بڑے شہر کے ہنگاموں سے جب دل گھبرا جاتا ہے تو میں شمال کے اس شہر کا رخ کرتا ہوں جو شہر ہے لیکن اس میں شہروں کی افراتفری نہیں اور جو شاہراہ قراقرم کا دروازہ ہے …؎
غمِ غریبی و غربت جو بر نمی تابم
بہ شہرِ خود روم و شہر یارِ خود باشم
ایبٹ آباد مجھے ہمیشہ اٹلی کے مشہور شہر نیپلز کی یاد دلاتا ہے وہی حسن، وہی پہاڑ شہر کو اپنے حصار میں لئے ہوئے۔ 1980
ء کے نومبر کی ایک سرد اندھیری رات جب نیپلز میں
خوفناک زلزلہ آیا تھا اور میں وہیں تھا۔ زلزلے کا مرکز اُسی علاقے میں تھا۔ مکان گر گئے، لوگ بے گھر ہو گئے یہ پورا علاقہ زلزلوں کیلئے مشہور تھا۔ امریکہ نے بے گھر لوگوں کو پیشکش کی کہ یہ علاقہ ہی چھوڑ دو، امریکہ آ جاؤ، زمین بھی ملے گی اور وسائل بھی مہیا کئے جائینگے لیکن اطالویوں نے انکار کر دیا۔ زلزلے جتنے بھی آئیں گھر پھر بھی گھر ہے انکی قومی غیرت نے گوارا نہ کیا کہ وہ زلزلے سے خوفزدہ ہو کر امریکہ کے مرہون احسان ہو جائیں لیکن بابا حیدر زمان ہماری بدقسمتی سے اطالوی نہیں، ورنہ وہ امریکیوں کو بتا دیتے کہ وہ نئے صوبے کا مطالبہ تو کر رہے ہیں لیکن امریکہ کا اس سے کوئی تعلق ہے نہ واسطہ۔
بڑے شہر سے گھبرا کر میں نے ایبٹ آباد کا رخ کیا اور دوست دیرینہ واحد سراج کے عشرت کدے میں فروکش ہو گیا۔ یہ ماہر تعلیم جو کئی تعلیمی ادارے چلا رہا ہے جسمانی معذوروں کے ایک بہت بڑے مرکز کا مدیر بھی ہے جہاں مصنوعی اعضاء حد سے زیادہ کم قیمت پر مہیا کئے جاتے ہیں۔
وہ وحشت ناک تصویر میں نے واحد سراج کے دفتر ہی میں دیکھی۔ ایبٹ آباد سے شائع ہونیوالے تمام مقامی روزناموں نے یہ تصویر پہلے صفحے پر شائع کی۔ امریکی قونصلر صوفے پر جلوہ افروز ہے اسکے ساتھ ایک صاحب دست بستہ بیٹھے ہیں اور سامنے صوبہ ہزارہ تحریک کے بطل جلیل بابا حیدر زمان تشریف فرما ہیں۔ اب خبر ملاحظہ کیجئے اور اندازہ لگائیے کہ پاکستان کے حالات کس نہج پر پہنچ چکے ہیں۔
’’تحریک صوبہ ہزارہ کے رہنماؤں سے امریکی قونصلر جنرل کی تین گھنٹے اہم ملاقات ہوئی۔ یہ ملاقات تحریک کے رہنما شہزادہ گستاسب خان کی رہائش گاہ ایبٹ آباد میں ہوئی۔ امریکی قونصلر سے تحریک کے رہنماؤں نے تین گھنٹے کی اس اہم ملاقات کی تفصیل بتانے سے گریز کیا۔ اخبار کے رپورٹر کو اندرونی ذرائع نے بتایا کہ امریکی قونصلر نے بابا حیدر زمان سے الگ صوبے کے مقاصد کے حوالے سے سوال کیا تو بابا حیدر زمان نے بڑی تفصیل کیساتھ صوبہ ہزارہ کے مقاصد امریکی نمائندے کو آگاہ کیا جس پر امریکی نمائندے نے تحریک کے دوران شہید کر دیئے جانیوالے ہزارہ کے سپوتوں پر اظہار افسوس کیا۔‘‘
اب ہم اتنے غیرت مند ہو گئے ہیں کہ ’’مقصد‘‘ کے حصول کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ یہ بات کتنی دلچسپ ہے کہ عراق اور افغانستان میں لاکھوں انسانوں کو ہلاک کرنیوالے امریکہ کو تحریک ہزارہ کے دوران شہید ہونیوالوں پر افسوس ہے! آج صوبہ بنانے والے تین تین گھنٹے ’’اہم‘‘ ملاقاتیں کر رہے ہیں تو کیا عجب کہ کل یونین کونسل کو تحصیل بنانے والے اور تحصیل کو ضلع بنانے والے بھی امریکی سفارت کاروں کے ساتھ اہم ملاقاتیں کریں اور تفصیل بتانے سے گریز کریں!
