۱۔ ٹھیس نہ لگ جائے ان آبگینوں کو
قدیم دانائی کا فقرہ ہے، “جو مارتا نہیں، وہ مضبوط کر دیتا ہے”۔ کسی کو جھٹکا لگے اور وہ ٹوٹ جائے، اس کو نازک کہتے ہیں۔ کسی کو جھٹکا لگے اور اس کو کچھ نہ ہو، اس کو پائیدار۔ کسی کو جھٹکا لگے اور وہ مضبوط ہو جائے، اس کے لئے اردو زبان میں لفظ نہیں۔ اس کو ضدِ نازک کہا جا سکتا ہے۔ شیشے کا گلاس میز سے نیچے گر جائے، ٹوٹ جائے گا، یہ نازک ہے، پلاسٹک کا میز سے نیچے گر جائے، کچھ نہیں ہو گا، یہ پائیدار ہے جبکہ کچھ سسٹم ایسے ہیں جن کو میز سے نیچے گرانا پڑتا ہے۔ یہ ان کو مضبوط تر کرتا ہے۔ (یہ نسیم طالب کا دیا گیا اینٹی فریجائیل کا تصور ہے۔ معیشت اور بینکاری کا نظام اس کی مثالیں ہیں)۔ ہڈیاں ایسا سسٹم ہیں۔ ان کو استعمال نہ کیا جائے اور ٹیسٹ نہ کیا جائے تو کمزور پڑ جائیں گی۔ (یہ لمبی خلائی پرواز کا بڑا مسئلہ ہے)۔ دفاعی نظام ایسا سسٹم ہے۔ اگر بچوں کو ہر وقت جراثیم سے بچاتے رہیں گے تو اس کا نقصان بچوں کو ہے۔ ان میں مدافعتی قوت پیدا نہیں ہو گی۔ دفاعی نظام کو چینلج درکار ہیں تا کہ وہ سیکھ سکے۔ بچے خود ضدِ نازک ہیں۔ اگر ان کو مشکلات سے، لڑائی سے، تنگ کئے جانے سے، الگ کئے جانے سے، ناکامی سے بچاتے رہیں گے تو یہ ان کی سوشل نفسیات کے لئے مفید نہیں۔ ہم ان کی معاشرتی صلاحیت کو پنپنے سے روک رہے ہیں۔ ضرورت سے زیادہ حفاظت ان کو کمزور کر دیتی ہے اور پھر ان کو گزند پہنچنا اور ان کے لئے ہمت ہار جانا آسان ہو جاتا ہے۔ اپنے ہم عمروں کے ساتھ بچپن میں تنازعے کو ڈیل کرنا سیکھنا پوری زندگی کے لئے ٹریننگ ہے۔ زندگی آسان نہیں۔ جو بچپن میں یہ سبق نہیں سیکھتے، ان کا نفسیاتی عارضوں کا شکار ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
نوٹ: بُلی کئے جانا الگ اور سنجیدہ معاملہ ہے لیکن بچوں کی زیادہ تر لڑائیاں اور مسائل ایسے نہیں ہوتے۔
۲۔ اپنے جذبات اور خیالات کو اہمیت دو، یہ ٹھیک ہیں۔
یہ رومانٹک فقرہ دانائی کا جملہ لگتا ہے لیکن غلط ہے۔ دانا لوگ جانتے ہیں کہ ہم دنیا کو ویسے نہیں دیکھتے جیسی کہ وہ ہے بلکہ صرف اپنی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اپنے آپ کو اپنے ٹھیک ہونے کا یقین دلاتے رہتے ہیں۔ آرون بیک نے نوٹ کیا کہ ڈیپریشن اور بے چینی کے شکار لوگوں اپنے آپ کو اس طرح کے یقین دلا لیتے ہیں کہ “میں برا ہوں، مستقبل برا ہے، دنیا بری جگہ ہے”۔ اور اس چکر میں پھنس جاتے ہیں۔ ان کے جذبات ان کو دنیا ایسی ہی دکھاتے ہیں۔ اگر ان کی سوچ بہتر بنانے میں مدد کی جائے اور اس یقین کو توڑا جائے تو وہ ڈیپریشن سے نکل سکتے ہیں۔ اپنے جذبات کو اہمیت دینے والے کسی بھی چیز پر ناراض بھی ہو جاتے ہیں، برا منا لیتے ہیں۔ اپنے جذبات کو خود چیلنج نہ کرنے کی وجہ سے ان کے قیدی بن جاتے ہیں۔ دانائی یہ ہے کہ اپنے آپ سے پوچھا جائے، “اس چیز کو دیکھنے کے دوسرے طریقے کیا ہیں؟” یہ کریٹیکل تھینکنگ کے لئے اور ذہنی صحت کے لئے اہم ترین ہنر ہے۔ یہ بچوں کو چھوٹی عمر سے سکھانے کی ضرورت ہیں۔ اپنے جذبات پر سوال اٹھانا، شواہد کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لینا اور دنیا کو دیکھنے کا بہتر طریقہ اپنانا۔
۳۔ لوگ یا تو اچھے ہوتے ہیں یا پھر برے
یہ تاریک ترین اور مضر ترین غلط سچ ہے کہ دنیا اچھے اور برے لوگوں کی جنگ ہے۔ ہم فطرتا قبائلی ذہنیت رکھتے ہیں۔ جس گروہ سے شناخت بنا لیں، وہ اچھا۔ تاریخ میں تنازعے اور جنگیں ہماری اسی فطرت کے سبب ہوتی ہیں۔ سپورٹس سے لے کر سکول کے گروپس تک ہم گروپس اور ٹیمیں ایجاد کرتے ہیں۔ ہر طرح کے مقابلے پسند کرتے ہیں۔ ہم ہیں ہی ایسے۔ اب اس فطرت کو مثبت مقابلہ آرائی میں بھی استعمال کر سکتے ہیں اور اس کی تاریک سائیڈ کو بھی اپنا سکتے ہیں۔ نسل پرستی، قوم پرستی، فرقہ پرستی، ہر قسم کی عصبیت بھی اسی وجہ سے ہے۔ ایک متنوع الخیال معاشرے کے لئے ہمیں ان قبائلی جذبات کو سدھانا ہے۔ اپنے میں مشترک چیزیں دیکھنا ہیں۔ اس میں جب ہم کسی بھی طرح کے گروہ کو اچھا یا برا لیبل دے دیتے ہیں تو ہمارے رویوں کی بدترین سائیڈ نظر آنے لگتی ہے اور اس کے بعد ایک متنوع خیال رکھنے والا ماحول بنانا مشکل تر ہو جاتا ہے۔
اگر ہمیں اپنی اگلی نسل کی اچھی تعلیم و تربیت کرنا ہے تو یہ بنیادی نفسیاتی اصول ہیں۔ بچے ضدِ نازک ہیں، ہمارے نکتہ نظر کے علاوہ بھی دنیا کو دیکھنے کے طریقے ہیں، ہم قبائلی اور گروہی ذہنیت رکھتے ہیں اور سیاہ و سفید کی سوچ کا شکار ہو سکتے ہیں۔
ایسی اگلی نسل جو بہتر دنیا تشکیل دے سکے، اس کے لئے ہمیں بچوں کی تربیت میں غلط سچ ترک کر کے یہ اصول اپنانے ہیں۔
اس کا مواد یہاں سے