئے جھگڑے کے ساتھ مربوط نہ کرو اور جب تلخ جملوں کی زہرناکی کو یاد کرو تو دلدار لمحوں اور سخاوت و مروت کے پل بھی ضرور شمار کر لینا۔ پھر دل اور ضمیر جو فیصلہ کرے اس کو پورے استقلال کے ساتھ قبول کرنا۔ یاد رکھو میری بچی کہ ہم خود اپنے بہترین منصف ہوتے ہیں اگر غیر جانبداری اور روشن ضمیری کے ساتھ اپنا محاسبہ کریں تو۔
اگر زندگی کا ساتھی محبت اور وقار سے رکھتا ہے تو بہترین گویا دنیا میں جنت ، اگر خدانخواستہ معاملہ برعکس ہے تو زندگی کرنے کے اور بھی طریقے ہیں کیوں کہ رشتے جب وینٹیلیٹر پر چلے جائیں تو جلد یا بدیر آپ کو سوئچ آف کرنی ہی پڑتی ہے۔ بھروسہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اپنے قوت بازو پر کہ پھر
زندگی کی راہیں روشن ہیں۔ یہ ایک مشکل مگر قابل عمل فیصلہ ہے۔
بیٹا یہ” م” کا چکر بھی خوب ہے۔ م سے ماں، م سے محبت اور م ہی سےمختار اور مجبور بھی۔ ماں کا تو دوسرا نام ہی محبت ہے مگر میری بچی کچھ مائیں مختار ہوتیں ہیں تو کچھ مجبور کہ زندگی سب کو مختلف ڈھنگ سے نوازتی ہے۔ مگر مجبور سے مجبور ماں کے گھر اور دل کا دروازہ بھی اپنی اولاد کے لیے ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔ ہمیشہ یاد رکھنا کہ تمہاری مجبور ماں ہر پل ہر گھڑی تمہارے شانہ بشانہ کھڑی ہو گی۔ تم اپنے پیچھے مجھے ہمیشہ موجود پاؤ گی۔ میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔
تمہاری امی۔