پندرہویں صدی سے سترہویں صدی تک کے دور کو مہم جوئی کا دور کہا جاتا ہے۔ اس دوران میں ہم زمین کے ان حصوں تک پہنچے جن کے بارے میں پہلے نہیں جانتے تھے۔ ایک آخری پڑاوٗ قطبِ جنوبی تھا۔ ۱۹۱۱ تک اینٹارٹیکا کو دریافت کر لیا گیا تھا اور اس کے بہت سے علاقے تک پہنچ بھی گئے تھے۔ قطبِ جنوبی کون پہلے پہنچتا ہے؟ یہ دوڑ ابھی جاری تھی۔ اس دوڑ کی کہانی کا ایک تاریک باب ٹین کی کیمسٹری کا دیا گیا دھوکہ تھا۔
یہ اینٹارٹیکا کے اپنے معیار کے لحاظ سے بھی ایک سرد سال تھا۔ لیکن برطانوی ٹیم رابرٹ سکاٹ کی سربراہی میں اس مصمم ارادے کے ساتھ جنوب کی طرف سفر کر رہا تھا کہ وہ نوے ڈگری تک پہنچنے والے پہلے انسان ہوں گے۔ نومبر میں انہوں نے سفر شروع کیا۔ کتوں کے ساتھ اور رسد لے کر۔ سپورٹ ٹیم راستے میں خوراک اور ایندھن چھوڑتی گئی تا کہ واپسی پر آنے والی چھوٹی ٹیم ان کو استعمال کر لے۔
کاررواں مختصر ہوتا گیا اور آخر میں سکاٹ کی سربراہی میں پانچ لوگ جنوری ۱۹۱۲ کو پیدل قطبِ جنوبی تک پہنچ گئے۔ وہاں پر انہوں نے ایک بھورے رنگ کا ٹینٹ، ناروے کا جھنڈا اور ایک دوستانہ خط لکھا پایا۔ سکاٹ یہ دوڑ رولڈ ایمنڈسن سے ہار گئے تھے۔ اپنی ڈائری میں انہوں نے لکھا، “سب سے برا واقعہ ہو چکا ہے۔ خواب ختم ہو گئے ہیں۔ یا خدا! یہ کتنی بُری جگہ ہے۔ اب واپسی کی طرف دوڑ اور ایک مشکل جدوجہد ہے۔ پتہ نہیں کہ ہم یہ کر بھی پائیں گے یا نہیں”۔
واپسی کا سفر مشکل تھا لیکن اینٹارٹیکا کا موسم بھی مہربان نہیں رہا۔ ہفتوں برفباری کا طوفان جس میں انہیں فاقوں، بیماری، پانی کی کمی، ہائپوتھرمیا اور گینگرین کا سامنا تھا۔ سب سے بڑا مسئلہ ایندھن کی کمی کی صورت میں پیش آیا۔ سکاٹ اس سے پہلے قطبِ شمالی جا چکے تھے۔ ان کو معلوم تھا کہ سردی میں چمڑے کی سیل والا کنستر لیک کرتا ہے اور آدھا ایندھن ضائع ہو جاتا ہے۔ اس سفر کے لئے انہوں نے ٹین کا استعمال کیا تھا اور خالص ٹین کو سولڈر کروایا تھا۔ جب راستے میں چھوڑے گئے کنستر انہوں نے اٹھائے تو ان میں سے کئی خالی تھے۔ دوہرا نقصان یہ کہ کیروسین کھانے کے اندر لیک کر گیا تھا۔
کیروسین کے بغیر کھانے بھی نہیں پک سکتا تھا اور پانی کے لئے برف بھی نہیں پگھلائی جا سکتی تھی۔ ان پانچ میں سے ایک بیمار ہو کر فوت ہو گیا۔ ایک دماغی توازن کھو بیٹھا اور اس سرد بیابان میں بھٹک گیا۔ سکاٹ سمیت آخری تین مارچ ۱۹۱۲ کے آخر میں سردی سے ایکسپوژر کی وجہ سے فوت ہوئے۔ اس وقت یہ برطانوی بیس سے گیارہ میل کے فاصلے پر تھے۔
