اتفاق سے ہزاروں سالوں کی روایات کی آخری گواہ نسل سے تعلق ہے جس کو دادی نے کہانی سنائی ماں نے لوری دی اور باپ نے انگلی پکڑ کے میلا گھمایا یہ الگ بات ہے کہ اس خطے پر میلاپ نہیں ہجر طاری رہا ہے۔ انہی میلوں میں کبڈی کھیلتے جوانوں کا شام ڈھلے پسینہ خشک ہوتا تھا تو تھیٹروں کی شمعیں روشن ہو جایا کرتی تھیں اور کانوں میں استاد اللہ بخش روانی اور گانمن کے سٹیج پر کھیلے جانے والے آج رات کے کھیل ( ڈرامہ) کی صدائیں بلند ہوتیں پھر ایک جہان ان دونوں تھیٹروں کے دروازے پر ایسے امنڈ آتا جیسے میلہ واقع میلاپ ہو۔ ہاتھ میں جلیبیاں اور داتا سوڈا واٹر کا پانی اور دل میں کہیں پانی پر موم بتی سے چلنے والی کشتی کی خواہش لئے تھیٹر میں جاتے دوکان سے تھیٹر کے درمیان نا مکمل خواہش کے ہجر کا پہلا ذائقہ تھا جو چکا جسے نواز راکٹ کی سر مزید رنگ دیتی تھی اور یہ پہلا تجربہ تھا سر سے شناسائی کا جسے باپ نے انگلی پکڑ کر چکھایا تھا۔
والد صاحب آج بھی گر مزاج میں ہوں تو فیض کے گلوں میں خوب رنگ بھرتے ہیں اور انہی کے ساتھ سفر میں پہلی بار اللہ دتہ لونے والا کے اونچے سروں کو سنا جس میں کہہ رہے تھے " آ جھنگ جاوائیں ، ساہ دا وساہ نہیں متاں مر ونجائیں" یہ سر اپنا لگا اور ایسے لگا جیسے جھنگ ملتان کے ساتھ وصال کے لئے آوازیں دے رہا ہے۔
گر میں یہ کہوں ملتان اللہ دتہ لونے والا کا دوسرا گھر تھا تو غلط نا ہو گا میری مہندی کو ساری رات اس طرح سے سہایا تھا کہ صبح سورج نے نکل کر گواہی دی یہی آواز امر ہے۔ اور یہی وہ رات جس نے جواب دیا کہ
"رمزاں کہڑے ویلے لگیاں ، لگ گئیاں نی سانول نال" اور پھر ایسی لگی کہ ندر نا آئی کیونکہ عابد تمیمی کی لکھی سسی جس کو اللہ دتہ لونے والہ نے اس طرح گایا کہ سسی خود بھی روتی ہوئی پنوں کا راستہ جھنگ تک دیکھنی آئی ہو گی پر جیسے اونٹوں والے لے جائیں ان سے زندگی روٹھ جاتی ہے اور یہی وہ کلام تھا جہاں خواجہ غلام فرید کے بعد پہلی بار سسی کا موقف آیا کہ وہ سوئی نہیں تھی بلکہ اس لئے سونے کا ناٹک کیا کہیں پنوں پر بے وفائی کا الزام نا آئے اور احساسات کی عدالت میں مقدمہ درج کروانے والے کی کہہ سکتے ہیں
آ جا تینوں پیار دا سکھاواں ڈھنگ سجنڑاں
میرا شہر چنیوٹ ضلع جھنگ سجنڑاں۔
جھنگ کو ہیر کے ہجر کی دعا ہے یا رانجھے کی جوگ کا پہرہ سارے مطلوب طالب بن کر جوگ میں درد گاتے ہیں یا پھر محبت کی سولی کے منصور بن پوچھتے ہیں" کیہڑی غلطی ہوئی ہے ظالم؟" یا اللہ کے دئیے ہوئے لونے والے ہجر کی دوہائی دیتے ہیں" چٹے وال وی ا گئے پر تو نا اووں"
جھنگ سے منصور ملنگی، طالب حسین درد اور اب اللہ دتہ لونے والے نہیں گئے سر روٹھا ہے ہجر سر پکڑ کر بیٹھا ہے محبتوں کے سندیس گلیوں میں رل رہے ہیں اور عہد تمام ہوئے ہیں۔ سسی کے ہجر کو اپنی آواز میں پناہ دینے والے آج سسی کی راہ پر روانہ ہو جائیں گے ۔رات سے پہلے پہلے پھر شمعیں روشن ہوں گی طالب حسین درد استقبال کریں گے منصور چھبہ چوڑیوں کا تو نہیں پھول لے کر کھڑے ہوں گے اور ہجر کو گانے والا اللہ ڈتہ اللہ سے ملاپ کرے گا۔
اللہ کے حوالے اللہ ڈتہ۔۔ پر یہاں سر کو بیوہ کر گئے ہیں آپ
ڈاکنڑی رو رہی ہے، تلی تے کٹورہ لے کر کھڑی ہیں سکھیاں پر آپ تو جا چکے ہیں۔