بیسویں صدی کے وسط میں ایک لڑکا انگلیاں چٹخا رہا تھا۔ دادی نے اسے ڈانٹا کہ ایسا کرنے سے اس کو جوڑوں کا درد ہو جائے گا۔ اس کے ذہن میں خیال آیا کہ جو دادی کہہ رہی ہیں، کیا وہ ٹھیک ہے بھی کہ نہیں۔ اس نے تجربہ کرنے کا ایک طریقہ سوچا۔ اگلے ساٹھ سال تک ہر روز اپنے بائیں ہاتھ کی انگلیاں کم از کم دو بار چٹخاتا تھا اور دائیں کی کبھی نہیں۔ ساتھ ساتھ ریکارڈ رکھتا جاتا تھا۔ اس دوران میں اور پھر اس کے آخر میں اس نے دونوں ہاتھوں کا تفصیل سے معائنہ کروایا جس سے پتہ لگا کہ ساٹھ سال تک بھی ایسا کرنے میں دونوں میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اس نے اپنا پیپر لکھا جس میں اس تجربے کی تمام تفصیل شائع کی۔ اس سے جوڑوں کے درد اور انگلیاں چٹخانے کے تعلق کے بارے میں ہم سب کے علم میں تھوڑا سا اضافہ ہو گیا۔
اگر آپ چائے کی پیالی پکڑ کر چل رہے ہیں تو کیا چائے چھلک جائے گی؟ اس کا انحصار بہت سی چیزوں پر ہے۔ چائے کے کپ کے دہانے کا سائز، چلنے کی اور ہاتھ کی حرکت کی رفتار، چائے میں پتی اور دودھ کتنا ہے، پیالی کی گہرائی، شکل، میٹیریل۔ اس قسم کی چیزوں سے اس کو کیلکولیٹ کیا جا سکتا ہے اور اس پر تحقیق دنیا کی ایک مشہور یونیورسٹی کے مکینیکل انجینیرنگ کے ڈیپارٹمنٹ میں ہوئی اور پھر ہمارا علم اس بارے میں ایک قدم آگے بڑھ گیا۔
تیسری کہانی سے پہلے رک کر سوال کی طرف واپس۔ سائنسدان کون ہیں؟ یہ کسی ایک علاقے، ایک ادارے یا ایک طرح کی سوچ رکھنے والے نہیں۔ یہ میں اور آپ ہیں۔ اور پھر ہماری طرح کے رنگ برنگے تجسس رکھنے والے لوگ جو دنیا کے ہر کونے میں پائے جاتے ہیں اور اپنے ذہن میں ابھرے رنگ برنگے سوالوں کے جواب تک ایک طریقے سے پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طریقے اور اس کے نتائج کو سب کے ساتھ شئیر کرتے ہیں۔ متعلقہ شعبے کا علم رکھنے والے اس پر اپنی رائے بھی دے سکتے ہیں اور اسے اپنی اگلی تحقیق کی بنیاد بھی بنا سکتے ہیں۔ انٹرنیٹ ہمیں اب اس قابل کرتا ہے کہ دنیا کے کسی کونے میں نکلنے والے ایک نتیجے کو دیکھا جا سکے اور اس تک پہنچنے کے طریقے کو جانچا جا سکے اور اس ٹاپک کے بارے میں دوسرے علم رکھنے والوں کی رائے جانی جا سکے اور پھر ہمارے اس مشترکہ علم کو آگے بڑھایا جا سکے۔ یہ سب کچھ ہر ایک کی رسائی میں ہے۔
اب تیسری کہانی کی طرف۔ فزکس کی ہماری اب تک کی سمجھ میں بہت ہی اہم کردار پیٹر ہگز کا ہے۔ انہوں نے تصور پیش کیا کہ ہر طرف ایک کوانٹم فیلڈ پھیلا ہے جس کی وجہ سے دنیا ویسی ہے جیسے نظر آتی ہے۔ اس تصور پر کچھ اور لوگوں کے ساتھ مل کر کچھ برس کی محنت کے بعد انہوں نے اس کو تفصیل سے لکھا، اس کی مساوات دیں جو پچھلے تجربات سے بھی میچ کرتی تھیں اور غیر حل شدہ مسائل کی بھی وضاحت کرتی تھیں اور پھر اپنا پیپر پبلش کرنے کو بھیجا دیا جو اس لئے ریجیکٹ کر دیا گیا کہ وہ ٹیسٹ ایبل نہیں۔ یعنی کوئی ایسی پیشن گوئی نہیں کرتا تھا جسے تجربے سے پرکھا جا سکے۔ پیٹر ہگز نے اپنا پیپر تبدیل کیا اور اس میں ہگز بوزون کی پیش گوئی کی۔ یعنی اگر وہ فیلڈ واقعی ہوا تو اس کا پارٹیکل بھی ہو گا اور وہ کیسا ہو گا۔ دوبارہ بھیجا گیا پیپر شائع ہو گیا اور اس کا کامیاب ٹیسٹ اکیسویں صدی کی فزکس کی اہم دریافتوں میں سے ہے۔ لیکن ٹیسٹ ایبل ہوئے بغیر تمام تر مساوات کے باوجود یہ پیپر بے فائدہ تھا۔
یونہی چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے سوالات کے جوابات تک ایک طریقے سے پہنچنا سائنس ہے۔ کیا ہونے والے علم کے اضافے میں پاکستان کا کوئی حصہ ہے اور یہاں پر کوئی کام ہو رہا ہے؟ بالکل، مختلف طرح کا اور مختلف شعبوں میں۔ کیا کچھ ہو رہا ہے؟ یہ اب آپ خود ڈھونڈیں۔ (اگر کوئی یہ کہے کہ اس سے ہونے والا کام اس سے بہت کم ہے جتنا ہونا چاہیۓ، تو وہ رائے غلط نہیں ہو گی)۔
اگر پہلے دو تجربات عجیب لگے تو کچھ اور سوالات جو اس وقت کی پی ایچ ڈی کا موضوع ہیں۔
شیشے پر جمتے بخارات کا پیٹرن کیا ہو گا؟
ریت گھڑی سے گرنے والی ریت کے ڈھیر کا زاویہ کیسے پریڈکٹ کیا جا سکتا ہے اور ریت کی موٹائی اور ہوا کی نمی سے کیا فرق پڑتا ہے؟
ڈنڈی سے ٹپکنے والا شہد اگر ایک شہد کے تالاب میں گرے تو بننے والے دائرے کی صورت کیا ہو گی؟
اس قسم کی ریسرچ کے نتائج نہ صرف کان کنی کے لئے بہت اہم ہیں بلکہ کئی صنعتی پراسسز کے لئے بھی اور موسم کی بہتر پیشگوئی بھی کی جا سکتی ہے اور اگر کوئی عملی فائدہ نہ بھی دیں تو کچھ نیا جان لینا ہی سائنس کا اصل مقصد ہے۔