سکاٹ اس وقت نیل آرمسٹرانگ کے طرح مشہور تھے۔ ان کی وفات کی خبر بہتوں کو افسردہ کر گئی۔ اس کہانی کا ولن ٹین تھا۔ اس دھات کو ہزاروں سال سے استعمال کیا جاتا رہا ہے کیونکہ اس کا ڈھالنا آسان ہے۔ قدرت کی ستم ظریفی یہ کہ اس کو جتنا زیادہ خالص کرنے کے قابل ہوتے گئے، یہ اتنی خطرناک ہو گئی۔ ٹین کے آلات یا سکے یا کھلونے اگر ٹھنڈے ہو جائیں تو ان کے اوپر باریک سفید تہہ سی آ جاتی ہے۔ ویسے جیسے سردیوں میں شیشے کے اوپر دھند کی تہہ جم جاتی ہے۔ یہ سفید سا ٹین ٹوٹ سکتا ہے۔ کمزور ہو جاتا ہے اور بھُر جاتا ہے۔
یہ لوہے کے زنگ کی طرح نہیں۔ لوہے کا زنگ کیمیکل ری ایکشن ہے۔ ٹین میں یہ مالیکیولز کی ارینج منٹ ہے۔ یہ مالیکیول دو طرح سے رہ سکتے ہیں۔ ایک کو الفا فارم کہتے ہیں اور دوسرے کو بیٹا فارم۔ ان کی تصویر ساتھ لگی ہے۔ ایٹمز کو پیک کرنے کے یہ دو الگ طریقے ہیں۔ سکاٹ کی ٹیم نے اپنی جان کی قیمت پر جو چیز دریافت کی، وہ یہ کہ یہ شفٹ خود ہی کر لیتا ہے۔ کمزور اور مضبوط کرسٹلز کے بیچ میں۔ یہ بدلاوٗ ایکسٹریم حالات میں آتا ہے۔ ویسے ہی جیسے کاربن ہیرے میں بدل سکتا ہے، ٹین کے اوپر یہ “دھند” سی جم سکتی ہے۔ زیادہ سردی میں اس عمل کی رفتار تیز ہو جاتی ہے۔ اس عمل کو اب ٹین کا کوڑھ کہا جاتا ہے کیونکہ یہ اندر سے اس کو کھا جاتا ہے۔ اس دوران توانائی کے اخراج میں اس سے آوازیں بھی نکلتی ہیں، ان کو ٹین کی چیخیں کہا جاتا ہے۔ (ان کی آواز چیخوں جیسے نہیں بلکہ برقی شور کی طرح کی ہوتی ہے)۔
الفا بیٹا شفٹ کو تاریخی اہمیت بھی رہی ہے۔ سرد علاقوں میں اس پر کہانیاں بھی بنی ہیں۔ مثلا، سینٹ پیٹربرگ میں پیانو بجانا شروع کرنے پر ٹین کا پائپ پھٹ جانے پر اس عمل کو شیطان کی مداخلت سے منسوب کیا گیا۔
جب نپولین نے ۱۸۱۲ کی سردیوں میں روس پر حملہ کیا تو وہ کچھ خاس عقلمندی تو نہ تھی لیکن اس کی ناکامی میں بھی ٹین کا کردار ہے۔ ٹین سے باندھی گئی جیکٹس کھل گئییں یا کریک ہو گئیں اور فرانس کی آرمی کے فوجی بغیر حفاظت کے رہ گئے۔ (کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس معاملے میں ٹین کے کوڑھ پر الزام لگانا دراصل ایک غلط فیصلے کا الزام غیرجانبدا کیمسٹری پر لگا کر خود چھپنے کی کوشش تھا)۔
سکاٹ کے مختصر قافلے کے افسوس ناک اختتام میں کیمسٹری کے ایک عنصر کو ٹھیک طریقے سے نہ سمجھنے کا بھی ہاتھ تھا۔
ٹین کی اس خاصیت پر