*ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ کا پاکستانی مسافر*
ساجد جاوید کے برطانوی ہوم سیکرٹری بننے پر خصوصی تجزیہ –
*عارف انیس ملک*
دو دن قبل پاکستانی نژاد ساجد جاوید کو برطانیہ کا ہوم سیکریٹری نامزد کردیا گیا جو کہ برطانوی نظام حکومت میں وزیراعظم کے بعد سب سے اہم ترین زمہ داری سمجھی ہے. اس سے قبل صادق خان مئیر آف لندن منتخب ہوچکے ہیں، تاہم ہوم سیکرٹری وزیراعظم بننے سے چند بالشت کا فاصلہ ہے اور موجودہ وزیر اعظم تھیریسا مے بھی اسی پوزیشن سے اٹھ کر 10 ڈاؤننگ سٹریٹ میں براجمان ہوئی ہیں. اس طرح کچھ عرصہ قبل کے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی وہ بات درست ثابت ہوتی ہے، جب میری موجودگی میں انہوں نے کہا تھا کہ ساجد جاوید پرائم منسٹر میٹیریل ہے. دنیا کی پانچویں طاقت کے سب سے طاقتور کمرے میں بیٹھے، ایک پاکستانی بس ڈرائیور کے بیٹے ساجد جاوید کے بارے میں جانکاری بہت ضروری ہے جو کہ ہوم آفس، امیگریشن، انگلینڈ اور ویلز کی پولیس کے علاوہ برطانوی سیکرٹ سروس ایم آئی فائیو کا بھی سربراہ ہوگا.
تقریباً ایک ماہ پہلے لندن میں لیڈرز آف ٹومارو کانگریس کے دوران اس وقت پورا ہال زعفران زار بن گیا جب ساجد جاوید کو بلاتے وقت میں نے کہا کہ پچھلے الیکشن میں بس ڈرائیور کا بیٹا ہونا فضیلت کا باعث بن گیا تھا کہ لندن کے مئیر صادق خان نے اسےعام آدمی سے تعلق جوڑنے کے لیے استعمال کیا تھا، پھر معلوم ہوا کہ ساجد جاوید کے والد بھی بس ڈرائیور تھے، لیڈی سعیدہ وارثی کے ابو بھی بس ڈرائیور نکلے اور کئی دیگر بھی بس پکڑنے کے لئے سڑک پر آگئے اور یہ ٹرینڈ سا بن گیا. میرا کہیں تعارف ہونا لگا تو میں نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ میں الحمد للہ پاکستانی ہوں مگر میرے والد صاحب بس ڈرائیور نہیں، بلکہ فوج میں صوبیدار تھے. اس پر خوب قہقہہ پڑا. ساجد جاوید نے اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ برطانوی پارلیمنٹ کے باہر ایک دیسی شخص مجھ سے والہانہ انداز میں ملا اور مجھے تھپکی دی کہ میں بہت شاندار کام کر رہا ہوں. میں نے شکریہ ادا کیا. جاتے جاتے اس نے سیلفی لینے کی خواہش کی. میں نے خوشی سے پوزدیا. تصویر کھینچے ہی میں نے اسے کسی کو فون کرتے اور فون پر چلاتے سنا 'زرا دیکھو تو، آج کیسا خوش بخت دن ہے. ابھی ابھی میری لندن کے مئیر صادق خان سے ملاقات ہوئی ہے'. اس بات پر ایک اور بھرپور قہقہہ پڑا. یہ تقریب ان ایک یا دو تقریبات میں شامل تھی جس میں ساجد جاوید کی میزبانی پاکستانیوں نے کی، کیونکہ ساجد جاوید اور صادق خان دونوں پاکستانیوں کے ساتھ محفوظ فاصلہ برقرار رکھنے کے لیے مشہور ہیں جو یقیناً ان کے پورٹ فولیو کا تقاضا بھی ہے. تاہم ایک ماہ قبل ہونے والی اس ملاقات میں ساجد جاوید نے قائداعظم کی قیادت کو کھل کر خراج تحسین پیش کیا، پاکستانیوں کو یوم پاکستان پر مبارک باد دی، اور اپنی پاکستانی جڑوں پر فخر کا اظہار کیا جو شاید اپنی نوعیت کا پہلا اظہار تھا.
'مجھے پوری زندگی لوگ یہی بتاتے رہے کہ مجھے کیا نہیں کرنا چاہیے. او لیول نہ کرو. یونیورسٹی میں کیا رکھا ہے؟ اکنامکس کا مضمون کیوں رکھ لیا؟ بینک میں کیسے کام کرو گے. کچھ دوستوں نے بہت دوستانہ طریقے سے مجھے منہدم کرنے کی کوشش کی، مگر میں نے ان کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا '. ساجد جاوید نے ماضی کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا اور پھر جیسے کہتے ہیں کہ باقی تاریخ ہے. ساجد پچیس سال کی عمر میں مشہور امریکی بینک مین ہٹن چیز کا وائس پریزیڈنٹ بن گیا. وہاں سےوہ ڈوئچے بینک پہنچا اور اس کا منیجنگ ڈائریکٹر لگ گیا. تیس سال کی عمر تک اس کا شمار ارب پتیوں میں ہو چکا تھا.
ساجد جاوید پرانا کنزرویٹو ہے اور ٹوری پارٹی کو دل وجان سے سپورٹ کرتا ہے. وہ 2010 میں برومزگروو سے پارٹی کا رکن پارلیمنٹ منتخب ہوا تو بہت کم لوگ جانتے تھے تھے کہ وہ کون ہے. تاہم اس کی اقتصادیات پر غیر معمولی گرفت نے اسے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اور اس کے بعد سب سے طاقتور ترین شخص اور چانسلر جارج اوسبورن کی آنکھوں کا تارہ بنا دیا. ساجد جاوید کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ مخالف لیبر پارٹی کے بڑے ستون اور برطانوی وزیر خارجہ جیک سٹرا نے اسے پچھلے تیس سال کا سب سےشاندار ممبر آف پارلیمنٹ قرار دے دیا. تین سال کے مختصر عرصے میں برطانوی ایوانوں میں ہر کرتا دھرتا یہی کہ رہا تھا. 'ساجد جاوید کے پیچھے لگ جاؤ، وہ آنے والے وقتوں کا لیڈر ہے'. انہی دنوں میں ڈیوڈ کیمرون نے اس کی وزارت عظمیٰ کی پیشین گوئی کرکے اسے راتوں رات سٹار بنا دیا اور برطانوی اخبارات پچھلے کئی برس سےاسے برطانیہ کا سب سے طاقتور ایشین قرار دے رہے ہیں.
آج ہوم سیکرٹری کی پوزیشن پر پہنچنے والا ساجد جاوید پہلا غیر سفید فام ہے جو اس جگہ پہنچا ہے. یہی نہیں، وہ 2014 میں سیکرٹری آف سٹیٹ بننے (فل وزیر) والا پہلا پاکستانی نژاد شخص تھا. کلچر، میڈیا اور سپورٹس کی وزارت کے بعد اسے اگلے درجے پر ترقی دیتے ہوئے بزنس سیکرٹری بنا دیا گیا. تاہم بریگزٹ (برطانیہ کا یورپی یونین سے اخراج) کے ووٹ میں ڈیوڈ کیمرون کے کھیت رہنے کے بعد حالات بدل گئے اور تھیریسا مے نے اس کی تنزلی کرکے اسے کمیونٹی اور ہاؤسنگ کا وزیر بنا دیا. اسے دوران اس پر شدید تنقید ہوئی جب گرینفل ٹاور میں کئی سو افراد جل کر جاں بحق ہوگئے. تاہم اس نے کھل کر سانحے کے بعد کے اقدامات کیے اور اسے معاف کردیا گیا. ساجد کئی حوالوں سے ایک آئیڈیل وزیر ہے. اقتصادیات پر گرفت کمال کی ہے، جوان العمر ہے، کسی قسم کا کوئی سکینڈل درپیش نہیں ہے اور موجود نسل کو پسند ہے. اس کی ابلاغ کی صلاحیت غیر معمولی ہے اور وہ ایک لیڈر کی طرح برطانوی سیاست کے سمندر میں تیرتا ہے.