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
رہی حکومت تو اس بیچاری کی کیا مجال کہ ان سفارت کاروں سے پوچھے کہ تم لوگ شہر شہر، قریہ قریہ، گاؤں گاؤں کیوں گھوم رہے ہو اور الگ صوبے بنانے میں تمہاری کیا دلچسپی ہے؟
ہم صوبہ ہزارہ یا کسی بھی نئے صوبے کے مخالف نہیں لیکن اس تحریک میں بہت سے چہرے ایسے ہیں جنہیں دیکھ کر اس تحریک سے ہمدردی کرنا مشکل کام ہے۔ نو سال تک جنرل مشرف کے دستر خوان پر بیٹھنے کے بعد جن سیاست دانوں کو عوام نے سزا دی اور انتخابات میں ہار گئے وہ اب صوبہ ہزارہ کی ویگن میں بیٹھ گئے ہیں۔ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ پختون خواہ کا نام ہزارہ کے بہت سے لوگوں کیلئے قابلِ قبول نہیں ہے ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ پختونخواہ کے بجائے نام ایسا ہونا چاہیے تھا جس سے ہزارہ ، ڈی آئی خان اور صوبے کی دیگر اکائیوں کے درمیان نفرت کے بجائے محبت بڑھتی اور ہم آہنگی میں اضافہ ہوتا۔ افسوس پختونخواہ کے نام نے ہم آہنگی کو ختم کر دیا لیکن اسکے ساتھ ہی اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ غیر ملکی طاقتوں کو ملوث کرنا اور ان کے ساتھ گھنٹوں بیٹھ کر منصوبہ بندیاں کرنا حب الوطنی کے تقاضوں کیخلاف ہے۔ ہزارہ کے بہت سے اعلیٰ تعلیم یافتہ سنجیدہ حضرات کا کہنا ہے کہ صوبہ سرحد (پختونخواہ خیبر) پہلے ہی ایک چھوٹا صوبہ ہے وہ یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ نیا صوبہ بنانے کیلئے جو
Parameters
درکار ہیں کیا وہ موجود ہیں؟ اس لحاظ سے
دیکھیں تو تحریک کا یہ دعویٰ کہ وہ ایک کروڑ افراد کی نمائندگی کر رہی ہے محل نظر ہے۔
محمد اسد کے بارے میں گزشتہ کالم کے بعد ہمیں دو حقیقتوں کا احساس ہوا۔ ایک یہ کہ نوائے وقت کا دائرہ اثر حیرت انگیز حد تک دنیا کے اطراف واکناف پر محیط ہے دوسرے یہ کہ محمد اسد جیسے محسنِ پاکستان کیلئے لوگوں کی محبت حیرت انگیز ہے۔ کالم کا فیڈ بیک اتنا زبردست تھا کہ کالم نگار کی ای میل کا ان بکس بھر گیا اور ٹیلی فونوں کا نہ ختم ہونیوالا سلسلہ شروع ہو گیا۔ پڑھنے والے محمد اسد کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننا چاہتے تھے اور انکی تصانیف اور انکے بارے میں لکھی ہوئی کتابیں حاصل کرنے کیلئے بے قرار تھے۔ جناب اکرام چغتائی کی اجازت سے ہم قارئین کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ محمد اسد کے بارے میں چغتائی صاحب کی تصانیف مندرجہ ذیل ایڈریس سے حاصل کی جا سکتی ہیں ۔
دی ٹروتھ سوسائٹی
81-A2
گلبرگ III
لاہور۔
بے شمار قارئین نے محمد اسد کی تصنیف ’’دی روڈ تو مکہ‘‘ کے اردو ترجمہ کے بارے میں استفسار کیا ہے اس کتاب کا ایک ترجمہ ’’طوفان سے ساحل تک‘‘ شائع ہوا تھا لیکن وہ نامکمل تھا اس کا دیباچہ ابوالحسن علی ندوی نے تحریر کیا تھا۔ ایک اور ترجمہ ’’شاہراہ مکہ‘‘ کے نام سے چھپا لیکن وہ ایک بے رنگ اور پھیکا ترجمہ تھا۔ میں نے جناب اکرام چغتائی کی خدمت میں عرض کیا ہے کہ انکی قیادت میں دو تین اصحاب اس کتاب کا ترجمہ کریں جن میں یہ فقیر بھی شامل ہو۔ چغتائی صاحب نے اس تجویز کو پسند کیا ہے لیکن …ع
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے