طیفا اپنے دوست کے ساتھ بیٹھا چائے پی رہا ہے۔ چائے کی ایک چسکی لینا اس قدر معمولی واقعہ لگتا ہے کہ اس طرف دھیان بھی نہیں جاتا (اگر چائے کپڑوں پر گر گئی تو معاملہ فرق ہے) لیکن یہ معمولی فعل نہیں۔ روبوٹکس میں ہم اس کام کو نہیں کر پائے (اور ممکن ہے کہ نہ کر پائیں)۔ کیوں؟ اس ایک فعل میں کئی ٹریلین برقی سگنلز نے آپس میں بڑی ہی تال میل کے ساتھ کام کیا ہے۔
سب سے پہلے بصری سسٹم نے فیلڈ کا جائزہ لیا تھا کہ پیالی کہاں پر ہے۔ اس میں برسوں کا سیکھا تجربہ کام آیا تھا۔ پیالی کو پہچاننا اور اس کو کیسے اٹھانا ہے۔ یہ سیکھے ہوئے ہنر ہیں۔ فرنٹل کارٹیکس نے موٹر کارٹیکس کی طرف پیغامات ارسال کئے۔ موٹر کورٹیکس نے پٹھوں کی حرکات کوآرڈینیٹ کروائیں۔ اپنے بدن، بازو، کلائی، اور ہاتھ کے پٹھوں نے آپس میں مل کر بڑی نفاست سے چائے کی پیالی کو تھام لیا۔
پیالی کو چھوتے ساتھ ہی انفارمیشن اکٹھی ہو کر اعصابی نظام کے ذریعے واپس گئی۔ وزن کتنا ہے، ہینڈل پھسلتا تو نہیں، درجہ حرارت کیسا ہے، کچھ غیرمعمولی تو نہیں، وغیرہ وغیرہ۔
ریڑھ کی ہڈی میں سے ہوتے ہوئے یہ دماغ تک پہنچی۔ یہ دو رویہ موٹروے پر بھاگتا تیز ٹریفک ہے۔ دماغ کے اپنے اندر بیسل گینگلیا، سیریبلم، سوماٹوسنسری کورٹیکس اور کئی دوسرے حصوں کے درمیان یہ ٹریفک چل رہا ہے۔ ایک سیکنڈ سے بھی کم حصے میں گہری کیلکولیشنز ہو رہی ہیں اور فیڈ بیک جاری ہے۔ ان کی مدد سے اٹھانے کی قوت اور پیالی پر گرفت ایڈجسٹ ہو رہی ہے۔ میز سے ہونٹ تک یہ مائیکروایڈجسمنٹ مسلسل جاری ہے۔
ہونٹ کے قریب پہنچتے وقت اس پیالی کو تھوڑا سا ترچھا کیا ہے۔ یہ زاویہ اتنا ہے کہ بغیر چھلکائے یہ کنارے تک پہنچ جائے اور چائے کو آسانی سے منہ میں لے جایا جا سکے۔ ہر چسکی کے بعد یہ زاویہ تھوڑا بدل جاتا ہے۔
اس تمام کام کو اس قدر مہارت سے کرنے کے لئے دنیا کے درجنوں بہترین کمپیوٹر درکار ہوں گے لیکن طیفے کو دماغ میں جاری اس طوفان کا ادراک نہیں۔ نیورل نیٹ ورک اس وقت اس سب کو کرنے کے لئے چیخ و پکار کر رہے ہیں۔ طیفے کو اس سب کا علم نہیں۔ وہ اپنے دوست کے ساتھ گپیں لگا رہا ہے۔
اب باتوں کے دوران ہی پیالی منہ تک پہنچ چکی ہے۔ منہ کی شکل بدل گئی۔ ہوا کو منہ میں کھینچنا شروع کیا۔ اس کے پریشر سے چائے منہ میں جانا شروع ہو گئی۔ باتیں جاری ہیں۔
طیفے کے دماغ نے اس سے پہلے کچھ پیشگوئیاں کر لی تھیں۔ یہ کتنی گرم ہو گی، کتنی میٹھی ہو گی وغیرہ۔ اگر یہ سب کچھ پیشگوئیوں کے مطابق نکلا تو ٹھیک ورنہ الارم بچ اٹھے گا۔ یہ پیغام "بڑے صاحب" یعنی طیفے کے شعور کر روانہ کر دیا جائے گا کہ چینی ڈالنا بھول گئے تھے۔
لیکن یہ سب کچھ ٹھیک ٹھیک ہو گیا۔ بغیر قطرہ گرے مکمل پرفیکشن کے ساتھ چائے کی چسکی مکمل ہو گئی۔ یہ واقعہ اس قدر معمولی ہے کہ یادداشت کا حصہ بھی نہیں بنا۔
اس سب کے درمیان یادداشت کا حصہ صرف وہ باتیں اور یادیں بنی جو دوست کے ساتھ گزارے وقت کی تھیں۔
طیفے کو دیکھ کر ایسا لگتا تو نہیں، لیکن اس کے کانوں کے بیچ کا یہ آلہ ہر وقت مصروف رہتا ہے۔ سو فیصد استعمال ہوتا رہتا ہے۔ اس کے لئے کرنے کے کام بہت سے ہیں۔ اس نے طیفے کو زندہ رکھنا ہے۔