ساجد جاوید کا باپ عبدالغنی جاوید بائیس سال کی عمر میں، پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے رزق کی تلاش میں لندن پہنچا تو اس کی جیب میں ایک پاؤنڈ تھا. چار سال کی مزدوری کے بعد وہ گاؤں گیا تو وہاں سے اپنی دلہن زبیدہ ساتھ لے کر آیا جو اسی کی طرح ان پڑھ تھی. 1969 میں پیدا ہونے والا ساجد جاوید چار سال کی عمر میں برطانوی شہر برسٹل میں منتقل ہوگیا. وہ برسٹل کی سب سے فسادی اور خونی سڑک سٹیپلٹون روڈ کا باسی تھا جوجرائم کے لیے بدنام تھی جہاں سات لوگ دو کمروں کے فلیٹ میں رہتے تھے جو ان کی دکان کے اوپر بنا ہوا تھا. عبدالغنی شروع میں کپاس کے کارخانے میں کام کرتا رہا اور بعد میں اس نے بس چلانی شروع کردی. اپنے خاندان کو پالنے کے چکر میں وہ دن رات بس چلاتا نظر آتا تو مقامی گوروں نےاسے مسٹر ڈے اینڈ نائٹ کا نام دے دیا. سکول میں ساجدایک کھلنڈرا بچہ تھا جو کھیل تماشے میں مصروف رہتا تھا. ایک دن اس کے باپ نے اسے سامنے بٹھایا اور نمناک آنکھوں سے اسے بتایا کہ مشقت کی اس تنگ گلی سے نکلنے کے لیے وہ اس کی آخری امید ہے اور وہ مایوس نہیں ہونا چاہتا سو ساجد کو ساری توانائیاں پڑھنے پرلگا دینی چاہئیں. اس گفتگو کے بعد ساجد نے دن رات ایک کردیا اور امتیازی حیثیت میں کامیاب ہونے لگا. ساجد کی ماں تمام بچوں کو اکٹھا کرکے روزانہ لائبریری لے جاتی جہاں وہ دو گھنٹے پڑھتے رہتے. جب وہ پرائمری سکول پاس کرچکا تو ہائی سکول کئیرئر ایڈوائزر نے اس کے کان میں سرگوشی کی تھی کہ وہ پڑھنے لکھنے میں زیادہ خجل خوار نہ ہو کہ اس کے ساتھ کے بچے او لیول بھی مشکل سے پاس کرتے ہیں. تاہم ساجد نے گزارا کرنے سے انکار کردیا. جب اس کے سکول نے ریاضی کے مضمون کی فیس دینے سے انکار کیا تو اس کے باپ نے پیسے خود ادا کیے.
ساجد جاوید کو باقی بھورے بچوں کی طرح مختلف امتحانات سے گزرنا پڑا. سکول میں ایک کلاس فیلو نے اسے چڑ کر 'پاکی' کہا جو برطانیہ میں گالی کے مترادف سمجھا جاتا ہے تو اس نے اسے رکھ کے مکہ دے مارا اور دونوں لڑتے لڑتے لہولہان ہوگئے. اپنی ماں کے بارے میں بات کرتے ہوئے اس نے قدرے جزباتی لہجے میں کہا 'میں اپنی ماں اور باپ کا احسان کبھی نہیں بھول سکتا. آج بھی جب میں جاتا ہوں اور اپنی ماں کے قریب بیٹھ کر موجودہ دنیا کی باتیں شروع کرتا ہوں تو وہ کہتی ہیں، اچھا بیٹا، اب بڑ بڑ بند کرو اور گند کر ٹوکری جا کر صاف کرکے آؤ''.
ساجد اپنی زاتی زندگی میں ایک پرائیویٹ شخص ہے. اس کی شادی لارا نامی عیسائی خاتون سے ہوئی جس سے اس کے تین بچے ہیں. جب کہ ساجد خود مزہب پر یقین نہیں رکھتا. 2014 میں اس نے اسرائیل کو رہنے کے لیے بہترین ملک قرار دیا تھا جس پر بہت لے دے ہوئی تھی
ہوم سیکرٹری کی کرسی برطانیہ کی سب سے گرم کرسی ہے. یہاں جم کر حکومت کرنے والے کے لیے وزارت عظمیٰ اگلا انتخاب ہے. تاہم یہ کرسی شیر کی سواری کے مترادف ہے. پچھلی ہوم سیکرٹری ایمبر روڈ بھی صرف چند جھوٹی سی غلطیوں پر اسی شیر کا نوالہ بن گئی. آج ساجد جاوید برطانیہ کے سب سےاہم عہدے پر تقرر برطانوی جمہوریت کی اعلیٰ قدروں کا ایک اور کمال ہے. سابقہ ہوم سیکرٹری نے نہ تو عہدے کا نا مناسب استعمال کیا، اور نہ ہی ان پر کوئی اور الزام تھا، مگر افریقی مہاجرین کے چالیس سالہ پرانے قصے میں چند حقائق کی چھان بین اور اعداد میں غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے عہدہ چھوڑ دیا گیا.
جہاں آج ہم پاکستانی نژاد ساجد جاوید کے اس اہم ترین عہدے پر پہنچنے پر خوش ہیں وہاں یہ سوال بھی حق بجانب ہے کہ ساجد جاوید کے والد کے وطن پاکستان میں کب کسی بس ڈرائیور کا اہل بیٹا،
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